HomeQuranHadithMizanVideosBooksBlogs
مصنف : ڈاکٹر وسیم مفتی

حضرت ابوذر غفاری رضی اﷲ عنہ (۴)

حضرت ابوذر غفاری کو تعلیم و تعلم سے بہت لگاؤ تھا۔بتاتے ہیں کہ مجھے رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: تو صبح اٹھے اور قرآن کی ایک آیت سیکھ لے ،یہ تمھارے لیے اس سے کہیں بہتر ہے کہ (رات بھر جاگ کر ) سو رکعت نفل ادا کرے۔ تو دن میں علم کا ایک باب سیکھ لے جس پر عمل کیا ہو یا نہ کیا ہو ،اس سے کہیں بہتر ہے کہ ایک ہزار رکعت نوافل ادا کرے (ابن ماجہ، رقم ۲۱۹)۔ فرماتے ہیں: ہمیں رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے حکم ارشاد کیا کہ تین کاموں میں کوئی ہمیں مغلوب نہ کر سکے: امر بالمعروف ، نہی عن المنکر کریں اور لوگوں کو سنتیں سکھائیں (سنن دارمی، رقم ۵۶۰)۔ سیدنا ابوبکر، سیدنا عمر اور سیدنا عثمان کے عہد ہاے خلافت میں حضرت ابوذر فتویٰ دیتے تھے۔ ایک حج کے موقع پر حضرت ابوذر جمرۂ وسطیٰ کے پاس بیٹھے تھے ، لوگوں کی بھیڑ لگی تھی جو ان سے مسائل دریافت کر رہے تھے۔ ایک شخص کھڑا ہو گیا اور اعتراض کیا کہ کیا امیرالمومنین سیدنا عثمان نے آپ کو فتویٰ دینے سے نہیں روکا؟ حضرت ابوذر نے سر اٹھا کر کہا: کیا تو مجھ پر داروغہ لگا ہے ؟تم اگرمیری گردن پرتلوار رکھ دو اور مجھے گمان ہو کہ تمھارے وار کرنے سے پہلے رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم سے سنا ہوا کلمہ ادا کرسکوں گا تو ضرور کروں گا (بخاری: باب العلم قبل القول والعمل۔ سنن دارمی، رقم ۵۶۲)۔

حضرت ابوذرغفاری نے قریب قریب ہر موضوع پر رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم سے روایت بیان کی ۔خود کہتے ہیں کہ میں رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کے خلوت کے لمحات کی کھوج میں رہتا تھا، اس لیے کئی روایات ایسی ہیں جو صرف انھی سے منقول ہوئیں۔ایک بار انھوں نے نبی صلی اﷲ علیہ وسلم سے کرسی کے بارے میں دریافت کیا توآپ نے فرمایا: قسم اس اﷲ کی جس کے قبضۂ قدرت میں میری جان ہے،کرسی کے مقابلے میں سات آسمان و زمین ایسے ہی ہیں جیسے بیابان میں پھینکی ہوئی انگوٹھی۔ پھر عرش کرسی پر ایسی فوقیت رکھتا ہے، جیسے وسیع بیابان چھوٹی سی انگوٹھی پر رکھتا ہے (تفسیر ابن مردویہ)۔ مشہور ہے کہ انسانوں کی ہدایت کے لیے اﷲ کی طرف سے ایک لاکھ چوبیس ہزارانبیا مبعوث کیے گئے جن میں سے تین سوتیرہ رسول تھے ۔یہ حدیث حضرت ابوذر کی روایت کردہ ہے (احمد، رقم ۲۱۴۳۸)۔ انھی سے مخاطب ہو کر آپ نے فرمایا: اے ابوذر، چار رسول سریانی تھے: آدم، شیث، نوح اور حنوخ، اور چار عربی تھے: ہود، صالح، شعیب اور تمھارے نبی علیہم السلام۔ بنی اسرائیل کے پہلے نبی موسیٰ اور آخری عیسیٰ تھے (ابن حبان، رقم ۹۴۔ طبری)۔ حضرت ابوذر ہی سے روایت ہے کہ آپ نے فرمایا: اﷲ تعالیٰ نے سو صحیفے اور چار مصحف نازل کیے ،پچاس صحیفے آدم علیہ السلام کے بیٹے اور ان کے جانشین شیث علیہ السلام پر،دس ابراہیم علیہ السلام پر اتارے جو تمام امثال پر مشتمل تھے۔اخنوخ علیہ السلام پر تیس صحیفے نازل ہوئے۔تورات ،انجیل ،زبور اور فرقان(قرآن ) چار مصاحف ہیں۔موسیٰ علیہ السلام کے مصاحف میں نصائح و عبر ہیں (طبری)۔

