شبلی نعمانی
قصر شاہی میں کہ ممکن نہیں غیروں کا گزر،
ایک دن، نورجہاں، بام پہ تھی جلوہ فگن،
کوئی شامت زدہ رہگیر اُدھر آ نکلا
گرچہ تھی قصر میں ہر چار طرف سے قدغن
غیرت حسن سے بیگم نے طمنچہ مارا،
خاک پر ڈھیر تھا اِک کشتۂ بے گور و کفن
ساتھ ہی شاہ جہانگیر کو پہنچی جو خبر
غیظ سے آ گئے ابروے عدالت پہ شکن
حکم بھیجا کہ کنیزان شبستان شہی!
جا کے پوچھ آئیں کہ سچ یا کہ غلط ہے یہ سخن
نخوتِ حُسن سے، بیگم نے بصد ناز کہا
’’میری جانب سے کرو عرض بہ آئین حَسن‘‘
ہاں! مجھے واقعۂ قتل سے انکار نہیں
مجھ سے ناموس حیا نے یہ کہا تھا کہ بزَن
اُس کی گستاخ نگاہی نے کیا اس کو ہلاک
کشورِ حُسن میں جاری ہے یہی شرعِ کُہن
مفتیِ دیں سے جہانگیر نے فتویٰ پوچھا
کہ شریعت میں کسی کو نہیں کچھ جائے سخن
مفتیِ دیں نے یہ بے خوف و خطر صاف کہا
شرع کہتی ہے کہ قاتل کی اڑا دو گردن،
لوگ دربار میں اس حکم سے تھرا اُٹھے
پر جہانگیر کی ابرو پہ نہ بل تھا نہ شکن،
ترکنوں کو یہ دیا حکم کہ اندر جا کر
پہلے بیگم کو کریں بستۂ زنجیر و رَسَن
پھر اسی طرح اُسے کھینچ کے باہر لائیں
اور جلاّد کو دیں حکم کہ ہاں تیغ بزن
یہ وہی نورجہاں ہے کہ حقیقت میں یہی
تھی جہانگیر کے پردہ میں شہنشاہِ زمن
اِس کی پیشانئ نازک پہ جو پڑتی تھی گرہ
جا کے بن جاتی تھی اوراقِ حکومت پہ شکن
اب نہ وہ نورجہاں ہے نہ وہ اندازِ غرور
نہ وہ غمزے ہیں نہ وہ عربدۂ صبر شکن
اب وہی پاؤں ہر اِک گام پہ تھراتے ہیں
جن کی رفتار سے پامال تھے مُرغانِ چمن
ایک مجرم ہے کہ جس کا کوئی حامی نہ شفیع
ایک بیکس ہے کہ جس کا نہ کوئی گھر نہ وطن
خدمتِ شاہ میں بیگم نے یہ بھیجا پیغام!
خوں بہا بھی تو شریعت میں ہے اِک امرِ حَسن
مفتی شرع سے پھر شاہ نے فتویٰ پوچھا
بولے جائز ہے رضامند ہوں گر بچہ وزن
وارثوں کو جو دیے لاکھ درم ’’بیگم‘‘ نے
سب نے دربار میں کی عرض کہ اے شاہ زمن
ہم کو مقتول کا لینا نہیں منظور قصاص!
قتل کا حکم جو رُک جائے تو ہے مستحسن
ہو چکا جبکہ شہنشاہ کو پورا یہ یقیں
کہ نہیں اس میں کوئی شائبۂ حیلہ و فن
اُٹھ کے دربار سے آہستہ چلا سوئے حرم
تھی جہاں نورجہاں معتکف بیتِ حزن،
دفعتاً پاؤں پہ بیگم کے گرا اور یہ کہا
’’تو اگر کشتہ شدی آہ چہ می کردم من‘‘