HomeQuranHadithMizanVideosBooksBlogs
مصنف : جاوید احمد غامدی

البیان: یونس ۱۰: ۷۱- ۹۳ (۶)

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم 

(گذشتہ سے پیوستہ)  


وَاتْلُ عَلَیْھِمْ نَبَاَ نُوْحٍ اِذْ قَالَ لِقَوْمِہٖ یٰقَوْمِ اِنْ کَانَ کَبُرَ عَلَیْکُمْ مَّقَامِیْ وَتَذْکِیْرِیْ بِاٰیٰتِ اللّٰہِ فَعَلَی اللّٰہِ تَوَکَّلْتُ فَاَجْمِعُوْٓا اَمْرَکُمْ وَشُرَکَآئَ کُمْ ثُمَّ لَا یَکُنْ اَمْرُکُمْ عَلَیْکُمْ غُمَّۃً ثُمَّ اقْضُوْٓا اِلَیَّ وَلَا تُنْظِرُوْنِ{۷۱} فَاِنْ تَوَلَّیْتُمْ فَمَا سَاَلْتُکُمْ مِّنْ اَجْرٍ اِنْ اَجْرِیَ اِلَّا عَلَی اللّٰہِ وَاُمِرْتُ اَنْ اَکُوْنَ مِنَ الْمُسْلِمِیْنَ{۷۲} فَکَذَّبُوْہُ فَنَجَّیْنٰہُ وَمَنْ مَّعَہٗ فِی الْفُلْکِ وَجَعَلْنٰھُمْ خَلٰٓئِفَ وَاَغْرَقْنَا الَّذِیْنَ کَذَّبُوْا بِاٰیٰتِنَا فَانْظُرْ کَیْفَ کَانَ عَاقِبَۃُ الْمُنْذَرِیْنَ{۷۳}
ثُمَّ بَعَثْنَا مِنْ م بَعْدِہٖ رُسُلًا اِلٰی قَوْمِھِمْ فَجَآئُ وْھُمْ بِالْبَیِّنٰتِ فَمَا کَانُوْا لِیُؤْمِنُوْا بِمَا کَذَّبُوْا بِہٖ مِنْ قَبْلُ کَذٰلِکَ نَطْبَعُ عَلٰی قُلُوْبِ الْمُعْتَدِیْنَ{۷۴}
ثُمَّ بَعَثْنَا مِنْ م بَعْدِھِمْ مُّوْسٰی وَھٰرُوْنَ اِلٰی فِرْعَوْنَ وَمَلَاْئِہٖ بِاٰیٰتِنَا فَاسْتَکْبَرُوْا وَکَانُوْا قَوْمًا مُّجْرِمِیْنَ{۷۵} فَلَمَّا جَآئَ ھُمُ الْحَقُّ مِنْ عِنْدِنَا قَالُوْٓا اِنَّ ھٰذَا لَسِحْرٌ مُّبِیْنٌ{۷۶} قَالَ مُوْسٰٓی اَتَقُوْلُوْنَ لِلْحَقِّ لَمَّا جَآئَ کُمْ اَسِحْرٌ ھٰذَا وَلَا یُفْلِحُ السّٰحِرُوْنَ{۷۷} قَالُوْٓا اَجِئْتَنَا لِتَلْفِتَنَا عَمَّا وَجَدْنَا عَلَیْہِ اٰبَآئَ نَا وَتَکُوْنَ لَکُمَا الْکِبْرِیَآئُ فِی الْاَرْضِ وَمَا نَحْنُ لَکُمَا بِمُؤْمِنِیْنَ{۷۸} وَقَالَ فِرْعَوْنُ ائْتُوْنِیْ بِکُلِّ سٰحِرٍ عَلِیْمٍ{۷۹} فَلَمَّا جَآئَ السَّحَرَۃُ قَالَ لَھُمْ مُّوْسٰٓی اَلْقُوْا مَآ اَنْتُمْ مُّلْقُوْنَ{۸۰} فَلَمَّآ اَلْقَوْا قَالَ مُوْسٰی مَاجِئْتُمْ بِہِ السِّحْرُ اِنَّ اللّٰہَ سَیُبْطِلُہٗ اِنَّ اللّٰہَ لَا یُصْلِحُ عَمَلَ الْمُفْسِدِیْنَ{۸۱} وَیُحِقُّ اللّٰہُ الْحَقَّ بِکَلِمٰتِہٖ وَلَوْ کَرِہَ الْمُجْرِمُوْنَ{۸۲} فَمَآ اٰمَنَ لِمُوْسٰٓی اِلَّا ذُرِّیَّۃٌ مِّنْ قَوْمِہٖ عَلٰی خَوْفٍ مِّنْ فِرْعَوْنَ وَمَلَاْئِہِمْ اَنْ یَّفْتِنَہُمْ وَاِنَّ فِرْعَوْنَ لَعَالٍ فِی الْاَرْضِ وَاِنَّہٗ لَمِنَ الْمُسْرِفِیْنَ{۸۳} وَقاَلَ مَُوْسٰی یٰقَوْمِ اِنْ کُنْتُمْ اٰمَنْتُمْ بِاللّٰہِ فَعَلَیْہِ تَوَکَّلُوْٓا اِنْ کُنْتُمْ مُّسْلِمِیْنَ{۸۴} فَقَالُوْا عَلَی اللّٰہِ تَوَکَّلْنَا رَبَّنَا لَا تَجْعَلْنَا فِتْنَۃً لِّلْقَوْمِ الظّٰلِمِیْنَ{۸۵} وَنَجِّنَا بِرَحْمَتِکَ مِنَ الْقَوْمِ الْکٰفِرِیْنَ{۸۶}
وَاَوْحَیْنَآ اِلٰی مُوْسٰی وَاَخِیْہِ اَنْ تَبَوَّاٰ لِقَوْمِکُمَا بِمِصْرَ بُیُوْتًا وَّاجْعَلُوْا بُیُوْتَکُمْ قِبْلَۃً وَّاَقِیْمُوا الصَّلٰوۃَ وَبَشِّرِ الْمُؤْمِنِیْنَ{۸۷} وَقَالَ مُوْسٰی رَبَّنَآ اِنَّکَ اٰتَیْتَ فِرْعََوْنَ وَمَلَاَہٗ زِیْنَۃً وَّاَمْوَالًا فِی الْحَیٰوۃِ الدُّنْیَا رَبَّنَا لِیُضِلُّوْا عَنْ سَبِیْلِکَ رَبَّنَا اطْمِسْ عَلٰٓی اَمْوَالِھِمْ وَاشْدُدْ عَلٰی قُلُوْبِھِمْ فَلَا یُؤْمِنُوْا حَتّٰی یَرَوُا الْعَذَابَ الْاَلِیْمَ{۸۸} قَالَ قَدْ اُجِیْبَتْ دَّعْوَتُکُمَا فَاسْتَقِیْمَا وَلَا تَتَّبِعٰٓنِّ سَبِیْلَ الَّذِیْنَ لَا یَعْلَمُوْنَ{۸۹}
وَجٰوَزْنَا بِبَنِیْٓ اِسْرَآئِ یْلَ الْبَحْرَ فَاَتْبَعَھُمْ فِرْعَوْنُ وَجُنُوْدُہٗ بَغْیًا وَّعَدْوًا حَتّٰٓی اِذَآ اَدْرَکَہُ الْغَرَقُ قَالَ اٰمَنْتُ اَنَّہٗ لَآ اِلٰہَ اِلَّا الَّذِیْٓ اٰمَنَتْ بِہٖ بَنُوْٓا اِسْرَآئِ یْلَ وَاَنَا مِنَ الْمُسْلِمِیْنَ{۹۰} آٰ لْئٰنَ وَقَدْ عَصَیْتَ قَبْلُ وَکُنْتَ مِنَ الْمُفْسِدِیْنَ{۹۱} فَالْیَوْمَ نُنَجِّیْکَ بِبَدَنِکَ لِتَکُوْنَ لِمَنْ خَلْفَکَ اٰیَۃً وَاِنَّ کَثِیْرًا مِّنَ النَّاسِ عَنْ اٰیٰتِنَا لَغٰفِلُوْنَ{۹۲} وَلَقَدْ بَوَّاْنَا بَنِیْٓ اِسْرَآئِ یْلَ مُبَوَّاَ صِدْقٍ وَّرَزَقْنٰہُمْ مِّنَ الطَّیِّبٰتِ فَمَا اخْتَلَفُوْا حَتّٰی جَآئَ ھُمُ الْعِلْمُ اِنَّ رَبَّکَ یَقْضِیْ بَیْنَھُمْ یَوْمَ الْقِیٰمَۃِ فِیْمَا کَانُوْا فِیْہِ یَخْتَلِفُوْنَ{۹۳}
اِنھیں نوح کی سرگذشت سنائو، (اے پیغمبر)، جب اُس نے اپنی قوم سے کہا: میری قوم کے لوگو، اگر میرا (تمھارے اندر) رہنا ۸۵؎اور اللہ کی آیتیں سنا کر یاددہانی کرنا تم پر گراں ہو گیا ہے تو میں نے اللہ ہی پر بھروسا کیا۔ تم سب مل کر ، البتہ اپنی بات ٹھیرا لو اور اپنے شریکوں کو بھی ساتھ ملا لو، پھر تمھارے اِس فیصلے میں تمھیں کوئی تردد نہ رہے، پھر میرے ساتھ جو کرنا چاہتے ہو، کر گزرو۸۶؎ اورمجھے مہلت نہ دو۔ اِس کے بعد بھی اعراض کرو گے تو میں نے تم سے کوئی صلہ نہیں مانگا ہے۔ میرا صلہ تو اللہ کے ذمے ہے اور مجھے حکم دیا گیا ہے کہ (خدا کا) فرماں بردار بن کر رہوں۔ اِس پر بھی اُنھوں نے اُسے جھٹلا دیا تو ہم نے اُس کو نجات دی اور اُن کو بھی جو اُس کے ساتھ کشتی میں تھے اور اُنھیں جانشین بنایا اور اُن سب لوگوں کو غرق کر دیا جنھوں نے ہماری آیتوں کو جھٹلایا تھا۔ سو دیکھ لو کہ اُن کا انجام کیا ہوا جنھیں (اِس عذاب سے پہلے) متنبہ کر دیا گیا تھا۔ ۷۱-۷۳
پھر نوح کے بعد ہم نے کتنے رسولوں کو اُن کی قوموں کی طرف بھیجا۔ سو وہ کھلی کھلی نشانیاں لے کر اُن کے پا س آئے، مگر جس چیز کو پہلے جھٹلا چکے تھے، اُسے پھر اُنھوں نے مان کر نہیں دیا۔ ہم حد سے گزر جانے والوں کے دلوں پر اِسی طرح مہر لگا دیا کرتے ہیں۸۷؎۔ ۷۴
اُن کے بعد پھر ہم نے موسیٰ اور ہارون کو اپنی نشانیوں کے ساتھ فرعون اور اُس کے سرداروں کی طرف بھیجا تو وہ بھی اکڑ بیٹھے اور (حقیقت یہ ہے کہ) وہ مجرم لوگ تھے۸۸؎۔ چنانچہ جب ہماری طرف سے حق اُن کے سامنے آیا۸۹؎ تو اُنھوں نے کہہ دیا کہ یہ تو کھلا جادو ہے۔موسیٰ نے کہا: کیا تم حق کے بارے میں یہ کہتے ہو،۹۰؎ جبکہ وہ تمھارے پاس آگیا ہے۹۱؎۔ کیا یہ جادو ہے؟(نہیں، ہرگز نہیں۔ یہ قطعی حق ہے) اور (حق کے مقابلے میں) جادوگر کبھی کامیاب نہیں ہوتے۹۲؎۔اُنھوں نے جواب دیا:کیا تم ہمارے پاس اِس لیے آئے ہو کہ ہمیں اُس طریقے سے پھیر دو جس پر ہم نے اپنے باپ دادا کو پایا ہے اور اِس ملک میں تم دونوں کی بڑائی قائم ہوجائے۹۳؎۔ ہم تمھاری بات ماننے والے نہیں ہیں۔ فرعون نے حکم دیا کہ تمام ماہرجادوگروں کو میرے پاس حاضر کرو۔ چنانچہ جب جادوگر آگئے تو موسیٰ نے اُن سے کہا: تمھیں جو ڈالنا ہے ، ڈالو۔۹۴؎ پھر جب اُنھوں نے ڈالا تو موسیٰ نے کہا: یہ جو کچھ تم لائے ہو، یہ جادو ہے۹۵؎۔ یقین رکھو، اللہ ابھی اِسے باطل کیے دیتا ہے۔ اللہ (اِس طرح کے موقعوں پر) فساد کرنے والوں کے عمل کو نتیجہ خیز نہیں ہونے دیتا اور اللہ اپنے کلمات سے حق کو حق کر دکھاتا ہے، اگرچہ مجرموں کو کتنا ہی ناگوار ہو۔۹۶؎ پر موسیٰ کو فرعون کے ڈر سے اور خود اپنی قوم کے بڑو ں کے ڈر سے اُس کی قوم کے چند نوجوانوں کے سوا کسی نے نہیں مانا ۹۷؎کہ کہیں فرعون اُنھیں کسی فتنے میں نہ ڈال دے۔ حقیقت یہ ہے کہ فرعون اُس ملک میں بڑا جبار تھا اور اُن لوگوں میں سے تھا جو حد سے گزر جاتے ہیں۔ موسیٰ نے کہا: میری قوم کے لوگو، تم خدا پر ایمان لائے ہو تو اُسی پر بھروسا کرو، اگر تم اپنے آپ کو اُس کے حوالے کر چکے ہو۹۸؎۔ اِس پر اُنھوں نے جواب دیا: ہم نے خدا ہی پر بھروسا کیا ہے۔ اے ہمارے رب، ہمیں اِن ظالم لوگوں کے لیے فتنہ نہ بنا۹۹؎ اور اپنی رحمت سے ہمیں اِس منکر قوم سے نجات عطا فرما دے۔ ۷۵-۸۶
(خدا سے یہی تعلق جوڑنے کے لیے) ہم نے موسیٰ اور اُس کے بھائی (ہارون) کی طرف وحی کی کہ اپنی قوم کے لیے مصر میں کچھ گھر ٹھیرا لو۱۰۰؎ اور جو گھر تم سب اپنے لیے ٹھیرائو، اُنھیں قبلہ بنا لو۱۰۱؎ اور (اُن میں) نماز کا اہتمام کرو اور(اے موسیٰ)، ایمان والوں کو خوش خبری دو (کہ کامیابی بالآخر اُنھی کو حاصل ہو گی)۔۱۰۲؎موسیٰ نے دعا کی، اے ہمارے رب، تو نے فرعون کو اور اُس کے سرداروں کو دنیا کی زندگی میں شان و شوکت اور مال و اسباب سے نوازا ہے۔ اے ہمارے رب، تاکہ اِس کا نتیجہ یہ ہو کہ وہ لوگوں کو تیری راہ سے بھٹکا دیں۱۰۳؎۔ اے ہمارے رب، اُن کے مال (اب) تو غارت کر دے اور اُن کے دلوں کو اِس طرح بند کر دے کہ ایمان نہ لائیں، یہاں تک کہ دردناک عذاب دیکھ لیں۱۰۴؎۔فرمایا: تمھاری اور تمھارے بھائی کی دعا قبول ہوئی۔ اب تم دونوں ثابت قدم رہو اور اُن لوگوں کے راستے پر نہ چلو جو علم نہیں رکھتے۔ ۱۰۵؎۸۷-۸۹
بنی اسرائیل کو، (اِس کے بعد) ہم نے سمندر پار کرایا تو فرعون اور اُس کے لشکروں نے سرکشی اور شرارت کی راہ سے۱۰۶؎ اُن کا پیچھا کیا۔یہاں تک کہ جب فرعون ڈوبنے لگا تو بول اٹھا: میں نے مان لیا کہ اُس کے سواکوئی الٰہ نہیں جس پر بنی اسرائیل ایمان لائے ہیں اور میں بھی سر اطاعت جھکا دینے والوں میں سے ہوں۔ کیا اب! اِس سے پہلے تو تم نافرمانی کرتے رہے اور فساد برپا کرنے والوں میں سے تھے۔۱۰۷؎ سو آج ہم تیرے بدن کو بچا لیں گے تاکہ اپنے بعد آنے والوں کے لیے تو (خدا کے عذاب کی) نشانی بن کر رہے۱۰۸؎۔ حقیقت یہ ہے کہ بہت سے لوگ ہماری نشانیوں سے غافل ہی رہتے ہیں۔ ہم نے بنی اسرائیل کو عزت کا ٹھکانا دیا اور اُنھیں نہایت عمدہ رزق عطا فرمایا۔ پھر اُنھوں نے جو کچھ بھی اختلافات کیے، اُس وقت کیے جب اُن کے پاس (خدا کا بھیجا ہوا) علم آ چکا تھا۱۰۹؎۔ یقین رکھو کہ تمھارا پروردگار قیامت کے دن اُن کے درمیان اُن چیزوں کا فیصلہ کر دے گا جن میں وہ اختلاف کرتے رہے ہیں۱۱۰؎۔۹۰-۹۳

