HomeQuranHadithMizanVideosBooksBlogs
مصنف : متفرق

تازہ ہر عہد میں ہے قصۂ فرعون و کلیم

[’’نقطۂ نظر‘‘ کا یہ کالم مختلف اصحاب فکر کی نگارشات کے لیے مختص ہے۔ اس
میں شائع ہونے والے مضامین سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔]


مصر کے مشرق میں واقع شہر عریش کے ایک علاقے راس سدر میں جزیرہ نماے سینا کے مغربی ساحل پر وہ مقام ہے جہاں فرعون کی لاش تیرتی ہوئی پائی گئی تھی ،یہ مقام آج کل ’’جبل فرعون‘‘ کہلاتا ہے اور جبل فرعون کے قریب ہی وہ چشمہ واقع ہے جہاں سے کارکنان قضا و قدر نے اسے پانی سے باہر لا پھینکا تھا، اس چشمے کا پانی گرم ہے اوراسے مقامی روایت میں ’’حمام فرعون‘‘ کہا جاتا ہے۔ یہاں سے حاصل ہونے کے بعد اسے بھی دیگر فراعنہ کی طرح اہرام میں منتقل کیا گیا ہو گا، کیونکہ اہرامات فراعنہ کی لاشوں کو محفوظ کر نے کے لیے تعمیر کیے گئے تھے، لیکن اب عبرت کے یہ نشان مصر کے عالی شان عجائب گھر میں ہیں، اس عجائب گھر کی بنا، جسے عربی میں ’’المتحف المصری‘‘ کہا جاتاہے، یکم اپریل ۱۸۹۷ کو رکھی گئی اور اسے ۱۵؍ نومبر ۱۹۰۲ کوعوام کے لیے کھولا گیا، یہ قاہرہ کے مشہور علاقے میدان تحریر میں ہے اور اس کے ۱۰۷ کمروں اور گیلریوں میں ایک لاکھ بیس ہزار نوادر رکھے گئے ہیں، اس کا شمار دنیا کے بڑے عجائب گھروں میں ہو تا ہے ،اس عجائب گھر میں داخل ہوتے ہوئے مجھے اس کی نسبت سر سید احمد خان کی راے یاد آئی، انھوں نے لکھا تھا: ’’میوزیم مصر کا ،یعنی عجائب خانہ ایسا عمدہ ہے کہ مصر کی پرانی چیزوں کے لیے اپنا نظیر نہیں رکھتا،پرانی لاشیں جو ممی کہلاتی ہیں اور پرانی صنائع مصر کی نہایت خوب صورتی اور عمدگی سے آراستہ ہیں اور بہت فائدہ بخش،عبرت انگیز اور حیرت خیز ہیں‘‘۔ سرسید کے اس زاویۂ نظر پر ایک صدی سے زیادہ عرصہ گزر چکا ہے، لیکن یہ راے اب بھی بے نیاز تردید ہے۔ سرسید نے جن ممیوں کا ذکر کیا ہے، ان میں رعمسیس ثانی کی ممی بھی شامل ہے۔ مشہور روایت کے مطابق رعمسیس ثانی ہی فرعون موسیٰ تھاجس کی لاش کے بارے میں محققین نے بتایا ہے کہ ۱۹۰۷ء میں سر گرافٹن الیٹ سمتھ نے اس کی ممی پر سے پٹیاں کھولی تھیں تو اس پر نمک کی ایک تہ جمی ہوئی پائی گئی تھی جس سے یہ نتیجہ نکالا جاتا ہے کہ یہ ایک عرصے تک پانی میں رہنے کی نشانی ہے۔مصر کے مشہور عجائبات اہرام اور ابوا لہول تو شہر سے باہر ہیں، لیکن یہ عجائب گھر شہر میں ہے۔ یہاں داخلے کا ٹکٹ پچاس مصری پاؤنڈ کا ہے، ہم اس ٹکٹ سے تو مستثنیٰ تھے، لیکن اندر ممیوں کے حصے میں جانے کے لیے جو الگ ٹکٹ تھا، ہمارے پاس موجودڈپلومیٹک کارڈکے باوجود خریدنا ضروری تھا، ایک شخص کے لیے ایک ٹکٹ کی قیمت ایک سو مصری پاؤنڈ تھی، یعنی پاکستانی بارہ تیرہ سو روپے ،سو ادا کی گئی اور ہم ممیوں کے سیکشن میں داخل ہو گئے، یہاں غالباً سترہ ممیاں ہیں۔ایک مستطیل کمرے کے چاروں جانب اطراف میں چلنے کی جگہ چھوڑ کرشیشے کے شو کیس رکھے گئے ہیں جن میں قدیم فراعنہ اپنے اصل جسموں کے ساتھ موجود ہیں، ان میں سے اکثر کی صورتیں ہیبت ناک ہو چکی ہیں اور ان کی جلد ختم ہو کر نیچے سے نکلنے والا حصۂ جسم بالکل سیاہ ہو چکا ہے۔ دو شہزادیوں کی ممیاں بھی ہیں، لیکن ان کے جسم مکمل طور پر ڈھانپے ہوئے ہیں، انھیں دیکھا نہیں جا سکتا صرف ان کی تفصیل پڑھی جا سکتی ہے اور کفن پوش لاش دیکھی جا سکتی ہے۔ فراعنہ، البتہ کندھوں سے اوپر کے جسم کے ساتھ چہروں، بازووں اور قدموں سمیت دیکھے جا سکتے ہیں، ان میں سے بعض کے سراپنے وجود سے الگ ہو چکے ہیں، لیکن اس طرح رکھے گئے ہیں کہ جسم سے جدا نہ ہوں۔ البتہ، جبینوں کی شکست کو روکا نہیں جا سکا اور جس نے جس کیفیت میں یہ دنیا چھوڑی، وہ کیفیت بھی جوں کی توں ہے۔ان کے قد وقامت بھی آج کل کے عام انسانوں کے مانند ہیں کوئی خاص فرق نہیں، جسامت بھی معمولی ہے۔ ہو سکتا ہے کہ مرور ایام سے جسم اپنی اصل کے مقابلے میں سکڑ گیا ہو، تاہم قامت تو یقیناً وہی ہے۔

