[المورد میں خطوط اور ای میل کے ذریعے سے دینی موضوعات پر سوالات موصول ہوتے ہیں۔ المورد کے شعبۂ علم و تحقیق اور شعبۂ تعلیم و تربیت کے رفقا ان سوالوں کے جواب دیتے ہیں۔ یہاں ان میں سے منتخب سوال و جواب کو افادۂ عام کے لیے شائع کیا جا رہا ہے۔]
سوال: پردے کے بارے میں صحیح نقطۂ نظر کیا ہے؟(صبیحہ خان)
جواب:بالغ عورت کے لیے پردے کا وہ تصور جو ہمارے ہاں پایا جاتا ہے ، یہ قرآن و حدیث سے ثابت نہیں ہے۔ چنانچہ یہ بات غلط ہے کہ عورت کو نامحرموں سے اپنا چہرہ،ہاتھ اور پاؤں لازماً چھپانا چاہیے۔
صحیح بات یہ ہے کہ مسلمان مرد وں اور عورتوں کو ان کے میل جول کے موقعوں کے حوالے سے کچھ ضروری آداب سکھائے گئے ہیں۔ ان آداب کا ذکر قرآن مجید کی سورۂ نور میں موجود ہے۔ ان میں غض بصر، شرم گاہوں کی حفاظت اور اپنی زینتیں ظاہر نہ کرنے کا حکم تو موجود ہے، لیکن نامحرموں سے اپنے چہرے ڈھانکنے کا حکم موجود نہیں ہے۔
چنانچہ ایک مسلمان خاتون نامحرموں کے سامنے اپنا چہرہ اور ہاتھ پاؤں کھلے رکھ سکتی ہے، اس کے علاوہ وہ ایسا لباس اور چادر وغیرہ پہنے گی جس سے اس کی زینتیں ہر گز ظاہر نہ ہوں۔ چہرہ کھلا رکھنے کا مطلب بھی یہ نہیں ہے کہ عورت کو چہرے کی زینتیں جان بوجھ کر نمایاں کرنے اور دکھانے کی اجازت دے دی گئی ہے۔ نہیں، بلکہ جس چیز کی اجازت دی گئی ہے، وہ یہ ہے کہ چہرے اور ہاتھوں وغیرہ کی حد تک جو زینت عام طور پر ظاہر ہو جایا کرتی ہے، اسلام میں اس کو روا رکھا گیا ہے۔ چنانچہ کوئی عورت چہرے کی زینت کو بھی جان بوجھ کر ظاہر نہیں کر سکتی۔
سورۂ نور کے علاوہ سورۂ احزاب میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج کے حوالے سے بعض احکام دیے گئے ہیں، ان میں یہ بات موجود ہے کہ اگر کسی کو ان سے کوئی چیز مانگنی ہے تو وہ پردے کی اوٹ سے مانگے،لیکن یہ اور اس طرح کے کچھ اور احکام اصلاً آپ کی ازواج ہی کے ساتھ خاص تھے، جیسا کہ سورۂ احزاب کے اپنے الفاظ سے پتا چلتا ہے۔ اسی سورہ میں مدینے میں موجود منافقین کی شرارتوں سے بچنے کی غرض سے مسلمان عورتوں کو باہر نکلتے ہوئے اپنے اوپر بڑی چادر لینے کا حکم دیا گیا، سورہ کے الفاظ سے پتا چلتا ہے کہ یہ حکم اس صورت حال سے نبٹنے کے لیے ایک حل کے طور پر دیا گیا تھا۔ اسے سورۂ نور میں موجود احکام کی طرح شریعت کا مستقل حصہ نہیں بنایا گیا تھا۔ پردے کے معاملے میں علماے امت میں اختلاف اس وجہ سے پیدا ہوا ہے کہ انھوں نے ان سب احکام کو بالواسطہ طور پر پوری امت سے متعلق سمجھ لیا ہے۔
