HomeQuranHadithMizanVideosBooksBlogs
مصنف :

اس شمارے میں

اس شمارے کا آغاز حسب روایت جناب جاوید احمد غامدی کے ترجمۂ قرآن ’’البیان‘‘ سے ہوا ہے۔ اس اشاعت میں سورۂ توبہ (۹) کی آیات ۸۱۔۸۹ کا ترجمہ اور مختصر حواشی شامل ہیں ۔ یہ حصہ ان منافقین سے متعلق ہے جو غزوۂ تبوک کے موقع پر جھوٹے اور لایعنی عذرات پیش کر کے گھروں میں بیٹھے رہے تھے اور اپنی فریب کاری پر بہت خوش تھے۔ قرآن مجیدنے ان کے لیے دوزخ کی وعید سنائی ہے اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو حکم دیا ہے کہ آیندہ انھیں جہاد سے محروم رکھا جائے اور ان میں سے اگر کوئی مر جائے تو نہ اس کی نماز جنازہ پڑھی جائے اور نہ قبر پر دعا کے لیے کھڑا ہوا جائے۔

اس سورہ کی آیت ۸۶کے الفاظ ’اَنْ اٰمِنُوْا بِاللّٰہِ‘ کا ترجمہ ’’اللہ پر ایمان لاؤ، (جس طرح کہ ایمان لانے کا حق ہے)‘‘ کیا ہے اور اس کا سبب یہ بیان کیا ہے کہ یہاں فعل اپنے کامل معنی میں استعمال ہوا ہے۔ اس آیت کا ایک اور قابل غورحصہ ’ذَرْنَا نَکُنْ مَّعَ الْقٰعِدِیْنَ‘ ( ہمیں چھوڑ دیجیے، ہم یہاں ٹھیرنے والوں کے ساتھ رہ جائیں گے) کے الفاظ پر مشتمل منافقین کا قول بھی ہے۔ خیال پیدا ہوتا ہے کہ اس میں منافقین کے عذرات کا تو کہیں ذکر نہیں ہے۔اس کی وضاحت میں مصنف نے بیان کیاہے کہ یہ ان کا کوئی متعین قول نہیں ، بلکہ ان کے ما فی الذہن کی تعبیر اور ان کے دل کی آواز ہے اور مافی الذہن کو قول کی صورت میں بیان کرنے کی قرآن میں اور بھی مثالیں ہیں۔

’’معارف نبوی‘‘ میں حسن اخلاق کے پہلو سے ’’موطا امام مالک‘‘ کی چند روایات کا انتخاب شامل ہے۔ ان کا ترجمہ و تشریح مولانا امین احسن اصلاحی کے درس حدیث سے ماخوذ ہے جسے جناب خالد مسعود اور جناب سعید احمد نے مرتب کیا تھا۔ ان میں سے بعض روایات نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث اور بعض صحابہ کے اقوال پر مشتمل ہیں۔ ایک حدیث میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت معاذ بن جبل کو لوگوں سے حسن سلوک کی ہدایت فرمائی ہے۔ مولانا اصلاحی کا کہنا ہے کہ یہ اس موقع کی ہدایت ہے جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے معاذ بن جبل کو یمن کا گورنر بنا کر روانہ کیا تھا۔ مولانا نے اس سے یہ نتیجہ اخذ کیا ہے کہ حسن اخلاق کی اہمیت حکمران کے لیے عام آدمی سے بہت بڑھ کر ہے۔ حکمران کا اخلاق اگر اچھا ہو گا تو لوگ بلا جھجک اپنے مسائل اس کے سامنے پیش کر سکیں گے اور انصاف حاصل کر سکیں گے۔ ایک روایت میں سیدہ عائشہ نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اس طرز عمل کو بیان کیا ہے کہ آپ معاملات زندگی میں ہمیشہ آسان راستے کا انتخاب فرماتے تھے۔ اس بات کی وضاحت میں مولانا اصلاحی نے ایک اور حدیث کے حوالے سے ذکر کیا ہے کہ جو شخص دین سے دھینگا مشتی کرے گا ،دین اسے پچھاڑ دے گا۔ ان کے علاوہ اور بھی متعدد روایات اس حصے میں شامل ہیں جن کا مطالعہ اخلاقی اصلاح کے لیے مفید ہو سکتا ہے۔ تاہم، مولانا اصلاحی کی توضیحات کا مطالعہ کرتے ہوئے یہ ضرور ملحوظ رکھنا چاہیے کہ یہ ان کی اپنی تحریر نہیں ہے۔ یہ ان کی گفتگو ہے جسے ٹیپ سے سن کر مرتب کیا گیا ہے اور گفتگو میں ظاہر ہے کہ تمام پہلوؤں کا احاطہ ممکن نہیں ہوتا۔

رمضان کی مناسبت سے جناب جاوید احمد غامدی کا ایک مضمون’’ روزہ‘‘ شامل اشاعت ہے۔ اس مضمون میں انھوں نے روزے کے مقصداور اس کے حاصلات کو نہایت عام فہم اسلوب میں بیان کیا ہے ۔ اس کے ساتھ ان خرابیوں کی نشاندہی بھی کی ہے جو اگر روزے میں در آئیں تو اس کی ساری برکتیں ختم ہو جاتی ہیں۔

