بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
(گذشتہ سے پیوستہ)
فَرِحَ الْمُخَلَّفُوْنَ بِمَقْعَدِھِمْ خِلٰفَ رَسُوْلِ اللّٰہِ وَکَرِھُوْٓا اَنْ یُّجَاھِدُوْا بِاَمْوَالِھِمْ وَاَنْفُسِھِمْ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ وَقَالُوْا لَا تَنْفِرُوْا فِی الْحَرِّ قُلْ نَارُ جَھَنَّمَ اَشَدُّ حَرًّا لَوْ کَانُوْا یَفْقَھُوْن{۸۱} فَلْیَضْحَکُوْا قَلِیْلًا وَّلْیَبْکُوْا کَثِیْرًا جَزَآئًم بِمَا کَانُوْایَکْسِبُوْنَ{۸۲} فَاِنْ رَّجَعَکَ اللّٰہُ اِلٰی طَآئِفَۃٍ مِّنْھُمْ فَاسْتَاْذَنُوْکَ لِلْخُرُوْجِ فَقُلْ لَّنْ تَخْرُجُوْا مَعِیَ اَبَدًا وَّلَنْ تُقَاتِلُوْا مَعِیَ عَدُوًّا اِنَّکُمْ رَضِیْتُمْ بِالْقُعُوْدِ اَوَّلَ مَرَّۃٍ فَاقْعُدُوْا مَعَ الْخٰلِفِیْنَ{۸۳}
وَلَا تُصَلِّ عَلٰٓی اَحَدٍ مِّنْھُمْ مَّاتَ اَبَدًا وَّلَاتَقُمْ عَلٰی قَبْرِہٖ اِنَّھُمْ کَفَرُوْا بِاللّٰہِ وَرَسُوْلِہٖ وَمَاتُوْا وَھُمْ فٰسِقُوْنَ{۸۴} وَلَا تُعْجِبْکَ اَمْوَالُھُمْ وَاَوْلَادُھُمْ اِنَّمَا یُرِیْدُ اللّٰہُ اَنْ یُّعَذِّبَھُمْ بِھَا فِی الدُّنْیَا وَتَزْھَقَ اَنْفُسُھُمْ وَھُمْ کٰفِرُوْنَ{۸۵} وَاِذَآ اُنْزِلَتْ سُوْرَۃٌ اَنْ اٰمِنُوْا بِاللّٰہِ وَجَاھِدُوْا مَعَ رَسُوْلِہِ اسْتَاْذَنَکَ اُولُوا الطَّوْلِ مِنْھُمْ وَقَالُوْا ذَرْنَا نَکُنْ مَّعَ الْقٰعِدِیْنَ{۸۶} رَضُوْا بِاَنْ یَّکُوْنُوْا مَعَ الْخَوَالِفِ وَطُبِعَ عَلٰی قُلُوْبِھِمْ فَھُمْ لَا یَفْقَھُوْنَ{۸۷} لٰکِنِ الرَّسُوْلُ وَالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا مَعَہٗ جٰھَدُوْا بِاَمْوَالِھِمْ وَاَنْفُسِھِمْ وَاُولٰٓئِکَ لَھُمُ الْخَیْرٰتُ وَاُولٰٓئِکَ ھُمُ الْمُفْلِحُوْنَ{۸۸} اَعَدَّاللّٰہُ لَھُمْ جَنّٰتٍ تَجْرِیْ مِنْ تَحْتِھَا الْاَنْھٰرُ خٰلِدِیْنَ فِیْھَا ذٰلِکَ الْفَوْزُ الْعَظِیْمُ{۸۹}
(تبوک کے اِس سفر میں) جو لوگ پیچھے چھوڑ دیے گئے تھے، ۲۴۸؎وہ اللہ کے رسول سے پیچھے بیٹھ رہنے پر بہت خوش ہوئے اور اُنھیں اچھا نہیں لگا کہ اپنے جان و مال سے اللہ کی راہ میں جہاد کریں۔ اُنھوں نے (لوگوں سے) کہا کہ اِس گرمی میں نہ نکلو۔ کہہ دو: دوزخ کی آگ اِس سے کہیں زیادہ گرم ہے۔ اے کاش، وہ سمجھتے! اب وہ ہنسیں کم اور روئیں زیادہ، اُس کے بدلے میں جو کچھ کرتے رہے۲۴۹؎۔سو (اے پیغمبر) اللہ اُن میں سے کسی گروہ کی طرف اگر تمھیں واپس لے جائے ۲۵۰؎اور وہ تم سے (جہاد کے لیے) نکلنے کی اجازت مانگیں تو صاف کہہ دینا کہ تم میرے ساتھ کبھی نہ نکلو گے اور نہ میرے ساتھ ہو کر کسی دشمن سے لڑو گے۔ تم نے پہلے بیٹھ رہنے کو پسند کیا تو اب بھی اُن کے ساتھ بیٹھے رہو جو پیچھے رہنے والے ہیں۔۸۱-۸۳
اور (آیندہ) اُن میں سے جو مرجائے، اُس (کے جنازے) پر کبھی نماز نہ پڑھنا اور نہ اُس کی قبر پر (دعا کے لیے) کھڑے ہونا، اِس لیے کہ اُنھوں نے اللہ اور اُس کے رسول کا انکار کیا ہے اور اِس حال میں مرے ہیں کہ بد عہد تھے۔۲۵۱؎ تم اُن کے مال و اولاد کو کچھ وقعت نہ دو، اللہ یہی چاہتا ہے کہ اِن کے ذریعے سے اُنھیں دنیا کی زندگی میں عذاب دے اور اُن کی جانیں اِس حالت میںنکلیں کہ وہ کافر ہوں۲۵۲؎۔