HomeQuranHadithMizanVideosBooksBlogs
مصنف : امام امین احسن اصلاحی

صدقہ میں کیا چیز مکروہ ہے

ترتیب و تدوین: خالد مسعود۔ سعید احمد

(مَا یُکْرَہُ مِنَ الصَّدَقَۃِ)

حَدَّثَنِیْ عَنْ مَالِکٍ أَنَّہُ بَلَغَہُ اَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ: لَا تَحِلُّ الصَّدَقَۃُ لِآلِ مُحَمَّدٍ اِنَّمَا ھِیَ أَوْسَاخُ النَّاسِ.
امام مالک سے روایت ہے کہ ان کو یہ بات پہنچی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ آل محمد کے لیے صدقہ جائز نہیں۔ یہ لوگوں کے جسموں کا میل کچیل ہے۔
وضاحت

یہ روایت امام مالک کی بلاغات میں سے ہے۔ امام مالک نے اس میں راوی کا نام نہیں لکھا، مگر یہ یاد رکھیے کہ یہ روایت پانچ چھ طریقوں سے مرفوع ہے، اور ان سب میں ابن شہاب موجود ہے۔ یہ روایت قرآن کے بالکل خلاف ہے اور عقل کے بھی خلاف ہے۔ میرے نزدیک اس کو شیعوں کے امام ابن شہاب نے گھڑا ہے تاکہ آل محمد کی برہمنیت کو قائم کیا جائے۔ پہلے میرا خیال یہ تھا کہ آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بات یوں فرمائی ہو گی کہ ’لا تحل الصدقۃ لآل محمد‘، اور یہ فرمانے کی وجہ یہ رہی ہو گی کہ یہودیوں میں یہ ہوا تھا کہ صدقہ اور زکوٰۃ کی جتنی رقوم ہو تی تھیں، وہ یہود کے قبیلہ بنی لاوی کا حق مان لی گئی تھیں۔ قربانی کے جتنے جانور ہوتے تھے، ان کے گوشت کا بہترین حصہ ان کا حصہ ہوتا تھا اور خیرات کی تمام رقمیں ان کی ہوتی تھیں۔ دوسرے لوگ ان سے محروم کر دیے گئے۔ میرا خیال یہ تھا کہ آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس فتنہ کے سدباب کے لیے فرما دیا: ’لا تحل الصدقۃ لآل محمد‘ کہ آل محمد کے لیے صدقہ جائز نہیں۔ اس کے بعد روایت کا جتنا حصہ ہے، وہ ابن شہاب کا اسی طرح کا اضافہ ہے، جس طرح کا اضافہ انھوں نے پیچھے بیان ہونے والی ’العین حق‘ (نظر بد ایک حقیقت ہے) کی روایت میں کیا ہے۔ وہاں ’العین حق‘ کی تاویل تو ہو سکتی ہے، لیکن اس کے بعد نظر بد اتارنے کا جو ٹوٹکا ابن شہاب نے بتایا ہے کہ نظر لگانے والے شخص کو پکڑا جائے، وہ اپنے تہمد کے نیچے کا حصہ دھوئے اور دھوون اس شخص پر انڈیل دی جائے جس کو نظر لگی ہو۔ تو یہ ابن شہاب کا اپنا اضافہ ہے۔ لیکن اب میری رائے یہ ہے کہ یہ پوری روایت جھوٹی ہے، اس کی وجہ یہ ہے کہ اگر صدقہ ’اوساخ الناس‘ (لوگوں کا میل کچیل) ہے تو یہ میل کچیل ان لوگوں کے لیے ہے جو مال دار ہیں اور لوگوں کا حق ادا نہیں کرتے۔ محتاج اور نادار اگر پاتے ہیں تو اپنا حق پاتے ہیں۔ یہ بات قرآن مجید سے ثابت ہے کہ یہ ’حق معلوم‘ یعنی ان کا معین حق ہے۔ * قرآن مجید میں یہ بتایا گیا ہے کہ لوگوں کے پاس جو زائد مال ہوتا ہے، وہ اصل میں دوسروں کے حقوق ہیں جو امرا کی امانت میں دیے جاتے ہیں اورا س سے ان کا امتحان مقصود ہوتا ہے کہ وہ حقوق ادا کرتے ہیں یا نہیں۔ اگر وہ اس مال کو ہڑپ کریں تو وہ غلاظت کا ڈھیر ہے جو وہ کھا رہے ہیں۔ مستحقین کے لیے یہ غلاظت کا ڈھیر نہیں، بلکہ اللہ کا دیا ہوا مال ہے۔

