HomeQuranHadithMizanVideosBooksBlogs
مصنف : متفرق

سید احمد شہید کا تبلیغی، جہادی اور اصلاحی کردار: ایک تنقیدی جائزہ

[ہزارہ یونیورسٹی، پاکستان میں منعقدہ کانفرنس’’سید احمدشہید کا تبلیغی، جہادی
اور اصلاحی کردار: ایک تنقیدی جائزہ‘‘ کے بارے میں احوال و تاثرات]

جولائی ۲۹ تا ۳۱، ۲۰۱۵ء کو ہزارہ یونیورسٹی میں سید احمد شہید کی حیات اور خدمات کا جائزہ لینے کے لیے ایک بین الاقوامی کانفرنس کا انعقاد کیا گیا۔ مانسہرہ اور ہزارہ کو سید احمد شہید سے نسبت خاص ہے ۔ سید صاحب کی عظیم تحریک یہاں سے گزری اور اپنے انمٹ نقوش ثبت کر تے ہوئے بالاکوٹ کے میدان میں تاقیامت فروکش ہوگئی۔ اس تحریک نے مسلمانان پاک وہند کو علمی اور عملی سطح پر بہت گہرائی اور گیرائی سے متاثر کیا ہے۔ اس کے اثرات آج بھی نمایاں ہیں۔ بجا تھا کہ اس عظیم تحریک کے ہمہ گیر اثرات کا جائزہ لینے کے لیے اہل علم کا اجتماع منعقد کیا جائے اور اس کے لیے سب سے موزوں یہی تھا کہ ہزارہ یونیورسٹی اس کا اہتمام کرے جو اس علاقے میں واقع ہے جس کو اس تحریک کی میزبانی کا شرف حاصل ہوا اور یہیں اس تحریک کے اولین قائدین کی آخری آرام گاہ بھی ہے۔ اس کانفرنس کا اہتمام ہزارہ یونیورسٹی کے شعبۂ تعلیم نے کیا تھا۔ جن کے سربراہ ڈاکٹر منظور حسین شاہ تھے۔

راقم کو اس کانفرنس میں اپنا مقالہ پڑھنا تھا۔ روانگی کے لیے راولپنڈی اور اسلام آباد سے جانے والے محققین حضرات سے رابطہ کر کے اکٹھا سفر کرنے کا پرگرام طے پایا۔چناچہ نمل اسلام آباد سے ڈاکٹر نور حیات، ڈاکٹر فرحان راؤ، ڈاکٹر ارم سلطانہ ؛ اسرا ء یونیورسٹی سے ڈاکٹر ریاض سعید اور راقم نے ڈائیوو بس سروس سے ایبٹ آباد اور وہاں سے مانسہرہ جانا طے کیا۔ راستے میں بس خراب ہوگئی اور ایک گھنٹہ ضائع ہوا، جسے ایک ہوٹل پر چائے نوش کرتے ہوئے ہلکی پھلکی علمی گفتگو میں گزارا۔ ایبٹ آباد سے مانسہرہ کے لیے ڈائیوو کی شٹل سروس مہیا ہونے میں دیر تھی،نیز عملے کا رویہ اَن پروفیشنل تھا۔ بہرحال احباب نے اپنے طور پر گاڑی کرائے پر لی اور مانسہرہ پہنچے۔ راستے میں زیادہ تر ایک دوسرے کے مقالات کے نکات اور سید صاحب کی تحریک کے مختلف پہلو اور تاریخی معلومات کا تبادلہ ہوتا رہا۔ مانسہرہ میں لاہور سے آئی ڈاکٹر زاہدہ سلمان اور فیصل آباد یونیورسٹی سے ڈاکٹر رضوان بھی ہم رکاب ہو گئے۔ یہاں سے ہزارہ یونیورسٹی کا عملہ ہمیں آرمی میس لے آیا جہاں کے مہمان خانے ہمارے لیے کرائے پر حاصل کئے گئے تھے۔ یہاں ہماری رہایش کا معقول انتظام تھا۔ تاہم شرکا کی خواہش تھی کہ رہایش اگر شہر یا یونیورسٹی کے اندر ہوتی تو زیادہ آزادی سے گھومنے پھرنے کا لطف آتا۔ تاہم یہ جگہ بھی پرفضا تھی۔

