HomeQuranHadithMizanVideosBooksBlogs
مصنف : ڈاکٹر وسیم مفتی

حضرت ضماد بن ثعلبہ رضی اللہ عنہ

حضرت ضمادبن ثعلبہ کا شمار السابقون الاولون (التوبہ۹:۱۰۰)میں ہوتا ہے۔ ازد شنوء ہ قبیلہ سے ہونے کی وجہ سے ازدی کہلاتے تھے۔کہلان بن سبا کی چوتھی نسل ،ازد بن غوث سے منسوب قحطانی قبیلہ بنو ازد یمن میں خوش حال زندگی گزار رہا تھا۔یمن کی وسطی شاہراہ کے دونوں جانب پھل دار درختوں کی قطاریں تھیں جو مارب کے ڈیم سے سیراب ہوتیں۔ ازدبن غوث کااصل نام ازدراء یا ذراء تھا۔کئی روایات میں اسد اور کچھ میں عسد بیان کیا جاتا ہے۔ تمام انصار مدینہ اسی کی اولاد تھے۔ یہ بات حضرت حسان بن ثابت کے اس شعر سے عیاں ہے جو’ ’جمہرۃ النسب‘‘ (۶۱۵) اور ’’لسان العرب‘‘ (مادہ: غسن) میں اس طرح نقل کیا گیا ہے:

اما سألتِ فانا معشر نجب
   الأزد نسبتنا والماء غسان
’’(اے آل معاذ کی بیٹی!)، تو نے ہمارا نسب پوچھا ہے توسن لے ،ہم شرفا کا گروہ ہیں،ہمارا نسب ازدبن غوث سے ملتا ہے اورملک غسان کا پانی پی رکھا ہے۔‘‘

لیکن ’’دیوان حسان‘‘ (۱/ ۷۶) میں اس طرح درج ہے:

إن کنتِ سائلۃ، والحق مغضبۃ   
فالأسد نسبتنا والماء غسان
’’(اے آل فراس کی بہن!)، خداے حق کی قسم، تونے اگر غضب ناک ہو کر پوچھا ہے توسن لے کہ ہمارا نسب اسدبن غوث سے ملتا ہے اور چشمۂ غسان کا پانی پی رکھا ہے۔‘‘

کہا جاتا ہے کہ لخم بن عدی ازدی نے ایک چوہے کومارب کا بند کھودتے دیکھا تو سیلاب کا خطرہ محسوس کرتے ہی وہاں سے چلتا بنا۔شکست وریخت کے بعدسد مارب ٹوٹ کر ریزہ ریزہ ہوا تو وہ زور کا سیلاب آیا جسے قرآن مجید نے ’سَےْلَ الْعَرِمِ‘ (سورۂ سبا ۳۴: ۱۶) کہہ کر پکارا ہے۔ بنوازد سبا چھوڑ کر حجاز، تہامہ ، عمان اور عرا ق میں بکھر گئے،اس طرح یہ حکم الٰہی پورا ہوا:

فَجَعَلْنٰہُمْ اَحَادِےْثَ وَ مَزَّقْنٰہُمْ کُلَّ مُمَزَّقٍ. (سورۂ سبا۳۴: ۱۹)
’’ تو ہم نے انھیں قصہ ہاے پارینہ بنا دیا اور ان کو تتر بتر کرچھوڑا۔‘‘

ازد کی ایک شاخ شنوء ہ (اصل نام: عبداﷲ بن کعب یا کعب بن حارث) سے منسوب ہونے کی وجہ سے ازد شنوء ہ کہلاتی تھی۔ ازدیوں میں اس کا نسب خالص سمجھا جاتا تھا،یہ شام کے علاقے سراۃ میں مقیم ہو گئی۔ ازد کے دوسرے قبائل میں سے بنو خزاعہ طویٰ کو ہجرت کر گئے۔ بنو غسان بصریٰ میں قیام پذیر ہوئے۔ ازد عمان نے طائف میں اور اوس و خزرج نے یثرب میں سکونت اختیار کر لی (ابن خلدون ۲/ ۳۳۲)۔ یاقوت حموی کہتے ہیں کہ ازد کی چار شاخیں تھیں: ازد شنوء ہ، ازد سراۃ،ازد غسان اور ازد عمان (معجم البلدان ۳/ ۳۶۹)۔ شنوء ہ صنعاء سے سوا تین سومیل دور ایک خطہ تھا جس سے ازد شنوء ہ منسوب ہوئے (معجم البلدان ۳/ ۳۶۸)۔ اہل لغت نے ازدشنوء ہ کے معنی متعین کرنے کے لیے لغت سے استشہاد بھی کیا ہے۔ ابن سکیت ’شنآن‘ (بغض و عداوت ) پر محمول کرتے ہوئے کہتے ہیں: بنوازد اپنے باہمی جھگڑوں اور وطن چھوڑ کر چلے جانے کی وجہ سے اس نام سے موسوم ہوئے۔ خفا جی نے ’شنوء ۃ‘ (عیوب سے بچ کر پاک دامن رہنے کی کوشش کرنا) پر قیاس کیا ،ان کا کہنا ہے کہ اعلیٰ نسب اور اپنے عمدہ کاموں کی بنا پر انھیں یہ نام ملا۔

