HomeQuranHadithMizanVideosBooksBlogs
مصنف : جاوید احمد غامدی

البیان: الحجر ۱۵: ۲۶- ۴۸ (۲)

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم 

(گذشتہ سے پیوستہ)  


وَلَقَدْ خَلَقْنَا الْاِنْسَانَ مِنْ صَلْصَالٍ مِّنْ حَمَاٍ مَّسْنُوْنٍ(۲۶) وَالْجَآنَّ خَلَقْنٰہُ مِنْ قَبْلُ مِنْ نَّارِ السَّمُوْمِ(۲۷) وَاِذْ قَالَ رَبُّکَ لِلْمَلٰٓءِکَۃِ اِنِّیْ خَالِقٌم بَشَرًا مِّنْ صَلْصَالٍ مِّنْ حَمَاٍ مَّسْنُوْنٍ(۲۸) فَاِذَا سَوَّیْتُہٗ وَنَفَخْتُ فِیْہِ مِنْ رُّوْحِیْ فَقَعُوْا لَہٗ سٰجِدِیْنَ(۲۹) فَسَجَدَ الْمَلٰٓءِکَۃُ کُلُّھُمْ اَجْمَعُوْنَ(۳۰) اِلَّآ اِبْلِیْسَ اَبٰٓی اَنْ یَّکُوْنَ مَعَ السّٰجِدِیْنَ(۳۱) قَالَ یٰٓاِبْلِیْسُ مَا لَکَ اَلَّا تَکُوْنَ مَعَ السّٰجِدِیْنَ(۳۲) قَالَ لَمْ اَکُنْ لِّاَسْجُدَ لِبَشَرٍ خَلَقْتَہٗ مِنْ صَلْصَالٍ مِّنْ حَمَاٍ مَّسْنُوْنٍ(۳۳) قَالَ فَاخْرُجْ مِنْھَا فَاِنَّکَ رَجِیْمٌ(۳۴) وَّ اِنَّ عَلَیْکَ اللَّعْنَۃَ اِلٰی یَوْمِ الدِّیْنِ(۳۵) قَالَ رَبِّ فَاَنْظِرْنِیْٓ اِلٰی یَوْمِ یُبْعَثُوْنَ(۳۶) قَالَ فَاِنَّکَ مِنَ الْمُنْظَرِیْنَ(۳۷) اِلٰی یَوْمِ الْوَقْتِ الْمَعْلُوْمِ(۳۸) قَالَ رَبِّ بِمَآ اَغْوَیْتَنِیْ لَاُزَیِّنَنَّ لَھُمْ فِی الْاَرْضِ وَلَاُغْوِیَنَّھُمْ اَجْمَعِیْنَ(۳۹) اِلَّا عِبَادَکَ مِنْھُمُ الْمُخْلَصِیْنَ(۴۰) قَالَ ھٰذَا صِرَاطٌ عَلَیَّ مُسْتَقِیْمٌ(۴۱) اِنَّ عِبَادِیْ لَیْسَ لَکَ عَلَیْھِمْ سُلْطٰنٌ اِلَّا مَنِ اتَّبَعَکَ مِنَ الْغٰوِیْنَ(۴۲) وَاِنَّ جَھَنَّمَ لَمَوْعِدُھُمْ اَجْمَعِیْنَ(۴۳) لَھَا سَبْعَۃُ اَبْوَابٍ لِکُلِّ بَابٍ مِّنْھُمْ جُزْءٌ مَّقْسُوْمٌ(۴۴) اِنَّ الْمُتَّقِیْنَ فِیْ جَنّٰتٍ وَّ عُیُوْنٍ(۴۵) اُدْخُلُوْھَا بِسَلٰمٍ اٰمِنِیْنَ(۴۶) وَنَزَعْنَا مَا فِیْ صُدُوْرِھِمْ مِّنْ غِلٍّ اِخْوَانًا عَلٰی سُرُرٍ مُّتَقٰبِلِیْنَ(۴۷)لَا یَمَسُّھُمْ فِیْھَا نَصَبٌ وَّمَا ھُمْ مِّنْھَا بِمُخْرَجِیْنَ(۴۸)
(یہ ابلیس کے فریب میں آئے ہوئے لوگ ہیں)۔ ہم نے انسان کو سڑے ہوئے گارے کی کھنکھناتی مٹی سے بنایا تھا اور اِس سے پہلے جنوں کو لو کی لپٹ سے پیدا کیا تھا۵۹؎۔ اِنھیں یاد دلاؤ، جب تمھارے پروردگار نے فرشتوں سے کہا تھا کہ میں سڑے ہوئے گارے کی کھنکھناتی مٹی سے ایک بشر پیدا کر رہا ہوں۔ سو جب میں اُس کو پورا بنا لوں اور اُس میں اپنی روح میں سے پھونک دوں ۶۰؎ تو تم سب اُس کے آگے سجدہ ریز ہو جانا۶۱؎۔ پھر (ہوا یہ کہ)تمام فرشتے سجدے میں گر پڑے (اور جنات بھی۶۲؎)، ابلیس کے سوا۔ اُس نے سجدہ کرنے والوں کا ساتھ دینے سے انکار کر دیا۔ خدا نے پوچھا: اے ابلیس، تیرا کیا معاملہ ہے کہ تو سجدہ کرنے والوں میں شامل نہیں ہوا؟اُس نے جواب دیا: میں اِس کے لیے تیار نہیں کہ ایک ایسے بشر کو سجدہ کروں جسے تو نے سڑے ہوئے گارے کی کھنکھناتی مٹی سے پیدا کیا ہے۶۳؎۔ فرمایا: (یہ بات ہے) تو یہاں سے۶۴؎ نکل جا، اِس لیے کہ تو راندۂ درگاہ ہے اور تجھ پر روز جزا تک لعنت ہے۔ اُس نے عرض کیا: پروردگار، پھر مجھے اُس دن تک کے لیے مہلت دے دے، جب لوگ اٹھائے جائیں گے۔ فرمایا: تو بھی اُنھی میں سے ہے جنھیں اُس مقرر وقت کے دن تک کے لیے مہلت دی گئی ہے۔ اُس نے کہا: پروردگار، جیسا تو نے مجھے گمراہ کیا ہے۶۵؎، اُسی طرح اب میں بھی اِن کے لیے زمین میں دل فریبیاں پیدا کروں گا اور اِن میں سے تیرے منتخب بندوں کے سوا سب کو گمراہ کرکے چھوڑوں گا۔فرمایا: یہ (بندگی کا راستہ) ایک سیدھا راستہ ہے جو مجھ تک پہنچانے والا ہے۶۶؎۔ میرے بندوں پر تیرا ہرگز کوئی زور نہیں چلے گا۔ تیرا زور صرف اُنھی پر چلے گا جو بہکے ہوئے لوگوں میں سے تیری پیروی کریں گے۶۷؎ اور اِن سب کے لیے جہنم کا وعدہ ہے۶۸؎۔ اُس کے سات دروازے ہیں۔ ہر دروازے کے لیے اُن میں سے ایک حصہ خاص کر دیا گیا ہے۶۹؎۔ (اِس کے برخلاف) جو خدا سے ڈرنے والے ہیں، وہ باغوں اور چشموں میں ہوں گے۔ (اُن سے کہا جائے گا): اِن میں سلامتی کے ساتھ بے خوف ہو کر رہو۔ اُن کے سینوں کی کدورتیں ہم نکال دیں گے۔ وہ آمنے سامنے تختوں پر بھائی بھائی کی طرح بیٹھے ہوں گے۔ اُنھیں وہاں نہ کوئی تکان لاحق ہو گی۷۰؎ اور نہ وہ وہاں سے نکالے جائیں گے۔ ۲۶-۴۸