اگلے دن ناشتہ کے فوراً بعد ہمیں یونیورسٹی پہنچایا گیا۔ رجسٹریشن کروائی گئی ۔ چند ساتھیوں کو اعتراض تھا کہ رجسٹریشن فیس نہیں ہونی چاہیے تھی۔ بہرحال، ہم نے فیس ادا کی اور کانفرنس میں جابیٹھے۔ امریکہ سے تشریف لائے پروفیسر ڈاکٹر عدیل صاحب شستہ انگریزی میں خطاب فرما رہے تھے۔ انھوں نے عالمی تناظر میں رواداری اور روشن خیالی کے موضوع پر اچھی گفتگو کی۔ ان کا خطاب کافی خطیبانہ تھا۔ حاضرین تالیوں سے داد دیتے رہے۔ ان کے بعد ایک آدھ مقالہ پڑھا گیا جو کوئی تاثر نہ چھوڑ سکا۔

چائے کے وقفے کے بعدمقالہ نگار شرکا کو ایجوکیشن بلاک لے جایا گیا اور انھیں مختلف کمروں میں بٹھا دیا گیا جو ان کے لیے مختص کیے گئے تھے۔ ہر کمرے میں ملٹی میڈیا فراہم کیا گیا تھا ۔ہر کمرے میں سامعین کی اچھی خاصی تعداد تھی۔ مقالہ نگار اپنا مقالہ پیش کرتے اور سامعین اس کے بعد سوالات کرتے۔ مجھے یہ طریقہ بہت پسند آیا۔ اس طرح سامعین محض سامعین نہیں ہوتے، بلکہ شریک بحث ہوجاتے ہیں ۔ وہ زیادہ دل چسپی سے سنتے ہیں، کیونکہ ان کو بھی اپنے جوابی خیالات کے اظہار کا موقع ملتا ہے ۔ جن کانفرنسوں میں سامعین کو صرف سننا ہوتا ہے ، وہاں معاملہ یک طرفہ ہونے کی وجہ سے بے جان اور پھیکا ہوجاتا ہے۔ یک طرفہ معاملہ کوئی بھی ہو، زیادہ دیر اپنی دل چسپی قائم نہیں رکھ سکتا۔ سوال و جواب سے مقالہ نگار کو بھی فائدہ ہوتا ہے۔ اندازہ ہوجاتا ہے کہ آپ اپنی بات کے ابلاغ میں کتنا کامیاب رہے۔ اور یہ کہ آپ کتنے پانی میں ہیں۔ اپنے مقالے کی قدر و قیمت پرکھنے کا موقع مل جاتا ہے۔ نیز اضافی نکات اور خیالات بھی حاصل ہوتے ہیں۔

علمی کانفرنسوں میں اکثر یہ دیکھنے میں آتا ہے کہ مقررین اپنے مقالات کو مقررہ وقت میں ختم نہیں کر پاتے ۔ وہ اپنے مقررہ وقت سے زیادہ وقت لے لیتے ہیں جس سے دیگر مقررین کی حق تلفی ہو جاتی ہے۔ مزید یہ کہ سامعین بھی بیس منٹ کے بعد تقریر میں دل چسپی کھونے لگتے ہیں۔ اس کانفرنس میں بھی یہی مشاہدہ ہوا کہ اکثر مقررین بلا ضرورت سید احمد شہید کی داستان اول تا آخر بیان کرنے لگتے جو سامعین کو اب ازبر ہو چکی تھی، لیکن جب اپنے مقالے کے مرکزی موضوعات کی طرف آتے تو ان کے پاس وقت کی کمی ہو جاتی ۔ان باتوں کو پیش نظر رکھتے ہوئے راقم نے پاور پواینٹ پریزینٹیشن تیار کی تھی اور اس کی مشق بھی کی تھی کہ پندرہ منٹ میں یہ مکمل پیش کیا جا سکے۔ مقالہ انگریزی میں تھا اور پریزنٹیشن بھی انگریزی میں تھی۔ راقم کے مقالے کا عنوان تھا:

‘‘An Analysis of the Effects and Implications of Sayyad Ahmad Shahid’s Movement of Jihad for the Revival of the Political Islam: A Continuous Struggle in its Different Forms’’

میں نے سید صاحب کی داستان دہرائے بغیر یہ بتانے کی کوشش کی کہ سید صاحب کی تحریک کا نظریاتی اور حکمت عملی کا جامع تجزیہ کرنے کی آج بھی ضرورت ہے، کیونکہ آج بھی یہ تحریک سیاسی ودینی تحریکات کے لیے، خصوصاً برصغیر میں، سب سے بڑے محرک کی حیثیت رکھتی ہے۔ میں نے عرض کیا کہ سید صاحب کی تحریک شاہ ولی اللہ اور شاہ اسماعیل کے نظریات سے مولود ہوئی۔ برصغیر کے بعد پوری دنیا میں غلبۂ اسلام اس کا مطمح نظر تھا۔ پنجاب میں سکھوں کے ظلم وستم کا استیصال اس کا اولین ہدف تھا ۔یہ تحریک مسلح جدوجہد سے شروع ہوئی، بالاکوٹ میں سید صاحب اور آپ کے قریبی احباب کی شہادت کے بعد بھی کافی عرصہ مسلح جدوجہد جاری رہی۔ ۱۸۵۷ ء کے بعد یہ تعلیمی جدوجہد میں تبدیل ہوئی اور مدرسہ دارالعلوم دیوبند، سہارنپور، ندوۃ العلماء ، اہل حدیث کے مدارس وغیرہ کی شکل میں ظاہر ہوئی جو اپنے طلبا میں جہاد کی آبیاری کرتے رہے۔ کانگریس کے قیام کے بعد یہ تحریک سیاسی جدوجہد میں تبدیل ہوئی۔ پہلے جمیعت علمائے ہند اور پھر جمیعت علمائے اسلام کی صورت میں اس تحریک کے لواحقین دو الگ راستوں کے راہی بنے۔ جمیعت علمائے ہند نے، ہندوستان کے نئے سیاسی منظر نامے کے معروضی حقائق کا ادراک کرتے ہوئے مسلمانوں کے سیاسی غلبے کے نظریے سے دست بردار ہو کر مشترکہ قومیت اور جمہوریت کے اندر سیکولر ازم کے ذریعے سے مذہبی آزادی کے خیالات کو اپنا لیا۔ لیکن جمیعت علمائے اسلام ،سید صاحب کے نظریے سے زیادہ قریب رہی۔ اس نے مسلم لیگ کے الگ وطن کی جدوجہد میں اسلامی سلطنت کا خواب پھر سے استوار ہوتے دیکھا تو اس میں شامل ہوگئی۔ قیام پاکستان کے بعد، حکومتوں کے اسلام نافذ کرنے سے گریز کی روش کی وجہ سے یہ تحریک آئینی جدوجہد میں تبدیل ہو گئی۔ پھر یہ بتدریج جارحانہ ہوتی چلی گئی۔ تحریک نفاذ نظام مصطفی سے یہ احتجاج میں تبدیل ہوئی اور تحریک نفاذ شریعت اور طالبان کی صورت میں پھر سے مسلح ہوگئی۔ یوں دیکھیے تو سید صاحب کی تحریک تاریخ کا چکر کاٹ کر پھر اسی نقطہ پر کھڑی ہوگئی جہاں سے چلی تھی۔