مجھے فطری طور پرسب سے زیادہ دل چسپی رعمسیس ثانی کی ممی سے تھی۔ ہم پاکستانی تو اسے ایک ملعون و مغضوب کے طور پر ہی جانتے ہیں، لیکن یہاں مصر میں آکر دیکھا کہ قاہرہ شہر کا ایک اہم علاقہ اس کے نام سے منسوب ہے جسے میدان رعمسیس کہا جاتاہے، ایک سڑک اس کی یادگار ہے، ایک فائیو سٹار ہو ٹل کانام اس کے نام پر رکھا گیا ہے اور اس کے سوانح اور فضائل پر بڑی بڑی کتابیں شائع کی گئی ہیں ،فرعون کے بارے میں معلومات کے مآخذ وہ تحریریں بتائی جاتی ہیں جو فراعنہ کی لاشوں اور عمارتوں پر درج تھیں، یہ عبارتیں ایک زمانے تک نہیں پڑھی جا سکی تھیں، کہا جاتا ہے کہ اب انھیں پڑھ لیا گیا ہے اور اس زبان کا نام ہیرو غلیفی (Heroghlafic) ہے، ان معلومات کے مطابق یہ صاحب ۱۲۷۹ قبل مسیح میں پیدا ہوئے اور ۱۲۱۳ قبل مسیح تک جہان رنگ و بو کو دیکھا۔ ۲۰ برس کی عمر میں اقتدار سنبھالا اور ۸۶ سالہ زندگی میں ۶۷ برس اقتدار کے مزے لیے ۔اسے توسیع سلطنت کا شوق تھا جس کے نتیجے میں اس کے عہد میں مصر کی سلطنت وسیع ہوئی اور بعض قریبی منطقوں سے عمر بھر اس کی آویزش جاری رہی ،آج جس علاقے کو ملک شام کہا جاتا ہے، یہ بھی ان منطقوں میں شامل ہے جسے فرعون کے توسیع پسندانہ عزائم کا سامنا رہا ۔یہ ایک پرجوش اور شوقین مزاج حکمران تھا جس نے اپنے دور میں بہت سی عمارات تعمیر کرائیں۔ اس کی تعمیرات میں ابوسمبل کے معبد کے آثار آج تک موجود ہیں۔ اس کی قانونی بیویوں کی تعداد دو سو تھی جن سے اس کے چھیانوے بیٹے اور ساٹھ بیٹیاں پیدا ہوئیں، وہ اپنی اولاد کے بارے میں مکمل معلومات سے محروم رہا۔ اس کی اہم بیوی کو’’ چیف وائف ‘‘کہا جاتا ہے جس کا نام نفرتاری (Nafertari) تھا۔ ابھی پچھلے سال ۲۷ ؍جون ۲۰۰۷ کو مصر کے ایک ماہر آثار قدیمہ ڈاکٹر حواس اور ان کے ساتھیوں نے تین ہزار سال پرانی ایک اور ممی کے بارے میں اپنی تحقیق پیش کی ہے جس میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ یہ مصر کی ایک قدیم حکمران خاتون کی ممی ہے جس کا نام (Hatshepsut) ہے، یہ مصر کی سب سے طاقت ور حکمران خاتون تھی ،اس کے ڈی۔ این۔ اے ٹیسٹ کی ابتدائی رپورٹ کے مطابق اس کاخاندانی تعلق فرعون کی ’’چیف وائف‘‘ نفرتاری سے تھا۔

میرے لیے سب سے اہم سوال یہ تھا کہ آیا یہ وہی فرعون ہے جو حضرت موسیٰ علیہ السلام کے زمانے میں تھا یا کوئی اور؟ عام اور مشہور روایت یہی بتاتی ہے کہ یہ وہی حضرت ہیں جنھیں دعواے خدائی کا عارضہ لاحق تھا، شیشے کے جس محبس میں یہ اب بند ہے، اس پر یہ تو لکھا ہے کہ اسے دانتوں اورجوڑوں کے درد کی تکلیف تھی، یہ نہیں بتایا گیا کہ اسے خرابی دماغ کا مرض بھی لاحق تھا۔ بہر حال میں نے اس کے زمانے سے متعلق معلومات حاصل ہونے پر حضرت موسیٰ علیہ السلام کے زمانے کی بابت جاننا چاہا۔ Encyclopedia of World Biography کے مطابق حضرت موسیٰ علیہ السلام ۱۳۹۲ قبل مسیح میں پیدا ہوئے اور ۱۲۷۲ قبل مسیح میں انتقال فرمایا،زمانۂ قبل مسیح کے سنین حتمی طور پر کون بتا سکتا ہے، قیاس اور اندازے کی ہمراہی ہی میں یہ سفر کیا جاتا ہے ،تاہم ان سنین سے یہ بات پایۂ ثبوت کو پہنچتی دکھائی دیتی ہے کہ رعمسیس ثانی حضرت موسیٰ علیہ السلام کا معاصر تھا۔میں تمام ممیوں کو دیکھ چکا توایک بار پھر رعمسیس ثانی کی طرف بڑھا،اچانک ایک شناسا ئی کا احسا س ہوا،پاکستانی شلوار قمیص میں ملبوس ایک فربہ وجود،ساتھ کے شو کیس پر جھکا ہوا تھا،میں چونکا: ارے! یہ تو ندیم شفیق ملک ہیں، وہ گذشتہ روز ہی قاہرہ پہنچے تھے،سلام کے بعد کلام اسی سوال سے شروع ہوا کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے زمانے کا فرعون کون سا ہے؟ میں نے رعمسیس ثانی کی ممی کی طرف اشارہ کیا اورہم دونوں اس کے قریب آگئے، ان کے ذہن میں کروٹ لیتے سوالات کا جواب دیتے ہوئے میں نے وضاحت کی کہ بعض لوگوں کا کہنا ہے کہ حضرت موسیٰ کی پرورش رعمسیس اول نے کی تھی اور حضرت موسیٰ کا مقابلہ رعمسیس ثانی نے کیا تھا، لیکن مجھے یو ں لگتا ہے کہ حضرت موسیٰ کی پرورش اور آپ کا مقابلہ، دونوں باتیں رعمسیس ثانی ہی کے دور میں ہوئیں، اس لیے کہ قرآن پاک کے مطابق جب حضرت موسیٰ نے دعواے نبوت کیا تو فرعون نے ان سے کہا تھا کہ تم وہی تو ہو جو کل تک ہمارے سامنے ایک بچے تھے اور ہم نے تمھاری پرورش کی تھی:

قَالَ اَلَمْ نُرَبِّکَ فِیْنَا وَلِیْدًا وَّلَبِثْتَ فِیْنَا مِنْ عُمُرِکَ سِنِیْنَ.(الشعراء ۲۶: ۱۸)
’’فرعون نے کہا کہ کیا ہم نے تجھے تیرے بچپن کے زمانہ میں نہیں پالا تھا اور تونے اپنی عمر کے بہت سے سال ہم میں نہیں گزارے۔‘‘

رعمسیس ثانی کی ممی کے تابوت یا شو کیس پر اس کا زمانۂ حکومت ۶۷ سال بتایا گیا ہے۔ اس سے بھی اس خیال کو تقویت ملتی ہے کہ ۶۷ سالوں میں تو حضرت موسیٰ کی پرورش سے اعلان نبوت تک کے تمام مراحل آسکتے ہیں، اس لیے کہ عام طور سے نبوت ملنے کی عمر چالیس سال رہی ہے۔ فرعون کے بازو ایک دوسرے کے اوپر کراس بناتے ہوئے نمایاں ہیں اور ان پر کچھ مرہم پٹی بھی کی گئی ہے، اس کے ہاتھوں اور پیروں کے ناخن اورسر کے بال بھی بعینہٖ ہیں، (سر کے بالوں کے بارے میں بتایا گیا ہے کہ ان کی ممی فیکیشن کی گئی ہے)، البتہ ڈاڑھی غائب ہو چکی ہے۔ میں سوچ رہا تھا کہ کیا یہی وہ بازو ہیں جو بچپن میں حضرت موسیٰ علیہ السلام کو کھلایا کرتے تھے اور کیا یہی وہ حضرت ہیں،روایت کے مطابق ،جن کی ڈاڑھی کے موتیوں کو کم سن بچے نے توڑ کر اسے اس کے بر خود غلط ہو نے کا احسا س دلایا تھا اور جس کے نتیجے میںیہ غضب ناک ہو گیا تھا۔ میں چشم تصور سے فرعونی دربار کے وہ مناظر دیکھ رہا تھا جب جادو گروں نے اپنی رسیاں پھینک دی تھیں اور حضرت موسیٰ سے اپنی صداقت کی دلیل لانے کے لیے کہا تھا۔ حضرت موسیٰ کا عصا ان رسیوں کو نگل رہا تھا اورجادوگروں کی آنکھیں یو ں کھل رہی تھیں کہ اب انھیں اپنے فن سے بڑھ کر حضرت موسیٰ کی صداقت پر یقین آرہا تھا اور جب عصاے موسوی نے ان کے جھوٹے سانپوں کو کھا لیا تو اس وقت تک جادو گروں کے دل کی حالت بدل چکی تھی اوروہ پکار اٹھے تھے کہ موسیٰ کا خدا سچا ہے اور ہم اس پر ایمان لاتے ہیں۔ اس احقاق حق پر فرعون کا رد عمل وہی تھا جو اس نوع کے حکمرانوں کا ہوا کرتا ہے، اسے اس میں ایک گہری سازش کارفرما دکھائی دینے لگی اور اس نے غضب ناک ہو کر کہا کہ تمھیں میری اجازت کے بغیر یہ اعلان کر نے کی جرأت کیسے ہوئی، میں تمھارے ہاتھ اور پاؤں مخالف سمتوں سے کٹوا دوں گا تاکہ تم عمر بھر نشان عبرت بنے رہو، لیکن وہ صاحب فن تھے، وہ اپنے فن کی ناپائداری اور موسیٰ علیہ السلام کے معجزے کی استواری سے آگاہ ہو چکے تھے، ان پر حقیقت اور سراب کا فرق واضح ہو چکا تھا اور نشان عبرت بننا فرعون کے مقدر میں لکھا جا چکا تھا۔ میں اسی نشان عبرت کے سرہانے کھڑا تھا۔ میں نے اسے مخاطب کر کے کہا: دعواے خدائی کی جہالت میں اب تم اکیلے نہیں ہو آؤ، تمھیں دکھاؤں بزعم خویش رب اعلیٰ ہو نے کے کتنے مدعی موجود ہیں اور تم سے بڑھ کر سفاکی اور درندگی کا مظاہرہ کر رہے ہیں،تم تو بنی اسرائیلیوں کے دشمن تھے، یہ بنی نوع انسان ہی کے دشمن ہیں، لیکن تمھارے انجام سے بے خبر،انھیں نہیں معلوم کہ آخری وقت تو تمھاری بھی آنکھیں کھل گئی تھیں، لیکن اس وقت چڑیاں اپنا کھیت چگ چکی تھیں اور تمھارے مقدر میں پچھتاوے اور ملامت کے سوا کچھ نہ تھا :

