HomeQuranHadithMizanVideosBooksBlogs
مصنف : طالب محسن

اذان کا آغاز

عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ عُمَرَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ أَنَّہُ قَالَ: کَانَ الْمُسْلِمُوْنَ حِیْنَ قَدِمُوا الْمَدِیْنَۃَ یَجْتَمِعُوْنَ فَیَتَحَیَّنُوْنَ الصَّلَوَاتِ وَلَیْسَ یُنَادِیْ بِہَا أَحَدٌ. فَتَکَلَّمُوْا یَوْمًا فِیْ ذٰلِکَ. فَقَالَ بَعْضُہُمْ: اِتَّخِذُوْا نَاقُوْسًا مِثْلَ نَاقُوْسِ النَّصَارٰی. وَقَالَ بَعْضُہُمْ: قَرْنًا مِثْلَ قَرْنِ الْیَہُوْدِ. فَقَالَ عُمَرُ: أَوَلَا تَبْعَثُوْنَ رَجُلًا یُنَادِیْ بِالصَّلٰوۃِ. قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ: یَا بِلَالُ، قُمْ، فَنَادِ بِالصَّلٰوۃِ.
حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ مسلمان جب مدینہ آئے تو وہ جمع ہو جاتے تھے، پھر نماز ہونے کا انتظار کرتے رہتے تھے، اور اس وقت کوئی اذان نہیں دیتا تھا۔ ایک دن لوگوں نے اس پر بات کی۔ کسی نے تجویز دی: نصاریٰ کے ناقوس کی طرح ناقوس بنالو۔ کسی نے کہا: یہود کے سنکھ کی طرح سنکھ لے لو۔ حضرت عمر نے کہا: تم کوئی آدمی کیوں نہیں بھیج دیتے جو نماز کا اعلان کرے۔ اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: بلال، اٹھو اور نماز کے لیے بلاؤ۔
لغوی مباحث

یَجْتَمِعُوْنَ فَیَتَحَیَّنُوْنَ‘ :’ تَحَیُّن‘ کا لفظ تین معنی میں آتا ہے: ایک انتظار کرنا، دوسرے مقرر کرنا اور تیسرے موقع دیکھنا۔ ہمارے نزدیک اس روایت میں یہ انتظار کرنے کے معنی میں آیا ہے۔ زیادہ مفسرین اور مترجمین نے اسے مقرر کرنے کے معنی میں لیا ہے۔ہمارے نزدیک یہ معنی ساری روایت کے مضمون سے زیادہ مناسبت نہیں رکھتے۔ ہمیں معلوم ہے کہ نماز کے اوقات پہلے سے متعین تھے، جو مشکل پیش آرہی تھی، وہ جماعت کھڑی ہونے کی خبر دینا ہے، یعنی کوئی ایسا طریقہ اختیار کیا جائے کہ لوگوں کو بیٹھ کر زیادہ دیر انتظار نہ کرنا پڑے۔ چنانچہ روایت کا اگلا حصہ اسی مسئلے سے نکلنے کی تدبیرڈھونڈنے کے مسئلے کے بیان پر مشتمل ہے۔

’ناقوس‘ : ’ناقوس‘ اصل میں گھنٹی ہے جس کی مختلف ہیئتیں ممکن ہیں۔ شارحین نے لکھا ہے کہ لکڑی یا لوہے کے دو ٹکڑے، جن میں سے ایک بڑا جسے بجایا جائے اور دوسرا چھوٹا جس سے بجایا جائے، کو ناقوس کہتے ہیں۔ ظاہر ہے، یہ گھنٹی کی ابتدائی شکلیں ہیں۔ بہرحال، یہ بات واضح ہے کہ مسیحی حضرات عبادت کے وقت بلانے کے لیے گھنٹی ہی کو استعمال کرتے ہیں۔ اگرچہ یہ گھنٹی صورت کے اعتبار سے بہت بدل چکی ہے۔

قرن‘ : روایات میں ’ قرن‘ کے بجاے’ بوق‘ کا لفظ بھی آیا ہے۔ دونوں لفظ ہم معنی ہیں۔ یہ سینگ سے بنایا جاتا ہے اور اس میں پھونک مارنے سے آواز پیدا ہوتی ہے۔ یہود کے ہاں اس کے لیے ’ شبور‘ (Shofar) کا لفظ بھی استعمال ہوتا ہے۔