راقم نے اپنا تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ سید صاحب کی تحریک کی بنیاد حکومت الٰہیہ کے قیام، نجی جہاد، امامت اور شاہ عبد العزیز کے دارالحرب کے فتویٰ پر تھی ۔ عرض کیا کہ مسلمانوں کے لیے حالت اقتدار میں نفاذ شریعت فرض ہے، لیکن نفاذ شریعت کے لیے حصول ریاست فرض یا واجب نہیں۔ بالکل اسی طرح، جیسے صاحب مال کے لیے ادائیگی زکوٰۃ فرض ہے، لیکن ادائیگی زکوٰۃ کے لیے کسب مال فرض یا واجب نہیں ۔نیزنجی جہاد کا کوئی تصور اسلام میں نہیں۔ جہاد امامت اور ریاست کے تحت ہی کیا جاسکتا ہے۔ جہاد کی اجازت اور احکامات ہجرت مدینہ کے بعد نازل کیے گئے ہیں، اس لیے جہاد و قتال سے متعلق تمام آیات کو ریاست مدینہ کے قیام کے بعد کے تناظر میں دیکھنا چاہیے۔ مزید عرض کیا کہ حکومت کی کوتاہی سے اگر حدود کا نفاذ نجی شعبہ کے حوالے نہیں کیا جا سکتا تو جہاد کو کیونکر نجی شعبہ کے حوالے کیا جا سکتا ہے؟ دارالحرب کے فتویٰ کے ضمن میں عرض کیا کہ کسی جگہ کا دارالحرب قرار پا جانے کے بعد پہلا تقاضا ہجرت ہوتاہے ، لیکن ہمیں اس وقت کے ہند کے مسلمانوں یا کم از کم پنجاب کے مسلمانوں سے اس کا مطالبہ نظر نہیں آتا۔ لاکھوں مسلمانوں میں سے زیادہ سے زیادہ پندرہ سو مسلمانوں نے سید صاحب کے ساتھ ہجرت کی تھی جو کہ انتہائی ناکافی تعداد ہے۔

سید صاحب کے طریقۂ کار میں نوٹ کیا گیا کہ آپ نے جہاد پہلے شروع کیا (اکوڑہ کا شب خون)، بیعت امامت بعد میں لی (جب دیکھا کہ مقامی مجاہدین جنگ کے بجاے مال غنیمت لے کر چلتے بنے اور اس کی شرعی تقسیم پر آمادہ نہ ہوئے)، اس کے بعد ریاست کے حصول کی کوشش کی اور اس کے بعد لوگوں پر شریعت کا نفاذ کرنے کی کوشش کی جو اس کے لیے تیار نہ تھے۔ یہ ترتیب رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کے بالکل برعکس ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو مدینہ کے لوگوں نے اپنا امام پہلے تسلیم کیا، پھر خود سے ریاست مہیا کردی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی مرضی سے ان پر شریعت نافذ کی، اور جہاد سب سے آخر میں کیا گیا۔ اس کے علاوہ سید صاحب نے دشمن کے مقابلے میں عددی قوت کے فرق کو نظر انداز کیا۔ آپ کے پاس قابل بھروسا جنگجوؤں کی تعداد ۱۵۰۰ سے زیادہ نہ تھی، جو پوری طرح مسلح بھی نہ تھے اور بنیادی ضروریات کی تکمیل سے بھی تہی تھے ۔ جبکہ سکھوں کی صرف سرحدی فوج ۸۰۰۰ سے ۱۰۰۰۰ تک تھی۔ راقم نے عرض کیا کہ سید صاحب کی اس پراثر تحریک کا درست تجزیہ کرنے کی ضرورت ہے تا کہ مستقبل کے اولوالعزم مسلمان نوجوانوں کی صلاحیتوں کو اسلام کی خدمت میں بہتر طور پر استعمال کیا جا سکے۔