۵۹؎ یہ آگے کی بات کے لیے تمہید ہے اور ابلیس و آدم کی بناے مخاصمت کو واضح کرنے کے لیے بیان کی گئی ہے۔ اِس سے اِن مخلوقات کے عناصر خلقت کا سراغ دینا مقصود نہیں ہے۔ تاہم اتنی بات اِس سے یقینا واضح ہو جاتی ہے کہ انسانوں سے پہلے اللہ تعالیٰ نے جنوں کو لو کی لپٹ سے پیدا کیا۔پھر انسان کو مٹی سے بنانے کا فیصلہ کیا تو اُس کا حیوانی وجود بالکل اُسی طرح زمین کے پیٹ میں تخلیق فرمایا، جس طرح وہ اب ماں کے پیٹ میں تخلیق کیا جاتا ہے۔ قرآن کے اشارات سے معلوم ہوتا ہے کہ اِس کی صورت غالباً یہ ہوئی کہ دریاؤں اور سمندروں کے کنارے کی کیچڑ میں کسی جگہ نطفہ کے قسم کی کوئی چیز پیدا ہوئی جس کے اوپر کی کیچڑ خشک ہو کر بیضے کی شکل اختیار کر گئی۔ قرآن نے اِسی کو کھنکھناتی مٹی سے تعبیر کیا ہے۔ تخلیق کے مختلف مراحل سے گزر کر انسان اُس بیضے سے اُسی طرح نمودار ہو گیا، جس طرح انڈوں سے بچے نکلتے ہیں۔ تمام جان دار پہلے مرحلے میں غالباً اِسی طریقے سے پیدا کیے گئے۔ پھر اُن کا تسویہ ہوا اور اُن میں اپنی نسل آپ پیدا کر لینے کی صلاحیت ودیعت کر دی گئی۔ قرآن مجید میں ’اَنْشَاَکُمْ مِّنَ الْاَرْضِ*‘ اور ’اَنْبَتَکُمْ مِّنَ الْاَرْضِ نَبَاتًا**‘کی تعبیرات اِسی حقیقت کی طرف اشارہ کرتی ہیں۔