قم فناد‘: ’ ندا‘ کا لفظ اذان اور کسی اور آواز کے لیے عام ہے۔ اگر اس واقعے سے پہلے اذان کا طریقہ معلوم ہو چکا ہے تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی مراد اذان دینا ہے اور اگر دوسری صورت تھی تو محض آواز دینا مراد ہے جو ’اَلصَّلٰوۃُ جَامِعَۃٌ‘ (نماز کھڑی ہونے والی ہے) ۱؂ یا اس سے ملتا جلتا کوئی اور جملہ بھی ہو سکتا ہے۔ ’’عمدۃ القاری‘‘ میں تصریح ہے کہ اذان سے پہلے ایک آدمی بازار میں ’اَلصَّلٰوۃُ اَلصَّلٰوۃُ‘ کی آواز لگاتا تھا۔ اگر ہم اسی روایت کے الفاظ اور دروبست تک محدود رہیں تو دوسری بات زیادہ قرین قیاس ہے۔ بعض شارحین نے ’قُمْ ‘ سے کھڑے ہونے کے وجوب کے معنی اخذ کیے ہیں۔ ہمارے نزدیک اس جملے سے یہ مراد نہیں ہے۔

معنی

یہ روایت بنیادی طور پر اذان کے آغاز کی روداد ہے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ایک زمانہ ایسا گزرا ہے جب نماز کے لیے بلانے کا کوئی طریقہ رائج نہیں تھا۔ لوگ نماز کے موقع پر جمع ہوتے اور جماعت کے ہونے کا انتظار کرتے۔ ظاہر ہے، یہ چیز روز مرہ کی زندگی کی مصروفیات میں زحمت کا باعث تھی۔ ضرورت تھی کہ لوگوں کو نماز کے ہونے کی خبر دینے کا کوئی طریقہ اختیار کیا جائے۔ ایک مجلس میں اس موضوع پر بات چیت ہوئی تو صحابۂ کرام کی طرف سے دونوں مذہبی گروہوں کے طریقے کو اختیار کرنے کی تجویزیں سامنے آئیں۔ اس موقع پر حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے تجویز دی کہ ایک آدمی مقرر کیا جائے جو لوگوں کو آواز دے دیا کرے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کام کے لیے حضرت بلال کا تقرر کر دیا۔

اس روایت کے حوالے سے چند سوالات پیدا ہوتے ہیں:

اذان باجماعت نماز کے پہلے ہی دن کیوں جاری نہیں ہوئی۔ عبادت کے ایک اہم جز کو تدبیر پر کیوں چھوڑ دیا گیا؟

حضرت عمر نے جو تجویز دی تھی، اس پر عمل کی کیا صورت اختیار کی گئی تھی؟

اذان سے متعلق دوسری روایات اور اس روایت میں جو فرق ہے، وہ کیوں ہے؟ مراد یہ ہے کہ کچھ روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ بعض صحابہ کو خواب میں اذان دکھا دی گئی تھی، بعض روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے معراج میں حضرت جبریل سے اذان سنی تھی اور بعض روایات میں بیان ہوا ہے کہ حضور کو اذان سکھائی گئی تھی، وغیرہ۔ سوال یہ ہے کہ ان میں سے درست بات کون سی ہے؟

عام نقطۂ نظر یہی ہے کہ اذان کی ابتدا مدینے میں آنے کے بعد ہوئی۔ ہم یہاں دو اقتباس نقل کریں گے جن سے واضح ہوتا ہے کہ مقبول عام راے یہی ہے۔ ’’تفسیر طبری‘‘ میں ہے:

’’ہجرت سے پہلے مکہ میں اذان نہیں تھی، وہ صرف ’اَلصَّلٰوۃُ جَامِعَۃٌ‘ کی آواز لگاتے تھے۔ جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ہجرت کی اور قبلے کو کعبے کی طرف پھیر دیا گیا تو اذان کا حکم ہوا۔ اس طرح ’اَلصَّلٰوۃُ جَامِعَۃٌ ‘ کا جملہ دوسرے پیش آنے والے معاملات کے لیے رہ گیا۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے اذان (یعنی نماز کے لیے بلانے کا معاملہ) بہت پریشانی کا باعث تھا کہ عبد اللہ بن زید، عمر بن خطاب اور ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہم کو اذان دکھا دی گئی۔ اس سے پہلے نبی صلی اللہ علیہ وسلم بھی معراج کی رات آسمان میں اذان سن چکے تھے۔عبد اللہ بن زید خزرجی انصاری اور عمر بن خطاب رضی اللہ عنہما کا خواب بہت مشہور ہے۔ عبد اللہ بن زید رضی اللہ عنہ نے اسی صبح نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنا خواب بتا دیا تھا۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ جب میں صبح اٹھا اور میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو خبر دی تو آپ نے بلال کو اذان کا حکم دیا اور بلال نے وہی اذان دی جو آج دی جاتی ہے۔ بلال نے صبح کی اذان میں ’اَلصَّلٰوۃُ خَیْرٌ مِّنَ النَّوْمِ‘ کے الفاظ کا اضافہ کیا اور آپ نے اس کو برقرار رکھا۔یہ جملہ اس اذان میں نہیں تھا جو انصاری صحابی کو دکھائی گئی تھی۔ یہ بات ابن سعد نے ابن عمر کے حوالے سے بیان کی ہے۔ دار قطنی نے بیان کیا ہے کہ ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کو بھی اذان دکھائی گئی تھی۔ یہ بھی کہ انھوں نے انصاری صحابی سے پہلے یہ بات نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو بتادی تھی اور آپ نے بلال کو اذان کا حکم اس سے پہلے دے دیا تھا کہ انصاری آپ کو اپنا خواب بتائیں۔‘‘(۶/ ۲۲۵)