۸۵؎ قرآن نے بتایا ہے کہ وہ ایک لمبی مدت تک اپنی قوم میں رہے۔ یہ اُسی رہنے کا ذکر ہے۔

۸۶؎ اصل الفاظ ہیں:’ثُمَّ اقْضُوْٓا اِلَیَّ‘۔ اِن میں ’اِلٰی‘ کا صلہ اقدام پر دلیل ہے۔ یعنی جو فیصلہ کرنا ہے، کر لو اور میرے خلاف جو اقدام کرنا چاہتے ہو، کرو۔

۸۷؎ یہ اُسی سنت الہٰی کی طرف اشارہ ہے جس کی رو سے کوئی شخص حق کے مقابلے میں سرکشی اختیار کرتا اور جانتے بوجھتے اُسے ماننے سے انکار کر دیتا ہے تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے اُسے مہلت دی جاتی ہے۔ پھر اِس مہلت سے وہ اگر فائدہ اٹھانے کے لیے تیار نہیں ہوتا تو اِس جرم کی پاداش میں اُس کے دل و دماغ پر مہر کر دی جاتی ہے تاکہ وہ قبول حق کی سعادت سے ہمیشہ کے لیے محروم ہو جائے۔

۸۸؎ یعنی عقل و فطرت کے تقاضوں سے انحراف کے باعث پہلے ہی مجرم ہو چکے تھے۔

۸۹؎ اشارہ ہے اُن معجزات کی طرف جن کے ساتھ موسیٰ و ہارون علیہما السلام نے اپنا یہ دعویٰ اُن کے سامنے پیش کیا کہ وہ دونوں خدا کے پیغمبر کی حیثیت سے اُن کے پاس آئے ہیں۔

۹۰؎ اصل الفاظ ہیں:’اَتَقُوْلُوْنَ لِلْحَقِّ؟‘اِن میں ’لِلْحَقِّ‘ کا’ل‘’فی‘کے معنی میں ہے اور ’تَقُوْلُوْنَ‘ کا مفعول بلاغت کے تقاضے سے حذف ہو گیا ہے۔

۹۱؎ اِس جملے کی بلاغت بھی قابل توجہ ہے۔ استاذ امام لکھتے ہیں:

’’۔۔۔حق جب تک نگاہوں سے اوجھل ہو، اُس وقت تک تو اُس کی نسبت کوئی شخص اگر کوئی نظریاتی بحث اٹھائے تو اُس کو کسی حد تک معذور قرار دیا جا سکتا ہے ۔ لیکن جب حق سامنے موجود ہو تو اُس کے باب میں کٹ حجتی کرنا ویسا ہی ہے، جس طرح کوئی نصف النہار کے سورج کے بارے میں تردد کا اظہار کرے۔‘‘(تدبرقرآن۴/ ۷۷)

۹۲؎ مطلب یہ ہے کہ معجزے کو جادو کہنے کی جسارت کر رہے ہو تو اِسے جادوگروں کے سامنے پیش کرکے دیکھ لو، تمھیں معلوم ہو جائے گا کہ یہ کیا ہے اور جادو کیا ہوتا ہے؟ تم دیکھو گے کہ جادوگر اِس کے مقابلے میں بالکل خائب و خاسر ہو کر رہ جائیں گے۔

۹۳؎ مصر کے ارباب اقتدار اسرائیلیوں کی بڑھتی ہوئی تعداد سے پہلے ہی خوف زدہ تھے۔ حضرت موسیٰ اور حضرت ہارون پر اپنی حکومت قائم کرنے اور لوگوں کو اُن کے آبائی دین سے برگشتہ کرنے کا یہ الزام اِسی پس منظر میں لگایا گیا ہے تاکہ قبطی عصبیت پوری قوت کے ساتھ اِس خطرے کا مقابلہ کرنے کے لیے تیار ہو جائے۔ دعوت حق کے جواب میں اِس طرح کے اشغلے ہر دور کے ارباب اقتدار چھوڑتے رہے ہیں۔

۹۴؎ موسیٰ علیہ السلام کا یہ ارشاد بتا رہا ہے کہ اُنھیں اپنے رب کے وعدوں پر کس درجہ اعتماد تھا۔ استاذ امام لکھتے ہیں:

’’۔۔۔ اُن کو اللہ تعالیٰ کے وعدۂ نصرت پر پورا بھروسا تھا کہ خواہ جادوگر جتنا بڑا جادو بھی دکھائیں ،اُن کے پاس اِس کا توڑ موجود ہے۔ اِس وجہ سے اُنھوںنے کسی پیش بندی سے بے نیاز ہو کر اُنھی کو پہل کرنے کا موقع دیا اور یہ گویا میدان مقابلہ میں اُن کی پہلی جیت تھی۔ اِس لیے کہ اِس کے بعد حریف کو جو شکست ہوئی ،وہ خود اُس کے اپنے منتخب کیے ہوئے میدان میں ہوئی۔‘‘(تدبرقرآن۴/ ۷۸)

۹۵؎ یہ فرعونیوں کی بات کا جواب ہے کہ جو کچھ میں نے پیش کیا تھا، وہ جادو نہیں ہے، بلکہ جادو درحقیقت یہ ہے جو تمھارے جادوگر پیش کر رہے ہیں۔

۹۶؎ یعنی اُن موقعوں پر فساد کرنے والوں کے عمل کو باطل کر دیتا اور حق کو حق کر دکھاتا ہے، جب اُس کے پیغمبر اتمام حجت کے لیے کسی قوم کی طرف مبعوث کیے جاتے ہیں۔ یہ اُسی سنت الٰہی کا حوالہ ہے جس کی وضاحت ہم آیت ۴۷ کے تحت کر چکے ہیں۔

۹۷؎ اصل میں ’فَمَآ اٰمَنَ لِمُوْسٰی‘ کے الفاظ آئے ہیں۔ اللہ و رسول پر ایمان کو بالعموم’اٰمَنَ بِہٖ‘سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ اِس کے بجاے ’اٰمَنَ لَہٗ‘ کے الفاظ یہاں اِس لیے اختیار کیے گئے ہیں کہ اِن نوجوانوں نے حضرت موسیٰ کے دعوے کی صداقت تو بے شک تسلیم کر لی تھی، مگر تسلیم و تفویض اور اطاعت و انقیاد کے اُس مقام تک ابھی نہیں پہنچے تھے جس پر ’اٰمَنَ بِہٖ‘ کے الفاظ دلالت کرتے ہیں۔ آگے کی آیات میں اِسی بنا پر اُنھیں ایمان کے اِن تقاضوں کو پورا کرنے کی دعوت دی گئی ہے۔

قرآن کا ارشاد ہے کہ ’اٰمَنَ لَہٗ‘ کی یہ سعادت بھی بنی اسرائیل کے نوجوانوں ہی کو حاصل ہوئی۔ دعوت حق کی تاریخ بتاتی ہے کہ یہ معاملہ صرف موسیٰ علیہ السلام کے ساتھ نہیں ہوا۔ اِس دعوت پر لبیک کہنے کی سعادت پہلے مرحلے میں بالعموم نوجوانوں ہی کو حاصل ہوتی ہے۔ اِس کی وجہ کیا ہے؟ استاذ امام لکھتے ہیں:

’’۔۔۔اِس کی واضح نفسیاتی وجہ یہ ہے کہ حضرات انبیا جس ہمہ گیر دعوت اسلام کو لے کر اٹھتے ہیں، اُس کو ابتدائی مراحل میں آگے بڑھ کر قبول کرنا بڑی بلند حوصلگی، بلکہ بڑے جان جوکھم کا کام ہوتا ہے۔ اِس کی ہمت وہ لوگ آسانی سے نہیں کر سکتے جو روایات و رسوم سے مرعوب اور حالات و مصالح کی رعایت کے خوگر ہوں۔ ایسے لوگوں کا حجاب آہستہ آہستہ ہی ٹوٹتا ہے۔ نوجوانوں میں اِس طرح کی مرعوبیت و مغلوبیت کم ہوتی ہے ،اِس وجہ سے اُن کو جب دعوت حق اپیل کرلیتی ہے تو وہ اُس کے لیے دنیوی عواقب سے بے پروا ہو کر اٹھ کھڑے ہوتے ہیں، نہ وہ اپنے بڑوں اور بزرگوں کی سرزنش کی کچھ زیادہ پروا کرتے نہ وقت کے ارباب اقتدار کی برہمی کو خاطر میں لاتے ہیں۔ حضرت موسیٰ کے معاملے میں حالات کا یہ خاص پہلو بھی قابل لحاظ ہے کہ ملک میں جو ارسٹو کریسی برسر اقتدار تھی، وہ نسلاً بھی حضرت موسیٰ کی قوم سے بالکل الگ تھی اور اُس دور میں جو شخص تخت حکومت پر تھا، وہ بھی، جیسا کہ آیت کے الفاظ سے واضح ہے، طبعاً نہایت جبار اور سرکش تھا۔ ایسے حالات میں، ظاہر ہے کہ وہی لوگ اُن کا ساتھ دینے کے لیے آگے بڑھ سکتے تھے جو اپنی حمیت حق کے جوش و جذبہ کو دبا سکنے پر قادر نہ ہوں۔‘‘(تدبرقرآن۴/ ۷۹)

