بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
(گذشتہ سے پیوستہ)
یَسْئَلُوْنَکَ مَاذَآ اُحِلَّ لَھُمْ؟ قُلْ: اُحِلَّ لَکُمُ الطَّیِّبٰتُ وَمَا عَلَّمْتُمْ مِّنَ الْجَوَارِحِ مُکَلِّبِیْنَ تُعَلِّمُوْنَھُنَّ مِمَّا عَلَّمَکُمُ اللّٰہُ، فَکُلُوْا مِمَّآ اَمْسَکْنَ عَلَیْکُمْ وَاذْکُرُوا اسْمَ اللّٰہِ عَلَیْہِ، وَاتَّقُوااللّٰہَ، اِنَّ اللّٰہَ سَرِیْعُ الْحِسَابِ{۴}
پوچھتے ہیں کہ اُن کے لیے کیا چیز حلال ٹھیرائی گئی ہے؟ ۲۲ کہہ دو: تمام پاکیزہ چیزیں تمھارے لیے حلال ہیں۲۳ اور شکاری جانوروں ۲۴ میں سے جن کو اُس علم میں سے کچھ سکھا کر تم نے سدھا لیا ہے جو اللہ نے تمھیں سکھایا ہے،۲۵ اُن کا کیا ہوا شکار بھی حلال ہے)۔ اِس لیے جو وہ تمھارے لیے روک رکھیں، اُس میں سے کھاؤ۲۶ اور (جانور کو شکار پر چھوڑنے سے پہلے) اُس پر اللہ کا نام لے لیا کرو۲۷ اور اللہ سے ڈرتے رہو۔ بے شک، اللہ بہت جلد حساب چکانے والا ہے۔ ۴
۲۲؎ یہ سوال اِس وجہ سے پیدا ہوا ہے کہ اوپر کی آیتوں میں بعض ایسی چیزوں کی حرمت بیان ہوئی ہے جن کے حلال ہونے کا گمان ہو سکتا تھا۔ اِس کی ایک مثال درندے کے پھاڑے ہوئے جانور ہیں۔ اُن کے بارے میں جب یہ وضاحت کی گئی کہ وہ صرف اُسی صورت میں حلال ہیں جب اُن کو زندہ حالت میں ذبح کر لیا جائے تو سدھائے ہوئے جانوروں کے شکار سے متعلق بھی بعض سوالات پیدا ہو گئے۔ اِس صورت حال میں لوگوں نے پوچھا ہے کہ پھر کیا مناسب نہیں کہ اُنھیں یہ بتا دیا جائے کہ اُن کے لیے حلال کیا کیا چیزیں ہیں؟
۲۳؎ اصل میں لفظ ’طیبات‘ آیا ہے۔ یہ ’خبائث‘ کا ضد ہے۔ مدعا یہ ہے کہ وہ تمام چیزیں حلال ہیں جو اپنے مزاج اور اپنی سرشت کے لحاظ سے انسانیت کے ساتھ مناسبت رکھتی ہیں اور انسان کا ذوق سلیم جن کو کھانے کے لیے موزوں سمجھتا ہے، الاّ یہ کہ اللہ تعالیٰ اپنے پیغمبروں کے ذریعے سے اُس کی کسی غلطی کی اصلاح کر دے۔
۲۴؎ اصل میں لفظ ’جوارح‘ استعمال ہوا ہے۔ اِس سے مراد شکاری جانور ہیں، عام اِس سے کہ وہ درندوں میں سے ہوں یا پرندوں میں سے۔
۲۵؎ یعنی اپنی جبلتوں کو قواعد و ضوابط کا پابند بنا لینے کا جو سلیقہ اللہ نے تمھیں سکھایا ہے، وہی سلیقہ جن جانوروں کو سدھا کر تم نے اُن کے اندر بھی پیدا کر دیا ہے۔
۲۶؎ یہ اُس سوال کا جواب ہے جو اوپر کی آیتوں میں ’اِلَّا مَا ذَکَّیْتُمْ‘ کی شرط سے پیدا ہوتا ہے۔ فرمایا ہے کہ سدھائے ہوئے جانور کا پھاڑنا ہی تذکیہ ہے۔ لہٰذا اُس کے شکار کو ذبح کیے بغیر کھایا جا سکتا ہے، تاہم اِس کے لیے ضروری ہے کہ وہ اُسے اپنے مالک کے لیے روک رکھے۔ اُس میں سے اُس نے اگر کچھ کھا لیا ہے تو اُس کا کیا ہوا شکار جائز نہ ہو گا۔ اِس کے لیے اصل میں ’مِمَّآ اَمْسَکْنَ عَلَیْکُمْ‘ کے الفاظ آئے ہیں۔ ’اَمْسَکَ‘ کے معنی روکنے اور تھامنے کے ہیں۔ اِس کے ساتھ ’علٰی‘ آئے تو اِس کے اندر اختصاص کا مضمون پیدا ہو جاتا ہے۔ چنانچہ یہاں بھی یہی مضمون ہے کہ شکار میں سے جو وہ خاص تمھارے لیے روک رکھیں۔
۲۷؎ اصل الفاظ ہیں: ’وَاذْکُرُوا اسْمَ اللّٰہِ عَلَیْہِ‘۔ اِن میں ضمیر کا مرجع ہمارے نزدیک ’مَا عَلَّمْتُمْ مِّنَ الْجَوَارِحِ‘ ہے۔ اِس کی وجہ یہ ہے کہ اِس کا مرجع اگر ’مِمَّآ اَمْسَکْنَ‘ کو مانا جائے تو یہ محض اُس بات کا اعادہ ہوگا جو اوپر ’اِلَّا مَا ذَکَّیْتُمْ‘ کے الفاظ میں بیان ہو چکی ہے اور اِسے اگر ’فَکُلُوْا‘ سے متعلق مانا جائے تو عام آداب طعام سے متعلق ایک بات کا محل یہاں واضح نہیں ہوتا۔
[باقی]
ــــــــــــــــــــــ