HomeQuranHadithMizanVideosBooksBlogs
مصنف : رضوان اللہ

تعدد ازواج کی آیت کا مطالعہ (۱)

زمین پر انسانی آبادی کس طرح شروع ہوئی،اس کے بارے میں ایک سے زائداِمکانات فرض کیے جاسکتے ہیں۔قرآن کے مطابق یہ سلسلہ ایک مردوعورت، یعنی آدم وحوا سے شروع ہواجو اپنی ساخت میں مختلف ہونے کے باوجود ایک ہی جنس سے تعلق رکھتے تھے۔ ۱؂ اس آغازکے بعد آبادی بڑھنے کاایک طریقہ یہ ہوسکتاتھاکہ مردوعورت آزادانہ طورپرباہمی ملاپ کرتے ،مگرانسان چونکہ معاشرت پسند کے ساتھ ساتھ اخلاق پسندبھی واقع ہواہے،اس لیے اُس نے ایسانہیں کیااوربالعموم آپس میں جوڑے بناکراس عمل کو پورا کیا۔

بہت سے مردوعورت موجود ہوں توان کے درمیان میں جوڑابنانے،یعنی نکاح کرنے کی ایک سے زیادہ صورتیں ممکن ہوسکتی ہیں:

۱۔ایک مرداورایک عورت

۲۔کئی مرداورکئی عورتیں

۳۔ایک عورت اورکئی مرد

۴۔ایک مرد اورکئی عورتیں ۲؂

انسان کی طبیعت اوراس کے مزاج کوسامنے رکھاجائے اورنکاح کے نتیجے میں بننے والے خاندان کابھی لحاظ رہے تو ان تمام صورتوں میں پہلی صورت ہی موزوں ترین ہے۔اس لیے کہ نکاح صرف خواہشات کی تسکین اورنسل بڑھانا نہیں ہے،بلکہ یہ دو ہستیوں کا میل اور خاندان کاایک ادارہ بھی وجودمیں لاناہے۔اس کے نتیجے میں جذباتی اوراخلاقی قدریں پیداہوتیں اورفریقین کے مابین کچھ نئے رشتے قائم ہو تے ہیں۔پھر ان دونوں سے اولاد پیدا ہوتی ہے کہ جن کے یہ ماں اورباپ قرارپاتے ہیں۔انھیں اولاد کی پرورش کرنی ہے، ان کی تربیت کی ذمہ داری اٹھانی ہے اوراس کے لیے ایثاراور محبت کی بہت سی مثالیں بھی رقم کرنی ہیں۔یہ تمام چیزیں ملحوظ رہیں تو ایک مردکاایک عورت سے نکاح ہی قابل رشک ٹھیرتااوراسی کے ذریعے سے صالح معاشرت وجودپذیرہوتی ہے۔لہٰذا، پروردگار عالم نے بھی جب آدم کی تخلیق کی تواس کے لیے دو تین اورچار نہیں،بلکہ ایک حوابنائی،جیساکہ قرآن کریم اور دیگر الہامی صحیفوں میں اس کاذکرموجود ہے۔ ۳؂ بلکہ انبیاے کرام کے بارے میں بھی دستیاب معلومات یہی بتاتی ہیں کہ آدم سے لے کرآخری نبی تک،ہرایک نے اپناگھربسانے کے لیے ایک وقت میں ایک ہی عورت سے شادی کو ترجیح دی۔

جہاں تک دوسری اورتیسری صورت کاتعلق ہے تووہ ان سب حکمتوں سے متصادم ہیں جن کا اوپر ذکر کیا گیا۔ جب مرد و عورت ایک ہی وقت میں کئی کئی بندھنوں میں بندھے ہوں گے تواس کے نتیجے میں ایک خاندان کے بن جانے کی توقع کرنابالکل عبث ہوگا۔اسی طرح ایک عورت جب کئی مردوں کے ساتھ نکاح کرے گی تواب بھی نہ ایک خاندان بن پائے گااورنہ وہ اُن ذمہ داریوں کوصحیح طور پر ادا کر پائے گی جومردوعورت کے خلقی تفاوت کی بناپراسی کواداکرنی ہیں اورکسی دوسرے خاندان کو شامل کیے بغیراداکرنی ہیں۔یہی وجہ ہے کہ ان دونوں صورتوں کوخداکے دین میں کبھی بھی جائز نہیں ٹھیرایاگیا۔۴؂

