شمارے کا آغاز حسب روایت جناب جاوید احمد غامدی کے ترجمۂ قرآن ’’البیان‘‘ سے ہوا ہے۔ اس اشاعت میں سورۂ یونس (۱۰) کی آیات ۹۴۔۱۰۹ کا ترجمہ اور مختصر حواشی شامل ہیں۔ یہ سورہ کا اختتامی حصہ ہے، اس میں پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم سے فرمایا گیا ہے کہ آپ کا کام ایمان کی دعوت لوگوں تک پہنچا دینا ہے جو لوگ ایمان کی دولت قبول کریں گے، وہ دنیا اور آخرت میں کامیابی پائیں گے اور جو واضح نشانیوں کے بعد بھی اس کا انکار کریں گے تو رسوائی ان کا مقدر ہو گی۔
’’معارف نبوی‘‘ میں ’’موطا امام مالک‘‘ کی جس روایت کا انتخاب شامل ہے، اس میں نظر کے لگنے کے بارے میں بیان کیا گیا ہے کہ نظر بد ایک شیطانی کام ہے، اس سے دوسرا انسان متاثر ہو سکتا ہے۔ اس کے بجاے اپنے بھائی کے لیے برکت کی دعا کرنی چاہیے۔ ’’معارف نبوی‘‘ کے تحت ایک اور حدیث شامل ہے جس میں نظم اجتماعی سے علیحدگی کے حکم کے بارے میں وضاحت کی گئی ہے۔ اس میں بیان ہوا ہے کہ جو شخص حکمران کی اطاعت سے علیحدہ ہوا، وہ جاہلیت کی موت مرا، لیکن اگر حکمران کوئی ایسا حکم دے جس سے اللہ کی نافرمانی ہوتی ہو تو اس کی اطاعت لازم نہیں ہے۔
’’مقالات‘‘ میں مولانا حمید الدین فراہی کا مضمون ’’آسمانی کتابوں کی شرح ایک دوسرے کی مدد سے‘‘ شامل کیا گیا ہے۔ اس میں انھوں نے آسمانی کتابوں کی زبان اور طرز بیان کی وضاحت کی ہے اور اس کے ساتھ واضح کیا ہے کہ تمام کتابوں کا سرچشمہ وحی الٰہی ہے۔ یہ ایک دوسرے کی تصدیق کرتی ہیں۔ ان کتابوں میں جو معاملات قابل وضاحت رہ گئے ہیں، انھیں قرآن نے ہمارے سامنے کھول کر بیان کر دیا ہے۔
’’سیر وسوانح‘‘ کے تحت محمد وسیم اختر مفتی کے مضمون میں جلیل القدر صحابی حضرت ضماد بن ثعلبہ رضی اﷲ عنہ کے ایمان لانے کا واقعہ بیان ہوا ہے۔ اس میں انھوں نے بتایا ہے کہ حضرت ضماد نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا علاج کرنے آئے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان مبارک سے پاک کلمات سن کر ایمان کی دولت سے سرفراز ہوئے۔
’’نقطۂ نظر‘‘ میں ’’نظم قرآن: ایک مطالعہ ‘‘کے عنوان سے نذیر احمد علائی کا مضمون شامل اشاعت کیا گیا ہے۔ اس میں انھوں نے قرآن کے نظم پر سیر حاصل بحث اور قرآن کی سورتوں کا ایک دوسرے سے تعلق اور آیات کا ایک دوسرے سے مربوط ہونا واضح کیا ہے۔
’’یسئلون‘‘ میں مولانا اصلاحی سے پوچھا گیا یہ سوال نقل کیا گیا ہے کہ یہودیوں کو قرآن میں ملعون و مغضوب اور ذلیل قرار دیا گیا ہے۔ لیکن فلسطین کی ریاست کی وجہ سے عرب پر یہ بھاری ہیں کہ آج عرب شاید ہی ان کا مقابلہ کر سکے۔ مولانا اصلاحی نے اس کا جواب یہ دیا ہے کہ قرآن میں یہود کے حوالے سے کوئی بات ایسی بیان نہیں ہوئی ہے جسے حالات و واقعات نے غلط ثابت کیا ہو۔ لوگ عام طور پر اپنے ذہن میں کوئی بات فرض کر لیتے ہیں اور حالات کو اس کے مطابق دیکھتے ہیں اور جب مطابقت نہیں پاتے تو شک و شبہ میں مبتلا ہو جاتے ہیں۔ حقیقت میں اگر اختلاف ہو گا تو ان کی فرض کی ہوئی بات اور واقعات میں ہو گا۔
’’ادبیات‘‘ میں مولانا شبلی نعمانی کی ایک نظم شائع کی گئی ہے۔ اس میں انھوں نے جنگ احد کے حوالے سے ایک انصاری خاتون سمیراء بنت قیس کے اعلیٰ ترین ایثار کو نظم کیا ہے۔
____________