ضماد ازدی طبابت کے ساتھ جھاڑ پھونک کرتے تھے۔ حضرت عبداﷲبن عباس روایت کرتے ہیں کہ حضرت ضماد ایک بار مکہ آئے تو کم عقل لوگوں سے سنا کہ محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) جادو کرنے لگ گئے ہیں ،علم نجوم میں پڑ کر غیب گوئی کرنے لگے ہیں یا انھیں جنون لاحق ہو گیا ہے۔ پوچھا: وہ کہاں ہیں؟ہو سکتا ہے اﷲ انھیں میرے ہاتھوں شفا دے دے۔ پھر چند بچوں کو آپ کا پیچھا کرتے دیکھا توکہا: یا محمد (صلی اللہ علیہ وسلم)، میں جنون کا علاج کرتا ہوں، اﷲ جسے چاہتا ہے ، شفا دے دیتا ہے ۔آپ بھی علاج کرا لیں۔ آپ نے فرمایا:

إن الحمد ﷲ، نستعینہ ونستغفرہ، ونعوذ باﷲ من شرور أنفسنا. من یہدہ اﷲ فلا مضل لہ، ومن یضلل فلا ہادی لہ. وأشہد أن لا إلٰہ إلا اﷲ وحدہ لا شریک لہ، و أشہد أن محمدًا عبدہ ورسولہ. (احمد، رقم ۲۷۴۹)
’’بلاشبہ، تمام تعریفیں اﷲہی کے لیے ہیں، ہم اسی سے مدد چاہتے ہیں اور اسی سے مغفرت کے طلب گار ہیں۔ہم اپنے نفسوں کے شر سے اﷲہی کی پناہ چاہتے ہیں۔ جسے اﷲ ہدایت دے، اسے گمراہ کرنے والا کوئی نہ ہو گا اور جسے وہ گمراہ کردے ،کوئی اسے ہدایت نہیں دے سکتا۔میں گواہی دیتا ہوں کہ اﷲ اکیلے کے سوا کوئی معبود نہیں، کوئی اس کا شریک کار نہیں۔ میں گواہی دیتا ہوں کہ محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) اﷲ کے بندے اور اس کے رسول ہیں۔‘‘