حضرت ابوذر روایت کرتے ہیں کہ ایک بار میں نبی صلی ا ﷲ علیہ وسلم کے پاس آیا ۔آپ نیند سے بیدار ہوئے تھے اور سفید کپڑے زیب تن کر رکھے تھے۔ فرمایا: کوئی بندہ بھی لاالٰہ الا اﷲ کہتا ہے اور اس پر جان دے دیتا ہے ،جنت میں جائے گا۔ میں نے کہا: اگرچہ وہ زنا اور چوری کرے؟ آپ نے فرمایا: ہاں۔ یہ سوال و جواب تین بار ہوا۔ آخر میں آپ نے فرمایا: اگرچہ وہ زنا کرے اور چوری کرے، چاہے ابوذر کی ناک مٹی سے آلودہ ہو جائے (بخاری، رقم ۵۸۲۷)۔ حضرت ابوذر یہ حدیث بیان کرتے تو آپ کا آخری فقرہ ضرور سناتے۔ حضرت ابوذر فرماتے ہیں: نبی صلی اﷲ علیہ وسلم رات کو بستر پر لیٹتے تو یہ دعا مانگتے:

أللّٰہم باسمک أموت وأ حیا‘،
’’اے اﷲ، میں تیرے نام سے مرتا اور زندہ ہوتا ہوں‘‘۔


جب بیدار ہوتے تو یہ کلمات ادا فرماتے:

ألحمد ﷲ الذی أحیانا بعد أماتنا وإلیہ النشور‘،
’’اس اﷲ کا شکر ہے جس نے ہمیں مارنے کے بعد زندہ کیا اور روز قیامت اسی کے آگے پیش ہونا ہے‘‘ (بخاری، رقم ۶۳۲۵)۔

حضرت ابوذر غفاری کو مدینہ کی آب وہوا راس نہ آئی تو آں حضور صلی اﷲ علیہ وسلم نے انھیں حکم دیا کہ مال غنیمت میں آنے والے کچھ اونٹ اور بکریاں لے کر دیہات کی کھلی فضا میں چلے جائیں اورا ن کے دودھ سے سیر ہوں۔ حضرت ابوذر کہتے ہیں کہ میں مدینہ کی قریبی بستی ربذہ چلا گیا، میری بیوی ساتھ تھیں اورمیں پانی سے دور تھا ۔ غسل کی حاجت پیش آتی تو پانچ پانچ چھ چھ روز غسل کیے بغیر نماز پڑھتا۔ مدینہ لوٹا تو رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم مسجد کے زیرسایہ کچھ صحابہ کے ساتھ تشریف فرما تھے۔ میں نے عرض کیا: یا رسول اﷲ، میں ہلاک ہو گیا۔ فرمایا: تجھے کس نے ہلاک کر دیا؟ بتایا: دور دور تک پانی نہ تھا ،میں اپنی بیوی کے ساتھ رہ رہا تھا۔جنابت لاحق ہوتی تو پاکی حاصل کیے بغیر نماز پڑھ لیتا۔آپ نے اسی وقت ایک باندی کو کہہ کر پانی منگوایا جس سے میں نے غسل کیا۔پھر فرمایا: اے ابوذر، پاک مٹی طہارت دیتی ہے اگرچہ تمھیں دس سال تک پانی نہ ملے ۔جب پانی ملے تو اس سے جلد تر کر لو (ابوداؤد، رقم ۳۳۲۔ ۳۳۳۔ نسائی، رقم ۳۲۳) ۔

حضرت ابوذر روایت کرتے ہیں کہ ہم ایک سفر میں نبی صلی اﷲ علیہ وسلم کے ساتھ تھے۔موذن نے ظہر کی اذان دینا چاہی تو آپ نے فرمایا: ذرا ٹھنڈک ہو لینے دو۔(کچھ دیر کے بعد) وہ پھراذان دینے لگا تو ارشاد کیا: گرمی کی شدت کم ہو لینے دو۔ اتنا وقت گزر گیا کہ ہم ٹیلوں کے سائے دیکھنے لگے۔آپ نے فرمایا: گرمی کی شدت جہنم کا جوش ہے ۔گرمی تیز ہو جائے تو نماز ٹھنڈے وقت میں پڑھو (بخاری، رقم ۵۳۹۔ مسلم، رقم ۱۳۴۵)۔ ایک بار رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا: اے ابوذر، وہ کیسا وقت ہو گا جب تمھارے حکمران نماز میں تاخیر کر دیا کریں گے۔ آپ مجھے کیا حکم دیتے ہیں یا رسول اﷲ؟ فرمایا: نماز وقت پر پڑھ لیا کرناپھر اگر مسجد میں تمھارے ہوتے ہوئے جماعت کھڑی ہوئی تو اس میں بھی شامل ہو جانا، یہ تمھارے لیے نفل ہو جائے گی (ابو داؤد، رقم ۴۳۱۔ ترمذی، رقم ۱۷۶۔ نسائی، رقم ۸۶۰)۔ دوسری روایت میں اضافہ ہے کہ آپ نے یہ بھی فرمایا: یہ نہ کہنا کہ میں نے نماز پڑھ لی ہے، اس لیے اب (حاکم کے پیچھے دوبارہ) نہ پڑھوں گا ( نسائی، رقم ۷۷۹)۔ حضرت ابی بن کعب بتاتے ہیں کہ جمعہ کے دن رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے سورۂ ملک تلاوت فرما کر ہمیں اﷲ کی طرف سے آنے والے عذاب کے واقعات یاد دلائے۔ حضرت ابوالدرداء یا حضرت ابوذر نے اشارہ کر کے مجھ سے پوچھا کہ یہ سورت کب نازل ہوئی؟میں نے تو ابھی سنی ہے ۔ میں نے ان کو خاموش رہنے کو کہا۔خطبہ ختم ہونے کے بعد انھوں نے شکوہ کیا کہ میری بات کا جواب کیوں نہیں دیا؟ میں نے کہا: تم نے آج بات کر کے جمعہ کی نماز ہی ضائع کر دی۔ حضرت ابوذر (یا حضرت ابو الدرداء) آپ کے پاس گئے اور حضرت ابی بن کعب کی بات بتائی۔آپ نے فرمایا: ابی نے سچ کہا، یعنی دوران خطبہ میں تکلم کرنے سے جمعہ جاتا رہتا ہے(ابن ماجہ، رقم ۱۱۱۱)۔