سامعین کے لیے میری یہ تنقید غیر متوقع تھی۔ پریزنٹیشن کے بعد سوالات کی گویا بوچھاڑ ہو گئی۔ جن کے جوابات دیے گئے۔ ایک سوال یہ کیا گیا کہ کشمیر ، فلسطین اور برما وغیرہ میں جو ظلم ہو رہا ہے، اس پر ہمیں کیا کرنا چاہیے؟ عرض کیا کہ قرآن نے اس کی رہنمائی وضاحت سے کی ہے۔ اگر ظلم غیر مسلم ریاست کی طرف سے ہو رہا ہو تو ایک مسلم ریاست اس کے سد باب کے لیے اپنے وسائل اختیار کرے گی اور یہ اس پر فرض ہے۔ لیکن اگر وہ اس غیر مسلم ریاست کے ساتھ معاہدہ کی حالت میں ہے تو اپنے مسلمان بھائیوں کی مدد بھی نہیں کر سکتی، سوائے اس کے کہ معاہدہ علی الاعلان ختم کر دے۔ ایک صاحب نے کہا کہ ’الحرب خدعۃ‘ کہ جنگ تو دھوکا ہے، تو معاہدۂ امن کے ہوتے، اندرون خانہ اپنے مظلوم مسلمان بھائیوں کی مدد کرنا جائز ہے؟ اس پر عرض کیا کہ ’الحرب خدعۃ‘ (جنگ دھوکا ہے) ہے نہ کہ ’الامن خدعۃ‘ (امن دھوکا ہے)۔ اسلام میں معاہدہ کی پاس داری کو فوقیت حاصل ہے۔ آپ نے مدد کرنی ہے تو معاہدۂ امن علی الاعلان ختم کرنا ہوگا۔ دنیا مسلمانوں کو دھوکے باز نہ سمجھے، یہ زیادہ اہم ہے۔ میرے ہم سفر ڈاکٹر ریاض سعید نے سوال کیا کہ قرآن کی آیت، ’مَالَکُمْ لَاتُقَاتِلُوْنَ...‘ تو ہمیں حکم دیتی ہے کہ ہم اپنے طور پر جائیں اور اپنے مظلوم بھائیوں کی مدد کریں؟ اس پر عرض کیا کہ یہ آیت ریاست مدینہ سے مخاطب ہے۔ اور آج بھی اس کا مخاطب ریاست ہی ہے۔ آخر کیا وجہ ہے کہ مظلومیت تو دور مکی میں بھی تھی، لیکن مظلوموں کی مدد کے لیے اٹھ کھڑے ہونے کا حکم نہیں آیا۔ اس کے بجاے ہجرت حبشہ کا حکم دیا گیا قتال کا نہیں۔ قتال کا حکم تب ہی آیاجب تک کہ مدینہ میں ریاست حاصل نہ کر لی گئی۔ ایک پروفیسر صاحب نے سوال کیا کہ مغل بادشاہ ظہیرالدین بابر کے بارے میری کیا راے ہے، وہ بھی تو کچھ جنگجوؤں کے ساتھ آیا اور سلطنت قائم کر لی؟ عرض کیا کہ بابر نے جو کیا، اسلام کے نام پر نہیں کیا۔ اپنے سیاسی مفادات کے تحت کیا۔ جبکہ سید صاحب نے جو کیا اسلام کے نام پر کیا۔ تو جو اسلام کا نام لے تو اس کے کام کو جانچنے کا معیار مختلف ہو جاتا ہے۔ ایک طالبہ نے سوال کیا کہ کیا سید صاحب کو فریڈم فائٹر نہ سمجھا جائے؟ عرض کیا کہ آزادی کی جنگ تو انھوں نے لڑی، لیکن اسلامی نقطۂ نظر سے اس میں سقم ہیں۔

سوالات کا سلسلہ تھم نہیں رہا تھا کہ چیئرمین صاحب نے چائے کے وقفے کا اعلان کر دیا جس سے امید ہوئی کہ ماحول کی حرارت چائے کی حرارت سے کچھ زائل ہو جائے گی۔ چائے کے وقفے کے دوران بھی میرے مقالے پر سوالات اور تبصروں کا سلسلہ جاری رہا۔ تاہم مجھے یہ دیکھ کر خوشی ہوئی کہ نہ صرف میرے نکات اعتراض کا تحمل کیا گیا، بلکہ بہت سے افراد نے اس کی حوصلہ افزائی بھی کی۔ سوات سے تعلق رکھنے والے ایک صاحب نے جو جمیعت علمائے اسلام سے وابستہ تھے، مجھے طالبان کے بارے میں اپنے ذاتی حالات سناتے رہے جو رونگٹے کھڑے کرنے کے لیے کافی تھے۔ میرے بعد آنے والے مقالہ نگاروں نے اپنے مقالے کے ساتھ ساتھ میرے مقالے پر اپنا تبصرہ کرنا بھی ضروری سمجھا۔

