شمارے کا آغاز حسب روایت جناب جاوید احمد غامدی کے ترجمۂ قرآن ’’البیان‘‘ سے ہوا ہے۔ اس اشاعت میں سورۂ یونس (۱۰) کی آیات ۷۱۔۹۳ کا ترجمہ اور مختصر حواشی شامل ہیں۔ اس حصے میں پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم سے فرمایا گیا ہے کہ جو لوگ ابھی تک ایمان نہیں لائے، انھیں نوح، موسیٰ اور ہارون علیہم السلام کی سرگذشت سناؤ۔ کھلی نشانیوں کے باوجود حق کا انکار کرنے والوں اور فرعون کو، جو خود کو خدا سمجھتا تھا، کس طرح غرق کیا گیا۔ اس کے جسم کو دنیا والوں کے لیے نشان عبرت بنا دیا گیا۔
’’معارف نبوی‘‘ میں ’’موطا امام مالک‘‘ کی تین روایات کا انتخاب شامل ہے۔ پہلی روایت صدقہ کے بارے میں ہے، جس میں عام پائے جانے والے اس تاثر کی وضاحت کی گئی ہے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی آل کے لیے صدقہ جائز نہیں ہے۔دوسری روایت میں طلب علم کے حوالے سے حکیم لقمان کی اپنے بیٹے کو یہ وصیت ہے کہ علم حاصل کرنے کے لیے علما کی مجالس میں شرکت کرو۔ تیسری روایت مظلوم کی بددعا سے بچنے کے بارے میں ہے۔ اس میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اپنے آزاد کردہ غلام کو سرکاری چراگاہ پر نگران بنانے کے بعد تلقین کی ہے کہ لوگوں پر ظلم سے باز رہیں۔
’’مقالات‘‘ میں مولانا حمید الدین فراہی کا مضمون ’’شان نزول‘‘ شامل اشاعت ہے۔ اس میں انھوں نے بیان کیا ہے کہ قرآن کی ہر سورہ کے نزول کا مقصد پیش آنے والے معاملات کی وضاحت ہے ۔ بیان ایسا ہے کہ کسی قسم کا شک و شبہ نہ ہو۔ ’’مقالات‘‘ ہی کے تحت مولانا امین احسن اصلاحی کا مضمون شامل ہے۔ اس میں مغربی اقوام کی فلسفہ و سائنس میں ایجادات سے متاثر افراد کا ذکر ہے۔ اس میں بتایا گیا ہے کہ جو قومیں ترقی کی دوڑ میں پیچھے رہ جاتی ہیں، وہ ترقی یافتہ قوموں سے مرعوب رہتی ہیں۔ ان کی تقلید میں ہمارا نوجوان اور تعلیم یافتہ طبقہ اپنی روایات کی مخالفت اور اپنے مذہب سے بے زاری فیشن کے طور پر اپنا رہا ہے۔ ان کی خوبیوں کے بجاے ان کی خامیوں کو اپنانے سے اپنی شناخت کھو رہا ہے۔ اگر وہ سائنسی ترقی میں ہم سے آگے ہیں تو اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ وہ مذہب و معاشرت اور معیشت و سیاست کے اصولوں میں بھی ہم سے آگے ہیں۔
’’افادات‘‘ میں ’’نبی صلی اللہ علیہ وسلم بحیثیت ایک مدبر اور ماہر سیاست ‘‘کے عنوان سے مولانا امین احسن اصلاحی کا مضمون شائع کیا گیا ہے۔ اس میں یہ بات بیان ہوئی ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی حیات مبارکہ سے دنیا کو جو درس دیا، اس کے مطابق ایمان داری اور سچائی جس طرح انفرادی زندگی کی بنیاد ہے، اسی طرح اجتماعی اور سیاسی معاملات سے بھی گہرا تعلق رکھتی ہے۔
’’سیر وسوانح‘‘ کے تحت محمد وسیم اختر مفتی کے مضمون میں جلیل القدر صحابی حضرت ضمام بن ثعلبہ رضی اﷲ عنہ اور ان کے قبیلے بنو سعد کے ایمان لانے کا واقعہ بیان ہوا ہے۔ اس میں حضرت ضمام اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے درمیان ہونے والے خوب صورت مکالمے کا ذکر ہے۔
’’یسئلون‘‘ میں مولانا اصلاحی سے پوچھا گیا یہ سوال نقل کیا ہے کہ کیا حدیث میں مزید تحقیق کی ضرورت ہے، کیونکہ کئی احادیث ایسی ہیں جو قرآن کے فرمودات اور رسول کے عمل سے مطابقت نہیں رکھتیں۔ مولانا اصلاحی نے اس کا جواب یہ دیا ہے کہ حدیث کی مکمل تحقیق کی اہمیت سے کوئی عقل مند انکار نہیں کر سکتا۔ عدم مطابقت سائل کو غلط فہمی کے نتیجے میں نظر آئی ہے، ورنہ ان احادیث کو جمع و توفیق اور ترجیح کے اصول پر دیکھا جائے تو تضاد اور عدم مطابقت ختم ہو جائے گی۔
’’ادبیات‘‘ میں مولانا الطاف حسین حالی کی ایک نظم شائع کی ہے۔ اس میں انھوں نے اتفاق میں برکت کی خوبیوں کو نظم کیا ہے۔
____________