HomeQuranHadithMizanVideosBooksBlogs
مصنف : معز امجد

اچھائی اور برائی کی ابتدا کرنے کا صلہ

ترجمہ و تدوین: شاہد رضا

قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ: مَنْ سَنَّ فِی الْإِسْلاَمِ سُنَّۃً حَسَنَۃً فَلَہُ أَجْرُہَا وَأَجْرُ مَنْ عَمِلَ بِہَا بَعْدَہُ مِنْ غَیْرِ أَنْ یَّنْقُصَ مِنْ أُجُوْرِہِمْ شَیْءٌٌ وَمَنْ سَنَّ فِی الْإِسْلاَمِ سُنَّۃً سَیِّئَۃً کَانَ عَلَیْہِ وِزْرُہَا وَوِزْرُ مَنْ عَمِلَ بِہَا مِنْ بَعْدِہِ مِنْ غَیْرِ أَنْ یَّنْقُصَ مِنْ أَوْزَارِہِمْ شَیْءٌٌ.
وَ رُوِیَ أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ: مَنْ أَحْیَا سُنَّۃً مِنْ سُنَّتِیْ [قَدْأُمِیْتَتْ بَعْدِیْ۱] فَعَمِلَ بِہَا النَّاسُ کَانَ لَہُ مِثْلُ أَجْرِ مَنْ عَمِلَ بِہَا لاَیَنْقُصُ مِنْ أُجُوْرِہِمْ شَیْئًا وَمَنِ ابْتَدَعَ بِدْعَۃً فَعُمِلَ بِہَا کَانَ عَلَیْہِ أَوْزَارُ مَنْ عَمِلَ بِہَا لاَیَنْقُصُ مِنْ أَوْزَارِ مَنْ عَمِلَ بِہَا شَیْئًا.
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:جس شخص نے (اللہ کی اطاعت کرتے ہوئے۱) اسلام میں ایک اچھے طریقے کی ابتدا کی، (قیامت کے روز) اس کے لیے نہ صرف اپنے اس عمل کا اجر ہے، بلکہ اس شخص کے اجر میں بھی حصہ ہے جو اس کے بعد اس طریقے پر عمل کرے گا، ان کے اجروں میں کچھ کمی کیے بغیر۲۔ (اس کے بر خلاف) جس شخص نے ایک برے طریقے کی ابتدا کی، (قیامت کے روز)اس پر نہ صرف اپنے اس عمل کا بوجھ ہو گا، بلکہ اس شخص کے بوجھ کا بھی ایک حصہ ہو گا جو اس کے بعد اس طریقے پر عمل کرے گا، ان کے اجروں میں کچھ کمی کیے بغیر۔
اور روایت کیا گیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:جس شخص نے میری سنتوں میں سے کسی سنت کو، [جو کہ میرے بعد نظر انداز ہو چکی تھی]، زندہ کیا اور لوگوں نے پھر اس پر عمل کرنا شروع کر دیا، تو اس شخص کو ان لوگوں کے برابر اجر ملے گا جو اس سنت پر عمل کریں گے، ان کے اجروں میں کچھ کمی نہیں ہو گی۔ (اس کے بر خلاف)، جس شخص نے کسی بدعت کی ابتدا کی اور اس پر عمل بھی کیا گیا، تو اس پر ان لوگوں کا بوجھ بھی ہو گا جو اس بدعت پر عمل کریں گے۔ جن لوگوں نے اس بدعت پر عمل کیا، ان کے بوجھ میں کچھ کمی نہیں ہو گی۔
متن کے حواشی

۱۔ ’قَدْأُمِیْتَتْ بَعْدِیْ‘ (جو کہ میرے بعد نظر انداز ہو چکی تھی) کے الفاظ ترمذی، رقم۲۶۷۷ اور ابن ماجہ، رقم۲۱۰ سے لیے گئے ہیں۔

ترجمے کے حواشی

۱۔ اللہ تعالیٰ کی عدالت میں کسی شخص کے وہی اعمال اجر کا استحقاق رکھتے ہیں جو صرف اور صرف اللہ تعالیٰ کی خوشنودی حاصل کرنے کے لیے صادر ہوئے ہوں۔ ’’اللہ کی اطاعت کرتے ہوئے‘‘ کے الفاظ اسی حقیقت کی طرف اشارہ کرتے ہیں۔