اگلے مقالہ نگار میرے ساتھی ڈاکٹر ریاض سعید تھے۔ انھوں نے مختلف تاریخی شواہد سے سید صاحب کی تحریک کے افراد کا تحریک پاکستان کے ساتھ براہ راست تعلق ثابت کیا۔ انھوں نے بتایا کہ سید صاحب کی تحریک کی بدولت دو قومی نظریہ واضح ہو کر سامنے آتا ہے۔ کے پی کے کے ریفرنڈم میں اس تحریک کے لوگوں نے مسلم لیگ کی کامیابی کے لیے نمایاں کردار ادا کیا۔

اگلے دن مرکزی اجلاس میں مہمانان خصوصی نے جو مقالہ جات پڑھے، وہ بھی تحقیقی کم اور تبصراتی اور جذباتی زیادہ تھے۔ تاہم، کراچی سے تشریف لائی ہوئی محترمہ پروفیسر ڈاکٹر نگار سجاد ظہیر صاحبہ کا مقالہ خالص تحقیقی مقالہ تھا۔ انھوں نے سید صاحب کی تحریک کا سماجی اور سیاسی نقطۂ نظر سے مطالعہ کیا تھا۔ اور ہندوستان کی آزادی اور مسلمانوں میں شعور کی بیداری میں ان کی خدمات کو سراہا تھا۔ اسی مرکزی اجلاس میں مہمان مقرر، مفتی کفایت اللہ صاحب نے ایک نہایت اہم کلیہ ارشاد فرمایا، فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو قوت و کمزوری کے لحاظ سے تین حالتیں درپیش ہوئیں۔ پہلی جب آپ کمزور تھے اور دشمن طاقت ور، دوسری جب آپ اور آپ کے دشمن طاقت میں تقریباً برابر سرابر تھے اور تیسری جب آپ غالب اور دشمن مغلوب تھا۔ تینوں حالتوں کی سنت مختلف ہے۔ ہم مسلمانوں سے غلطی یہ ہوجاتی ہے کہ ہم ایک حالت میں ہوتے ہوئے دوسری حالت کی سنت اختیار کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ کمزوری کی حالت میں برابری یا غالب حالت کی سنت اپنانے سے مسلمانوں نے اسلام کو بھی نقصان پہنچایا ہے اور خود کو بھی۔ یوں وہ ایسے گھن چکر میں پھنس گئے ہیں کہ نکلنے کی کوئی صورت نظر نہیں آ رہی۔