اب رہی آخری صورت تواس کے بارے میں یہ توطے ہے کہ یہ کوئی مطلوب صورت نہیں، تاہم تاریخ شاہدہے کہ ہرزمانے میں کم یا زیادہ ،اس کارواج موجودرہا۔ اس کاباعث بعض اوقات تمدن کی ضرورتیں ہوئیں اورکبھی لوگوں کے سیاسی،نفسی اورسماجی مصالح اس کے داعی ہوئے۔بلکہ بعض انبیاعلیہم السلام کے ہاں اس معاملے میں جو استثنا دکھائی دیتا ہے تو اس کے پیچھے بھی کچھ اسی طرح کی مصلحتیں کارفرمارہیں۔ مثال کے طورپر،سیدناابراہیم کی دوسری شادی اولاد کے حصول کے لیے اور ان کی پہلی زوجہ ،حضرت سارہ کی خواہش پر ہوئی۔ سیدنا یعقوب کے معاملات بھی ذراسے فرق کے ساتھ اسی طرح وقوع پذیر ہوئے۔۵؂ حضرت خدیجہ کی وفات کے بعدنبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک سے زائد نکاح کیے تواس کے پیچھے بھی نفسانی خواہشات اورترغیبات نہیں تھیں ، بلکہ آپ کی اخلاقی اورنبوی حیثیت اوراس سے پیداہوجانے والے بعض تقاضے اس کاباعث تھے۔۶؂ غرض یہ کہ اس طرح کی بعض وجوہات تھیں کہ کسی الہامی کتاب میں تعددازواج پرکبھی کوئی پابندی عائدنہیں کی گئی۔چنانچہ آج بھی دیکھ لیا جاسکتا ہے کہ تورات ہو یا انجیل اور زبور، ان سب میں اس کے متعلق کوئی ممانعت موجودنہیں ہے اور یہ سب اس بارے میں بالکل خاموش ہیں۔

قرآن مجیدنے بھی دیگرالہامی کتابوں کی طرح خاص اس مسئلے پرکوئی کلام نہیں کیا،نہ اس کے اثبات میں اورنہ اس کی نفی میں۔ تاہم اس کے نزول کے وقت حالات کچھ ایسے پیداہوئے کہ یہ مسئلہ ضمنی طورپر زیربحث آگیا۔قرآن کا وہ مقام کہ جس میں اس کا ذکر ہوا، ذیل میں ہم اس کاتفصیل سے مطالعہ کرتے ہیں:

وَاِنْ خِفْتُمْ اَلاَّ تُقْسِطُوْا فِی الْیَتٰمٰی فَانْکِحُوْا مَا طَابَ لَکُمْ مِّنَ النِّسَآءِ مَثْنٰی وَثُلٰثَ وَرُبٰعَ فَاِنْ خِفْتُمْ اَلاَّ تَعْدِلُوْا فَوَاحِدَۃً اَوْ مَا مَلَکَتْ اَیْْمَانُکُمْ ذٰلِکَ اَدْنآی اَلاَّ تَعُوْلُوْا.(النساء ۴: ۳)
’’اگرتمھیں اندیشہ ہوکہ تم یتیموں کے معاملے میں انصاف نہ کرسکوگے توجوعورتیں تمھارے لیے موزوں ہوں،ان میں سے دودو،تین تین،چارچارسے نکاح کرلو۔پھراگرڈرہوکہ انصاف نہ کرسکوگے توایک ہی بیوی رکھویاپھرلونڈیاں جوتمھارے قبضے میں ہوں۔یہ اس کے زیادہ قریب ہے کہ بے انصافی سے بچے رہو‘‘