ضماد کہتے ہیں کہ میں نے کاہنوں کا بیان ، جادوگروں کی گفتار اورشاعروں کاکلام سن رکھا تھا، ایسے کلمات کبھی نہ سنے تھے،اس لیے آپ سے یہ کلمات دہرانے کی درخواست کی ۔آپ کے دہن مبارک سے تین باریہ الفاظ سننے کے بعد میں نے کہا: یہ کلمات تو بلاغت کی انتہا کوپہنچ گئے ہیں۔ ہاتھ بڑھائیے، میں اسلام قبول کرنے کے لیے آپ کی بیعت کرتا ہوں۔میں گواہی دیتا ہوں کہ اﷲ واحد کے سوا کوئی معبود نہیں،میں شہادت دیتا ہوں کہ محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) اس کے بندے اور رسول ہیں۔ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے حضرت ضماد سے بیعت لی، پھر دریافت فرمایا: اور آپ کی قوم کی بیعت؟ حضرت ضماد نے کہا: جی ہاں ، میری قوم کی طرف سے بھی بیعت لے لیجیے ۔اس طرح حضرت ضماد بھی زمرۂ السابقون الاولون میں شامل ہو گئے۔ حضرت عبداﷲ بن عباس کہتے ہیں کہ بعد ازاں نبی صلی اﷲ علیہ وسلم کے صحابہ کا ایک دستہ حضرت ضماد کی قوم کے پاس سے گزرا تو کسی صحابی نے ان کی کوئی شے، لوٹا یا کچھ اورحاصل کر لیا۔ حضرت ضماد کے علاقے سے گزرنے کے بعد امیر سریہ نے قسم دے کر کہا: جس کسی نے بھی اس سرزمین والوں کا کچھ لیا ہے توواپس کر دے۔سب نے کہا: اﷲ امیر کا بھلا کرے، ہم نے کچھ نہیں چھینا۔ کچھ دیر کے بعد ایک شخص ایک لوٹا لے آیا اور کہا : میں نے یہ لیا تھا۔ اسے واپس کرو، کمانڈر نے حکم دیا، یہ حضرت ضماد کی قوم ہے جس نے رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کی بیعت کر رکھی ہے (مسلم، رقم ۱۹۶۳، احمد، رقم ۲۷۴۹)۔ ابن کثیر کہتے ہیں کہ وہ لوٹا نہیں، بلکہ زمینوں کی آب رسانی کے لیے استعمال ہونے والا اونٹ تھا۔

اس سریے کی تعیین نہیں ہو سکی۔ابن اثیر کہتے ہیں کہ اسے خود آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے روانہ فرمایا تھا، جبکہ ابن عبدالبر کا خیال ہے کہ یہ سریہ آں حضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی وفات کے بعد خلیفۂ اول حضرت ابوبکرنے بھیجا تھا ۔

سیرت نگار کہتے ہیں کہ حضرت ضماد زمانۂ جاہلیت میں بھی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے دوست تھے۔ ابتداے اسلام میں حضرت ضماد کے مشرف بہ اسلام ہونے کاذکر کتب سیر میں ملتا ہے، لیکن ان کے بعد کے حالات کی کوئی خبر نہیں۔ ایسے لگتا ہے کہ انھوں نے باقی زندگی اپنی قوم میں گزار دی اور جزیرہ نماے عرب میں دین حق کے غلبہ پانے سے پہلے ہی وفات پا گئے۔ ۱۰ ھ میں صرد بن عبداﷲ ازدی دس (یاپندرہ) رکنی وفد لے کر نبی صلی اﷲ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ آپ نے انھیں بنوازد کے مسلمانوں کا امیر مقرر کر کے یمن کے پڑوسی مشرک قبائل سے جہاد کرنے کا حکم دیا۔ازد عمان سے سلمہ بن عیاض ازدی بھی وفد لے کر پہنچے۔ حضرت ضماداس وقت زندہ ہوتے تو ضرور ان کا تذکرہ ہوتا۔ آں حضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی وفات کے بعد بنو ازد میں ارتداد پھیل گیا تو عثمان بن ابوالعاص کو ان کی سرکوبی کے لیے شنوء ہ بھیجا گیا ۔تب ازدی دوبارہ اسلام کے جھنڈے تلے آ گئے ۔ ۳۶ھ میں سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے ساتھ جنگ جمل میں شریک ہوئے، لیکن حضرت علی و معاویہ رضی اللہ عنہما کی کش مکش میں وہ طرفین میں منقسم ہو گئے۔ انھوں نے حضرت عبداﷲ بن زبیر رضی اللہ عنہ کا ساتھ بھی دیا۔بعد کے ادوار میں بھی ازد قریباً ہر معرکے میں فوج کا حصہ رہے۔

مطالعۂ مزید: المنتظم فی تواریخ الملوک والامم(ابن جوزی)،الاستیعاب فی معرفۃ الاصحاب(ابن عبدالبر)، معجم البلدان(یاقوت الحموی)،اسد الغابۃ فی معرفۃ الصحابۃ (ابن اثیر)، البدایۃ والنہایۃ(ابن کثیر)،السیرۃ النبویۃ (ابن کثیر)، تاریخ الاسلام (ذہبی)، کتاب العبرودیوان المبتدا والخبر (ابن خلدون)،الاصابۃ فی تمییز الصحابۃ (ابن حجر)، معجم قبائل العرب(عمر رضا کحالہ)۔

____________

B