حضرت ابوذرغفاری اور حضرت ابوہریرہ بتاتے ہیں کہ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم صحابہ کے بیچ میں تشریف فرما ہوتے تھے، اس لیے نئے آنے والے کو پتا نہ چلتا اوراسے آپ کے بارے میں پوچھنا پڑتا۔ہم نے گزارش کی کہ ہم آپ کے بیٹھنے کے لیے الگ جگہ بنا دیتے ہیں تاکہ ایک اجنبی بھی آپ کو پہچان لے۔تب ہم نے مٹی کا ایک چبوترا بنا دیاجس پرآپ نشست فرماتے اورہم آپ کے دونوں جانب بیٹھ جاتے (ابوداؤد، رقم ۴۶۹۸)۔

حضرت ابوذر کہتے ہیں کہ میرے حبیب صلی اﷲ علیہ وسلم نے مجھے تین باتوں کی تلقین فرمائی، میں انشاء اﷲ انھیں کبھی ترک نہ کروں گا: آپ نے مجھے چاشت کی نمازپڑھنے ،وتر سونے سے پہلے ادا کرنے اور ہر ماہ تین دن روزہ رکھنے کی وصیت فرمائی (نسائی، رقم ۲۴۰۶)۔ آپ نے مزید ہدایت فرمائی کہ اگر مہینے میں تین روزے رکھنے ہوں توتیرہ ، چودہ اور پندرہ تاریخوں کو رکھنا (ترمذی، رقم ۷۶۱)۔ ان تین تاریخوں میں چاند اول سے آخر رات تک خوب چمکتا ہے، اس لیے ان کو ایام بیض کہا جاتا ہے۔ حضرت ابوذر غفاری فرماتے ہیں: ہم نے رسول اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم کے ساتھ روزے رکھے، آپ نے ہمیں تراویح کی نماز نہ پڑھائی حتیٰ کہ سات روزے رہ گئے۔تئیسویں شب تہائی رات گزرنے تک آپ نے ہم کو قیام کرایا۔ چوبیسیوں رات آپ نے نوافل پھر نہ پڑھائے تاہم پچیسوں شب رات کا ایک حصہ گزرنے تک آپ نے ہمارے ساتھ قیام فرمایا۔ ہم نے اس خواہش کا اظہار کیا کہ یارسول اﷲ، کاش! آپ باقی رہ جانے والی ان راتوں میں بھی ہمیں نوافل پڑھاتے۔ فرمایا: جو امام کے فارغ ہونے تک اس کے ساتھ کھڑا رہا، اسے ایک رات کے قیام کا ثواب ملے گا۔ چھبیسویں رات آپ نے نماز تراویح نہ پڑھائی، البتہ ستائیسویں کو اس کا اہتمام فرمایا۔ آپ نے اہل خانہ اور ازواج مطہرات کو بھی بلا لیا اور ہم کواتنی لمبی نماز پڑھائی کہ فلاح کے رہ جانے کا خدشہ ہونے لگا۔راوی حضرت جبیر بن نفیر نے حضرت ابوذرسے پوچھا کہ فلاح کیاہے ؟ بتایا، سحری۔آخری دو تین راتوں میں آپ نے تراویح نہ پڑھائی (ترمذی، رقم ۸۰۶۔ نسائی، رقم ۱۳۶۵۔ سنن دارمی، رقم ۱۸۱۱)۔