یہ آیت اُس سلسلۂ کلام میں آئی ہے جس میں یتیم بچوں کی نگہداشت کے بارے میں ان کے سرپرستوں کوکچھ ہدایات دی گئی ہیں۔ مثلاً،ان بچوں کی دیکھ بھال کس طرح کی جائے،ان کے مال کے بندوبست میں کس درجہ احتیاط اور خیرخواہی سے کام لیاجائے اوران کے معاملات میں جو مسائل پیداہوسکتے ہیں، ان کاتدارک کس طرح ہو۔اسی رعایت سے یتیم بچوں کے ان سرپرستوں سے خطاب ہے جوجی جان سے ان کی دیکھ بھال کرناچاہیں ،لیکن غیر شادی شدہ ہونے کی وجہ سے یااپنے اہل وعیال اوران کی ذمہ داریوں کی وجہ سے ایسانہ کرسکیں۔انھیں ہدایت فرمائی ہے کہ وہ سہولت اورآسانی کے پیش نظران یتیموں کی عورتوں کو،جو ان کی مائیں بھی ہوسکتی ہیں اورشادی کے قابل ان کی بہنیں بھی، اپنے ساتھ شریک کر لیں۔۷؂ اس طرح کہ ان میں سے جن کوموزوں خیال کریں،ان دودو،تین تین اورچارچار سے نکاح کرلیں۔

یہ آیت کاسیدھااورصاف مفہوم ہے جوبادی النظرمیں ہمارے سامنے آتاہے اوراسے مولانااصلاحی نے ’’تدبرقرآن‘‘ میں تفصیل کے ساتھ بیان کیا ہے۔۸؂ لیکن بعض کبارمفسرین اس آیت کومختلف طریقے سے دیکھتے اور اس سے ہٹ کراس کامطلب بیان کرتے ہیں۔ ان میں سے چندمعروف مطالب کاہم ذیل میں ذکرکرتے ہیں:

۱۔زمانۂ جاہلیت میں کچھ لوگ اپنے زیرکفالت یتیم بچیوں سے نکاح کرلیتے تھے۔ذہن میں یہی ہوتاکہ ان کے حسن وجمال اور مال سے توفائدہ اٹھائیں گے، مگران کے واجبی حقوق ادانہ کریں گے۔اس پرارشادہواکہ اگر اندیشہ ہو کہ تم یتیم لڑکیوں کے ساتھ نکاح کرکے انصاف نہ کرسکوگے تودوسری عورتیں دنیامیں موجودہیں،ان میں سے جو تمھیں پسند آئیں ان کے ساتھ نکاح کرلو۔گویا اصل بات یتیم بچیوں پرظلم نہ کرنے کی ہے اوراس کاحل یہ تجویز کیا گیا ہے کہ ان کوچھوڑکر دوسری عورتوں سے شادی کرلی جائے۔

۲۔ایک ایک شخص دس دس بیویاں کرلیتاتھا۔اس سے جب اس کے مصارف بڑھ جاتے تووہ مجبورہوکر یتیموں کے حقوق پردست درازی کرتا۔اس پرفرمایاکہ اگراس ناانصافی کاتمھیں اندیشہ ہوتو ایک سے لے کرچارتک اتنی بیویاں کروجس کے ساتھ تم عدل پرقائم رہ سکو۔یعنی اس راے میں بھی اصل زوریتیموں پرظلم نہ کرنے پرہے،مگراس کاحل یہ تجویزکیاگیاہے کہ وہ چارسے زیادہ شادیاں نہ کریں۔