۹۸؎ اسلام کی حقیقت یہی حوالگی ہے۔ سچا ایمان اِسی کے نتیجے میں پیدا ہوتا ہے جس کا لازمی تقاضا خدا پر توکل ہے۔ موسیٰ علیہ السلام نے ایمان کا یہی تقاضا لوگوں کوسجھایا ہے۔

۹۹؎ فتنہ کے معنی یہاں ہدف اور نشانہ کے ہیں ۔ مطلب یہ ہے کہ اُن کو اتنی ڈھیل نہ دے کہ وہ ہم کو بالکل ہی ظلم و ستم کی آماج گاہ بنا لیں۔

۱۰۰؎ یعنی مصر کے مختلف حصوں میں کچھ گھر مسجد کی حیثیت سے مخصوص کر لیے جائیں جن میں بنی اسرائیل نماز کے اوقات میں جمع ہوں اور مل کر خدا کی عبادت کریں۔ انبیا علیہم السلام کے دین میں اصلاح و تربیت کا یہی نظام ہمیشہ سے قائم رہا ہے۔ حضرت موسیٰ نے بھی اپنی قوم کی مذہبی تنظیم کاآغاز کیا تو اللہ تعالیٰ نے سب سے پہلے اِسی کی ہدایت فرمائی۔

۱۰۱؎ اِس سے مراد وہ گھر ہیں جو حضرت موسیٰ اور حضرت ہارون نے اپنے اور اپنے متعلقین اور اپنے گردوپیش کے لوگوں کی نماز کے لیے مخصوص کیے ہوں گے۔ فرمایا کہ عارضی طور پر اِنھی گھروں کو قبلہ کی حیثیت دے دی جائے تاکہ نماز کی اقامت میں وہ وحدت پیدا ہو جائے جو اُس کے لیے ہمیشہ مطلوب رہی ہے۔ مصر سے ہجرت کے بعد بنی اسرائیل کے لیے یہی حیثیت تابوت کو حاصل ہوئی، یہاں تک کہ بیت المقدس تعمیر ہوا اور اُنھوں نے اُس کو اپنا قبلہ بنا لیا۔

۱۰۲؎ یہ بشارت جس طرح ظاہر ہوئی، اُس کا ذکر آگے آیت ۹۳ میں ہوا ہے۔

۱۰۳؎ اصل الفاظ ہیں:’رَبَّنَا، لِیُضِلُّوْا عَنْ سَبِیْلِکَ‘۔ اِن میں’ل‘انجام اور نتیجے کو ظاہر کرتا ہے۔ یعنی مال و اسباب عطا ہوئے تو اُس کا نتیجہ یہ نکلا کہ خدا کی اِس عنایت پر شکر گزار ہونے کے بجاے سرکشی پر اتر آئے۔

۱۰۴؎ یہ ہجرت سے پہلے کی دعا ہے جو فرعون اور اُس کے اکابر پر اتمام حجت کے بعد کی گئی۔ اِس طرح کی دعا اللہ کے رسول اُسی وقت کرتے ہیں، جب وہ اپنے مخاطبین کے ایمان سے آخری درجے میں مایوس ہو جاتے ہیں۔ چنانچہ یہ محض دعا نہیں ہوتی، بلکہ خود خدا کے فیصلے کا اعلان ہوتا ہے۔

۱۰۵؎ مطلب یہ ہے کہ تم اور تمھارے ساتھی اب اِن سرکشوں کی چھوت سے اپنے آپ کو محفوظ رکھیں اور اِن کے ساتھ جو معاملہ ہونے والا ہے، اُس پر اپنے دل میں نرمی کے جذبات نہ پیدا ہونے دیں کہ مبادا کوئی سفارش کا کلمہ تمھاری زبان سے نکل جائے۔

