HomeQuranHadithMizanVideosBooksBlogs
مصنف : رضوان اللہ

بعد از موت (۹)

اس حد تک بھیانک اورہول ناک سزاؤں کایہ صرف جسمانی پہلو ہے، وہاں انھیں ہردم ذہنی اذیتوں سے بھی دوچارہوناہوگا۔دوزخ کے باڑے میں ان کے درمیان جوتیوں میں دال بٹے گی۔ اس میں داخل ہوتے ہی یہ لوگ اس قدرذہنی تناؤ کا شکار ہو جائیں گے کہ چھوٹتے ہی ایک دوسرے پرلعنت کے دونگڑے برسائیں گے۔ایک دوسرے پراپنے جرموں کاوبال ڈالنے کی کوشش کریں گے اوریہ سب کرتے ہوئے وہ بھول جائیں گے کہ کبھی ان کے درمیان میں محبت کے ناتے اورعقیدت کے واسطے رہے ہیں۔ظاہرہے وہ اپنی پیٹھوں پرعذاب کے تازیانے اور آگ کے چابک سہتے ہوئے اورکربھی کیاسکیں گے۔بس یہی کہ دوسروں پردل کی بھڑاس نکال لیں یا آپس میں تو تکار کر لیں۔ غرض یہ کہ جب تک دوزخ میں رہیں گے ان کوآگ بھی جلائے گی اور ایک دوسرے کی لعنت ملامت بھی اورمقصود یہی ہوگاکہ جسمانی تکلیف کے ساتھ ساتھ ذہنی تکلیف میں بھی مبتلارہیں اورانھیں کسی پل چین نصیب نہ ہو:

کُلَّمَا دَخَلَتْ اُمَّۃٌ لَّعْنَتْ اُخْتَھَا.(الاعراف ۷: ۳۸)
’’ان میں سے ہرگروہ جب داخل ہوگا تو اپنے ساتھی گروہ پرلعنت کرے گا۔‘‘
وَقَالُوْا رَبَّنَآ اِنَّآ اَطَعْنَا سَادَتَنَا وَکُبَرَآءَ نَا فَاَضَلُّوْنَا السَّبِیْلاَ، رَبَّنَآ اٰتِھِمْ ضِعْفَیْنِ مِنَ الْعَذَابِ وَالْعَنْھُمْ لَعْنًا کَبِیْرًا.(الاحزاب ۳۳: ۶۷۔۶۸)
’’وہ کہیں گے: پروردگار، ہم نے اپنے سرداروں اور بڑوں کی بات مانی تو انھوں نے ہمیں راستے سے بھٹکا دیا۔ پروردگار، ان کو دوگنا عذاب دے اور ان پر بڑی لعنت کر۔‘‘
حَتّٰٓی اِذَا ادَّارَکُوْا فِیْھَا جَمِیْعًا قَالَتْ اُخْرٰھُمْ لِاُوْلٰھُمْ رَبَّنَا ھٰؤُلَآءِ اَضَلُّوْنَا فَاٰتِھِمْ عَذَابًا ضِعْفًا مِّنَ النَّارِ، قَالَ لِکُلٍّ ضِعْفٌ وَّلٰکِنْ لَّا تَعْلَمُوْنَ، وَقَالَتْ اُوْلٰھُمْ لِاُخْرٰھُمْ فَمَا کَانَ لَکُمْ عَلَیْنَا مِنْ فَضْلٍ فَذُوْقُوا الْعَذَابَ بِمَا کُنْتُمْ تَکْسِبُوْنَ.(الاعراف ۷: ۳۸۔۳۹)
’’یہاں تک کہ جب سب وہاں اکٹھے ہو جائیں گے تو ان کے پچھلے اگلوں کے بارے میں کہیں گے: پروردگار، یہی لوگ ہیں جنھوں نے ہمیں گمراہ کیا،اس لیے انھیں آگ کادہرا عذاب دے۔ ارشاد ہو گا: تم سب کے لیے دہرا (عذاب) ہے، مگر تم جانتے نہیں ہو۔ اس پر اگلے پچھلوں سے کہیں گے: (ہم مجرم ہیں) تو تمھیں بھی ہم پر کوئی فضیلت حاصل نہیں ہوئی، سو چکھو اپنے کیے کی پاداش میں عذاب کا مزہ۔‘‘