۲۔ اللہ تعالیٰ کی رحمت و عنایت سے ہر شخص کو اس کے اعمال صالحہ کا صلہ ملے گا۔ اس کے اعمال اللہ تعالیٰ کی نظر عنایت سے محروم نہیں ہوں گے۔ دیگر لوگوں کو اچھائی کی دعوت دینا بھی فی نفسہٖ ایک اچھائی ہے اور داعی نہ صرف دوسرے لوگوں کو اچھائی کی ترغیب کا صلہ پائے گا، بلکہ ان لوگوں کے اجر میں بھی شریک ہوگا جو اس کی ترغیب پر اعمال صالحہ ادا کریں گے۔ اس سے آخرت میں جزا و سز ا کے ایک اصول کی بھی نشان دہی ہوتی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ آخرت میں آدمی نہ صرف اپنے اعمال کے بدلے میں جزا یا سزا کا مستحق ہو گا، بلکہ اپنے اعمال کا ثمر پائے گا یاان کے نتائج کا بوجھ برداشت کرے گا۔ ’’اچھے طریقے کی ابتدا‘‘ کا مطلب کسی شخص کے عمل کے ذریعے سے دوسرے لوگوں کو اچھائی کی ترغیب دینا اور اس کی طرف رہنمائی کرنا ہے۔ چنانچہ اچھے طریقے کی ابتدا کرنے والا، اولاً، اپنے اس عمل کا اجر پائے گا اور ، ثانیاً، ان لوگوں کے اجر میں بھی شریک ہو گا جو اس کے عمل صالح کے ذریعے سے اس کے نقش قدم پر چلیں گے۔ برائی کی ابتدا کرنے والے کے لیے بھی یہی اصول کارفرما ہو گا۔

متون

پہلی روایت بعض اختلافات کے ساتھ مسلم، رقم۱۰۱۷ا، ۱۰۱۷ب،۱۰۱۷ج، ۱۰۱۷د؛ ترمذی، رقم۲۶۷۵؛ نسائی، رقم۲۵۵۴؛ ابن ماجہ، رقم ۲۰۳۔ ۲۰۴،۲۰۷؛ احمد، رقم۱۰۵۶۳، ۱۰۷۶۹، ۱۹۱۷۹۔۱۹۱۸۰، ۱۹۱۹۷۔۱۹۱۹۸، ۱۹۲۰۶، ۱۹۲۲۳، ۱۹۲۲۵، ۱۹۲۲۹، ۲۳۳۳۷؛ ابن حبان، رقم۳۳۰۸؛ بیہقی، رقم ۷۵۳۰۔۷۵۳۱؛مسند حمیدی، رقم۸۰۵؛ السنن الکبریٰ، نسائی، رقم۲۳۳۵؛ ابن خزیمہ، رقم۲۴۷۷؛ دارمی، رقم۵۱۲، ۵۱۴؛ ابن ابی شیبہ، رقم۹۸۰۲ اور عبدالرزاق، رقم۲۱۰۲۴۔۲۱۰۲۵ میں روایت کی گئی ہے۔

دوسری روایت بعض اختلافات کے ساتھ ترمذی، رقم۲۶۷۷ اور ابن ماجہ، رقم۲۰۹۔۲۱۰ میں روایت کی گئی ہے۔