سرخسی کی ’’المبسوط‘‘ میں ہے:

’’مشہور یہ ہے کہ جب حضور مدینہ آئے تو کبھی نماز تاخیر سے پڑھتے اور کبھی جلدی ادا کرتے۔آپ نے صحابہ سے کوئی علامت مقرر کرنے کا مشورہ چاہا جسے دیکھ کر لوگ آگاہ ہو جائیں کہ نماز ہونے لگی ہے تاکہ لوگ جماعت میں شرکت سے محروم نہ ہوں۔ کچھ نے کہا کہ ایک نشان کھڑا کیا جائے، یہاں تک کہ لوگ اسے دیکھ لیں اور ایک دوسرے کو بتادیں۔ آپ کو یہ تجویز پسند نہیں آئی۔ کچھ نے ناقوس بجانے کی طرف اشارہ کیا تو آپ نے نصاریٰ سے مشابہت کی وجہ سے اسے ناپسند کیا۔ کچھ نے شبور پھونکنے کی تجویز دی جو آپ نے یہود سے مشابہت کی وجہ سے پسند نہیں کی۔ کچھ نے بوق کی تجویز دی جو آپ نے مجوس کی وجہ سے پسند نہیں کی۔ چنانچہ یہ مجلس بغیر کسی فیصلے کے ختم ہو گئی۔‘‘ (۱/ ۱۲۷)

دونوں مصنفین نے صورت حال کو جیسے سمجھا ہے، اسے بیان کر دیا ہے۔ طبری کے اقتباس سے بظاہر یہ لگتا ہے کہ ان کے نزدیک حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے عمل کی وجہ صحابہ کا خواب نہیں تھا، بلکہ آپ نے خود سے اذان کا حکم دیا تھا۔ یہ وہ پہلو ہے جس میں قدیم سے دو آرا ہیں: اذان کی مذہبی حیثیت کو پیش نظر رکھنے والے اس کے آغاز کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف منسوب کرتے ہیں اور صحابہ کے خواب کو اضافی معاملہ سمجھتے ہیں۔ اپنی تائید میں وہ ایسی روایات پیش کرتے ہیں جن میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو اذان پہلے ہی سکھا دی گئی تھی۔ محدثین کا عام رجحان یہ ہے کہ یہ روایات سند کے اعتبار سے زیادہ قوی نہیں ہیں۔ دوسرا نقطۂ نظر یہ ہے کہ اذان کا آغاز صحابہ کے خواب ہی سے ہوا تھا، لیکن اذان کی موجودہ دینی حیثیت نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی تقریر وتصویب اور اجرا ہی سے ہے۔ کسی صحابی کا خواب بھی دین کا ماخذ نہیں ہے۔

اس میں شبہ نہیں کہ امت کو اذان نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی جاری کردہ سنت ہی کی حیثیت سے ملی ہے اور اسے امت کے اجماع وتواتر کی سند حاصل ہے، اس لیے اس کے دین ہونے اور باجماعت نماز کی شریعت کا حصہ ہونے میں کوئی بحث نہیں ہے، لیکن اس کے آغاز کا مسئلہ اس اعتبار سے اہم ہے کہ تمام تعبدی امور سے برعکس طریقہ کیوں اختیار کیا گیا؟ اس کا ایک جواب یہ ہو سکتا ہے کہ اذان بھی وحی کے ذریعے سے براہ راست نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو سکھائی گئی تھی۔ روایات نے صورت واقعہ کو بدل دیا ہے، اس لیے روایات سے پیدا شدہ اس تصویر کو ماننے کی کوئی ضرورت نہیں ہے، جبکہ ایسی روایات موجود ہیں جو حضور کو اذان سکھانے کے واقعے کو بیان کرتی ہیں۔ دوسرا جواب یہ ہو سکتا ہے کہ بعض مصالح کے تحت اذان کا آغاز نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے نہیں کرایا گیا، مثلاً بعض شارحین نے لکھا ہے کہ چونکہ اذان میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا بہت اہتمام سے ذکر ہے، اس لیے صحابہ کے ذریعے سے وہ بات سامنے آئی۔ باقی رہا یہ سوال کہ وحی کے علاوہ بھی کوئی چیز دین کا ماخذ ہو سکتی ہے تو یہ راے رکھنے والے اس کا جواب یہ دیتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کسی مشورے اور تجویز کے نتیجے میں خود کسی چیز کو دین قرار دیں تو اس پر کوئی اعتراض نہیں ہونا چاہیے، اس لیے کہ یہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم ہی ہیں جو ایک چیز کو دین بنا رہے ہیں۔