سوال: اسلام میں حیا کا کیا تصور ہے؟ کیا حیا صرف جنسی معاملات تک ہی محدود ہے یا اس کا دائرہ اس سے وسیع ہے ، اگر وسیع ہے تو اور کون کون سی چیزیں اس کے دائرے میں آتی ہیں؟(عائشہ خان)
جواب: حیا سے مراد وہ جھجک یا نفسیاتی رکاوٹ نہیں ہے جس کا باعث عام طور پر ہمارا خارج ہوتا ہے، بلکہ حیا انسان کے اندر پائی جانے والی وہ خوبی یا صفت ہے جس کی وجہ سے وہ غیر معروف اعمال سرانجام دینے میں انقباض (گھٹن) محسوس کرتا ہے۔
آدم و حوا علیہما السلام سے غلطی سرزد ہو جانے کے نتیجے میں جب ان پر ان کی شرم گاہیں کھل گئیں تو وہ اس فطری حیا ہی کی وجہ سے خود کو پتوں سے ڈھانکنے لگے تھے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
فَلَمَّا ذَاقَا الشَّجَرَۃَ بَدَتْ لَہُمَا سَوْاٰتُہُمَا وَطَفِقَا یَخْصِفٰنِ عَلَیْہِمَا مِنْ وَّرَقِ الْجَنَّۃِ.(الاعراف۷: ۲۲)
’’پھر جب انھوں نے اس درخت کا پھل چکھ لیا تو ان کی شرم گاہیں ان کے سامنے بے پردہ ہو گئیں اور وہ اپنے آپ کو باغ کے پتوں سے ڈھانکنے لگے۔‘‘
شرم گاہوں کو چھپانے کا یہ اضطراری عمل اس فطری حیا ہی کا ظہور تھا، اس لیے کہ انسان فطری طور پر یہ جانتا ہے کہ شرم گاہیں چھپانے کی چیز ہیں۔
موسیٰ علیہ السلام نے مدین کے کنویں پر جن دو لڑکیوں کی بکریوں کو پانی پلایا تھا، ان میں سے ایک جب انھیں اپنے باپ کے پاس لے جانے کے لیے بلانے آئی تو اس وقت اس کے آنے میں حیا کی جو صفت نمایاں تھی، قرآن نے درج ذیل الفاظ میں اس کا ذکر کیا ہے:
فَجَآء تْہُ اِحْدٰہُمَا تَمْشِیْ عَلَی اسْتِحْیَآءٍ قَالَتْ اِنَّ اَبِیْ یَدْعُوْکَ لِیَجْزِیَکَ اَجْرَ مَا سَقَیْتَ لَنَا.(القصص۲۸: ۲۵)
’’پس ان میں سے ایک شرماتی ہوئی آئی، کہا کہ میرے والد آپ کو بلاتے ہیں تاکہ جو پانی آپ نے ہماری خاطر پلایا ہے، اس کا آپ کو صلہ دیں۔‘‘
قرآن نے یہاں ایک کنواری عورت کی اس فطری حیا کا ذکر کیا ہے جواسے کسی غیر محرم مرد سے بات کرتے ہوئے محسوس ہو سکتی ہے۔
اسی طرح ایک کریم النفس آدمی دوسرے کی عزت نفس کا خیال کرتے ہوئے بعض اوقات اس سے اپنا حق وصول کرنے میں بھی حیا محسوس کرتا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
وَلٰکِنْ اِذَا دُعِیْتُمْ فَادْخُلُوْا فَاِذَا طَعِمْتُمْ فَانْتَشِرُوْا وَلَا مُسْتَاْنِسِیْنَ لِحَدِیْثٍ اِنَّ ذٰلِکُمْ کَانَ یُؤْذِی النَّبِیَّ فَیَسْتَحْیٖ مِنْکُمْ وَاللّٰہُ لَا یَسْتَحْیٖ مِنَ الْحَقِّ.(الاحزاب۳۳: ۵۳)
’’ہاں جب تمھیں (نبی کے گھر میں) کھانے پر بلایا جائے تو ضرور آؤ، پھر جب کھا چکو تو منتشر ہو جاؤ اور باتوں میں لگے ہوئے بیٹھے نہ رہو،یہ باتیں نبی کو تکلیف دیتی ہیں، مگر وہ تم سے کہتے ہوئے شرماتے ہیں اور اللہ تعالیٰ حق کے اظہار میں نہیں شرماتا۔‘‘