پہلی روایت

بعض روایات، مثلاً احمد، رقم۱۹۲۲۳ میں ’من سن فی الإسلام سنۃ حسنۃ‘ (جس شخص نے (اللہ کی اطاعت کرتے ہوئے) اسلام میں ایک اچھے طریقے کی ابتدا کی) کے الفاظ کے بجاے ’من سن سنۃ حسنۃ‘ (جس شخص نے اچھے طریقے کی ابتدا کی) کے الفاظ روایت کیے گئے ہیں، جبکہ ترمذی، رقم۲۶۷۵ میں ان الفاظ کے مترادف الفاظ ’من سن سنۃ خیر‘ (جس شخص نے اچھے طریقے کی ابتدا کی) روایت کیے گئے ہیں؛ احمد، رقم۲۳۳۳۷ میں ان الفاظ کے مترادف الفاظ ’من سن خیرًا‘ (جس شخص نے بھلائی کی ابتدا کی) روایت کیے گئے ہیں؛ ابن ابی شیبہ، رقم۹۸۰۳ میں ان الفاظ کے مترادف الفاظ ’من سن فی الإسلام سنۃ صالحۃ‘ (جس شخص نے اسلام میں ایک صالح طریقے کی ابتدا کی) روایت کیے گئے ہیں؛ عبدالرزاق، رقم۲۱۰۲۵ میں ان الفاظ کے مترادف الفاظ ’من سن سنۃ صالحۃ فی الإسلام‘ (جس شخص نے اسلام میں ایک صالح طریقے کی ابتدا کی) روایت کیے گئے ہیں؛ ابن ماجہ، رقم۲۰۴ میں ان الفاظ کے بجاے ’من استن خیرًا‘ (جس شخص نے بھلائی کی ابتدا کی) کے الفاظ روایت کیے گئے ہیں؛ بعض روایات، مثلاً احمد، رقم۱۰۵۶۳ میں ان الفاظ کے بجاے ’من سنۃ ہدی‘ (جس شخص نے ہدایت کے طریقے کی ابتدا کی) کے الفاظ روایت کیے گئے ہیں؛ بعض روایات، مثلاً احمد، رقم۱۹۲۲۹ میں ان الفاظ کے بجاے ’لا یسن عبد سنۃ صالحۃ...إلاّ...‘ (آدمی ایک اچھے طریقے کی ابتدا نہیں کرتا...مگر...) کے الفاظ روایت کیے گئے ہیں۔

بعض روایات، مثلاً احمد، رقم۱۹۲۲۳ میں ’من سن فی الإسلام سنۃ حسنۃ‘ (جس شخص نے (اللہ کی اطاعت کرتے ہوئے) اسلام میں ایک اچھے طریقے کی ابتدا کی) کے الفاظ کے بعد ’فعمل بہا من بعدہ‘ (جس پر اس کے بعد عمل کیا گیا) کے اضافی الفاظ روایت کیے گئے ہیں؛ ابن ابی شیبہ، رقم۹۸۰۳ میں ’فعمل بہا من بعدہ‘ (جس پر اس کے بعد عمل کیا گیا) کے الفاظ کے بجاے ’فاستن بہا بعدہ‘ (پھر اس کے بعد اس طریقے کی پیروی کی گئی) کے الفاظ روایت کیے گئے ہیں؛ بعض روایات، مثلاً احمد، رقم۲۳۳۳۷ میں ان الفاظ کے مترادف الفاظ ’فاستن بہ‘ (پھر اس طریقے کی پیروی کی گئی) روایت کیے گئے ہیں؛ بعض روایات، مثلاً ابن ماجہ، رقم۲۰۳ میں ان الفاظ کے بجاے ’فعمل بہا‘ (پھر اس پر عمل کیا گیا) کے الفاظ روایت کیے گئے ہیں؛ بعض روایات، مثلاً احمد، رقم۱۰۵۶۳ میں ان الفاظ کے بجاے ’فاتبع علیہا‘ (پھر اس طریقے کی پیروی کی گئی) روایت کیے گئے ہیں؛ بعض روایات، مثلاً احمد، رقم۱۹۲۲۹ میں یہ الفاظ ’یعمل بہا من بعدہ‘ (جس پر اس کے بعد عمل کیا گیا) روایت کیے گئے ہیں۔

