HomeQuranHadithMizanVideosBooksBlogs
مصنف : ڈاکٹر وسیم مفتی

حضرت ابوذر غفاری رضی اﷲ عنہ (۳)

ذی الحجہ ۳۱ھ (یا ۳۲ھ، ۶۵۲ء): حضرت ابوذر غفاری کا انتقال ربذہ ہی میں ہوا۔دم آخر اہلیہ، بیٹی اور ایک غلام کے علاوہ کوئی ان کے پاس نہ تھا۔ اہلیہ رونے لگ گئیں تو حضرت ابوذر نے پوچھا: کیا ہوا؟ کہا: ہمارے پاس کوئی کپڑا نہیں جو آپ کے کفن کے لیے پورا ہو جائے۔ بولے: مت رو، میں کچھ صحابہ کے ساتھ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر تھا کہ آپ نے فرمایا: تم میں سے ایک شخص بیابان میں انتقال کرے گا اور اہل ایمان کی ایک جماعت اس کے جنازے میں شامل ہو گی (احمد، رقم ۲۱۳۵۹)۔ باقی سب اصحاب شہروں میں وفات پاچکے ہیں اور میں ہی بیابان میں دم دے رہا ہوں۔ حضرت ابوذر نے یہ شرط بھی لگائی کہ ان کا کفن دینے والا گورنر،کسی محکمے کا منتظم، سرکاری قاصد یا اعلیٰ افسر نہ ہو۔ ان کی اہلیہ دوڑتی ہوئی باہر ریت کے ٹیلے تک جاتیں ،قافلے کی راہ تکتیں، پھر واپس آتیں اور حضرت ابوذر کی تیمارداری کرتیں۔ وفات سے کچھ دیر پہلے بیٹی سے کہا:باہر نکل کر دیکھو،کوئی گزررہا ہے؟انھوں نے بتایا: نہیں، تو کہا: ابھی میری آخری گھڑی نہیں آئی۔پھر بکری ذبح کر کے پکانے کو کہا اور فرمایا: جو لوگ مجھے دفن کریں گے، صالحین ہوں گے۔ انھیں کہنا، ابوذر تمھیں قسم دیتا ہے کہ کھانا کھائے بغیر یہاں سے روانہ نہ ہوں۔ ہنڈیاپک گئی تو دوبارہ پوچھا: کوئی آتا نظر آ رہا ہے؟ بیٹی نے بتایا کہ ایک قافلہ آرہا ہے۔ کہا: مجھے قبلہ رو کر دو۔ ’بسم اﷲ و باﷲ و علی ملۃ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم‘ کہا اورجان دے دی۔ ان کی بیٹی نے قافلہ والوں کا استقبال کیا اور کہا: ابوذر کا دیدار کر لیں۔ پوچھا گیا: کہاں ہیں وہ؟ میت کی طرف اشارہ کیا گیاتو بولے: اﷲ نے ہمیں ان کے ذریعے سے عزت بخشی۔ قافلے میں حضرت عبداﷲ بن مسعود بھی تھے، فرمایا: رسول اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم نے سچ فرمایا تھا: ’’تواکیلا چلے گا، اکیلا فوت ہوگا اور اکیلا ہی اٹھایا جائے گا۔‘‘ سب نے مل کر حضرت ابوذرکو غسل دیا۔ ایک انصاری نوجوان حضرت ابوذر کی شرائط پر پورا اترتا تھا۔ اس نے اپنی اوڑھی ہوئی چادر دی،تھیلے سے دو کپڑے نکالے جو اس کی ماں نے خود بنے تھے (مستدرک حاکم، رقم ۵۴۵۲)۔ یہ کفن پہنانے کے بعد حضرت عبداﷲ بن مسعود نے نماز جنازہ پڑھائی اور حضرت ابوذر کو سپرد خاک کر دیا گیا۔ حضرت ابن مسعودکے علاوہ ان حضرات نے جنازہ میں شرکت کی: حضرت ابومفرز، حضرت بکر بن عبداﷲ، حضرت اسود بن یزید، حضرت علقمہ بن قیس، حضرت حلحال ضبی، حضرت حارث بن سوید، حضرت عمرو بن عتبہ، حضرت ابن ربیعہ سلمی، حضرت ابو رافع مزنی، حضرت سوید بن شعبہ، حضرت زیاد بن معاویہ، حضرت اخو قرثع ضبی اور حضرت اخو معضد شیبانی۔ ایک روایت کے مطابق حضرت ابوذر کی وفات کے دس دن بعد حضرت عبداﷲ بن مسعود کو بھی خلد سے بلاوا آ گیا۔ شاذ روایت کے مطابق حضرت جریر بن عبداﷲ نے حضرت ابوذر کا جنازہ پڑھایا۔ ایک گدھا ،دو گدھیاں،کچھ بکریاں اور کاٹھیاں حضرت ابوذرکا ترکہ تھا۔