ایک شخص ربذہ سے گزرا تو حضرت ابوذر غفاری سے ملاقات ہو گئی۔ انھوں نے پوچھا: کہاں کا ارادہ ہے؟ بتایا: حج کرنے جا رہا ہوں۔ حج کے علاوہ کوئی دنیاوی غرض توپیش نظر نہیں؟ انھوں نے جرح کی ۔اس نے کہا: نہیں تو فرمایا: اپنی نیت پھر بھی تازہ کر لو۔ ان کے کہنے کے مطابق اس شخص نے مکہ پہنچ کر کچھ توقف کیا پھر حج کا قصدکیا۔بیان کرتا ہے کہ ایام حج میں، میں نے دیکھا کہ لوگوں نے ایک شخص پر ہجوم کیاہوا ہے۔میں نے آگے بڑھ کر دیکھا تو معلوم ہوا کہ یہ مجھ سے ربذہ میں ملنے والے وہی بزرگ حضرت ابوذرہیں۔مجھے دیکھتے ہی پہچان لیا او ر کہا: تم سے میں نے یہ بات کی تھی (موطا امام مالک،ر قم ۱۳۳۱)۔

حضرت ابوذرغفاری فرماتے ہیں: میں رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم سے ملنے آیا تو آپ کعبہ کے سائے میں تشریف رکھتے تھے۔ مجھے دیکھ کر فرمایا: رب کعبہ کی قسم، روز قیامت وہ لوگ سب سے زیادہ گھاٹے میں ہوں گے۔ میں نے گمان کیا، شاید میرے بارے میں کوئی حکم نازل ہوا ہے۔ پوچھا: میرے ماں باپ آپ پر فدا ہوں،یہ کون لوگ ہیں؟ فرمایا: اس اﷲ کی قسم جس کے قبضے میں میری جان ہے،کوئی مسلمان اونٹ یا گائے کی زکوٰۃ ادا کیے بغیر مر گیا تو قیامت کے روز وہ جانور بہت بڑا اور بہت فربہ ہو جائے گااور اپنے کھروں سے اسے روندے اور سینگوں سے بھنبھوڑے گا۔ جب بھی سینگ یا کھر ٹوٹے تو پہلے جیسے لوٹ آئیں گے (ابوداؤد، رقم ۶۱۷۔ نسائی، رقم ۲۴۴۲)۔

حضرت ابوذر غفاری فرماتے ہیں کہ میں رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کا ہاتھ پکڑے ہوئے تھا۔ہم سب مغرب کی طرف رخ کیے پیدل چل رہے تھے۔سورج سرخ گولے کے مانند نظر آ رہا تھا،ہمارے دیکھتے ہی دیکھتے غروب ہو گیا۔ ’’ نبی صلی اﷲ علیہ وسلم نے مجھ سے پوچھا: تمھیں معلوم ہے کہ سورج ڈوب کر کہاں جاتا ہے؟میں نے کہا: اﷲ اور اس کا رسول بہتر جانتے ہیں۔ فرمایا: سورج سفر کرتا ہوا عرش کے سایہ میں سجدہ ریز ہوجاتا ہے، پھر طلوع کی اجازت مانگتا ہے تو اسے اجازت دے دی جاتی ہے۔وہ وقت قریب ہے کہ سجدہ کرے گا تو قبول نہ ہو گا۔اذن چاہے گا اور نہ ملے گا۔اسے کہا جائے گا: جہاں سے آئے ہو، وہیں لوٹ جاؤ۔تب وہ مغرب سے نکلے گا۔ یہی مفہوم اﷲ کے ارشاد

وَالشَّمْسُ تَجْرِیْ لِمُسْتَقَرٍّ لَّہَا ذٰلِکَ تَقْدِیْرُ الْعَزِیْزِ الْعَلِیْمِ‘،
’’اور سورج اپنے مقررہ ٹھکانے کی طرف (مقررہ مدار میں) دوڑتا جا رہا ہے ،یہ اﷲ زبردست، ذی علم کی بنائی ہوئی تقدیر ہے‘‘ (یٰسٓ۳۶: ۳۸)


میں بیان ہوا ہے (بخاری، رقم ۳۱۹۹۔ مسلم، رقم ۳۱۸)۔ دوسری روایت میں ہے کہ جبریل علیہ السلام سورج کو عرش کے نور سے بنا ہوا لباس پہناتے ہیں جو سردی، گرمی ،خزاں اور بہار کے موسموں کے حساب سے چھوٹا بڑا ہوتاہے اور وہ مشرق سے نکل آتا ہے۔ پھر وہ وقت آئے گا جب سورج کو تین راتوں کے لیے روک لیا جائے گا اور مغرب سے طلوع ہونے کا حکم دیا جائے گا۔ اسے یہ ارشاد ربانی بیان کر رہا ہے:

اِذَا الشَّمْسُ کُوِّرَتْ‘،
’’جب سورج کی روشنی سمیٹ لی جائے گی‘‘ (التکویر ۸۱: ۱)۔