’’نقطۂ نظر‘‘کے تحت ’’متن حدیث میں علما کے تصرفات‘‘ کے زیر عنوان جناب ساجد حمید کاایک تحقیقی مضمون شائع کیا ہے۔ اس مضمون میں انھوں نے یہ موقف اختیار کیا ہے کہ احادیث نقل کرتے ہوئے علما و محدثین ترتیب و تدوین کی بعض ضرورتوں کے پیش نظر ایسے تصرفات کر دیتے ہیں کہ جن کی وجہ سے احادیث اجز ا میں منتشر ہو جاتی ہیں اور ان میں سے ہر جز ایسا مفہوم پیش کرتا ہے جو حقیقت کے مطابق نہیں ہوتا ۔ مصنف نے اپنے موقف کی دلیل میں اسبال ازارکی ممانعت، کسی قوم کی مشابہت اختیار کرنے کی شناعت اور یہود و نصاریٰ کی مخالفت کی احادیث کو بطور مثال پیش کیا ہے اور ان موضوعات کی مختلف روایتوں اور ان کے اجزا کو جمع کر کے یہ نتیجہ اخذ کیا ہے کہ اسبالِ ازار کی ممانعت کا اصل سبب تکبر ہے، کسی قوم کی مشابہت اختیار نہ کرنے سے مراد حلیے اور لباس وغیرہ کی ظاہری مشابہت نہیں ، بلکہ رویے کی مشابہت ہے اور یہود و نصاریٰ کی مخالفت سے مراد اصل میں ان بدعات کی مخالفت ہے جو یہود نے از خود دین میں داخل کر لیں تھیں۔ اختلاف و اتفاق سے قطع نظر ہمیں امید ہے کہ یہ مضمون قارئین کے لیے دل چسپی اور غور و فکرکا باعث ہو گا۔ اس ضمن میں بعض توضیح طلب امور بھی ہیں، مثلاً یہ کہ مصنف نے ایک موضوع کی مختلف روایتوں یا ان کے اجزا کو جمع کرتے ہوئے صحیح ، حسن اور ضعیف کے درجے کی روایتوں کو یکساں طور پر قبول کیا ہے یا ان میں کوئی فرق کیا ہے؟ اسی طرح الفاظ کے مفہوم کی تعیین میں کیا طریقہ اختیار کیا ہے اور اس ضمن میں مثال کے طور پر ’من تشبہ بقوم فھو منھم‘ (جس نے کسی قوم کی مشابہت اختیار کی ، وہ انھی میں سے ہو گا)میں ’تشبہ‘ کے فعل سے ظاہری مشابہت کے بجاے رویے کی مشابہت مراد لینے کے لیے زبان و بیان کے کن دلائل کو بنیاد بنایا ہے؟پھر یہ سوال بھی اہم ہے کہ کیا مصنف کے الفاظ ’’اگر صرف پہلی روایت ہی ہمارے پاس ہو تو یہ حکم مستقل بالذات تعبدی حکم بن جاتا ہے‘‘ سے یہ تاثر لینا جائز ہے کہ وہ حدیث کو دین میں مستقل بالذات احکام کا ماخذ تسلیم کرتے ہیں؟

’’افادات‘‘ میں ’’اصلاح اور نماز ‘‘کے عنوان سے امام حمید الدین فراہی کا ایک شذرہ شامل ہے۔ یہ ان کے عربی رسالے ’’رسالۃ فی اصلاح الناس‘‘ کے ابتدائی حصے کا مولانا اصلاحی کے قلم سے ترجمہ ہے۔ اس میں یہ بات بیان ہوئی ہے کہ انسان کی دینی اصلاح کے لیے اولین اور بنیادی قدم نماز ہے۔ انھوں نے واضح کیا ہے کہ اصلاح کے لیے اصل چیز قلب کی درستی ہے اور اس مقصد کے لیے پہلی اور آخری دوا نماز ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اعمال صالحہ میں سب سے بڑھ کر نماز کی تاکید کی ہے۔ نماز کی شان یہ ہے کہ بندہ اللہ کی اس طرح عبادت کرے گویا اس کو دیکھ رہا ہے۔

’’یسئلون‘‘ میں مولانا اصلاحی سے پوچھا گیا یہ سوال نقل کیا ہے کہ کیا خلیفہ شوریٰ کا پابند ہے اور کیا وہ مجلس شوریٰ کی رائے کے خلاف اپنی رائے پر اصرار کر سکتا اور اسے قوم پر نافذ کر سکتا ہے؟ مولانا اصلاحی نے اس کا جواب یہ دیا ہے کہ خلیفہ دلائل کے ساتھ اپنی رائے کو پیش تو کر سکتا ہے ،مگر اس کو یہ حق حاصل نہیں ہے کہ شوریٰ کی رائے کو رد کرتے ہوئے اپنی رائے مسلط کرے۔

’’ادبیات‘‘ میں علامہ شبلی نعمانی کی ایک نظم ’’عدل جہانگیری‘‘ شائع کی ہے۔ اس میں انھوں نے شہنشاہ جہانگیر کے عدل کے حوالے سے ایک تاریخی واقعے کو نظم کیا ہے۔

 

B