بعض روایات، مثلاً احمد، رقم۱۹۱۷۹ میں ’فلہ أجرہا وأجر من عمل بہا‘ ((قیامت کے روز)اس کے لیے نہ صرف اپنے اس عمل کا اجر ہے، بلکہ اس شخص کے اجر میں بھی حصہ ہے جو اس کے بعد اس طریقے پر عمل کرے گا) کے الفاظ کے بجاے ان کے مترادف الفاظ ’کان لہ أجرہا وأجر من عمل بہا‘ ((قیامت کے روز)اس کے لیے نہ صرف اپنے اس عمل کا اجر ہے، بلکہ اس شخص کے اجر میں بھی حصہ ہے جو اس کے بعد اس طریقے پر عمل کرے گا) روایت کیے گئے ہیں؛ ترمذی، رقم۲۶۷۵ میں ان الفاظ کے مترادف الفاظ ’فلہ أجرہ ومثل أجور من اتبعہ‘ ((قیامت کے روز)اس کے لیے نہ صرف اپنے اس عمل کا اجر ہے، بلکہ ان لوگوں کے اجر میں بھی حصہ ہے جو اس کے بعد اس طریقے پر عمل کریں گے) روایت کیے گئے ہیں؛ بعض روایات، مثلاً احمد، رقم۲۳۳۳۷ میں ان الفاظ کے بجاے ان کے مترادف الفاظ ’کان لہ أجرہ ومن أجور من یتبعہ‘ ((قیامت کے روز)اس کے لیے نہ صرف اپنے اس عمل کا اجر ہے، بلکہ ان لوگوں کے اجر میں بھی حصہ ہے جو اس کے بعد اس طریقے پر عمل کریں گے) روایت کیے گئے ہیں؛ بعض روایات، مثلاً احمد، رقم۱۹۲۲۳ میں یہ الفاظ ’کان لہ أجرہا ومثل أجر من عمل بہا‘ ((قیامت کے روز)اس کے لیے نہ صرف اپنے اس عمل کا اجر ہے، بلکہ ان لوگوں کے اجر میں بھی حصہ ہے جو اس کے بعد اس طریقے پر عمل کریں گے) کے الفاظ روایت کیے گئے ہیں؛ ابن حبان، رقم۳۳۰۸ میں یہ الفاظ ’کان لہ أجرہا و أجر من یعمل بہا‘ ((قیامت کے روز)اس کے لیے نہ صرف اپنے اس عمل کا اجر ہے، بلکہ ان لوگوں کے اجر میں بھی حصہ ہے جو اس کے بعد اس طریقے پر عمل کریں گے) کے الفاظ روایت کیے گئے ہیں؛ ابن ماجہ، رقم ۲۰۴ میں یہ الفاظ ’کان لہ أجرہ کاملاً و من أجور من استن بہ‘ ((قیامت کے روز)اس کے لیے نہ صرف اپنے اس عمل کا کامل اجر ہے، بلکہ ان لوگوں کے اجر میں بھی حصہ ہے جو اس طریقے کی پیروی کریں گے) کے الفاظ روایت کیے گئے ہیں؛ بعض روایات، مثلاً احمد، رقم۱۹۲۲۹ میں یہ الفاظ ’إلاّ کان لہ مثل أجر من عمل بہا لاینقص من أجورہم شیء‘ (مگر (قیامت کے روز)اس کے لیے ان لوگوں کے اجر کے برابر اجر ہے جو اس کے بعد اس طریقے پر عمل کریں گے، ان کے اجروں میں کچھ کمی نہیں ہو گی) روایت کیے گئے ہیں۔

بعض روایات، مثلاً احمد، رقم۱۹۱۷۹ میں ’من عمل بہا بعدہ‘ (جس شخص نے اس کے بعد اس پر عمل کیا) کے الفاظ کے بجاے ان کے مترادف الفاظ ’من عمل بہا من بعدہ‘ (جس شخص نے اس کے بعد اس پر عمل کیا) روایت کیے گئے ہیں۔

بعض روایات، مثلاً احمد، رقم۱۹۱۷۹ میں ’من غیر أن ینقص‘ (بغیر کمی کیے) کے الفاظ کے بجاے ان کے مترادف الفاظ ’من غیر أن ینتقص‘ (بغیر کمی کیے) روایت کیے گئے ہیں؛ ترمذی، رقم ۲۶۷۵ میں ان الفاظ کے مترادف الفاظ ’غیر منقوص من أجورہم شیئًا‘ (ان کے اجروں میں کچھ کمی کیے بغیر) روایت کیے گئے ہیں؛ بعض روایات، مثلاً احمد، رقم۱۹۲۲۹ میں ان الفاظ کے مترادف الفاظ ’غیر منتقص من أجورہم شیئًا‘ (ان کے اجروں میں کچھ کمی کیے بغیر) روایت کیے گئے ہیں؛ بعض روایات، مثلاً ابن ماجہ، رقم۲۰۳ میں یہ الفاظ ’ لاینقص من أجورہم شیئًا‘ (ان کے اجروں میں کچھ کمی نہیں ہو گی) روایت کیے گئے ہیں۔

