۱۔ جیتا نہیں وُہ جِس کے مقدّر میں ہے مرنا
مُشکل ہے مگر صبر کی سِل چھاتی پہ دھرنا
آفت تو ہے فرزند کا دُنیا سے گزرنا
اِنسان کو لازم ہے مگر صبر بھی کرنا
برسوں سے یہی رنگِ گُلستانِ جہاں ہے
جس گُل پہ بہار آج ہے کل اُس پہ خزاں ہے
*
۲۔ کچھ پھول تو دکھلا کے بہار اپنی ہیں جاتے
کچھ سوکھ کے کانٹوں کی طرح ہیں نظر آتے
کچھ گُل ہیں کہ پھولے نہیں جامے میں سماتے
غُنچے بُہت ایسے ہیں کہ کھِلنے نہیں پاتے
بُلبُل کی طرح روتے ہیں فریاد و فغاں سے
کچھ بس نہیں چلتا چمن آرائے جہاں سے
*
۳۔ مرتا ہے جواں سامنے اور دیکھتے ہیں پیر
ماں باپ کا کیا زور ہے جو خواہشِ تقدیر
سر پیٹ کے فریاد کرے مادرِ دِل گیر
جُز صبر بن آتی نہیں لیکن کوئی تدبیر
آرام جسے دیتے ہیں چھاتی پہ سُلا کر
رکھ آتے ہیں ہاتھوں سے اُسے قبر میں جا کر
*
۴۔ مٹی سے بچاتے ہیں سدا جس کا تنِ پاک
اُس گُل پہ گرا دیتے ہیں اب سیکڑوں من خاک
مادر جسے عُریاں نہیں کرتی تہ افلاک
وہ قبر میں سوتا ہے دھری رہتی ہے پوشاک
غُربت میں کوئی پوچھنے والا نہیں ہوتا
شمعیں بھی جلاؤ تو اُجالا نہیں ہوتا
(سفینۂ اردو، مرتب: مولوی محمد اسمعٰیل میرٹھی ۱۲۶۔۱۲۷)
____________