ہمارے خیال میں صورت حال شاید کافی مختلف ہے۔ کسی نقطۂ نظر کا حامل باجماعت نماز کے اذان کے بغیر شروع ہونے کا انکار نہیں کرتا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ یہ تو ایک حقیقت ہے کہ کچھ عرصہ باجماعت نماز بغیر اذان کے ہوتی رہی ہے۔ اس سے یہ حقیقت بالکل واضح ہو جاتی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے نماز کے لیے بلانے کے معاملے کو تجویز وتدبیر پر موقوف رکھا تھا۔ اللہ تعالیٰ کی طرف سے یہی طریقہ یہود ونصاریٰ کے معاملے میں بھی نظر آتا ہے۔ ان کے ہاں جو بھی طریقہ اختیار کیا گیا، اسے روکا نہیں گیااور نہ اس پر کوئی تنقید بائیبل اور قرآن میں نظر آتی ہے۔ البتہ، اسلام میں یہ تبدیلی نظر آتی ہے کہ ’اَلصَّلٰوۃُ جَامِعَۃٌ‘ کی صدا ہو یا بعد میں اذان کے کلمات، انھوں نے انسانی آواز ہی کو ترجیح دی ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے، جب آپ کے سامنے مختلف تجاویز آئیں، تو کسی کو پسند نہیں کیا، لیکن جب آواز لگانے کی تجویز دی گئی تو آپ نے اسے فوراً اختیار کر لیا۔ مزید براں جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے اذان سے متعلق خواب آئے تو ان کو بھی فوراً اپنا لیا۔ اس سے اسلام کو ایک امتیازی شان حاصل ہو گئی کہ وہ معاملہ جس کا تعلق محض اعلان و اطلاع سے تھا اور جس کے لیے کوئی بھی طریقہ یا الفاظ چنے جاسکتے تھے، ان کے لیے خدا کی کبریائی کے اعلان، بنیادی عقائد اور نماز کی اصل اہمیت کے اظہار کے مجموعے کو نماز کی اطلاع کے ذریعے کے طور پر اختیار کیا گیا ہے۔

واقعات کی ترتیب کے حوالے سے کسی متعین بات تک پہنچنے کے لیے ضروری ہے کہ اس معاملے میں قطعی باتیں کیا ہیں۔ دونوں فریق، یعنی وہ جو اذان کے ابتداءً حضور کو سکھائے جانے کے قائل ہیں اور وہ جو اذان کے ابتداءً صحابہ کو سکھائے جانے کی راے رکھتے ہیں، ایک بات پر متفق ہیں اور وہ یہ ہے کہ باجماعت نماز شروع ہونے کے کچھ عرصہ بعد اذان کا آغاز ہوا تھا۔ ہم یہاں ان روایات کو قصداً نظر انداز کر رہے ہیں جن میں مکہ ہی میں اذان کے آغاز کی بات بیان ہوئی ہے، اس لیے کہ اس نوع کی روایات سے کسی نے اعتنا نہیں کی۔ جب اذان کا آغاز باجماعت نماز سے موخر ہے اور نماز کے لیے بلانے کا مسئلہ صحابہ اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے مابین زیر بحث آیا ہے تو یہ اس بات کا کافی قرینہ ہے کہ اذان کے اولاً حضور کو سکھائے جانے کی بات اتنی قوی نہیں ہے۔

اب رہا یہ سوال کہ زیر بحث روایت میں حضرت عمر کی تجویز کا کیا مطلب تھا۔ ’یُنَادِیْ بِالصَّلٰوۃِ‘ کے الفاظ اور حضور کا حضرت بلال کو ’ قُمْ فَنَادِ بِالصَّلٰوۃِ‘ کہنا بظاہر اذان کے تصور کی عدم موجودگی پر دلالت کرتا ہے۔ چنانچہ کچھ لوگوں نے اذان کے تصور کو اس واقعے کے بعد سامنے آنے کی راے اختیار کی ہے اور کچھ نے کہا ہے کہ حضور نے حضرت بلال کو اذان ہی کا کہا تھا۔ اور اس روایت میں اذان کے تصور کے سامنے آنے کا واقعہ بیان نہیں ہوا، اسی مجلس کے کسی مرحلے میں اذان کاخواب سامنے آگیا تھا۔ واقعے کی کوئی بھی ترتیب محض قیاس پر مبنی ہے جو بھی ترتیب اختیار کی جائے، وہ کسی نہ کسی روایت کے الفاظ کی دلالت سے صرف نظر کیے بغیر اختیار نہیں کی جا سکتی۔ لہٰذا کوئی حتمی راے قائم کرنا ممکن نہیں ہے۔ کوئی خارجی قرینہ بھی ایسا نہیں ہے جو کسی ایک موقف کو ترجیح دینے میں مددگار ہو۔