یہ شرمانا دراصل دوسرے کی عزت نفس کا خیال کرتے ہوئے اس کا لحاظ کرنا ہے۔ چنانچہ اس حوالے سے بھی ایک کریم النفس آدمی کئی جگہوں پر شرم محسوس کرتا ہے۔ خدا ظاہر ہے کہ انسان کا خالق، رب اور معبود ہے، چنانچہ وہ اس سے بہت بالا ہے کہ کسی انسان کی عزت نفس اسے اپنا یا کسی دوسرے کا کوئی حق بیان کرنے سے روک دے۔
دین کے نزدیک حیا ایک بڑی قدر کی حیثیت رکھتی ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے:
اَلْاِیمَانُ بِضْعٌ وَّسِتُّوْنَ شُعْبَۃً وَالْحَیَاءُ شُعْبَۃٌ مِنْ الْاِیْمَانِ.(بخاری، رقم۹)
’’ایمان کی ستر سے کچھ اوپر شاخیں ہیں اور حیا ایمان کی ایک شاخ ہے۔‘‘
نیز آپ نے فرمایا:
اَلْحَیَاءُ کُلُّہُ خَیْرٌ.(مسلم، رقم۳۷)
’’حیا تو خیر ہی خیر ہے۔‘‘
خود نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں آپ کے صحابۂ کرام بتاتے ہیں کہ آپ بہت حیادار تھے۔
کَانَ النَّبِیُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ اَشَدَّ حَیَآءً مِّنَ الْعَذْرَآءِ فِی خِدْرِہَا.(بخاری،رقم۳۵۶۲)
’’نبی صلی اللہ علیہ وسلم پردے میں بیٹھنے والی کنواری لڑکی سے بھی زیادہ حیادار تھے۔‘‘
اس میں کوئی شک نہیں کہ بعض اوقات انسان کی فطرت مسخ ہو جاتی ہے یا بعض صورتوں میں وہ بالکل بے حس ہو جاتی ہے۔ چنانچہ پھر وہ کوئی حیا محسوس نہیں کرتا۔
بہرحال، اصولی بات یہ ہے کہ ایک سلیم الفطرت انسان تمام غیر معروف اعمال سرانجام دینے میں فطری طور پر حیامحسوس کرتا ہے۔
سوال: علم نجوم (ستاروں کے علم)سے قسمت کا حال معلوم کرنا اسلام میں کیوں جائز نہیں؟ جبکہ آج کل اسے ایک سائنس ہی سمجھا جاتا ہے، اگر موسم کا حال جاننا جائز ہے تو علم نجوم سے اپنا حال معلوم کرنا کیوں جائزنہیں؟(عائشہ خان)
جواب: علم نجوم کوئی سائنس نہیں ہے۔ اگر نجوم کا علم واقعی ایک سائنس قرار پا جائے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ ہم کو براہ راست مشاہدے اور تجربے کے ذریعے سے یہ یقینی خبر مل گئی ہے کہ آیندہ ہونے والے واقعات ستاروں کی مختلف گردشوں کے ذریعے سے ظاہر کیے جاتے ہیں، جیسا کہ ہم براہ راست تجربے اور مشاہدے سے یہ جانتے ہیں کہ غلے کے اگنے میں بارش یا پانی ایک بنیادی حیثیت رکھتا ہے۔ چنانچہ پھر اس صورت میں علم نجوم کو ایک سائنس قرار دیا جائے گا ۔