بعض روایات، مثلاً مسلم، رقم ۱۰۱۷ ا میں ’من سن سنۃ سیئۃ‘ (جس شخص نے ایک برے طریقے کی ابتدا کی) کے الفاظ کے بجاے ’من سن فی الإسلام سنۃ سیئۃ‘ (جس شخص نے اسلام میں ایک برے طریقے کی ابتدا کی) کے الفاظ روایت کیے گئے ہیں؛ بعض روایات، مثلاً ابن ماجہ، رقم۲۰۴ میں یہ الفاظ ’ من استن سنۃ سیئۃ‘ (جس شخص نے کسی برے طریقے کی پیروی کی) روایت کیے گئے ہیں؛ بعض روایات، مثلاً احمد، رقم۱۰۵۶۳ میں ’من سن سنۃ ضلال‘ (جس شخص نے ایک برے طریقے کی ابتدا کی) کے الفاظ روایت کیے گئے ہیں؛ ترمذی، رقم ۲۶۷۵ میں ان الفاظ کے مترادف الفاظ ’من سن سنۃ شر‘ (جس شخص نے ایک برے طریقے کی ابتدا کی) روایت کیے گئے ہیں؛ بعض روایات، مثلاً احمد، رقم۲۳۳۳۷ میں ان الفاظ کے مترادف الفاظ’من سن شرًّا‘ (جس شخص نے کسی برائی کی ابتدا کی) روایت کیے گئے ہیں؛ بعض روایات، مثلاً احمد، رقم۱۹۲۲۹ میں ان الفاظ کے بجاے ’لا یسن عبد سنۃ سوء...إلاّ...‘ (آدمی کسی برے طریقے کی ابتدا نہیں کرتا...مگر...) کے الفاظ روایت کیے گئے ہیں۔

بعض روایات، مثلاً احمد، رقم۱۹۲۲۳ میں ’ومن سن سنۃ سیئۃ‘ (اور جس شخص نے ایک برے طریقے کی ابتدا کی) کے الفاظ کے بجاے ان کے مترادف الفاظ ’عمل بہا من بعدہ‘ ( اس کے بعد اس پر عمل کیا گیا) روایت کیے گئے ہیں؛ ابن ابی شیبہ، رقم۹۸۰۳ میں ’عمل بہا من بعدہ‘ ( اس کے بعد اس پر عمل کیا گیا) کے الفاظ کے بجاے ’فاستن بہا بعدہ‘ (پھر اس کے بعد اس کی پیروی کی گئی) کے الفاظ روایت کیے گئے ہیں؛ بعض روایات، مثلاً احمد، رقم۲۳۳۳۷ میں ان الفاظ کے مترادف الفاظ ’فاستن بہ‘ (پھر ا س کی پیروی کی گئی) روایت کیے گئے ہیں؛بعض روایات، مثلاً ابن ماجہ، رقم۲۰۳ میں ان الفاظ کے بجاے ’فعمل بہا‘ (پھر اس پر عمل کیا گیا) روایت کیے گئے ہیں؛ بعض روایات، مثلاً احمد، رقم۱۰۵۶۳ میں یہ الفاظ ’فاتبع علیہا‘ (پھر اس کی پیروی کی گئی) روایت کیے گئے ہیں؛ بعض روایات، مثلاً احمد، رقم۱۹۲۲۹ میں یہ الفاظ ’یعمل بہا من بعدہ‘ ( اس کے بعد اس پر عمل کیا گیا) کے الفاظ روایت کیے گئے ہیں۔

بعض روایات، مثلاً مسلم، رقم۱۰۱۷ا میں ’فعلیہ وزرہ‘ (اس پر اس کا بوجھ ہے) کے الفاظ کے بجاے ان کے مترادف الفاظ ’کان علیہ وزرہ‘ (اس پر اس کا بوجھ ہو گا) کے الفاظ روایت کیے گئے ہیں۔