۶۰؎ یہ امور متشابہات میں سے ہے جن کی حقیقت اللہ کے سوا کوئی نہیں جانتا۔ تاہم اتنی بات واضح ہے کہ یہی وہ لطیف پھونک ہے جس سے انسان کے حیوانی وجود میں وہ چیز داخل ہوئی جسے انسان کہا جاتا ہے۔ ماں کے پیٹ میں بھی یہ اِسی مرحلے میں پھونکی جاتی ہے۔ اِس سے پہلے انسان، انسان نہیں ہوتا، صرف ایک حیوان ہوتا ہے جو تخلیق کے مختلف مراحل سے گزرکر انسانی شخصیت کے لیے ایک ایسا قالب بن جاتا ہے کہ اب اُس میں یہ روح پھونک دی جائے۔

۶۱؎ یہ حکم امتحان کے لیے دیا گیا۔ اِس سے مقصود یہ تھا کہ آدم پر واضح ہوجائے کہ اصلی سرفرازی نور یا نار سے پیدا ہونے میں نہیں، بلکہ اللہ تعالیٰ کی اطاعت اور فرماں برداری میں ہے۔

۶۲؎ آگے ’اِلَّا ٓاِبْلِیْسَ‘کے الفاظ ہیں۔ قرآن میں صراحت ہے کہ ابلیس جنات میں سے تھا۔ اِس سے آپ سے آپ واضح ہوا کہ جنات چونکہ اپنی خلقت کے لحاظ سے فرشتوں سے زیادہ دور نہیں ہیں، اِس لیے اُنھیں جب سجدے کا حکم دیا گیا تو علیٰ سبیل التغلیب جنات بھی اِس حکم میں شامل تھے۔ یہ بات چونکہ ’اِلاَّ ٓاِبْلِیْسَ‘ کے استثنا سے واضح ہو جاتی ہے، اِس لیے قرآن نے اِسے الفاظ میں بیان نہیں کیا۔

۶۳؎ انسان جب علم، دولت، حسن یا اقتدار میں اپنے آپ کو دوسروں سے برتر دیکھتا ہے تو ابلیس کا یہی استدلال ہے جو اُسے حق کے مقابل میں اکڑنے پر آمادہ کرتا ہے۔ اپنی خلقت کے لحاظ سے فرشتے جنات سے بھی برتر تھے، مگر اُنھوں نے یہ احمقانہ استدلال نہیں کیا، بلکہ سجدے کے حکم کو خدا کا امتحان سمجھا اور بغیر کسی تردد کے امتثال امر کے لیے تیار ہو گئے۔

۶۴؎ یعنی آسمان سے، جہاں ابلیس بھی فرشتوں کے ساتھ خدا کی بارگاہ میں حاضر تھا۔ عربی زبان میں آسمان کے لیے ’السَّمَآء‘کا لفظ ہے۔ آیت میں ’ھَا‘ کی ضمیر اِسی کے لیے آئی ہے۔

۶۵؎ آیت میں اِس کے لیے ’بِمَآ اَغْوَیْتَنِیْ‘کے الفاظ آئے ہیں۔ ابلیس نے یہ بات کیوں کہی؟ استاذ امام لکھتے ہیں:

”’اِغْوَا‘ کے معنی گمراہ کرنے کے ہیں۔ چونکہ ابلیس آدم کو سجدہ نہ کرنے کے معاملے میں اپنے آپ کو بجانب حق خیال کرتا تھا،اِس وجہ سے اُس نے نہایت گستاخانہ انداز میں فعل ’اِغْوَا‘ کو اللہ تعالیٰ ہی کی طرف منسوب کیا۔ مطلب یہ کہ اگر میں اِس حکم کی عدم تعمیل کے باعث سے گمراہ ٹھیرا تو اِس میں میرا قصور نہیں ہے، بلکہ یہ حکم ہی ایسا تھا کہ میں اِس کی تعمیل نہیں کر سکتا تھا۔ اِس وجہ سے اگر میں اِس کے سبب سے گمراہ ہوا تو اِس پر تو نے ہی مجھے مجبور کیا۔“(تدبرقرآن۴/ ۳۵۹)    