متون

عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کی زیر بحث روایت کا قدیم ترین متن ’’مصنف عبد الرزاق‘‘ میں منقول ہے:

أخبرنا عبد الرزاق. قال أخبرنا بن جریج. قال أخبرنی نافع أن بن عمر کان یقول: کان المسلمون حین قدموا المدینۃ یجتمعون فیتحینون الصلاۃ.لیس ینادی بہا أحد. فتکلموا یومًا فی ذلک. فقال بعضہم لبعض: اتخذوا ناقوسًا مثل ناقوس النصاری. وقال بعضہم: بل بوقًا مثل بوق الیہود. فقال عمر: أولا تبعثون رجلاً ینادی بالصلاۃ. فقال النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم: یا بلال، قم، فأذن بالصلاۃ.(رقم ۱۷۷۶)
’’ عبدالرزاق ہمیں بتاتے ہیں کہ انھیں ابن جریج نے بتایا تھا۔ابن جریج نے کہا کہ انھیں نافع نے خبردی تھی۔ نافع نے کہا: ابن عمر (رضی اللہ عنہ) کہا کرتے تھے: جب مسلمان مدینہ آئے تو وہ اکٹھے ہوتے تھے اور نماز کا انتظار کرتے تھے۔ اس وقت کوئی نماز کا اعلان نہیں کرتا تھا۔ ایک دن انھوں نے اس مسئلے پر بات کی۔ کچھ نے کہا: نصاریٰ کی طرح ناقوس لے لو۔ کچھ نے کہا: یہود کی طرح بوق لے لو۔ حضرت عمر (رضی اللہ عنہ) نے کہا: تم کوئی آدمی کیوں مقرر نہیں کرتے جو نماز کا اعلان کرے۔ یہ تجویز سن کر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا: بلال، اٹھو، نماز کے لیے اذان دو۔‘‘

اس صورت حال کا ایک بیان ’’موطا امام مالک‘‘ میں ہے:

حدثنی یحیی عن مالک عن یحیی بن سعید أنہ قال: کان رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم قد أراد أن یتخذ خشبتین یضرب بہما لیجتمع الناس للصلاۃ.فأری عبد اللّٰہ بن زید الأنصاری ثم من بنی الحارث بن الخزرج خشبتین فی النوم. فقال: إن ہاتین لنحو مما یرید رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم. فقیل ألا تؤذنون للصلاۃ. فأتی رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم حین استیقظ. فذکر لہ ذلک فأمر رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم بالأذان.(رقم ۱۴۷)
’’یحییٰ بن سعید سے مالک اور وہ یحییٰ سے بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارادہ کر لیا تھا کہ وہ دو لکڑیاں بجا کرلوگوں کو نماز کے لیے جمع کرنے کا طریقہ اختیار کر لیں گے، مگر حضرت عبد اللہ بن زید انصاری، جو قبیلہ خزرج کی شاخ بنی حارث سے تھے، نے خواب میں دو لکڑیاں دیکھیں۔ انھیں خیال ہوا کہ یہ اسی طرح کی لکڑیاں ہیں جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم استعمال کرنا چاہتے ہیں۔ ان سے کہا گیا: تم لوگ نماز کے لیے اذان کیوں نہیں دیتے ہو؟ جب جاگے تو وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور ان سے خواب بیان کیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اذان دینے کا حکم دے دیا۔‘‘

’’دارمی‘‘ میں ’’موطا‘‘ کے انداز کی روایت ہے، لیکن یہ روایت بہت مفصل ہے:

أخبرنا محمد بن حمید. حدثنا سلمۃ. حدثنی محمد بن اسحاق. قال: وقد کان رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم حین قدمہا قال أبو محمد یعنی المدینۃ إنما یجتمع الیہ بالصلاۃ لحین مواقیتہا بغیر دعوۃ. فہم رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم ان یجعل کبوق الیہود الذین یدعون بہ لصلاتہم ثم کرہہ ثم امر بالناقوس. فنحت لیضرب بہ للمسلمین إلی الصلاۃ. فبینما ہم علی ذلک، إذ رأی عبد اللّٰہ بن زید بن عبدربہ أخو الحارث بن الخزرج. فأتی رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم. فقال: یا رسول اللّٰہ انہ طاف بی اللیلۃ طائف مر بی رجل علیہ ثوبان أخضران یحمل ناقوسًا فی یدہ. فقلت یا عبد اللّٰہ أتبیع ہذا الناقوس. فقال: وما تصنع بہ؟ قلت: ندعو بہ إلی الصلاۃ. قال: أفلا أدلک علی خیر من ذلک. قلت: وما ہو؟ قال: تقول: اللّٰہ اکبر، اللّٰہ اکبر، اللّٰہ اکبر، اللّٰہ اکبر. أشہد أن لا إلٰہ إلا اللّٰہ، أشہد أن لا إلٰہ إلا اللّٰہ. أشہد أن محمدًا رسول اللّٰہ، أشہد أن محمدًا رسول اللّٰہ. حی علی الصلاۃ، حی علی الصلاۃ. حی علی الفلاح، حی علی الفلاح. اللّٰہ اکبر، اللّٰہ اکبر. لا إلٰہ إلا اللّٰہ. ثم استأخر غیر کثیر. ثم قال مثل ما قال. وجعلہا وترًا إلا أنہ قال: قد قامت الصلاۃ، قد قامت الصلاۃ. اللّّٰہ اکبر، اللّّٰہ اکبر. لا إلٰہ إلا اللّٰہ. فلما أخبر بہا رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم قال إنہا لرؤیا حق. إن شاء اللّٰہ فقم مع بلال فالقہا علیہ فإنہ أندی صوتًا منک. فلما أذن بلال سمعہا عمر بن الخطاب فقال: فہو فی بیتہ، فخرج إلی رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم، وہو یجر إزارہ، وہو یقول: یا نبی اللّٰہ والذی بعثک بالحق لقد رأیت مثل ما رأی. فقال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: فللّٰہ الحمد، فذاک أثبت.(رقم ۱۱۸۷)
’’ہمیں محمد بن حمید نے بتایا (وہ کہتے ہیں:) ہمیں سلمہ نے بتایا (وہ کہتے ہیں:) مجھے محمد بن اسحاق نے بتایا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب اس میں آئے تھے ابو محمد کہتے ہیں: مراد ہے مدینہ بس لوگ ان کے پاس نماز کا وقت آنے پر نمازپڑھنے کے لیے بغیر بلائے جانے کے جمع ہوجاتے تھے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارادہ کیا کہ وہ یہود کا بوق مقرر کر دیں جس سے یہود اپنی نمازوں کے لیے بلاتے تھے۔ پھر یہ آپ کو اچھا نہیں لگا۔ پھر آپ نے ناقوس بنانے کا کہا۔چنانچہ اسے رندے سے ہموار کردیا گیا تاکہ اسے مسلمانوں کو نماز میں بلانے کے لیے بجایا جائے۔ ابھی وہ اسی راے پر تھے کہ حضرت عبداللہ بن زید بن عبدربہ، حارث بن خزرج کے بھائی نے خواب دیکھا۔ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور انھوں نے کہا: یا رسول اللہ رات ایک پھرنے والے نے میرے پاس چکر لگایا، یعنی دو سبز کپڑوں میں ملبوس میرے پاس ایک آدمی آیا جو ہاتھ میں ناقوس اٹھائے ہوئے تھا۔ میں نے اس سے پوچھا: اللہ کے بندے، یہ ناقوس بیچو گے؟ اس نے کہا: تم اس کے ساتھ کیا کرو گے؟ میں نے کہا: ہم اس کے ذریعے سے نماز کے لیے بلائیں گے۔ اس نے کہا: میں تمھیں اس کا بہتر طریقہ نہ بتا دوں۔ میں نے کہا: وہ کیا ہے؟ اس نے کہا: تم کہو گے: ’اللّٰہ اکبر، اللّٰہ اکبر. اللّٰہ اکبر، اللّٰہ اکبر. اشہد ان لا الٰہ الا اللّٰہ، اشہد ان لا الٰہ الا اللّٰہ. اشہد ان محمدًا رسول اللّٰہ، اشہد ان محمدًا رسول اللّٰہ. حی علی الصلاۃ، حی علی الصلاۃ. حی علی الفلاح، حی علی الفلاح. اللّٰہ اکبر، اللّٰہ اکبر. لا الٰہ الا اللّٰہ‘۔ پھر وہ تھوڑی دیر رکا۔ پھر اس نے وہی کلمات دہرائے اور انھیں اکہرا کر دیا سوائے اس کے کہ (آخر میں اس نے) ’قد قامت الصلاۃ، قد قامت الصلاۃ. اللّٰہ اکبر، اللّٰہ اکبر. لا الٰہ الا اللّٰہ‘ کہا تھا۔ جب انھوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ ساری بات بتائی تو آپ نے کہا: اللہ نے چاہا تو یہ ایک سچا خواب ہے۔ بلال کے ساتھ کھڑے ہوجاؤ اور یہ کلمات اسے سناؤ، کیونکہ وہ تم سے زیادہ بلند آواز ہے۔ جب بلال (رضی اللہ عنہ) نے اذان دی تو اسے عمر بن خطاب (رضی اللہ عنہ) نے سنا۔ وہ اپنے گھر میں تھے۔ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف نکلے اس طرح کہ وہ اپنی ازار گھسیٹتے ہوئے آرہے تھے اور کہہ رہے تھے: اے اللہ کے نبی، اس ذات کی قسم جس نے آپ کو حق کے ساتھ مبعوث کیا، میں نے ایسا ہی دیکھا ہے، جیسا اس نے دیکھا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ کا شکر ہے، اب یہ بات زیادہ محکم ہے۔ ‘‘