۳۔عہدجاہلیت میں یتیموں کے حقوق کے بارے میں لوگ متنبہ تھے،مگرعورتوں کے معاملات میں بے پروا تھے۔ انھیں حکم ہواکہ جب تم یتیموں کے ساتھ ناانصافی کرنے سے ڈرتے ہوتوعورتوں کے ساتھ ناانصافی کرنے سے بھی ڈرو۔دوسرے لفظوں میں، مسئلہ یہ نہیں ہے کہ یتیموں پرکوئی ظلم ہورہاہے،بلکہ ان پر ظلم کرنے سے لوگ بچتے ہیں، چنانچہ اس بات کاحوالہ دے کرفرمایاہے کہ تم عورتوں پر بھی ظلم کرنے سے رک جاؤ۔

آیت کے بارے میں چندایک چیزوں کاخیال رہے توآسانی سے ان سب آراکی کمزوری معلوم ہوجاتی ہے اور واضح ہوجاتاہے کہ یہاں سرے سے نہ یتیموں پرکسی ظلم کے ہونے یانہ ہونے کابیان ہے اورنہ خاص ان کی عورتوں کے بجاے دوسری عورتوں کے مسائل ہی زیربحث ہیں:

پہلی چیزیہ واضح ہونی چاہیے کہ آیت میں لفظ ’یَتَامٰی‘ اور ’اِقْسَاط‘ کے معنی کیاہیں۔ ’یَتَامٰی‘ عربی زبان کا معروف لفظ ہے۔اس سے مراد وہ نابالغ بچے ہوتے ہیں جن کے باپ فوت ہوچکے ہوں،قطع نظراس سے کہ وہ لڑکے ہوں یالڑکیاں۔ قرآن میں یہ لفظ اس صورت میں بہت سی جگہوں پر آیاہے اورہرجگہ اسی معنی میں آیاہے،لہٰذا اس کے اصل معنی سے صرف نظرکرکے اس سے صرف یتیم لڑکیوں کومرادلیناصحیح نہیں ہے۔تاہم اس پریہ کہاجاسکتاہے کہ ایک لفظ بعض اوقات اپنے اندرتخصیص بھی پیدا کرلیتاہے اوراپنے دیگر افراد کو چھوڑکر کسی ایک کے ساتھ خاص ہوجایاکرتاہے،اس لیے اگر ’یَتَامٰی‘ سے مراد صرف یتیم لڑکیاں لے لی جائیں توزبان کے لحاظ سے یہ غلط نہیں ہو گا۔ یہ بات صحیح ہے ،مگراس کے ساتھ یہ بھی واضح رہے کہ لفظ میں پیداہوجانے والی تخصیصات کلام کے اندرموجودکسی نہ کسی قرینے کی محتاج ہوتی ہیں اورزیربحث آیت میں اس طرح کاکوئی قرینہ موجودنہیں ہے۔بلکہ اگرغورکیاجائے تو قرائن اس کے خلاف ہیں اوراس کی تعمیم کا تقاضا کرتے ہیں۔مثال کے طورپر، ایک آیت متصل پہلے ’وَاٰتُوا الْیَتٰمٰی اَمْوَالَھُمْ‘ میں یہی لفظ آیاہے اورسب کے ہاں مسلم ہے کہ یہ وہاں اپنی تعمیم میں ہے، یعنی یتیم بچوں کے مال ان کے حوالے کردو۔چونکہ اس پر ایک الف لام ہے اور زیربحث آیت ’وَاِنْ خِفْتُمْ اَلاَّ تُقْسِطُوْا فِی الْیَتٰمٰی‘ میں بھی اس پرالف لام آیاہے،اس لیے یہاں معرفہ کا اعادہ خود اس بات میں مانع ہے کہ کسی قرینے کے بغیران دونوں کے الگ الگ معنی مراد لے لیے جائیں۔اگریہ پہلی جگہ یتیم لڑکے اورلڑکیوں،دونوں کے لیے ہے تواسے دوسری جگہ بھی اسی معنی میں ہوناچاہیے۔