یہ وہ وقت ہو گا جب کسی نفس کو اس کا ایمان نفع نہ دے گا جو پہلے ایمان نہ لایا ہو یا ایمان لا کر نیکی نہ کمائی ہو۔ حضرت ابوذر کہتے ہیں: چاند بھی اسی طرح طلوع و غروب ہوتا ہے۔ اس گفتگو کے ختم ہونے کے بعد ہم نے رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کے ساتھ مغرب کی نماز ادا کی (طبری)۔ حضرت ابوذر غفاری بتاتے ہیں کہ میں نے پوچھا: یا رسول اﷲ، حوض کوثر کے برتن کس طرح کے ہوں گے؟ فرمایا: اس ذات کی قسم جس کے قبضے میں محمد کی جان ہے، حوض کے برتن اندھیری رات کے صاف آسمان میں چمکنے والے تاروں ،ستاروں سے زیادہ تعداد میں ہیں ۔ ان میں پینے والے کو آخر تک پیاس نہ لگے گی۔ جنت کے دو دھارے انھیں سیراب کرتے ہیں۔اس کاپانی دودھ سے زیادہ سفید اور شہد سے زیادہ میٹھا ہے (مسلم، رقم ۶۰۵۵۔ ترمذی، رقم ۲۴۴۵)۔

حضرت ابوذر غفاری بیان کرتے ہیں کہ ایک بار رسول اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم تشریف رکھتے تھے ، دو بکریاں آپ کے پاس چارہ چررہی تھیں کہ ایک نے سینگ مار کر دوسری کو پرے دھکیل دیا۔آپ مسکرانے لگے توسوال ہوا کہ یارسول اﷲ، آپ کے تبسم کرنے کی کیا وجہ ہوئی؟ فرمایا: میں مار کھانے والی بکری پر ہنسا، اس اﷲکی قسم جس کے قبضے میں میری جان ہے، روز قیامت اسے بدلہ لے کر دیا جائے گا (احمد، رقم ۲۱۴۰۳)۔ حضرت ابوذر کہتے ہیں کہ میں نے رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم سے سوال کیا: کون سی مسجد سب سے پہلے بنائی گئی؟ فرمایا: مسجد حرام۔میں نے پوچھا: پھر کون سی تعمیر ہوئی؟ ارشاد ہوا: مسجد اقصیٰ۔ پوچھا: ان دونوں کے بننے میں کتنی مدت حائل رہی؟ فرمایا: چالیس سال۔ حضرت ابوذراور مسجدوں کے بارے میں پوچھنے لگے تھے کہ نبی صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا: جہاں بھی وقت ہو جائے،نماز پڑھ لینا، اس لیے کہ تمام روے زمین مسجد ہے (بخاری، رقم ۳۴۲۵۔ مسلم، رقم ۱۰۹۸)۔ حضرت ابوذرکہتے ہیں کہ آں حضور صلی اﷲ علیہ وسلم نے فتح مصر کی پیشین گوئی کرتے ہوئے فرمایا: جب تو دیکھے کہ دو افراد اینٹ برابر جگہ کے لیے لڑ رہے ہیں تو وہاں سے نکل جانا (مسلم، رقم ۶۵۸۶)۔ بنو امیہ خصوصاً یزیدبن معاویہ کی مذمت میں حضرت ابوذر سے کئی روایات نقل کی گئی ہیں۔ ابن کثیر کہتے ہیں کہ ان میں سے زیادہ تر موضوع ہیں اورکچھ ضعیف اور منقطع ہیں۔

خلیفۂ دوم سیدنا عمر حضرت ابوذر کاشمار علم قراء ت کے ماہر قاریوں میں کرتے اور علم وفضل میں عبداﷲبن مسعود کے ہم پلہ قرار دیتے۔ حضرت ابوذر زاہد ہونے کے ساتھ امر بالمعروف کا فرض بھی ادا کرتے۔ ایک بار انھوں نے رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم سے امارت مانگی تو آپ نے انھیں نصیحت فرمائی: ’’ابوذر، میں تمھیں کمزور پاتا ہوں اور تمھارے لیے وہی پسند کرتا ہوں جو اپنے لیے چاہتا ہوں۔ کبھی دو افرادکا بھی امیر نہ بننا، کسی یتیم کے مال کا نگران بھی ہرگز نہ بننا (مسلم، رقم ۴۷۴۷۔ نسائی، رقم ۳۶۹۷)۔ امارت رسوائی اور ندامت ہے ماسوا اس کے لیے جو اس کا حق رکھتاہو اور اس کی ذمہ داریاں ادا کر سکتا ہو۔ سیدنا علی فرماتے ہیں: آج میرے اور حضرت ابوذر غفاری کے سوا کوئی ایسا نہیں رہا جو اﷲ کی راہ میں کسی ملامت گر کی ملامت کی پروا نہ کرنے والا ہو۔ گورنر حضرت ابوموسیٰ اشعری ’میرا بھائی‘ کہہ کر حضرت ابوذر کا استقبال کرتے تو حضرت ابوذر جواب دیتے: گورنر بننے سے پہلے میں تمھارا بھائی تھا۔جب حضرت ابوہریرہ ان سے ملنے آئے تو ’مرحبا یا اخی‘ کہہ کر ان سے لپٹ گئے ۔ پوچھا: کیا تونے ان لوگوں کی گورنری کی ہے؟ کیا تم نے اونچی عمارت تعمیر کی ہے،زرعی رقبہ یا مویشی فارم بنایا ہے؟انھوں نے کہا: نہیں تو فرمایا: تو میرا بھائی ہے۔