۶۶؎ اصل الفاظ ہیں:’ھٰذَا صِرَاطٌ عَلَیَّ مُسْتَقِیْمٌ‘۔ اِن میں ’صِرَاط‘ کے بعد ’عَلٰی‘ عربیت کے خاص اسلوب کے مطابق آیا ہے۔ قرآن اور کلام عرب، دونوں کے شواہد سے معلوم ہوتا ہے کہ عربی زبان میں یہ اسلوب اُس وقت اختیار کیا جاتا ہے، جب کسی راستے کے بارے میں یہ بتانا مقصود ہو کہ وہ ایسا سیدھا ہے کہ اپنے رہرووں کو خود منزل پر لا ڈالتا ہے۔

۶۷؎ اِس سے یہ حقیقت واضح ہو گئی کہ شیطان اُنھی کو گمراہ کر سکتا ہے جو خود گمراہ ہونا چاہتے ہوں۔ اللہ کے جو بندے گمراہی سے بچنے کا ارادہ کر لیں اور سیدھی راہ کے سچے طالب بن کر زندگی بسر کریں، اُن پر اُس کی ترغیبات کبھی اِس درجے میں اثر انداز نہیں ہوتیں کہ وہ کسی ایسی گمراہی میں پڑ جائیں جو باعث ہلاکت ہو۔

۶۸؎ اصل الفاظ ہیں: ’اِنَّ جَھَنَّمَ لَمَوْعِدُھُمْ اَجْمَعِیْنَ‘۔ اِن میں زور لفظ ’اَجْمَعِیْن‘ پر ہے۔ اللہ تعالیٰ نے یہ لفظ ابلیس کے قول ’لَاُغْوِیَنَّھُمْ اَجْمَعِیْنَ‘ کے جواب میں استعمال فرمایا ہے۔ اُس نے بڑے طنطنے کے ساتھ دعویٰ کیا کہ میں سب کوگمراہ کرکے چھوڑوں گا۔ اُس کے جواب میں اللہ تعالیٰ نے اُسی زور کے ساتھ فرمایا کہ پھر میں بھی اُن سب کو جہنم رسید کرنے میں کوئی کسر نہ اٹھا رکھوں گا۔

۶۹؎ مطلب یہ ہے کہ کوئی یہ خیال نہ کرے کہ ایسی جہنم کہاں سے مہیا ہو گی جو اتنے سب لوگوں کو اپنے اندر سمیٹ لے۔ اِس طرح کے مجرموں کے لیے جو جہنم تیار کی گئی ہے، وہ ایسی وسیع ہے کہ اُس کے سات دروازے ہوں گے جن سے جہنمیوں کے گروہ اُن کے جرائم کے لحاظ سے الگ الگ داخل کیے جائیں گے۔ قرآن نے جن چیزوں کو اصلی مہلکات قرار دیا ہے، وہ اگر شمار کی جائیں تو سات عنوانات کے تحت آجاتی ہیں ***۔ شیطان اُنھی میں سے کسی ایک یا سب میں مبتلا کرکے لوگوں کو جہنم کے راستے پر ڈالتا ہے۔ یہ درجہ بندی غالباً اِنھی مہلکات کے لحاظ سے ہو گی۔

۷۰؎ یہ کس درجے کی نعمت ہے؟ استاذ امام لکھتے ہیں:

”...بہتر سے بہتر عیش و آرام کی زندگی بھی کسی کو حاصل ہو، لیکن اُس میں تجدد و تنوع نہ ہو تو آدمی بجھ کے رہ جاتا ہے۔ جنت میں اہل جنت کو اِس صورت حال سے سابقہ پیش نہیں آئے گا۔ اُس میں ابدی عیش و آرام کی زندگی بھی ہو گی اور ہر لمحہ خدا کی نعمتوں میں ایسی گوناگونی و بو قلمونی بھی ہو گی کہ اہل جنت کی طبیعت کبھی اُس سے اچاٹ نہیں ہو گی۔“(تدبرقرآن۴/ ۳۶۲) 

[باقی]

__________

  * ہود ۱۱: ۶۱۔ النجم۵۳: ۳۲۔ ”اُس نے تمھیں زمین سے پیدا کیا۔“

**  نوح ۷۱: ۱۷۔ ”اللہ ہی نے تمھیں خاص اہتمام کے ساتھ زمین سے اگایا۔“

***  بنی اسرائیل۱۷: ۲۲-۳۹۔

_____________________

B