ابھی تک اس علم کا سائنس ہونا اپنے پایۂ ثبوت کو نہیں پہنچا اورروایات میں بھی اس علم کے حق ہونے کے بارے میں کوئی بیان موجودنہیں ہے۔ چنانچہ یہ محض اندازہ اور خیال آرائی ہی ہے۔ اس کے اندر یا تو کوئی اصول اور قانون نہیں پایا جاتا یا پھر انسان ابھی تک اسے دریافت نہیں کر سکا۔ چنانچہ اس وقت انسان اسے نہ سائنس کے طور پرقبول کر سکتا ہے اور نہ کسی مذہبی خبر کی بنا پر،لہٰذا اس علم سے بچنا ہی چاہیے، کیونکہ یہ انسان کو شدید قسم کے وہموں میں مبتلا کر دیتا ہے اور وہ ستاروں کو موثربالذات سمجھنے لگتا اور شرک میں مبتلا ہو جاتا ہے یا ان کے بارے میں غیر مذہبی اور غیر سائنسی (غیر علمی) بنیادوں، یعنی اوہام کی بنا پر کچھ صفات کا قائل ہو جاتا ہے اور یوں وہ ’افتراء علی اللّٰہ‘(خدا پر جھوٹ باندھنے) کا مجرم بنتا ہے۔
جہاں تک موسم کے بارے میں پیش گوئیوں کا تعلق ہے تو وہ خالصتاً مادی حالات کے سائنسی مشاہدہ کی بنا پر کی جاتی ہیں، جبکہ علم نجوم کا معاملہ یہ نہیں ہے۔
سوال: اسلام میں تقدیر، مقدراور قسمت کا کیا تصور ہے؟ بے شک ہم وہی کچھ کرتے ہیں جو ہمارے مقدر میں پہلے سے لکھا ہوتا ہے، لیکن سوال یہ ہے کہ کیا ہم اپنی تقدیر کو بدل سکتے ہیں؟(عائشہ خان)
جواب: تقدیر ،مقدر اور قسمت یہ تینوں الفاظ عام طور پر ایک ہی معنی میں بولے جاتے ہیں۔ ان سے مراد انسان کے بارے میں خدا کے فیصلے ہیں۔ خدا کے بعض فیصلوں میں انسان مجبور ہوتا ہے، مثلاً یہ کہ وہ کہاں پیدا ہو گا، اس کے ماں باپ کون ہوں گے، اسے کتنی عمر ملے گی وغیرہ، وغیرہ۔ البتہ خدا کے بعض فیصلوں میں وہ اپنے افعال و اعمال کا ارادہ کرنے کی حد تک آزاد ہوتا ہے، یہی وجہ ہے کہ وہ اپنے اعمال کا ذمہ دار سمجھا جاتا ہے اور اسے ان پر نیکی یا بدی ملتی ہے۔
تقدیر کو اس طرح بیان کرنا کہ ’’ہم وہی کچھ کرتے ہیں جو ہمارے مقدر میں پہلے سے لکھا ہوتا ہے‘‘ یہ غلط فہمی پیدا کرتا ہے کہ شاید ہم مجبور محض ہیں یا یوں کہہ لیں کہ ہم بے جان پتلیاں ہیں جنھیں خدا جس طرح چاہتا ہے، نچاتا ہے۔ وہی ہم میں سے کسی کو جبراً قاتل بناتا ہے اور کسی کو جبراً مقتول، وہی کسی کو جبراً نیک بناتا ہے اور کسی کو جبراً بد۔ چنانچہ پھر اس سے کوئی شخص یہ نتیجہ بھی نکال سکتا ہے کہ اس دنیا میں ہونے والے جرائم اور اچھے اعمال کا ذمہ دار صرف خدا ہے، انسان تو معصوم ہیں، لیکن ظاہر ہے کہ یہ نتیجہ کسی صورت بھی درست نہیں ہے۔
صحیح بات یہ ہے کہ ہم جو اعمال بھی سر انجام دیتے ہیں، خدا کی اجازت کے ساتھ اپنی مرضی سے انجام دیتے ہیں۔ چنانچہ ہم اس لیے صالح کہلاتے ہیں کہ ہم نے خدا کی اجازت کو اپنی مرضی سے اس کی پسند کے مطابق استعمال کرتے ہوئے، نیک کام کیا ہوتا ہے اور اس لیے مجرم کہلاتے ہیں کہ ہم نے خدا کی اجازت کو اپنی مرضی سے اس کی پسند کے خلاف استعمال کرکے برا کام کیا ہوتا ہے۔