حضرت ابوذربیان کرتے ہیں، میرے دوست محمد صلی اﷲعلیہ وسلم نے مجھے سات باتوں کا حکم دیا: یہ کہ میں مسکینوں سے محبت کروں اور ان کے قریب رہوں، اپنے سے کم حیثیت والے سے مقابلہ کروں،کسی کے آگے دست سوال دراز نہ کروں، صلہ رحمی کروں چاہے دوسرا منہ موڑے،حق بات کروں چاہے کڑوی ہو،اﷲ کی راہ میں کسی ملامت گر کی ملامت کی پروانہ کروں، کلمۂ لاحول ولا قوۃ الا باﷲ کا اکثر ورد کروں ۔یہ باتیں زیر عرش خزانے سے لی گئی ہیں (احمد، رقم ۲۱۳۰۹)۔ حضرت ابوذرکہتے ہیں کہ مجھے رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے نصیحت فرمائی: ’’تو جہاں بھی ہو اﷲ سے ڈرتا رہ، کوئی برائی سرزد ہو جائے تو اس کے بعد نیکی کر لے ،وہ اس برائی کا قلع قمع کر دے گی اور لوگوں سے حسن سلوک کرو‘‘ (ترمذی، رقم ۱۹۸۷۔ سنن دارمی، رقم ۲۸۲۵)۔ حضرت ابومروان نے حضرت ابوذر غفاری کو ایک دھاری دار چادر میں نماز پڑھتے دیکھا تو پوچھا: کیا آپ کے پاس اس کے علاوہ کوئی کپڑا نہیں؟ انھوں نے جواب دیا: اگر ہوتا تو آپ کو نظر آجاتا۔ حضرت ابومروان نے کہا: میں نے کچھ دن پہلے دو اور کپڑے دیکھے تھے۔ جواب ملا: بھتیجے،وہ میں نے اپنے سے زیادہ ضرورت مند کو دے دیے ہیں، واﷲ، آپ سب سے زیادہ ضروت مند ہیں۔ حضرت ابوذر بولے: اے اﷲ، معاف کردے، کیا تو نہیں دیکھتا کہ میں نے یہ چادر لے رکھی ہے ،ایک اس کے علاوہ ہے جو اوڑھ کر مسجد جاتا ہوں، میرے پاس بکریاں ہیں جن کا دودھ پیتا ہوں،گدھے ہیں جن پر بوجھ لادتا اور غلہ ڈھوتا ہوں،کون سی نعمتیں ان سے بڑھ کر ہوں گی جو ہمیں میسر ہیں۔ حضرت ابوذر غفاری اپنی بکریوں کا دودھ دوہتے تو پہلے پڑوسیوں اور مہمانوں کو پیش کرتے پھر خود پیتے۔فرماتے تھے: میرے خلیل صلی اﷲ علیہ وسلم نے مجھے حکم دیا ہے: ’’جب شوربہ پکاؤ تو پانی ذرا زیادہ ڈال دو پھر پڑوسیوں کے گھر دیکھو اور کسی سے حسن سلوک کر لو‘‘ (مسلم، رقم ۶۷۸۲۔ ترمذی، رقم ۱۸۳۳)۔ حضرت عبداﷲ بن خراش کہتے ہیں کہ میں نے ربذہ میں حضرت ابوذر کو دیکھا کہ اپنی سیاہ فام بیوی کے ساتھ بالوں سے بنے ہوئے خیمے میں رہ رہے ہیں۔ میں نے کہا: ابوذر، آپ نے کالی کلوٹی عورت سے شادی کر لی؟جواب دیا ،جو بیوی تواضع کا باعث بنے ،مجھے زیادہ محبوب ہے۔ حضرت ابو ذر کی بیٹی کا رنگ بھی سیاہ تھا۔