پھر اس روایت میں آل محمد کو برہمنوں کی طرز کا ایک پورا خاندان بنا دیا گیا اور اس میں تمام بنی ہاشم کو شامل کر دیا گیا۔ تمام بنی ہاشم کے لیے صدقات حرام کر دیے، اس کی وجہ یہ ہے کہ اوپر بیان کردہ روایت کی رو سے چونکہ ’الید العلیا‘ (اوپر کا ہاتھ) افضل ہے اور ’الید السفلی‘ (نیچے کا ہاتھ) مفضول ہے تو آل محمد کے لیے یہ کس طرح جائز ہوتا کہ ان کا ہاتھ نیچے رہے، چاہے وہ غریب ہوں یا امیر۔ ان کو تو بہرحال سر پر بیٹھنا ہے۔ وہ نیچے کس طریقہ سے اتر سکتے ہیں۔

پھر یہ سوال بھی اہم ہے کہ تمام بنی ہاشم کس طریقہ سے آل محمد میں شامل ہو گئے؟ یہ واقعہ ہے کہ عرب میں اور ہمارے ہاں بھی یہ رواج رہا ہے کہ آدمی کی نسل لڑکی سے نہیں چلتی، بلکہ لڑکے سے چلتی ہے۔ بالفرض سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کی اولاد کے متعلق مان لیجیے کہ وہ آل محمد ہیں، لیکن بنی ہاشم کے پورے خاندان کو کس طریقہ سے آل محمد ہونے کا شرف حاصل ہو جاتا ہے؟ صاف معلوم ہوتا ہے کہ یہ روایت صرف بنی ہاشم کا سر اونچا کرنے کے لیے گھڑی گئی ہے، ورنہ اس کی کوئی بنیاد نہیں۔

یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ آل محمد میں اگر کچھ لوگ فی الواقع محتاج ہوں اور ان کے پاس زندگی گزارنے کے وسائل موجود نہ ہوں تو کیا ان کو بھوکے مرنے دیا جائے گا اور صدقہ سے ان کی مدد نہیں کی جائے گی؟ اگر اس مدد کے لیے کوئی حیلے تراشے جاتے ہیں تو اس سے حقیقت تو نہیں بدل جائے گی۔ اس صورت میں بھی ان کا ہاتھ تو نیچے ہی رہے گا۔

حَدَّثَنِیْ عَنْ مَالِکٍ عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ اَبِیْ بَکْرٍ عَنْ اَبِیْہِ اَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ اسْتَعْمَلَ رَجُلًا مِنْ بَنِیْ عَبْدِ الْاَشْھَلِ عَلَی الصَّدَقَۃِ، فَلَمَّا قَدِمَ سَأَلَہُ اِبِلًا مِّنَ الصَّدَقَۃِ فَغَضِبَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ حَتّٰی عُرِفَ الْغَضَبُ فِیْ وَجْھِہِ وَکَانَ مِمَّا یُعْرَفُ بِہِ الْغَضَبُ فِیْ وَجْھِہِ اَنْ تَحْمَرَّ عَیْنَاہُ ثُمَّ قَالَ اِنَّ الرَّجُلَ لَیَسْأَلُنِیْ مَالَا یَصْلُحُ لِیْ وَلَا لَہُ، فَاِنْ مَنَعْتُہُ کَرِھْتُ الْمَنْعَ، وَ اِنْ أَعْطَیْتُہُ أَعْطَیْتُہُ مَالَا یَصْلُحُ لِیْ وَلَا لَہُ، فَقَالَ الرَّجُلُ: یَارَسُوْلَ اللّٰہِ، لَا اَسْءَلُکَ مِنْھَا شَیْءًا اَبَدًا.
عبداللہ بن ابوبکر اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بنی عبد الاشہل کے خاندان میں ایک شخص کو صدقے کی وصولی پر مامور کیا۔ وہ جب واپس آئے تو انھوں نے صدقے کے اونٹوں میں سے ایک اونٹ مانگا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ناپسندیدگی کا اظہار کیا، یہاں تک کہ آپ کے چہرے سے آپ کا غصہ ظاہر ہونے لگا۔ آپ کا غصہ چہرے سے اس وقت ظاہر ہوتا تھا جب آپ کی آنکھیں سرخ ہو جاتی تھیں۔ پھر آپ نے فرمایا کہ یہ شخص مجھ سے وہ چیز مانگتا ہے جو میرے لیے ٹھیک ہے، نہ اس کے لیے۔ اگر نہ دوں تو میں نہ دینے کو برا سمجھتا ہوں، اگر دوں تو میں اس کو وہ چیز دوں گا جو میرے لیے ٹھیک ہے، نہ اس کے لیے۔ تو اس آدمی نے کہا کہ یا رسول اللہ، میں اب اس میں سے کبھی کوئی چیز نہیں مانگوں گا۔
وضاحت