جب کوئی سورت اترتی ہے کہ اللہ پر ایمان لائو، (جس طرح کہ ایمان لانے کا حق ہے ۲۵۳؎) اور اُس کے رسول کے ساتھ ہو کر جہاد کرو تو اُن کے مقدرت والے بھی تم سے رخصت مانگنے آ کھڑے ہوتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہمیں چھوڑ دیجیے، ہم یہاں ٹھیرنے والوں کے ساتھ رہ جائیں گے۔۲۵۴؎ اُنھوں نے پسند کیا کہ اُن عورتوں کے ساتھ ہوں جو پیچھے گھروں میں بیٹھی رہتی ہیں۲۵۵؎ اوراُن کے دلوں پر (اِس کے نتیجے میں) مہر کر دی گئی، اِس لیے کچھ نہیں سمجھتے۔(اللہ کے) رسول نے، البتہ اپنے جان و مال سے جہاد کیا ہے اور اُن لوگوں نے بھی جو اُس کے ساتھ ایمان لائے ہیں، اور اب وہی ہیں جن کے لیے (دنیا و آخرت کی) بھلائیاں ہیں اور وہی فلاح پانے والے ہیں۔ اللہ نے اُن کے لیے ایسے باغ تیار کر رکھے ہیں جن کے نیچے نہریں بہتی ہیں۔ وہ اُن میں ہمیشہ رہیں گے۔ یہی بڑی کامیابی ہے۔۸۴-۸۹
۲۴۸؎ یعنی اگرچہ رخصتیں مانگ کر خود پیچھے رہے، مگر حقیقت میں پیچھے چھوڑ دیے گئے تھے۔ اِس لیے کہ اللہ و رسول کے سامنے لا یعنی عذرات پیش کرکے اِس کے مستحق ہی نہیں رہے کہ اللہ کی راہ میں جہاد کی سعادت سے بہرہ یاب ہوں۔
۲۴۹؎ مطلب یہ ہے کہ خدا کی راہ میں جہاد کے شدائد سے بھاگ کر اُنھوں نے دوزخ میں جانا پسند کیا ہے تو یہ خوش ہونے کی نہیں، بلکہ رونے اور ماتم کرنے کی چیز ہے۔ استاذ امام لکھتے ہیں:
’’۔۔۔ عام طور پر مفسرین نے یہاں انشا کو خبر کے معنی میں لیا ہے، لیکن ہمارے نزدیک یہ صحیح نہیں ہے۔ یہاں عمل اور جزا، دونوں کو نگاہوں کے سامنے مستحضر کر دیا گیا ہے، اِس لیے کہ جس کے اندر بصیرت ہو، وہ اِس دنیا میں اپنے عمل کے آئینے میں اپنی جزا کو بھی دیکھ لیتا ہے اور اُس پر اِس کا اثر بھی وہی پڑتا ہے جو پڑنا چاہیے۔ البتہ اندھے بہرے لوگ اِس سے محروم رہتے ہیں۔‘‘(تدبرقرآن۳/ ۶۱۸)
۲۵۰؎ اِس جملے کا اسلوب بیان پیش نظر رہے تو مدعا یہ ہے کہ جن کے کرتوتوں کی وجہ سے اُن کے منہ دیکھنے کے روادار نہیں ہو، اُن کے منہ اگر اپنی تقدیر سے دکھا دے اور جو یہ گمان کیے بیٹھے ہیں کہ رومیوں کی افواج قاہرہ سے بچ کر واپس نہیں آ سکو گے ، اُن کی خواہشات کے علی الرغم اگر خدا تمھیں کامیاب و کامران اُن کی طرف پلٹا دے۔
۲۵۱؎ اِس سے پہلے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اُن کے لیے استغفار سے روکا گیا تھا۔ اب جہاد میں ساتھ لے جانے اور اُن میں سے کوئی مر جائے تو اُس کے جنازے کی نماز پڑھنے اور اُس کی قبر پر کھڑے ہونے سے بھی روک دیا گیا۔ اِس سے بڑی رسوائی اور اِس سے بڑی سزا کیا ہو سکتی تھی جو مسلمانوں کے معاشرے میں اور خدا کے رسول کی موجودگی میں کسی شخص کو دی جا سکتی ہے۔
۲۵۲؎ اللہ کا یہ چاہنا اُس سنت کے مطابق ہے جو اُس نے لوگوں کی ہدایت اور گمراہی کے لیے مقرر کر رکھی ہے۔
۲۵۳؎ اصل الفاظ ہیں:’اَنْ اٰمِنُوْا بِاللّٰہِ‘۔ اِن میں فعل اپنے کامل معنی میں ہے۔ ہم نے ترجمے میں اِسے کھول دیا ہے۔
۲۵۴؎ یہ اُن کے مافی الذہن کی تعبیر ہے۔ قرآن کے بعض دوسرے مقامات میں بھی اِس طرح کی چیزوں کو قول سے تعبیر کیا گیا ہے۔ مدعا یہ ہے کہ اپنے دل میں اِس طرح سوچتے ہیں کہ عذر قبول کر لیا گیا تو اُن کے ساتھ رہیں گے جن کا عذر حقیقی ہے اور جو یہاں عافیت میں بیٹھے ہیں۔
۲۵۵؎ یعنی مردوں کی طرح میدان جہاد میں اتر کر اپنے ایمان و اسلام کا حق ادا کرنے کے بجاے اپنے لیے یہی پسند کیا کہ عورتوں کی طرح گھروں میں بیٹھیں۔
[باقی]
ـــــــــــــــــــــــــ