البتہ اگر یہ سوال کیا جائے کہ کیا خدا مستقبل کو جانتا ہے تو اس کا جواب یہ ہو گا کہ ہاں بالکل اسے آیندہ ہونے والے سارے واقعات اور حالات کا پتا ہے، کیونکہ وہ عالم الغیب ہے، وہ زمانے کے وجود میں آنے سے پہلے اسے پوری تفصیلات کے ساتھ جاننے کی صلاحیت رکھتا ہے اور اگر یہ سوال کیا جائے کہ کیا آیندہ ہونے والے واقعات خدا کے جبر سے بالکل اسی طرح وجود پذیر ہوتے ہیں جیسے اس کا علم ہوتا ہے؟ تو اس کا جواب ہو گا کہ نہیں، بلکہ جن چیزوں کو وہ جبراً ایک خاص طریقے پر کرنا چاہتا ہے، صرف انھیں وہ جبراً کرتا ہے اور جنھیں اختیار و ارادہ کی آزادی دیتا ہے، وہ اسی کے اذن سے، اپنے اختیار و ارادہ کے ساتھ کام کرتی ہیں۔البتہ خدا کا علم دونوں کے بارے میں غلطی سے پاک ہوتا ہے۔
جن مواقع کے حوالے سے خدا نے یہ فیصلہ کیا ہوتا ہے کہ انسان اپنے لیے اپنی مرضی اور اپنے ارادے سے جس چیز کو طلب کرے گا، وہ اسے دے دی جائے گی، ان مواقع پر انسان کی تدبیر ہی سے اس کی تقدیر بنتی ہے۔
سوال:اسلام میں ارتداد کی سزا قتل کیوں ہے؟ جبکہ دوسرے کسی مذہب میں ایسا نہیں ہے۔(عائشہ خان)
جواب:کسی قوم میں جب کوئی رسول اتمام حجت کر دیتا ہے تو پھر اس کے لیے ایمان لانا لازم ہو جاتا ہے۔ اگر وہ ایمان نہیں لاتی تو پھر اس پر خدا کاعذاب آ جاتا ہے اور صرف وہی لوگ بچتے ہیں جو ایمان لائے ہوتے ہیں، جیسا کہ قوم نوح، قوم لوط ،قوم صالح اور قوم ہود پر عذاب آئے تھے اور ان میں سے صرف صالح مسلمان ہی بچے تھے۔ یہ خدا کی سنت ہے۔
ان قوموں میں سے اگر کوئی آدمی ایمان لانے کے بعد دوبارہ کفر کو اختیار کر لے تو وہ پھر خدا کے عذاب کا شکار ہو جاتا ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی قوم میں اس عذاب کی شکل یہ تھی کہ اسے قتل کر دیا جائے گا۔
چنانچہ ہمارے خیال میں مرتد کے لیے قتل کی سزا صرف رسول کے براہ راست مخاطبین تک ہی محدود تھی۔ آج اس کا اطلاق کرنا غلط ہو گا۔
سوال:قرآن کے اس دعوے کا کیا مطلب ہے کہ اگر تم اسے خدا کا کلام نہیں سمجھتے تو اس جیسی ایک سورت بنا کر دکھاؤ؟ میرا سوال یہ ہے کہ انسان قرآن کی مثل کلام کیوں نہیں بنا سکتا ، میرا خیال ہے کہ وہ بنا سکتا ہے خواہ کچھ غلط سلط ہی بنا دے؟(عائشہ خان)
جواب: قرآن کے اس دعوے کا مطلب یہ ہے کہ اے وہ لوگو جو سمجھتے ہو کہ محمدصلی اللہ علیہ وسلم جو کلام لائے ہیں، یہ انسانی کاوش ہی ہے، یہ خدا کا کلام نہیں ہے اور اس میں خدائی صفات کا ظہور نہیں، یعنی یہ خدائی خوبیوں کا حامل اور ہر غلطی سے مبرا کلام نہیں ہے تو ایسا ہی کلام تم بھی بنا کر دکھا دو۔ پھر اگر تم نہ بنا سکو تو اس کلام کی آنکھوں سے نظر آنے والی عظمت کو مانو اور اس کے سامنے سرتسلیم خم کرو۔