یہ حدیث بالکل واضح ہے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ مانگنے کی یہ شکل بھی مکروہ ہے۔

حَدَّثَنِیْ عَنْ مَالِکٍ عَنْ زَیْدِ بْنِ اَسْلَمَ عَنْ اَبِیْہِ اَنَّہُ قَالَ قَالَ: عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ الْأَرْقَمِ أُدْلُلْنِیْ عَلٰی بَعِیْرٍ مِّنَ الْمَطَایَا اَسْتَحْمِلُ عَلَیْہِ اَمِیْرَ الْمُؤْمِنِیْنَ؟ فَقُلْتُ: نَعَمْ جَمَلًا مِّنَ الصَّدَقَۃِ، فَقَالَ عَبْدُ اللّٰہِ ابْنُ الْأَرْقَمِ: أَتُحِبُّ اَنَّ رَجُلًا بَادِنًا فِیْ یَوْمٍ حَارٍّ غَسَلَ لَکَ مَا تَحْتَ اِزَارِہِ وَ رُفْغَیْہِ ثُمَّ أَعْطَاکَہُ فَشَرِبْتَہُ؟ قَالَ: فَغَضِبْتُ وَقُلْتُ: یَغْفِرُ اللّٰہُ لَکَ اَتَقُوْلُ لِیْ مِثْلَ ھٰذَا؟ فَقَالَ عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ الْاَرْقَمِ: اِنَّمَا الصَّدَقَۃُ أَوْسَاخُ النَّاسِ یَغْسِلُوْنَھَا عَنْھُمْ.
زید بن اسلم کے والد راوی ہیں کہ عبداللہ بن الارقم نے ان سے کہا کہ مجھے سواری کے اونٹوں کی نشان دہی کرو کہ میں ان میں سے امیرالمومنین سے سواری کے لیے مانگوں، تو میں نے کہا: اچھا، صدقہ کے اونٹوں میں سے ایک مانگیے، تو عبداللہ بن الارقم نے کہا کہ کیا آپ چاہتے ہیں کہ ایک موٹا فربہ آدمی گرمی کے دن اپنے تہمد کے نیچے کے اوراپنی رانوں کے بیچ کے حصے کو دھوئے، پھر وہ دھوون آپ کو دے اور آپ اس کو پئیں؟ کہتے ہیں: میں نے بڑے غصے میں کہا: اللہ آپ کو معاف کرے۔ کیا آپ مجھ سے اس طرح کی بات کہہ رہے ہیں؟ تو عبداللہ بن الارقم نے کہا کہ صدقہ لوگوں کی میل کچیل ہے جس کو وہ اپنے سے دھوتے ہیں۔
وضاحت

یہ بات ٹھیک ہے کہ ایک غیر مستحق صدقے کے مال میں سے مانگے تو وہ اس کے لیے ناجائز ہو گا، لیکن یاد رکھیے کہ مستحق کے لیے وہ مال ناپاک نہیں، بلکہ یہ اس کا حق ہے جو خود اللہ تعالیٰ نے مقرر کیا ہے۔


طلب علم کے بارے میں

(مَا جَاءَ فِیْ طَلَبِ الْعِلْمِ)

حَدَّثَنِیْ عَنْ مَالِکٍ اَنَّہُ بَلَغَہُ اَنَّ لُقْمَانَ الْحَکِیْمَ أَوْصٰی ابْنَہُ، فَقَالَ: یَا بُنَیَّ جَالِسِ الْعُلَمَاءَ وَ زَاحِمْھُمْ بِرُکْبَتَیْکَ فَاِنَّ اللّٰہَ یُحْیِی الْقُلُوْبَ بِنُوْرِ الْحِکْمَۃِ کَمَا یُحْیِی اللّٰہُ الْاَرْضَ الْمَیْتَۃَ بِوَابِلِ السَّمَاءِ.
امام مالک کو یہ بات پہنچی ہے کہ لقمان حکیم نے اپنے بیٹے کو وصیت کی اور کہا: بیٹے، علما کی صحبت اختیار کر لو اور ان کے گھٹنے کے ساتھ گھٹنا ملا کر ان کے آگے بیٹھا کرو۔ اللہ تعالیٰ حکمت کے نور سے اسی طرح دلوں کو زندہ کرتا ہے، جس طرح وہ مردہ زمین کو آسمانی بارش سے زندہ کرتا ہے۔
وضاحت

یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا قول نہیں، بلکہ لقمان حکیم کا قول ہے۔ لقمان عرب کے حکما میں سے تھے، پیغمبر نہیں تھے۔ ان کی تاریخ بھی مجہول ہے۔ اگر قرآن مجید نے ان کا ذکر نہ کیا ہوتا تو ان کے متعلق ہم اچھی یا بری رائے قائم کرنے کی کسی پوزیشن میں نہیں تھے۔لقمان حکیم کی بیٹے کو یہ نصیحت قرآن مجید میں بیان نہیں ہوئی ہے۔ امام مالک نے کہیں سے سنی ہے اور حدیث کی کتاب میں اس کو درج کر دیا ہے اور ایسے نہ جانے کتنے اقوال ہیں جو انھوں نے جمع کیے ہیں۔ انھوں نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے ایسے اقوال بھی نقل کیے ہیں جو ہمیں انجیلوں میں نہیں ملے۔ معلوم ہوتا ہے کہ ان کو حکمت کی اچھی باتوں سے خاص دل چسپی تھی۔ نصیحت اپنی جگہ بہت قیمتی ہے۔ علما کی صحبت میں بیٹھنے سے حکمت کی باتیں سننے کو ملتی ہیں اور آدمی میں اخذ کی صلاحیت ہو تو وہ ان سے فائدہ اٹھاتا ہے۔ یہ چیز دل کی زندگی کا باعث ہوتی ہے۔


مظلوم کی بد دعا سے بچنے کے بارے میں

(مَا یُتَّقٰی مِنْ دَعْوَۃِ الْمَظْلُوْمِ)

حَدَّثَنِیْ عَنْ مَالِکٍ عَنْ زَیْدِ بْنِ أَسْلَمَ عَنْ أَبِیْہِ أَنَّ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ اسْتَعْمَلَ مَوْلٰی لَہُ یُدْعٰی ھُنَیًّا عَلَی الْحِمٰی، فَقَالَ: یَا ھُنَیُّ اضْمُمْ جَنَاحَکَ عَنِ النَّاسِ وَاتَّقِ دَعْوَۃَ الْمَظْلُوْمِ فَاِنَّ دَعْوَۃَ الْمَظْلُوْمِ مُسْتَجَابَۃٌ وَأَدْخِلْ رَبَّ الصُّرَیمَۃِ وَالْغُنَیْمَۃِ، وَاِیَّایَ نَعَمَ بْنِ عَوْفٍ وَ نَعَمَ بْنِ عَفَّانَ فَاِنَّھُمَا اِنْ تَھْلِکْ مَا شِیَتُھُمَا یَرْجِعَانِ اِلَی الْمَدِیْنَۃِ اِلٰی زَرْعٍ وَ نَخْلٍ، وَ اِنَّ رَبَّ الصُّرَیْمَۃِ وَالغُنَیْمَۃِ اِنْ تَھْلِکْ مَا شِیَتُہُ یَأْتِنِیْ بِبَنِیْہِ فَیَقُوْلُ یَا اَمِیْرَ الْمُؤْمِنِیْنَ یَا أَمِیْرَ الْمُؤْمِنِیْنَ أَفَتَارِکُھُمْ أَنَا لَا أَبَالَکَ فَالْمَاءُ وَالْکَلَأُ أَیْسَرُ عَلَیَّ مِنَ الذَّھَبِ وَالْوَرِقِ وَاَیْمُ اللّٰہِ اِنَّھُمْ لَیَرَوْنَ اَنْ قَدْ ظَلَمْتُھُمْ اِنَّھَا لَبِلَادُھُمْ وَمِیَاھُھُمْ قَاتَلُوْا عَلَیْھَا فِی الْجَاھِلِیَّۃِ وَاَسْلَمُوْا عَلَیْھَا فِی الْاِسْلَامِ وَالَّذِی نَفْسِیْ بِیَدَہِ لَوْ لَا الْمَالُ الَّذِی اَحْمِلُ عَلَیْہِ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ مَا حَمَیْتُ عَلَیْھِمْ مِنْ بِلَادِھِمْ شِبْرًا.
زید بن اسلم اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ حضرت عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ نے اپنے آزاد کردہ غلام، جس کا نام ’ھُنَیی‘ تھا، کو سرکاری چراگاہ پر مقرر کیا تو آپ نے فرمایا کہ اے ھنیی، لوگوں کو اپنے بازو سے بچا کے رکھیو اور مظلوم کی بددعا سے ڈرتے رہیو، کیونکہ مظلوم کی دعا خدا کے ہاں مقبول ہے۔ چھوٹے گلے والوں اور بکریوں کے چھوٹے ریوڑ والوں کو ضرور داخل ہونے دینا، البتہ ابن عفان اور ابن عوف کے گلے آئیں تو ان کو روکنا، کیونکہ اگر ان کے مواشی ہلاک ہو گئے تو وہ مدینہ میں اپنے کھیتوں اور اپنے کھجور کے باغوں میں آ جائیں گے اور اگر چھوٹے گلے اور چھوٹے ریوڑ والے کا مال ہلاک ہو گیا تو وہ اپنے بچوں کے ساتھ میرے پاس آئیں گے اور کہیں گے کہ اے امیرالمومنین، اے امیرالمومنین، تو کیا میں ان کو چھوڑ دوں گا؟ خدا کے بندے، سوچو تو سہی۔ پانی اور چارہ مہیا کرنا میرے لیے زیادہ سہل ہے بمقابلہ اس کے کہ میں ان کے اوپر سونا اور چاندی خرچ کروں۔ خدا کی قسم، وہ خیال کریں گے کہ میں نے ان کے اوپر ظلم ڈھایا ہے۔ یاد رکھو کہ یہ ملک ان کا ہے۔ چشمے ان کے ہیں۔ اس کے اوپر جاہلیت کے دور میں انھوں نے جنگیں لڑی ہیں اور اس کے اوپر ہی وہ اسلام لائے ہیں۔ اس خدا کی قسم جس کی مٹھی میں میری جان ہے کہ اگر ان جانوروں کی ضرورت نہ ہوتی جن کے اوپر میں لوگوں کو اللہ کے راستے میں سوار کراؤں تو میں ان کی زمین میں سے ایک بالشت برابر بھی چراگاہ نہ بناتا۔
وضاحت