بظاہر یہ تنبیہ حضرت موسیٰ اور حضرت ہارون علیہما السلام کو کی گئی ہے، لیکن روے سخن، اگر غور کیجیے تو اُنھی سرکشوں کی طرف ہے جو اب عذاب کے مستحق ہو گئے ہیں۔

۱۰۶؎ فرعون کا یہ فعل یوں تو ہر پہلو سے سرکشی اور شرارت تھا، لیکن یہاں یہ الفاظ خاص طور پر اُس سرکشی اور شرارت کی طرف اشارہ کرتے ہیں جواُس نے بنی اسرائیل کو جانے کی اجازت دینے کے بعد پھر اُن کا پیچھا کرکے کی۔

۱۰۷؎ یہ الفاظ ضروری نہیں ہے کہ کہے گئے ہوں۔ زیادہ امکان یہ ہے کہ یہ صورت حال کی تصویر ہو۔

۱۰۸؎ خدا کی یہ بات حرف بہ حرف پوری ہوئی۔ فرعون کی لاش کو غرقابی کے بعد سمندر نے قبول نہیں کیا، بلکہ عذاب الٰہی کی ایک عبرت ناک نشانی کے طور پر باہر پھینک دیا۔ یہ لاش بعد میں لوگوں کو ملی بھی اور اُنھوں نے اپنی آنکھوں سے دیکھ لیا کہ خدا کے مقابلے میں سرکشی کا انجام کیا ہوتا ہے۔ جزیرہ نماے سینا کے مغربی ساحل پر جبل فرعون اور حمام فرعون اِسی واقعے کی یادگاریں ہیں۔ ابو زنیمہ سے چند کلومیٹر اوپر شمال کی جانب علاقے کے باشندے آج بھی اُس جگہ کی نشان دہی کرتے ہیں، جہاں یہ لاش پڑی ہوئی ملی تھی۔ دور حاضر میں اہل مصر کی جو ممی کی ہوئی لاشیں دریافت ہوئی ہیں، اُن میں سے بھی ایک لاش کے بارے میں، جسے فرعون منفتہ کی لاش قرار دیا جاتا ہے، عام خیال یہ ہے کہ یہ اُسی فرعون کی لاش ہے۔ یہ لاش قاہرہ کے عجائب خانے میں محفوظ ہے اور زبان حال سے کہہ رہی ہے کہ دیکھو مجھے جو دیدۂ عبرت نگاہ ہو۔ استاذ امام لکھتے ہیں:

’’۔۔۔اِس لاش کے بارے میں اثریات کے ماہرین چاہے اختلاف کریں کہ یہ اُسی فرعون کی لاش ہے یا کسی اور کی، لیکن اُن کے اٹکل پچو اندازوں کے مقابل میں قرآن کا یہ چودہ سو سال پہلے کا بیان زیادہ قابل اعتماد ہے۔ اِس طرح قدرت نے اُس کی لاش کو عبرت کی ایک ایسی نشانی بنا دیا جو آج کے فرعونوں کے لیے بھی محفوظ ہے، لیکن دیکھنے کے لیے آنکھوں کی ضرورت ہے اور اِس دنیا میں عبرت پذیر آنکھوں سے زیادہ کم یاب کوئی شے بھی نہیں۔‘‘(تدبرقرآن۴/ ۸۴)    

۱۰۹؎ یعنی حق کے پوری طرح واضح ہو جانے کے بعد اختلاف کیا جس کی وجہ، ظاہر ہے کہ فرقہ بندی کے داعیات اور تعصبات ہی ہو سکتے ہیں۔ چنانچہ اِس کی تمام ذمہ داری اب اُنھی پر ہے۔

۱۱۰؎ یہ بڑی سخت وعید ہے۔ مطلب یہ ہے کہ اِس وقت توہر دھاندلی اور کتمان حق کی ہر کوشش کے لیے توجیہات تلاش کر سکتے ہو، مگر جب فیصلے کا دن آئے گا تو تمام حقائق بے نقاب ہو جائیں گے اور تمھارا سب کچا چٹھا تمھارے سامنے ہو گا۔ اُس وقت کہنے کے لیے کچھ بھی باقی نہ رہے گا۔

[باقی]

ـــــــــــــــــــــــــ

B