ذہنی ٹارچر کرنے کے لیے انھیں وہاں حددرجہ ذلیل بھی کیاجائے گا۔ان کوطعنے دیے جائیں گے۔ طنز آمیز باتوں کے کچوکے لگائے جائیں گے۔ان سے پوچھاجائے گاکہ اب تمھارے معبود کہاں چلے گئے؟وہ کیوں نہیں آکر تمھیں بچالے جاتے؟ اس وقت یہ اتنے حواس باختہ ہوں گے کہ جواب میں کبھی کچھ کہیں گے اورکبھی کچھ۔ان کی اس ذہنی اذیت کوبڑھانے کے لیے ان کی عقیدت کے مرکز وہ اصنام اور مورتیاں بھی ان کے ساتھ جلائی جائیں گی جن کے آگے انھوں نے اپنی جبینیں رگڑیں ،ڈنڈوت کیے اوراپنی بیش بہاچیزیں ان پرقربان کردی تھیں:

فَالْیَوْمَ تُجْزَوْنَ عَذَابَ الْھُوْنِ بِمَا کُنْتُمْ تَسْتَکْبِرُوْنَ فِی الْاَرْضِ بِغَیْرِ الْحَقِّ وَبِمَا کُنْتُمْ تَفْسُقُوْنَ.(الاحقاف۴۶: ۲۰)
’’تم زمین میں ناحق تکبراور نافرمانی کرتے رہے، اس لیے آج تمھیں ذلت کاعذاب دیاجائے گا۔‘‘
ثُمَّ قِیْلَ لَھُمْ اَیْنَ مَاکُنْتُمْ تُشْرِکُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰہِ، قَالُوْا ضَلُّوْا عَنَّا بَلْ لَّمْ نَکُنْ نَّدْعُوْا مِنْ قَبْلُ شَیْءًا، کَذٰلِکَ یُضِلُّ اللّٰہُ الْکٰفِرِیْنَ.(المومن ۴۰: ۷۳۔۷۴)
’’پھر اُن سے پوچھاجائے گاکہ اب کہاں ہیں اللہ کے سواوہ دوسرے خداجن کو تم شریک کرتے تھے؟وہ جواب دیں گے: کھوئے گئے وہ ہم سے، بلکہ ہم اس سے پہلے کسی چیز کونہ پکارتے تھے۔اس طر ح اللہ ان کافروں کے حواس گم کردے گا۔‘‘
اِنَّکُمْ وَمَا تَعْبُدُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰہِ حَصَبُ جَہَنَّمَ.(الانبیاء ۲۱: ۹۸)
’’تم اورتمھارے معبودجن کواللہ کے سوا پوجتے رہے ہو، اب جہنم کاایندھن ہیں۔‘‘

جسمانی اورذہنی عذاب کیاکم ہوں گے کہ ان کاوہاں سب سے بڑی محرومی سے بھی سامنا ہوجائے گا۔یہ سزا ان کے لیے اس قدرسخت ہوگی کہ اس کے سامنے انھیں اپنی سب مشکلیں آسان اورسب مصیبتیں ہلکی محسوس ہوں گی۔ اور ایسا کیوں نہ ہو کہ یہ اس عظیم الشان نعمت سے محرومی ہوگی کہ جو اس سے محروم ہوا، وہ سب کچھ پاکربھی تہی دامن رہا اور جس کے مقدر میں اس کاملناٹھیراوہ سب کچھ کھوکربھی فائدے میں رہا۔یہ نعمت ہے پروردگارِ عالم کی نگاہِ التفات کی، اس کے جلووں کے مشاہدے اوراس کی تجلیات سے حظ اٹھانے کی۔مگر یہ نصیب جلے اورقسمت کے مارے اس سے یک سرمحروم رہ جائیں گے:

کَلآّ اِنَّھُمْ عَنْ رَّبِّھِمْ یَوْمَءِذٍ لَّمَحْجُوْبُوْنَ.(المطففین ۸۳: ۱۵)

’’ہر گزنہیں،اُس دن تویہ اپنے پروردگار سے روک دیے جائیں گے۔‘‘

آگ کی لپٹوں ،کھولتے پانی ،مکروہ ترین کھانے ،حسرت وندامت بھری محرومیوں سے بچنے کے لیے یہ مجرمین کئی حیلے کریں گے،مگر ان کی سب کوششیں اکارت اورہر سعی بے فائدہ رہ جائے گی۔وہ لوگ جو پٹھے پر ہاتھ دھرنے نہیں دیتے ،وہاں رو رو کر اپنے جرموں کا اعتراف کریں گے تاکہ کسی طرح ان مصیبتوں سے خلاصی ہو۔مگرانھیں عدل و انصاف کے تمام تقاضے پورے کرتے ہوئے سزادی گئی ہوگی،اس لیے وہاں اعتراف کرنے کاکچھ فائدہ نہ ہوگا۔ محض حسرت ہوگی جس کاوہ اظہارکریں گے:

فَاعْتَرَفْنَا بِذُنُوْبِنَا فَھَلْ اِلٰی خُرُوْجٍ مِّنْ سَبِیْلٍ.(المومن ۴۰: ۱۱)
’’ہم نے اپنے گناہوں کا اقرار کرلیا توکیا اب یہاں سے نکلنے کی کوئی صورت ہے؟‘‘
وَقَالُوْا لَوْ کُنَّا نَسْمَعُ اَوْ نَعْقِلُ مَا کُنَّا فِیْٓ اَصْحٰبِ السَّعِیْرِ، فَاعْتَرَفُوْا بِذَنْبِھِمْ، فَسُحْقًا لِّاَصْحٰبِ السَّعِیْرِ.(الملک ۶۷: ۱۰۔۱۱)
’’اور وہ کہیں گے: اگر ہم سنتے یاسمجھتے تو(آج)ان دوزخ والوں میں نہ ہوتے۔اس طرح وہ اپنے گناہ کا اعتراف کرلیں گے،تواب لعنت ہوان دوزخ والوں پر۔‘‘

یہی اعترافات وہ خداکے حضورکرکے چاہیں گے کہ انھیں دوزخ سے نکال کردنیامیں جانے کا ایک موقع عنایت ہو۔اب کے باروہ بہت ہی صالح زندگی گزاریں گے۔لیکن پروردگارعالم ان کی گزارش کو سننا اوراس کومان لینا تو بہت دور کی بات،انھیں اس طرح دھتکاردے گا، جس طرح کسی کتے کو دھتکار دیاجاتاہے۔مزیدیہ کہ وہ انھیںآگ کے الاؤ میں پھینکواکران کی التجاؤں اورآہ وزاریوں سے بالکل ہی لاتعلق ہوجائے گا:

قَالُوْا رَبَّنَا غَلَبَتْ عَلَیْنَا شِقْوَتُنَا وَکُنَّا قَوْمًا ضَآلِّیْنَ، رَبَّنَآ اَخْرِجْنَا مِنْھَا فَاِنْ عُدْنَا فَاِنَّا ظٰلِمُوْنَ، قَالَ اخْسَءُوْا فِیْھَا وَلَا تُکَلِّمُوْنِِ.(المومنون ۲۳: ۱۰۶۔۱۰۸)
’’وہ کہیں گے کہ اے ہمارے رب، ہماری بدبختی ہم پر چھاگئی تھی اورہم واقعی گمراہ لوگ تھے۔اے ہمارے رب، ہمیں یہاں سے ایک مرتبہ نکال دے، اگر ہم پھر ایسا کریں تو یقیناًہم ہی ظالم ہوں گے۔ حکم ہو گا: دور ہو، اسی میں پڑے رہواورمجھ سے بات نہ کرو۔‘‘
قَالَ کَذٰلِکَ اَتَتْکَ اٰیٰتُنَا فَنَسِیْتَھَا، وَکَذٰلِکَ الْیَوْمَ تُنْسٰی.(طٰہٰ ۲۰: ۱۲۶)
’’ارشادہوگا:اسی طرح ہماری آیتیں تمھارے پاس آئی تھیں توتم نے انھیں نظر انداز کردیاتھا۔آج تمھیں بھی اسی طرح نظرانداز کر دیا جائے گا۔‘‘

دوزخ پرمامورفرشتوں سے بھی رحم کی کوئی امیدنہ ہوگی۔وہ نہایت ترش مزاج اور سخت گیر ہوں گے۔ان کی درگت بنتے دیکھ کرانھیں بالکل رحم نہ آئے گااوروہ اُس سزا کوجاری رکھیں گے جس کاحکم ان کے پروردگارنے دے رکھاہوگا۔بلکہ اُس دن فرشتوں کی توکیا بات، دوزخ بھی غضب سے بپھری ہوگی اوران پرذراترس نہ کھائے گی۔وہ خداکی لَے میں اپنی لَے ملاکرعرض کرے گی کہ ایسے مجرموں کے لیے میرے اندربڑی وسعت ہے۔اگرمزیدبھی ان جیسے ہوں تو انھیں بھی تباہ حال کر چھوڑوں:

عَلَیْھَا مَلآءِکَۃٌ غِلَاظٌ شِدَادٌ لاَّ یَعْصُوْنَ اللّٰہَ مَآ اَمَرَھُمْ وَ یَفْعَلُوْنَ مَا یُؤْمَرُوْنَ.(التحریم ۶۶: ۶)
’’اُس (جہنم کی آگ)پر درشت مزاج اور سخت گیر فرشتے مامور ہوں گے۔اللہ انھیں جوحکم دے گا،وہ نافرمانی نہیں کریں گے اور وہی کچھ کریں گے جس کا انھیں حکم ملے گا۔‘‘
یَوْمَ نَقُوْلُ لِجَھَنَّمَ ھَلِ امْتَلَاْتِ وَتَقُوْلُ ھَلْ مِنْ مَّزِیْدٍ.(ق ٓ۵۰: ۳۰)
’’اُس دن کو یاد رکھوجب ہم جہنم سے پوچھیں گے: کیا توبھرگئی ہے؟اوروہ جواب دے گی: کیاکچھ اور بھی ہیں؟‘‘

اب دوزخی کوشش کریں گے کہ عذاب کی ان گھناؤنی صورتوں سے اگر نجات ممکن نہیں توانھیں کچھ کھانے پینے کوملے جس سے ان کی سزاؤں میں کچھ تخفیف پیداہو۔اس کے لیے وہ اہل جنت سے بھیک مانگیں گے،مگروہ لوگ کسی طرح کی امداد دینے کے بجاے انھیں صاف جواب دے دیں گے:

وَنَادآی اَصْحٰبُ النَّارِ اَصْحٰبَ الْجَنَّۃِ اَنْ اَفِیْضُوْا عَلَیْنَا مِنَ الْمَآءِ اَوْمِمَّا رَزَقَکُمُ اللّٰہُ، قَالُوْٓا اِنَّ اللّٰہَ حَرَّمَھُمَا عَلَی الْکٰفِرِیْنَ.(الاعراف ۷: ۵۰)
’’اہل جنت کو(دیکھ کر)یہ دوزخ والے آواز دیں گے کہ (اپنے ہاں کا) کچھ پانی یاکچھ روزی جواللہ نے تمھیں عطافرمائی ہے، ہمیں بھی عنایت کرو۔وہ جواب دیں گے کہ اللہ نے یہ دونوں چیزیں منکروں کے لیے حرام کررکھی ہیں۔‘‘

جب ہرطرف سے مددملنے کی توقع دم توڑ جائے گی تویہ کوشش کریں گے کہ کسی طرح اس جہنم سے نکل بھاگیں۔ مگر ایسا ہونا ناممکنات میں سے ہوگا کہ اُس جیل پرمقررکیے گئے داروغے انھیں بھاگنے کہاں دیں گے؟ سو ان کی طرف سے کی جانے والی ہرایسی کوشش ان کی سزامیں اضافے ہی پرمنتج ہوگی۔وہاں سے نکل بھاگناتوایک طرف رہا، وہ اگرایک قسم کی سزاسے عافیت پاکردوسری آفت میں پناہ ڈھونڈنے کی کوشش کریں گے تواس کی بھی وہاں اجازت نہ پاسکیں گے:

وَاَمَّا الَّذِیْنَ فَسَقُوْا فَمَاْوٰھُمُ النَّارُ، کُلَّمَآ اَرَادُوْٓا اَنْ یَّخْرُجُوْا مِنْھَآ اُعِیْدُوْا فِیْھَا وَقِیْلَ لَھُمْ ذُوْقُوْا عَذَابَ النَّارِ الَّذِیْ کُنْتُمْ بِہٖ تُکَذِّبُوْنَ.(السجدہ ۳۲: ۲۰)
’’رہے وہ لوگ جنھوں نے نافرمانی کی تو ان کا ٹھکانا دوزخ ہے۔جب وہ اس میں سے نکلنے کی کوشش کریں گے، اسی میں دھکیل دیے جائیں گے اورکہاجائے گا: چکھو اب اس دوزخ کے عذاب کا مزہ،جسے تم جھٹلاتے رہے ہو۔‘‘
وَلَھُمْ مَّقَامِعُ مِنْ حَدِیْدٍ، کُلَّمَآ اَرَادُوْٓا اَنْ یَّخْرُجُوْا مِنْھَا مِنْ غَمٍّ اُعِیْدُوْا فِیْھَا وَذُوْقُوْا عَذَابَ الْحَرِیْقِ.(الحج ۲۲: ۲۱۔۲۲)
’’ان کی سرکوبی کے لیے لوہے کے ہتھوڑے ہوں گے۔وہ اس کے کسی عذاب سے جب بھی نکلنا چاہیں گے، دوبارہ اسی میں دھکیل دیے جائیں گے کہ (اب اسی میں رہو)اور چکھوجلنے کی سزا کا مزہ۔‘‘