اس کے بعد ہمیں اسی طرح مختلف کمروں میں بھیج دیا گیا۔ راقم جس کمرے میں تھا، وہاں ایک مقالہ نگار (نام فراموش ہوگیا) نے سید صاحب کی تحریک کے شاعری پر اثرات پر اپنامقالہ پیش کیا۔ تاہم مقالہ مطالعہ کی کمی کا مظہر تھا جس پر اہل علم سامعین نے ان کی توجہ دلائی۔ جسے انھوں نے خندہ جبینی سے تسلیم کیا۔ اس کے بعد دو نوجوان اسکالرز نے محفل کو اپنے حصار میں لیے رکھا۔ ان میں سے پہلے آنے والے شعبہ بین الاقوامی تعلقات ہزارہ یونیورسٹی کے ڈاکٹر عادل سیماب نے یہ تھیسز پیش کیا کہ وہابی تحریک، سید صاحب کی تحریک مجاہدین، فرائضی تحریک، اور اب موجودہ تحریک طالبان میں ایک چیز مشترک ہے کہ ان تمام تحاریک نے استعمار کو مضبوط کرنے اور سامراجیت کے اہداف حاصل کرنے میں اپنی قوت صرف کی۔ وہابی تحریک نے خلافت عثمانیہ کو کمزور کیا، سید صاحب کی تحریک نے انگریزوں کے حریف سکھوں سے لڑائی کی، فرائضی تحریک نے ہندو جاگیرداروں کے خلاف حکومت انگلیشیہ کو مضبوط کیا۔ اور طالبان نے پہلے روس کو توڑ کر امریکہ کو تقویت پہنچائی اور اب افواج پاکستان کے خلاف لڑ کر امریکی ایجنڈا ہی پورا کر رہے ہیں۔ حاضرین نے مقالہ نگار کو آڑے ہاتھوں لیا۔ تاہم ڈاکٹر عادل تحمل آمیز مسکراہٹ کے ساتھ حاضرین کو جواب دیتے رہے۔ ان پر ایک اعتراض یہ کیا گیا کہ آپ آج کے دور میں رہ کر اس وقت کے حالات کا تجزیہ کیسے کر سکتے ہیں ۔ راقم کے نزدیک یہ اعتراض نا مناسب تھا ۔ اگر اس تحریک کی تحسین کرنے پر یہ اعتراض نہیں کیا جاتا تو تنقید کرنے پر بھی یہ اعتراض نہیں کیا جا سکتا۔ نیز کسی بھی واقعے کا تجزیہ اس کے گزرنے کے بعد ہی کیا جانا ممکن ہے۔ ڈاکٹر عادل نے اس کا یہ جواب دیا کہ انھوں نے یہ تجزیہ اس وقت کے بین الاقوامی حالات کے تناظر میں کیا ہے، آج کے حالات کے تناظر میں نہیں کیا۔ اس لیے یہ سوال پیدا نہیں ہونا چاہیے۔ ایک چبھتا ہوا سوال یہ کیا گیا کہ آپ ان تحاریک کا تعلق استعمار کے ساتھ ثابت کیجیے یا اپنی بات سے دست بردار ہو جائیں۔ اس پر میں نے عرض کیا کہ یہ اعتراض درست نہیں۔ تحقیق کا ایک انداز یہ بھی ہوتا ہے کہ کسی مظہر کو اس کے اثرات کی روشنی میں پرکھا جائے۔ اور محقق نے یہی کیا ہے۔ اس کے لیے ضروری نہیں کہ وہ ان خفیہ روابط کا سراغ بھی لگائے جو ان تحاریک اور استعماری طاقتوں کے مابین ہو سکتے تھے۔ نیز مقالہ نگار نے کسی خفیہ رابطے کا الزام بھی نہیں لگایا تھا، بلکہ صرف یہ کہا تھا کہ ان تحاریک سے استعمار کو بہرحال فائدہ ہوا ہے۔ منتظمین نے سوالات کی کثرت کے پیش نظر سوالات کے سلسلہ کو منقطع کر کے اگلے مقالہ نگا ر کو موقع دیا۔

یہ بھی ایک نوجوان ریسرچ اسکالر محمد حنیف تھے۔ انھوں نے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی کہ سید صاحب کا مقصد بیرونی تسلط سے ہندوستان کی آزادی تھی جس کے بعد وہ اقتدار کو ہندوستانیوں کو بلا امتیاز دین و ملت سونپ دینا چاہتے تھے۔ وہ شاہ ولی اللہ کے فکری نظام کو عملی جامہ پہنانے نکلے تھے۔ اس فکر کے اصل وارث متحدہ قومیت کے علم بردار، مولانا عبید اللہ سندھی جمیعت علمائے ہند تھے۔ جمیعت علمائے اسلام اس فکر سے منحرف ہوئی۔ اس مقالہ نگار پر بھی تابڑ توڑ سوالات کیے گئے۔ ایک سوال میں نے یہ کیا جیسا کہ محقق نے تسلیم کیا تھا کہ سید صاحب شاہ ولی اللہ کے نظریات سے متاثر تھے تو شاہ ولی اللہ تو کسر شوکت الکفر کے قائل ہیں (جس کے حوالہ جات راقم نے اپنے مقالے میں بھی دیے ہیں)، اس کے مطابق شاہ ولی اللہ، خدا کی زمین پر کفر کی حکومت کاقائم ہونا اور رہنا جائز نہیں سمجھتے۔ وہ غیرمسلموں کے لیے برسر اقتدار ہونا اسی صورت میں جائز سمجھتے ہیں، جبکہ وہ مسلمانوں کی تابع داری میں ہوں۔ اس لحاظ سے سید صاحب کے بارے میں یہ کہنا کہ وہ ہندوستانیوں کوبلا امتیاز اقتدار سونپنے کا ارادہ رکھتے تھے، درست نہیں ہو سکتا، یہ بات سید صاحب کے بعض خطوط کے بھی خلاف ہے جس میں انھوں نے ہندوستان کی سر زمین سے کفر وشرک کے خاتمے کو اپنا مقصد بتایا تھا۔ اس طرح دیکھا جائے تو شاہ ولی اللہ کے مطابق ہندوستان میں، بلکہ ساری دنیا میں مسلمان اور غیر مسلم کا تعلق برابری کا نہیں ، بلکہ متحارب اورحاکم اور محکوم کا بنتا ہے۔ اس پر مقالہ نگار نے اپنی لاعلمی کا اظہار کیا۔ جس پر میں نے انھیں ’’حجۃ اللہ البالغہ‘‘ سے رجوع کا مشورہ دیا۔ ایک اور سوال میرے ساتھی ڈاکٹر ریاض سعید، جن کا مقالہ موجودہ مقالہ کا مکمل عکس (antithesis) تھا، نے یہ کیا کہ سید صاحب کی تحریک کے نتیجے میں بھارت آزاد ہوا یا پاکستان بنا؟ اس سوال کا جواب محقق نے ذرا مبہم انداز میں دیا۔ آخر وہ پاکستان میں بیٹھ کر پاکستانیوں کی ’مثالی رواداری‘ کے اعصاب کو اور کتنا آزماتے۔