اِقْسَاط‘ کے بارے میں یہ تومعلوم ہے کہ اس کامطلب انصاف کرناہے،مگرعربی زبان میں اس انصاف کا ایک اورمحل بھی ہے۔ہم اپنی زبان میں بھی اگریہ کہناچاہیں کہ تم نے اس کام کو ،جیساکہ اس کاحق ہے،انجام نہیں دیاتواس کے لیے ہم کہتے ہیں کہ تم نے اس کام کے ساتھ انصاف نہیں کیا۔ آیت میں ’اِقْسَاط‘ اسی معنی میں آیاہے۔اس کی دلیل یہ ہے کہ اول تویہ ’اِلٰییا ’بَیْنَ‘ کے بجاے ’فِیْ‘ کے ساتھ متعدی ہواہے اوراس کے بعد ’الْیَتٰمٰی‘ کا ایک مضاف بھی محذوف ہے۔ اسے بیان کر دیا جائے تو تالیف کلام یوں ہوتی ہے: ’وَإِنْ خِفْتُمْ أَلاَّ تُقْسِطُوْا فِیْ أُمُوْرِ الْیَتٰمٰی‘۔ یعنی تمھیں اگراندیشہ ہوکہ تم یتیموں کی ذمہ داریاں، جیساکہ ان کاحق ہے، ادانہ کرسکوگے۔غرض یہ کہ آیت میں کسی یتیم یاپھریتیم لڑکیوں پرہونے والے کسی ظلم کابیان نہیں کہ مذکورہ آرامیں سے کوئی راے اختیارکی جائے جو اتفاق سے سب کی سب ’اِقْسَاط‘ کے اسی مفہوم پرکھڑی ہیں۔

دوسری بات جویہاں طے ہو جانی چاہیے، وہ آیت میں موجودشرط اورجزاکے درمیان میں پائی جانے والی مناسبت ہے۔ ’وَاِنْ خِفْتُمْ اَلاَّ تُقْسِطُوْا فِی الْیَتٰمٰی‘ اور ’فَانْکِحُوْا مَا طَابَ لَکُمْ مِّنَ النِّسَآءِ‘، یہ دونوں فقرے آپس میں شرط اورجزاکے طورپرآئے ہیں۔ اگر ’یَتَامٰی‘ اور ’اِقْسَاط‘ کامطلب وہی ہے جوہم نے اوپربیان کیا توپھران آرا میں پائی جانے والی شرط اورجزاکی باہمی مناسبت بے معنی سی ہوجاتی ہیں۔ اب پہلی راے کے مطابق بات یوں ہو گی: اگر تمھیں اندیشہ ہوکہ تم ان یتیموں کاحق ادانہ کرسکوگے توان کو چھوڑکر کسی اورعورت سے شادی کرلو۔دوسری راے کے مطابق شرط اورجزایہ مفہوم دیں گی:اگرتمھیں اندیشہ ہوکہ تم ان یتیموں کاحق ادانہ کرسکوگے تو چارسے زیادہ شادیاں نہ کرو۔تیسری راے یوں ہوگی:اگرتمھیں اندیشہ ہوکہ ان یتیموں کاحق ادانہ کرسکوگے توعورتوں کابھی حق ادا کیا کرو۔

اصل راے کی تائید میں چندایجابی باتیں مزیدبھی کہی جاسکتی ہیں:

ایک یہ کہ ’مِنَ النِّسَآءِ‘ پر ایک الف لام آیاہے جس کواگرکھول دیاجائے توواضح ہوجاتاہے کہ اس سے یتیموں کی عورتیں ہی مراد ہیں۔ اولاً، یہاں الف لام جنس کے بجاے معہودکے لیے زیادہ موزوں ہے اورسباق کوملحوظ رکھاجائے تو یہ ’الْیَتَامٰی‘ سے معہود قرار پاتاہے، یعنی ان یتیموں کی عورتیں۔ ثانیاً، اس کے بعدآنے والی آیت میں تاکیدکی گئی ہے کہ ان عورتوں کے حق مہرخوش دلی سے اداکیے جائیں۔ ظاہرہے، خوش دلی سے ادانہ کرنے کامسئلہ یتیموں کی عورتوں کے بارے میں پیداہوجانازیادہ قرین قیاس ہے،اس لیے کہ یہ نکاح اصل میں انھی کے بچوں کی فلاح اور بہبودکے لیے کیے جارہے ہیں۔ثالثاً، لوگوں نے جب اس کے بعدبھی استفسار کیاتوقرآن نے یہاں کے اجمال کو آگے جاکرلفظوں میں بھی کھول دیاہے۔ فرمایا ہے: ’وَمَا یُتْلٰی عَلَیْْکُمْ فِی الْکِتٰبِ فِیْ یَتٰمَی النِّسَآءِ الّٰتِیْ لاَ تُؤْتُوْنَہُنَّ مَا کُتِبَ لَہُنَّ وَتَرْغَبُوْنَ اَنْ تَنْکِحُوْہُنَّ‘، ۹؂ یعنی وہ عورتیں جن کے ساتھ تم نکاح کرناچاہتے ہو، مگر حق مہرادانہیں کرناچاہتے ، ان کے یتیموں کے بارے میں جوہدایات اس کتاب میں دی جارہی ہیں، ان کے بارے میں اللہ تمھیں فتویٰ دیتاہے۔

دوسرے یہ کہ آیت میں یتیم بچوں کے اُن سرپرستوں سے خطاب ہے کہ جن کے خیال میں وہ تنہاان ذمہ داریوں کو ادا نہیں کر پا رہے۔ ظاہر ہے، ان سے یہی کہناچاہیے تھاکہ وہ اس کام میں دوسروں کو اپناشریک کرلیں۔پھریہ کام بچوں کی نگہداشت اوران کی دیکھ بھال کا تھا،اس لیے مردوں کے بجاے عورتوں کواس میں شریک کرلینازیادہ موزوں ہوتا۔نیزوہ عورتیں اگرانھی یتیم بچوں کی رشتہ دارہوتیں تواس سے پیش نظرمقصدآخری درجے میں پورا ہو جاتا کہ اس سے ان بچوں کی کفالت کابندوبست توہوتا،انھیں اپنا گھراورخاندان بھی میسر آجاتااوروہ اس میں اجنبی اور بے سہارا یتیم کی حیثیت میں نہیں ،بلکہ ایک رشتے دارکی حیثیت میں رہتے ۔چنانچہ ایساہی ہوااورلوگوں کوحکم دیاگیاکہ تم انھی یتیموں کی عورتوں سے نکاح کرلو۔

[باقی]

_____

۱؂ النساء۴: ۱۔

۲؂ اصطلاح میں ان چاروں صورتوں کو بالترتیب یوں بیان کیا جاتا ہے: Monogamy, Polyamory, Polyandry and Polygny

۳؂ کتاب پیدایش باب۲آیت ۲۲۔

۴؂ اوراس تیسری صورت کے بارے میں واضح طورپرممانعت بھی بیان کردی گئی: النساء ۴: ۲۴۔

۵؂ کتاب پیدایش باب ۱۶ آیت ۲۔۳، کتاب پیدایش باب ۲۹ آیت ۲۸۔۳۰۔ باب ۳۰ آیت ۳۔۴، ۹۔

۶؂ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے نکاحوں کے بارے میں تفصیل اس مضمون میں دیکھ لی جاسکتی ہے :ازواج مطہرات،از جاوید احمد غامدی۔

۷؂ گویا یہ وہی بات تھی جس کامجمل بیان اس سے پہلے ہو چکا تھا: ’وَاِنْ تُخَالِطُوْھُمْ فَاِخْوَانُکُمْ‘، یعنی اگرتم ان یتیموں کو اپنے ساتھ شامل کر لوتووہ تمھارے بھائی ہیں۔ البقرہ ۲: ۲۲۰۔

۸؂ آیت کے اس مفہوم کو بعد ازاں جاوید احمد غامدی صاحب نے’ ’البیان‘‘ میں بھی بیان کیا ہے۔

۹؂ النساء ۴: ۱۲۷۔

____________

 

B