حضرت شداد بن اوس کہتے ہیں کہ حضرت ابوذر رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کے اس ارشاد کو سن کر ذہن نشین کر لیتے جو سخت ہوتا او ر یہی لوگوں کو سناتے رہتے۔آپ نے بعد میں کوئی رخصت دی ہوتی تو حضرت ابوذرنے سنی نہ ہوتی، وہ سخت حکم ہی پر قائم رہتے (احمد، رقم ۱۷۰۷۲)۔ حضرت معرور بن سوید بتاتے ہیں کہ میں ربذہ میں حضرت ابو ذر سے ملا تو دیکھا کہ ایک چادر انھوں نے اوڑھ رکھی ہے اور دوسری ان کے غلام نے لی ہوئی ہے ۔میں نے کہا: دوسری چادر بھی آپ رکھ لیتے تو آپ کا جوڑا مکمل ہو جاتا۔ کہا: میں نے ایک شخص(اپنے غلام) کو گالی دی اور اس کی ماں کا نام لے کر عار دلائی (تواس نے نبی صلی اﷲ علیہ وسلم کو شکایت کر دی) ۔آپ نے فرمایا: ابوذر، تو نے اسے ماں کی گالی دی ہے؟ تو ایسا آدمی نکلا جس میں کچھ جاہلیت باقی رہ گئی ہے۔ غلام تمھار ے بھائی ہیں جنھیں اﷲ نے تمھارے ماتحت کر دیا ہے۔ جس کا بھائی اس کے ماتحت ہو جائے، اسے اس کھانے میں سے کھلائے جو وہ خود کھاتا ہے ، وہی لباس دے جو خود پہنتا ہے ۔انھیں وہ کام نہ کہے جو ان کے لیے بوجھل ہو جائے۔اگر بھاری کام کرانا ہو تو ان کی مدد کرو (بخاری، رقم ۳۰۔ مسلم، رقم ۴۳۲۶)۔ دوسری روایت کے مطابق حضرت ابوذر نے ابتداے اسلام میں اپنے چچا زاد کو ’او لونڈیا کے بیٹے‘ کہہ کر پکارا تو نبی صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا: ابھی تمھارا گنوار پن ختم نہیں ہوا (ابن سعد)۔ حضرت ابوذر بیان کرتے ہیں کہ میں پیٹ کے بل لیٹا ہوا تھا کہ نبی صلی اﷲ علیہ وسلم پاس سے گزرے۔ آپ نے پاؤں سے ٹھوکرمار کر فرمایا: او جنیدب، یہ دوزخیوں کی کروٹ ہے (ابن ماجہ، رقم ۳۷۲۴)۔ دوسری روایت میں لیٹنے کے ڈھنگ کا ذکر نہیں،محض اتنا مذکور ہے کہ آپ نے ابوذر کومسجد میں سوتادیکھ کر اٹھا دیا (سنن دارمی، رقم ۱۴۳۵)۔

ایک بار حضرت ابوذر نے عرض کیا: یارسول اﷲ!دولت مند بہت اجر لے گئے ۔ہماری طرح نماز پڑھتے ہیں،ہماری طرح روزے رکھتے ہیں۔ ان کے پاس زائد مال ہوتاہے جو خیرات کر لیتے ہیں، جبکہ ہم مال نہ ہونے کی وجہ سے صدقات دینے سے محروم رہ جاتے ہیں۔آپ نے فرمایا: میں تمھیں ایسے کلمات نہ سکھا دوں جو تم ادا کرکے آگے دوڑنے والوں سے جا ملو گے اور تمھیں وہی پا سکے گاجو یہ عمل کرے گا۔کیوں نہیں یا رسول اﷲ! حضرت ابوذر نے کہا۔ فرمایا: ہر نماز کے بعد تینتیس دفعہ ’أﷲ أکبر‘، تینتیس دفعہ ’سبحان اﷲ‘، تینتیس بار ’ألحمد ﷲ‘ پڑھو اور آخر میں ’لا إلٰہ إلا اﷲ وحدہ لا شریک لہ لہ الملک ولہ الحمد وہو علٰی کل شیء قدیر‘ کہو۔ تمام گناہ معاف ہو جائیں گے چاہے سمندر کی جھاگ کے برابرہوں (ابو داؤد، رقم ۱۵۰۴۔ احمد، رقم ۷۲۴۲)۔

حضرت ابوذر نے پوچھا: یا رسول اﷲ، ایک شخص کسی قوم سے محبت کرتا ہے، لیکن اس جیسے عمل نہیں کر سکتا ۔آپ نے فرمایا: ابوذر، تو ان لوگوں ہی میں شمار ہو گا جن سے محبت کرتا ہے۔ انھوں نے کہا: میں اﷲ اور رسول سے محبت کرتا ہوں۔ آپ نے مکرر فرمایا: تو ان لوگوں ہی میں شامل ہو گا جن سے محبت کرتا ہے (ابوداؤد، رقم ۵۱۲۶۔ سنن دارمی، رقم ۲۸۲۱)۔ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کا فرمان ہے: مجھے چار آدمیوں سے محبت کرنے کا حکم دیا گیاہے: اس لیے کہ اﷲ بھی ان سے محبت کرتا ہے: علی، ابوذر، سلمان اور مقداد (ترمذی، رقم ۳۷۱۸۔ احمد، رقم ۲۲۸۶۴)۔ سیدنا علی سے مروی ہے کہ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’مجھ سے پہلے ہر نبی کو سات معزز رفقا وزیر بنا کر دیے گئے تھے، جبکہ مجھے چودہ نقیبوں کی معیت حاصل ہے۔ان کے نام یہ ہیں: حضرت حمزہ، حضرت جعفر، حضرت علی، حضرت حسن، حضرت حسین، حضرت ابوبکر، حضرت عمر، حضرت مقداد، حضرت عبداﷲ بن مسعود، حضرت حذیفہ، حضرت سلمان، حضرت عمار، حضرت بلال اور حضرت ابوذر (ترمذی، رقم ۳۷۸۵)۔ ترمذی کی اس روایت میں حضرت مصعب بن عمیر کا نام بھی شامل ہے، اس طرح یہ تعداد پندرہ ہو جاتی ہے۔