الحمی‘ سے مراد وہ سرکاری چراگاہیں ہیں جو حکومت نے جگہ جگہ صدقہ کے جانوروں کی حفاظت اور دیکھ بھال کے لیے بنا رکھی تھیں۔

صُرَیْمَۃ‘ سے مطلب اونٹوں کا چھوٹا گلہ اور ’غُنَیْمَۃ‘ سے مراد بکریوں کا چھوٹا ریوڑ ہے۔

حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے زمانے میں ہزاروں گھوڑے، اونٹ اور گائے صدقے کے تھے جنھیں ان چراگاہوں میں رکھا گیا تھا، اور ان کے اوپر ان کی دیکھ بھال کے لیے آدمی مقرر تھے۔ ایک روز آپ نے اپنے آزاد کردہ غلام کو جسے سرکاری چراگاہ پر مقرر کیا تھا، بلا کر تلقین کی کہ اپنے ہاتھ کو لوگوں پر ظلم کرنے سے روک کر رکھے، کیونکہ مظلوم کی دعا اللہ تعالیٰ کے ہاں فوراً سنی جاتی ہے۔ انھوں نے ہدایت فرمائی کہ چھوٹے گلہ والے، یعنی غربا اگر اپنے گلے لائیں تو ان کو چراگاہوں سے نہ روکا جائے، کیونکہ ان ہی نے اپنی زمینوں کے لیے جاہلیت کے زمانے میں جنگیں لڑی ہیں اور ان ہی زمینوں کے اوپر وہ اسلام لائے ہیں تو میں کس طریقہ سے ان کے پانی اور ان کے چارے کو روک سکتا ہوں۔ البتہ جو لوگ رئیس ہیں اگر ان کے گلے آئیں تو ان کوتم روک سکتے ہو۔ جنگیں تو ان رئیسوں نے بھی لڑی ہیں، مگر ان کے پاس متبادل وسائل کھیت اور باغ کی شکل میں موجود ہیں۔ ان کے لیے مویشیوں کی دیکھ بھال مشکل نہیں۔ اگر ان کا مال ہلاک ہو جائے تو وہ اس نقصان کو برداشت کر لیں گے اور وہ مدینہ میں اپنے کھیتوں اور باغوں میں آجائیں گے۔

اللہ کے راستے میں سوار کرانے سے مراد وہ اونٹ اور گھوڑے ہیں جو اللہ کی راہ میں جہاد کرنے کے لیے مجاہدین کو مہیا کیے جاتے تھے۔

________

* المعارج ۷۰: ۲۴۔

____________

B