’’سیرت ابن اسحاق‘‘ میں اس صورت حال کا بیان ایک اور ہی انداز میں ہوا ہے:

أخبرنا یونس عن عبد الرحمان بن عبد اللّٰہ بن عتبۃ عن عمرو ابن مرۃ عن عبدالرحمن بن أبی لیلی عن معاذ بن جبل قال: أحیلت الصلاۃ ثلاثۃ أحوال وأحیل الصوم ثلاثۃ أحوال. فأما أحوال الصلاۃ فإن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم قدم المدینۃ فصلی نحو بیت المقدس سبعۃ عشر شہرًا. ثم ان اللّٰہ عز وجل حولہ الی القبلۃ. فہذہ حال. وکادوا أن ینقسموا عند حضرۃ الصلاۃ. فجاء عبد اللّٰہ بن زیدالأنصاری فقال یا رسول اللّٰہ لو أخبرتک أنی لم أکن نائمًا صدقتک ان شاء اللّٰہ. إنی بینا أنا بین النائم والیقضان رأیت شخصًا علیہ ثیاب خضر. واستقبل القبلۃ فقال اللّٰہ اکبر....(۵/ ۲۷۸)
’’ یونس حضرت عبد الرحمان بن عبد اللہ سے بیان کرتے ہیں۔ وہ عمرو بن مُرہ سے بیان کرتے ہیں۔ وہ عبدالرحمان بن ابی لیلیٰ سے بیان کرتے ہیں۔ وہ معاذ بن جبل (رضی اللہ عنہ) سے بیان کرتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں: نماز پر تین دور گزرے ہیں اور روزے پر بھی تین دور گزرے ہیں۔ نماز کے احوال یوں ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ آئے تو آپ نے سترہ ماہ تک بیت المقدس کی طرف رخ کرکے نماز پڑھی۔ پھر اللہ تعالیٰ نے آپ کا رخ قبلے کی طرف کر دیا۔ یہ ایک دور ہے۔ پھر یہ ہوا کہ وہ نماز کے موقع پر آنے میں الگ الگ ہونے لگے (یعنی کوئی پہلے اور کوئی بعد میں پہنچتا)۔ اس موقع پر عبد اللہ بن زید انصاری رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے۔ انھوں نے کہا: اے اللہ کے رسول، اگر میں یہ کہوں کہ میں سویا ہوانہیں تھا تو ان شاء اللہ میں سچ کہوں گا۔ میں سوتے اور جاگتے کی حالت میں تھا کہ میں نے ایک آدمی کو دیکھا ۔ اس نے سبز کپڑے پہنے ہوئے تھے۔ وہ قبلہ رو ہوا اور اس نے اذان دی...۔‘‘

ان روایتوں کے مطالعے سے واضح ہو جاتا ہے کہ واقعات اور گفتگووں کا ایک سلسلہ ہے جسے مختلف راوی مختلف ترتیب سے جوڑ کر بیان کر رہے ہیں۔ مزید براں یہ کہنا بھی نا ممکن ہے کہ کون سے اجزا قیاسی ہیں اور کون سے اجزا حقیقی ہیں۔