بعض روایات، مثلاً احمد، رقم۱۹۲۲۵ میں ’فعلیہ وزرہا ووزر من عمل بہا‘ (جس شخص نے ایک برے طریقے کی ابتدا کی، (قیامت کے روز)اس پر نہ صرف اپنے اس عمل کا بوجھ ہو گا، بلکہ اس شخص کے بوجھ کا بھی ایک حصہ ہو گا جو اس کے بعد اس طریقے پر عمل کرے گا) کے الفاظ کے بجاے ان کے مترادف الفاظ ’کان علیہ وزرہا مثل وزر من عمل بہا‘ ( (قیامت کے روز)اس پر نہ صرف اپنے اس عمل کا بوجھ ہو گا، بلکہ اس شخص کے برابر بھی بوجھ ہو گا جو اس کے بعد اس طریقے پر عمل کرے گا) روایت کیے گئے ہیں؛ بعض روایات، مثلاً احمد، رقم۲۳۳۳۷ میں ان الفاظ کے مترادف الفاظ ’کان علیہ وزرہ و من أوزار من یتبعہ‘ ((قیامت کے روز)اس پر نہ صرف اپنے اس عمل کا بوجھ ہو گا، بلکہ ان لوگوں کا بھی بوجھ ہو گا جو اس کے بعد اس طریقے پر عمل کریں گے) روایت کیے گئے ہیں؛ ابن ماجہ، رقم۲۰۴ میں ’فعلیہ وزرہ کاملاً ومن أوراز الذی إستن بہ‘ ( (قیامت کے روز)اس پر نہ صرف اپنے اس عمل کا کامل بوجھ ہو گا، بلکہ ان لوگوں کا بھی بوجھ ہو گا جو اس کی پیروی کریں گے) روایت کیے گئے ہیں؛ ابن ماجہ، رقم۲۰۳ میں ’کان علیہ وزرہا ووزر من عمل بہا‘ ( (قیامت کے روز)اس پر نہ صرف اپنے اس عمل کا بوجھ ہو گا، بلکہ اس شخص کے بوجھ کا بھی ایک حصہ ہو گا جو اس کے بعد اس طریقے پر عمل کرے گا) کے الفاظ روایت کیے گئے ہیں؛ بعض روایات، مثلاً احمد، رقم۱۹۲۲۹ میں یہ الفاظ ’إلاّ کان علیہ وزرہا ووزر من عمل بہا‘ (مگر (قیامت کے روز)اس پر نہ صرف اپنے اس عمل کا بوجھ ہو گا، بلکہ اس شخص کے بوجھ کا بھی ایک حصہ ہو گا جو اس کے بعد اس طریقے پر عمل کرے گا) کے الفاظ روایت کیے گئے ہیں؛ ترمذی، رقم۲۶۷۵ میں ان الفاظ کے بجاے ان کے مترادف الفاظ’کان علیہ وزرہ و مثل أوزار من اتبعہا‘ ( (قیامت کے روز)اس پر نہ صرف اپنے اس عمل کا بوجھ ہو گا، بلکہ اس شخص کے برابر بھی بوجھ ہو گا جو اس کے بعد اس طریقے کی پیروی کرے گا) روایت کیے گئے ہیں۔

بعض روایات، مثلاً ابن ماجہ، رقم۲۰۳ میں ’من غیر أن ینقص من أوزارہم شیء‘ (ان کے اجروں میں کچھ کمی کیے بغیر) کے الفاظ کے بجاے ’لا ینقص من أوزارہم شیئًا‘ (ان کے بوجھوں میں کچھ کمی نہیں ہو گی) کے الفاظ روایت کیے گئے ہیں؛ بعض روایات، مثلاً احمد، رقم۲۳۳۳۷ میں ان الفاظ کے مترادف الفاظ ’غیر منتقص من أوزارہم شیئًا‘ (ان کے بوجھوں میں کچھ کمی نہیں ہو گی) روایت کیے گئے ہیں؛ ترمذی، رقم۲۶۷۵ میں ان الفاظ کے بجاے ان کے مترادف الفاظ’غیر منقوص من أوزارہم شیئًا‘ (ان کے بوجھوں میں کچھ کمی کیے بغیر) روایت کیے گئے ہیں۔

مسلم، رقم۱۰۱۷ ا میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس ارشاد کا پس منظر بھی بیان کیا گیا ہے۔ وہ روایت درج ذیل ہے:

کنا عند رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم فی صدر النہار، قال: فجاء ہ قوم حفاۃ عراۃ مجتابی النمار أو العباء متقلدی السیوف عامتہم من مضر بل کلہم من مضر فتمعّر وجہ رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم لما راٰی بہم من الفاقۃ فدخل ثم خرج فأمر بلالاً فأذن وأقام فصلی، ثم خطب فقال: ’’یٰٓاَیُّہَا النَّاسُ اتَّقُوْا رَبَّکُمُ الَّذِیْ خَلَقَکُمْ مِّنْ نَّفْسٍ وَّاحِدَۃٍ‘‘، إلٰی آخر الآیۃ، اِنَّ اللّٰہَ کَانَ عَلَیْکُمْ رَقِیْبًا*. والآیۃ التی فی الحشر اِتَّقُوا اللّٰہَ وَلْتَنْظُرْ نَفْسٌ مَّا قَدَّمَتْ لِغَدٍ وَاتَّقُوا اللّٰہَ.** تصدّق رجل من دینارہ من درہمہ من ثوبہ من صاع برہ من صاع تمرہ حتی قال: ولو بشق تمرۃ قال فجاء رجل من الأنصار بصرۃ کادت کفہ تعجز عنہا بل قد عجزت. قال: ثم تتابع الناس حتی رأیت کومین من طعام وثیاب حتی رأیت وجہ رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم یتہلل کأنہ مذہبۃ فقال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: من سن فی الإسلام سنۃ حسنۃ فلہ أجرہا وأجر من عمل بہا بعدہ من غیر أن ینقص من أجورہم شیء ومن سن فی الإسلام سنۃ سیئۃ کان علیہ وزرہا ووزر من عمل بہا من بعدہ من غیر أن ینقص من أوزارہم شیء.
’’(حضرت جریر سے روایت ہے کہ) ہم دن کے شروع میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم) کے پاس تھے تو ایک قوم ننگے پاؤں، ننگے بدن اور چمڑے کی عبائیں پہنے تلواروں کو لٹکائے ہوئے حاضر ہوئی۔ ان میں سے اکثر، بلکہ سارے کے سارے قبیلۂ مضر سے تھے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا چہرۂ اقدس ان کے فاقہ کو دیکھ کر متغیر ہوگیا۔ پھر آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) گھر تشریف لے گئے، پھر (کچھ دیر بعد) تشریف لائے اور حضرت بلال (رضی اللہ عنہ) کو حکم دیا تو انھوں نے اذان اور اقامت کہی۔ پھر آپ نے خطبہ دیا اور(قرآن مجید سے) آپ نے ’’اے لوگو، اپنے اس پروردگار سے ڈرو جس نے تم کو ایک جان سے پیدا کیا‘‘ سے ’’بے شک، اللہ تم پر نگران ہے‘‘تک اور سو رۂ حشر کی آیت ’’اللہ سے ڈرو اور چاہیے کہ ہر نفس اچھی طرح جائزہ لے رکھے اس کا جو اس نے کل کے لیے کیا ہے‘‘کی تلاوت کی اور فرمایا کہ آدمی اپنے دینار اور درہم اور اپنے کپڑے اور گندم کے صاع سے اور کھجور کے صاع سے صدقہ کرتا ہے، یہاں تک کہ آپ نے فرمایا: اگرچہ کھجور کا ایک ٹکڑا ہی ہو۔ پھر انصار میں سے ایک آدمی اتنی بھاری تھیلی لے کر آیا کہ قریب تھا کہ اس کا ہاتھ اسے اٹھا نے سے عاجز ہو جائے، بلکہ اس کا ہاتھ عاجز ہو رہا تھا۔ راوی کہتے ہیں کہ پھر لوگوں نے (اپنا اپنا حصہ ڈالتے ہوئے) اس کی پیروی کی، یہاں تک کی میں نے کپڑوں اور کھانے کے دو ڈھیر دیکھے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا چہرۂ اقدس کندن کی طرح چمکتا ہوا نظر آ نے لگا۔ اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:جس شخص نے (اللہ کی اطاعت کرتے ہوئے) اسلام میں ایک اچھے طریقے کی ابتدا کی، (قیامت کے روز)اس کے لیے نہ صرف اپنے اس عمل کا اجر ہے، بلکہ اس شخص کے اجر میں بھی حصہ ہے جو اس کے بعد اس طریقے پر عمل کرے گا، ان کے اجروں میں کچھ کمی کیے بغیر۔ (اس کے برخلاف) جس شخص نے ایک برے طریقے کی ابتدا کی، (قیامت کے روز)اس پر نہ صرف اپنے اس عمل کا بوجھ ہو گا، بلکہ اس شخص کے بوجھ کا بھی ایک حصہ ہو گا جو اس کے بعد اس طریقے پر عمل کرے گا، ان کے اجروں میں کچھ کمی کیے بغیر۔‘‘