وَجٰوَزْنَا بِبَنِیْٓ اِسْرَآءِ یْلَ الْبَحْرَ فَاَتْبَعَھُمْ فِرْعَوْنُ وَجُنُوْدُہٗ بَغْیًا وَّعَدْوًا حَآّٰی اِذَآ اَدْرَکَہُ الْغَرَقُ لا قَالَ اٰمَنْتُ اَنَّہٗ لَآ اِلٰہَ اِلَّا الَّذِیْٓ اٰمَنَتْ بِہٖ بَنُوْٓا اِسْرَآءِ ےْلَ وَاَنَا مِنَ الْمُسْلِمِیْنَ.(یونس۱۰: ۹۰)
’’اور ہم نے بنی اسرائیل کو دریا سے پار اتار دیا، پھر ان کے پیچھے پیچھے فرعون اپنے لشکر کے ساتھ ظلم اور زیادتی کے ارادے سے چلا، یہاں تک کہ جب ڈوبنے لگا تو کہنے لگا کہ میں ایمان لاتا ہوں اس پر جس پر بنی اسرائیل ایمان لائے ہیں،اس کے سوا کوئی معبود نہیں اور میں مسلمانوں میں سے ہوں۔‘‘

لیکن اب عذر معذرت کا وقت ختم ہو چکا تھا اب جو نجات ممکن تھی، وہ فقط اتنی تھی کہ تمھارے بدن کوسمندر کی موجوں نے اگل دیا اور تمھیں آنے والوں کے لیے نشان عبرت بنادیا گیا۔ اب اگر میں تمھارے سرہانے کھڑا تمھیں فرعون موسیٰ کی حیثیت سے خطاب کر رہا ہوں تو اس کا سبب بھی میرے سچے خدا کا یہ فرمان ہے کہ:

فَالْیَوْمَ نُنَجِّیْکَ بِبَدَنِکَ لِتَکُوْنَ لِمَنْ خَلْفَکَ اٰیَۃً وَاِنَّ کَثِیْرًا مِّنَ النَّاسِ عَنْ اٰیٰتِنَا لَغٰفِلُوْنَ.(یونس۱۰: ۹۲)
’’سو آج ہم صرف تیری لاش کو نجات دیں گے تاکہ تو ان کے لیے نشان عبرت ہو جو تیرے بعد ہیں اور حقیقت یہ ہے کہ بہت سے آدمی ہماری نشانیوں سے غافل ہیں۔‘‘

میں نے فرعون سے کہا: سنو، میں اللہ کی نشانیوں سے غافل ہونے والوں میں شامل نہیں ہو نا چاہتا، بلکہ تمھیں بتانا چاہتا ہوں کہ تم جھوٹے تھے جو آج معمولی ملازموں کے رحم وکرم پر بے حس و حرکت پڑے ہو میرا حی و قیوم خدا سچا ہے، پھر میں نے اسی کمرے میں عصر کی نماز ادا کر کے اپنے رب کی توحید ،بزرگی، جلالت اور عظمت کا اقرار کیا:

رہے ہیں اور ہیں فرعون میری گھات میں اب تک

مگر کیا غم کہ میری آستیں میں ہے ید بیضا

__________

B