ان روایات میں واقعے کے بیان میں کچھ اختلافات بھی ہیں۔ مثلاً عبد الرزاق کی روایت میں گفتگو میں حضور کی موجودگی کا اظہار واضح نہیں ہے۔ اور تجویزوں کی نسبت بھی لوگوں کی طرف کی گئی ہے، جبکہ ’’موطا‘‘ میں دو لکڑیوں کی تجویز باقاعدہ اختیار کر لینے کو نمایاں کیا گیا ہے۔ پہلی روایت میں خواب کا ذکر نہیں اور اس میں خواب کا ذکر شامل کر لیا گیا ہے۔ ’’دارمی‘‘ میں تجویزوں کی نسبت نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف کی گئی ہے اور عبد اللہ بن زید کے ساتھ حضرت عمر کے خواب کو بھی بیان کیا گیا ہے۔ عبد الرزاق کی روایت میں حضرت عمر تجویز کرنے والوں میں شامل تھے اور انھوں نے ندا کی تجویز بھی پیش کی تھی، جبکہ ’’دارمی‘‘ کی روایت میں اس تجویز کا کوئی نام ونشان نہیں ہے۔ ابن اسحاق کی روایت میں تجویزوں کے معاملے کا بالکلیہ ذکر نہیں ہے۔ صرف وقت پر حاضری کے مسئلے کا بیان ہے۔ مزید براں اس روایت میں یہ تصریح بھی کی گئی ہے کہ اذان کا اجرا تحویل قبلہ کے بعد ہوا تھا۔ یہی حال اس مسئلے سے متعلق دوسرے متون کا ہے۔ چنانچہ یہ تو ماناجا سکتا ہے کہ کچھ گفتگوئیں، کچھ تجویزیں، کچھ عرصہ اذان کے بغیر باجماعت نماز ہونا، کچھ صحابہ کو اذان کا خواب آنا وغیرہ امور تو ہوئے ہیں، لیکن ان کی کوئی تفصیلی ترتیب قائم کرنا ممکن نہیں ہے۔

’’مصنف عبد الرزاق‘‘ میں مسلم کی زیر بحث روایت مختصر ترین سند کے ساتھ منقول ہے۔ میرے استقصا کی حد تک باقی کتب حدیث میں جریج کی سند سے مروی یہ روایت کم وبیش انھی الفاظ میں مروی ہے، لیکن حیرت انگیز بات یہ ہے کہ اس روایت کے آخری جملے میں ’’مصنف عبد الرزاق‘‘ کے متن کے علاوہ ’فَنَادِ‘ کا لفظ ہر متن میں موجود ہے۔ معلوم ہوتا ہے یہ تبدیلی ’’مصنف عبدالرزاق‘‘ کے بعد ہوئی ہے۔ اذان کا لفظ اذان کے تصور کے وجود میں آنے کے بعد ہی موجودہ معنی میں بولا جا سکتا ہے۔ ممکن ہے ’’مصنف عبدالرزاق‘‘ میں یہ لفظ لغوی معنی میں ہو اور یہ بھی ممکن ہے کہ عبدالرزاق یا جریج اس لفظ سے یہ اشارہ دینا چاہتے ہیں کہ حضرت عمر نے اذان کا لفظ خواب دیکھنے کے بعد اذان ہی کے معنی میں بولا تھا۔

اذان سے متعلق روایات میں معراج میں اذان سکھایا جانا، حضرت بلال اور حضرت عمر رضی اللہ عنہما کا حضرت جبریل کی اذان کی آواز سننا، حضور کو اذان کا حکم الگ سے اللہ تعالیٰ کی طرف سے ملنا، تجاویز میں بوق اور ناقوس کے علاوہ جھنڈا بلند کرنے اور آگ جلانے کی تجاویز بھی روایت ہوئی ہیں۔ خلاصۂ کلام یہ ہے کہ مختلف اور متضاد بیانات سے کتب روایت میں واسطہ پڑتا ہے۔ ہم نے اوپر نمایندہ روایات درج کر دی ہیں۔ اسی سے واضح ہو جاتا ہے کہ صورت معاملہ کے واضح پہلو کیا ہیں اور مبہم پہلو کیا ہیں۔

کتابیات

موطا، رقم۸۵۷؛ بخاری، رقم۵۷۸، ۵۷۹، ۵۸۱، ۳۲۷۰؛ مسلم، رقم ۳۷۷؛ ابوداؤد، رقم۵۰۶؛ نسائی، رقم ۶۲۶؛ ترمذی، رقم۱۹۰؛ ابن ماجہ، رقم۷۲۹؛ احمد، رقم۶۳۵۷؛ ابن حبان، رقم۱۶۷۸؛ ابن خزیمہ، رقم۳۶۱، ۳۶۷، ۳۶۸؛ دارمی، رقم۱۱۸۷؛ بیہقی، رقم۱۷۰۱، ۱۷۰۲، ۱۷۸۳، ۱۸۰۴؛ عبدالرزاق، رقم۱۷۷۶؛ مستدرک، رقم ۴۷۹۸۔

__________

۱؂ طبری نے لکھا ہے کہ علما کی راے میں اذان سے پہلے ’اَلصَّلٰوۃُ جَامِعَۃٌ‘ کی ندا رائج تھی۔ دیکھیے: تفسیر سورۂ مائدہ ۵ : ۵۸۔

______________

B