حضرت ابوذرنے نبی صلی اﷲ علیہ وسلم اور حضرت معاویہ بن ابو سفیان سے دوسو اکیاسی احادیث روایت کیں۔ان میں سے بارہ متفق علیہ ہیں ، دو حدیثیں صرف بخاری میں اور انیس صرف مسلم میں ہیں۔ حضرت ابوذر سے حدیث روایت کرنے والوں میں شامل ہیں: حضرت عمر بن خطاب، حضرت عبداﷲ بن عمر، حضرت انس بن مالک، حضرت عبداﷲ بن عباس، حضرت سلمہ بن اکوع، حضرت اسامہ بن سلمان، حضرت جبیر بن نفیر، حضرت زر بن حبیش، حضرت زید بن وہب، حضرت سعید بن مسیب، حضرت سفیان بن ہانی، حضرت احنف بن قیس، حضرت عبدالرحمن بن غنم (تمیم)، حضرت عبدالرحمن بن ابو لیلیٰ، حضرت عبدالرحمن بن حجیرہ، حضرت عبدالرحمن بن شماسہ، حضرت ابو مراوح غفاری، حضرت یزید بن شریک، حضرت قیس بن عباد، حضرت سوید بن غفلہ، حضرت ابوادریس خولانی، حضرت ابو الاسود دولی، حضرت عبید بن عمیر، حضرت عبداﷲ بن صامت، حضرت معرور بن سوید، حضرت ابو عثمان نہدی، حضرت مطرف بن عبداﷲ، حضرت عمرو بن میمون، حضرت خالد بن معدان (وہبان)، حضرت خرشہ بن حر، حضرت زید بن ظبیان، حضرت حذیفہ بن اسید، حضرت ربعی بن حراش، حضرت صعصہ بن معاویہ، حضرت ضریب بن نفیر، حضرت عبداﷲ بن شقیق، حضرت عضیف بن حارث، حضرت ابوزرعہ بن عمرو، حضرت عاصم بن سفیان، حضرت عبیدبن خشخاش، حضرت ابومسلم جذمی، حضرت عطاء بن یسار، حضرت موسیٰ بن طلحہ، حضرت ابوشعثا محاربی، حضرت مورق عجلی، حضرت ابواحوص مدنی، حضرت ابواسما رحبی، حضرت ابوبصرہ غفاری، حضرت ابوالعالیہ ریاحی، حضرت ابن حوتکیہ، حضرت جسرہ بنت دجاجہ اور حضرت مالک اشتر۔

۳۵۱ھ میں شیعہ خلیفہ معز الدولہ نے بغدادکی تمام مساجد پر یہ تحریر لکھوا دی: ’’اﷲ لعنت کرے معاویہ پر ،ان لوگوں پر جنھوں نے فدک کے باغات میں فاطمہ کا حق غصب کیا، جنھوں نے اپنے نانا کی قبر کے پاس حسن کی تدفین نہ ہونے دی، جنھوں نے حضرت ابوذر کوجلاوطن کیا اور جنھوں نے حضرت عباس کوشوریٰ سے نکالا۔‘‘ رات کے وقت لوگوں نے اس چاکنگ کو مٹا دیا ۔ معزالدولہ نے دوبارہ لکھوانا چاہا، لیکن اس کے وزیر ابومحمد مہلبی نے مشو رہ دیاکہ اتنا لکھنا ہی کافی ہے کہ اﷲ آل رسول پر ظلم کرنے والوں پر لعنت کرے اور معاویہ کے علاوہ کسی کے نام کی طرف اشارہ بھی نہ کیا جائے۔

موسیٰ بن احمدمتوفی ۵۲۲ھ حضرت ابوذر غفاری کی اولاد میں سے تھے۔

لبنان کے احمد رضا اور ایران کے علی شریعتی نے حضرت ابوذر غفاری کو پہلا اسلامی سوشلسٹ قرار دیا ہے۔ پاکستان کے شاہ محمدجعفر پھلواری نے بھی ایسے ہی خیالات کا اظہار کیا ہے۔

مطالعۂ مزید: الطبقات الکبریٰ (ابن سعد)،الجامع المسند الصحیح(بخاری ،شرکۃ دار الارقم)،تاریخ الامم والملوک (طبری)،المنتظم فی تواریخ الملوک والامم (ابن جوزی)، الاستیعاب فی معرفۃ الاصحاب (ابن عبدالبر)،الکامل فی التاریخ (ابن اثیر)، اسد الغابۃ فی معرفۃ الصحابۃ (ابن اثیر)، تہذیب الکمال فی اسماء الرجال(مزی)،تاریخ الاسلام (ذہبی)، سیر اعلام النبلاء (ذہبی)، البداےۃ والنہاےۃ (ابن کثیر)، کتاب العبر و دیوان المبتدأ والخبر(ابن خلدون)، الاصابۃ فی تمییز الصحابۃ (ابن حجر)، Wikipedia, the free encyclopedia۔

____________

 

B