ان مقالات کے اختتام پر ہمیں واپس مرکزی ہال میں لے جایا گیا جہاں شرکا کو اعزازی شیلڈز دی گئیں۔ اختتامی خطابات ہوئے۔ منتظم اعلیٰ ڈاکٹر منظور حسین نے بتایا کہ انھوں نے اور ان کی ٹیم نے دن رات کس انتھک محنت سے اس بین الاقوامی کانفرنس کا اہتمام کیا ۔ شرکا نے انھیں اس کامیاب کانفرنس کے انعقاد پر مبارک باد پیش کی۔

کانفرنس میں مجھے ایک بار پھر یہ احساس ہوا کہ ہمارے ہاں عام طور پرتحقیقی مزاج کی کمی ہے۔ کانفرنس میں بھی اکثر مقالات تحقیقی کم اور قصیدے کی زبان میں لکھے ہوئے خطبے زیادہ محسوس ہوئے۔ معذرت کے ساتھ ، مگر مجھے یہ محسوس ہوا کہ اس مزاج کی تشکیل اور ترسیل میں ہمارے بزرگ اساتذہ کا دخل ہے جو خود غیر جذباتی تحقق کی بنیادیں تعمیر کرسکے نہ اس اگلی نسل میں اس کی تشکیل کر سکے۔ تاہم کچھ نوجوان اسکالرز نے کسی حد تک اس کمی کا ازالہ کیا ۔

ہمارے گروپ میں مختلف مسالک کے علما اکٹھے ہوگئے تھے۔ ہم جب جماعت کراتے تو کبھی کوئی اہل حدیث صاحب امامت کراتے تو کبھی کوئی حنفی۔ یہ بھی دیکھنے میں آیا کہ اہل حدیث صاحب کی امامت میں حنفی مقتدی نے اکہری اقامت کہی اور رفع یدین بھی کیا۔

اس کے بعد اگلے دن کا پروگرام بالاکوٹ ،ناران اور کاغان وغیرہ کی سیر کا تھا، لیکن مجھے اپنے چنو منو ( میرے بچے)یاد آرہے تھے۔ بہت عرصے بعد ان سے دو دن کے لیے دور ہوا تھا۔ سو میں نے مزید قیام سے معذرت کی۔ ڈاکٹر منظور حسین کے حکم پر خصوصی گاڑی کے ذریعے سے راقم اور ڈاکٹر فرحان راؤ کو مانسہرہ تک چھوڑا گیا۔ وہاں سے ہم نے واپس پنڈی کی راہ لی۔

_____

* ممبر مجلس مشاورت تحقیقی مجلہ، نیشنل یونیورسٹی آف ماڈرن لینگویجز (NUML)، اسلام آباد، پاکستان؛ فری لانس لکھاری Asia Depatch اور IBC Urdu۔

____________

 

B