دوسری روایت

بعض روایات، مثلاً ترمذی، رقم۲۶۷۷ میں ’کان لہ مثل أجر من عمل بہا‘ (اس شخص کو ان لوگوں کے برابر اجر ملے گا جو اس سنت پر عمل کریں گے) کے الفاظ کے بجاے ’فإن لہ من الأجر مثل من عمل بہا‘ (اس شخص کو ان لوگوں کے برابر اجر ملے گا جو اس سنت پر عمل کریں گے) کے الفاظ روایت کیے گئے ہیں؛ ابن ماجہ، رقم ۲۱۰ میں یہ الفاظ ’فإن لہ من الأجر مثل أجر من عمل بہا من الناس‘ (بے شک، اس شخص کو ان لوگوں کے برابر اجر ملے گا جو اس سنت پر عمل کریں گے) روایت کیے گئے ہیں۔

بعض روایات، مثلاً ترمذی، رقم۲۶۷۷ میں ’لا ینقص من أجورہم شیئًا‘ (ان کے اجروں میں کچھ کمی نہیں ہو گی ) کے الفاظ کے بجاے ’من غیر أن ینقص من أجورہم شیئًا‘ (ان کے اجروں میں کچھ کمی کیے بغیر) کے الفاظ روایت کیے گئے ہیں؛ ابن ماجہ، رقم ۲۱۰ میں یہ الفاظ ’لاینقص من أجور الناس شیئًا‘ (لوگوں کے اجروں میں کچھ کمی نہیں ہو گی ) روایت کیے گئے ہیں۔

بعض روایات، مثلاً ترمذی، رقم۲۶۷۷ میں ’من ابتدع بدعۃ‘ (جس شخص نے کسی بدعت کی ابتدا کی) کے الفاظ کے بعد ’ضلالۃ لا ترضی اللّٰہ ورسولہ‘ (گمراہی، جس کو اللہ اور اس کارسول ناپسند کرتا ہے) کے اضافی الفاظ روایت کیے گئے ہیں؛ ابن ماجہ، رقم ۲۱۰ میں یہ اضافی الفاظ ’لایرضاہا اللّٰہ ورسولہ‘ (جس کو اللہ اور اس کارسول ناپسند کرتا ہے) روایت کیے گئے ہیں۔

بعض روایات، مثلاً ترمذی، رقم۲۶۷۷ میں ’کان علیہ أوزار من عمل بہا‘ (اس پر ان لوگوں کا بوجھ بھی ہو گا جو اس بدعت پر عمل کریں گے) کے الفاظ کے بجاے ’کان علیہ مثل آثام من عمل بہا‘ (اس پر ان لوگوں کے گناہوں کے برابر بوجھ ہو گا جو اس بدعت پر عمل کریں گے) کے الفاظ روایت کیے گئے ہیں؛ ابن ماجہ، رقم ۲۱۰ میں یہ الفاظ ’فإن علیہ مثل إثم من عمل بہا من الناس‘ (اس پر ان لوگوں کے گناہ کے برابر بوجھ ہو گا جو اس بدعت پر عمل کریں گے) روایت کیے گئے ہیں۔

بعض روایات، مثلاً ترمذی، رقم۲۶۷۷ میں ’لاینقص من أوزار من عمل بہا شیئًا‘ (جن لوگوں نے اس بدعت پر عمل کیا، ان کے بوجھ میں کچھ کمی نہیں ہو گی) کے الفاظ کے بجاے ’لا ینقص ذلک من أوزار الناس شیئًا‘ (اس سے ان لوگوں کے بوجھوں میں کچھ کمی نہیں ہو گی) کے الفاظ روایت کیے گئے ہیں؛ ابن ماجہ، رقم ۲۱۰ میں یہ الفاظ ’لاینقص من آثام الناس شیئًا‘ ( ان لوگوں کے گناہوں میں کچھ کمی نہیں ہو گی) روایت کیے گئے ہیں۔

_____

* النساء ۴: ۱۔

** ۵۹: ۱۸۔

____________

B