غرض یہ کہ عذاب سے بچنے کے لیے ان کے سب حیلے ناکام ہو جائیں گے۔ وہ جان لیں گے کہ چیخیں یا چلائیں، رہنا اب یہیں ہے اورعذاب کاختم ہوجانا تو دورکی بات،اس میں کسی کمی کابھی کوئی امکان نہیں۔اب ان کے لیے کرنے کا کام بس یہی رہ گیاہے کہ وہ آگ سے بھاگیں توکھولتے پانی میں جاپڑیں اوروہاں سے جان چھڑائیں تو پھر آگ میں دھکیل دیے جائیں:

لَایُفَتَّرُ عَنْھُمْ وَھُمْ فِیْہِ مُبْلِسُوْنَ.(الزخرف ۴۳: ۷۵)
’’وہ(عذاب)ان کے لیے ہلکا نہیں کیاجائے گا اور وہ اسی میں مایوس ہوکر پڑے رہیں گے۔‘‘
ھٰذَہٖ جَھَنَّمُ الَّتِی یُکَذِّبُ بِھَا الْمُجْرِمُوْنَ، یَطُوْفُوْنَ بَیْنَھَا وَبَیْنَ حَمِیْمٍ اٰنٍ، فَبِاَیِّ اٰلَآءِ رَبِّکُمَا تُکَذِّبٰنِ.(الرحمٰن ۵۵: ۴۳۔۴۵)
’’یہ وہی جہنم ہے جس کویہ مجرم جھٹلاتے رہے۔اب اس کے اورکھولتے ہوئے پانی کے درمیان گردش کرتے رہیں گے۔پھراے جن وانس،تم اپنے رب کی کن کن شانوں کو جھٹلاؤ گے۔‘‘

ان پرچھائی ہوئی ناامیدی اوریاسیت جب اپنی انتہاؤں کوچھونے لگے گی تووہ موت کی تمنا کریں گے۔اس کے جواب میں انھیں بتادیاجائے گاکہ اب موت کہاں!تمھیں تو زندہ رہناہے اوروہ بھی اسی حالت میں:

وَنَادَوْا یٰمٰلِکُ لِیَقْضِ عَلَیْنَا رَبُّکَ، قَالَ اِنَّکُمْ مّٰکِثُوْنَ.(الزخرف ۴۳: ۷۷)
’’وہ پکاریں گے: اے مالک، تمھارے رب کو ہمارا خاتمہ ہی کردینا چاہیے۔ وہ جواب دے گا: (اب تو اسی حال میں) تم کو رہنا ہے۔‘‘

ان کودی جانے والی یہ زندگی نام کی ہوگی،وگرنہ حقیقت میں یہ موت سے بھی بدترہوگی۔ان کے آس پاس ہرجگہ موت سایہ فگن ہوگی،مگرموت پھربھی نہ آئے گی اورعذاب ہوگاکہ بڑھتاہی چلاجائے گا:

ثُمَّ لاَیَمُوْتُ فِیْھَاوَلاَیَحْیٰی.(الاعلیٰ ۸۷: ۱۳)
’’پھر نہ اس (آگ) میں مرے گا نہ جیے گا۔‘‘
یَاْتِیْہِ الْمَوْتُ مِنْ کُلِّ مَکَانٍ وَّمَا ھُوَ بِمَیِّتٍ، وَمِنْ وَّرَآءِ ہٖ عَذَابٌ غَلِیْظٌ.(ابرٰھیم ۱۴: ۱۷)
’’موت ہرطرف سے اس پرپلی پڑرہی ہوگی،لیکن وہ مرنے نہ پائے گا اورآگے ایک اورسخت عذاب اس کا منتظر ہو گا۔‘‘

خدایا، ہمیں اس عذاب سے ا پنی پناہ میں رکھنا!

[باقی]

____________

B