استاذ محترم غامدی صاحب قرآن مجید کے اسی دعوے سے متعلق سورۂ بقرہ کی آیت ۲۳ کی شرح بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
’’...تم اگر اسے خدا کی کتاب نہیں سمجھتے تو اپنی ہدایت اور اسلوب بیان کے لحاظ سے جس شان کا یہ کلام ہے، اس شان کی کوئی ایک سورہ ہی بنا کر پیش کر دو۔ تمھارے گمان کے مطابق یہ کام اگر تمھاری قوم کے ایک فرد محمد صلی اللہ علیہ وسلم کر سکتے ہیں تو تمھیں بھی اس میں کوئی دقت نہ ہونی چاہیے۔ اپنے متعلق یہ قرآن کا چیلنج ہے جو اُس نے اپنے اولین مخاطبین کو دیا اور اُن میں سے کوئی بھی اس کا سامنا کرنے کی جرأت نہ کر سکا۔‘‘ (ماہنامہ اشراق، مارچ۱۹۹۹،۹)
سوال: جو لوگ جعلی کاغذات بنوا کر دوسرے ملکوں میں جاتے اور وہاں ملازمتیں کرتے ہیں، کیا ان کی آمدنی حلال ہوتی ہے؟(فوزیاب اسلم)
جواب:جعلی کاغذات بنوانا بھی غلط ہے اور انھیں استعمال کرکے کسی ملک میں جانا اور وہاں رہنا بھی غلط ہے، لیکن اس غلطی کے نتیجے میں وہاں ملازمت یا مزدوری کر کے کمایا ہوا حلال رزق، حرام نہیں ہو جائے گا۔ البتہ اگر یہ شخص اس ملک کی حکومت سے اپنے لیے کچھ مراعات لیتا ہے تو وہ اس کے لیے جائز نہ ہوں گی یا اگر یہ اس حکومت سے بے روزگاری الاؤنس لیتا ہے تو وہ اس کے لیے حرام ہو گا۔
سوال:بعض لوگ اپنی بیٹیوں کی شادی کے لیے، بہت پہلے سونا لے کر رکھ چھوڑتے ہیں اور پھر وہ اس پر کوئی زکوٰۃ نہیں دیتے اور اس کی وجہ یہ بتاتے ہیں کہ ہم اسے استعمال نہیں کر رہے ، یہ توہم نے اپنی بیٹی کی شادی کے لیے بنوایا ہے۔ اور وہ لڑکی جس کے لیے یہ سونا خریدا جاتا ہے، وہ اس ضمن میں بالکل بے بس ہوتی ہے ۔
سوال یہ ہے کہ اس صورت حال میں اس لڑکی کو کیا کرنا چاہیے ؟ نیز یہ بتائیں کہ اس کے والدین کے لیے شریعت کا کیا حکم ہے؟(فوزیاب اسلم)
جواب:یہ سونا دراصل، والدین ہی کی ملکیت ہے، انھی کو اس پر اختیار ہے اورآیندہ اس کے بارے میں جو فیصلہ بھی کرنا ہے، انھوں نے ہی کرنا ہے۔ چنانچہ ان پر شرعاً یہ لازم ہے کہ وہ اس کی زکوٰۃ ادا کریں۔ اگر وہ اس کی زکوٰۃ ادا نہیں کریں گے تو خدا کے ہاں اس کے لیے مسؤل ہوں گے۔ جہاں تک ان کی بیٹی کا معاملہ ہے تو بے شک یہ سونا اسی کے لیے خریدا گیا ہے، لیکن وہ اس معاملے میں چونکہ بے بس ہے، لہٰذا اس پر کوئی ذمہ داری عائد نہیں ہوتی، سوائے اس بات کے کہ وہ اپنی بساط کی حد تک اپنے والدین کو نصیحت کرے کہ وہ اس سونے کی زکوٰۃ ادا کریں، ورنہ وہ خدا کو کیا جواب دیں گے۔
_______________