حضرت ابوذر کا خیمہ مہک رہا تھا،ان کی بیٹی نے بتایا:جان کنی کے عالم میں حضرت ابوذر نے کہا: میت پر ایسے لوگ حاضر ہوتے ہیں جو بو محسوس کرتے ہیں اور کھاتے نہیں۔ ان کے لیے پانی میں مشک ملا کر خیمے پر چھڑک دو۔ حضرت ابوذر کی وصیت کے مطابق اہل قافلہ نے کھانا کھایا اور جاتے ہوئے ان کے اہل خانہ کو ساتھ مکہ لے گئے۔ ان کی بیٹی کو سیدنا عثمان نے اپنے کنبے میں شامل کر لیا۔ دوسری روایت کے مطابق حضرت ابوذر کے اہل خانہ نے حضرت عبداﷲبن مسعود کے ساتھ سفر نہ کیا، بلکہ سیدنا عثمان نے انھیں مدینہ لوٹ آنے کو کہااور اپنے کنبے کے ساتھ رکھا۔

حضرت ابوذر غفاری کا قد لمبا، جسم بھاری (متضاد روایت کے مطابق دبلا)، رنگ سانولا اور ڈاڑھی سفید اور گھنی تھی۔ ایک روایت کے مطابق آں حضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے انھیں یزید کا نام عطا کیا (مستدرک حاکم، رقم ۵۴۵۴)۔ ان کی اولاد اور بیویوں کے بارے میں مکمل معلومات نہیں ملتیں، ایسی اطلاعات دینے کے شائق ابن سعد بھی اس باب میں خاموش ہیں۔ حضرت ابوذر کے اپنے بیان سے معلوم ہوتا ہے کہ ان کے دو بیٹوں نے ان کی زندگی میں وفات پائی۔نبی صلی اﷲ علیہ وسلم کے اس ارشاد ’’جس نے اپنے تین بیٹے آگے بھیج دیے، یعنی اس کی زندگی ہی میں انھوں نے وفات پائی،وہ اسے دوزخ سے بچانے کے لیے مضبوط قلعے کا کام دیں گے‘‘ کے ضمن میں وہ بتاتے ہیں: میں نے دو بیٹے آگے بھیجے ہیں (ابن ماجہ، رقم ۱۶۰۶)۔ ان میں سے ایک حضرت عمیرغفاری نے غزوۂ ذوقرد میں شہادت پائی۔ حضرت ابوذر نے اپنے آخری لمحات میں اس ارشاد نبوی کو نجات کا وسیلہ بتایا۔ یہ پتا چلتا ہے کہ ربذہ میں ان کے ساتھ جانے والی اہلیہ ان کی واحد بیوی نہ تھیں۔

حضرت ابوذر غفاری فرماتے ہیں: میں نے رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم سے سوال کیا کہ آپ کو کیسے پتا چلا اور کس طرح یقین آیاکہ آپ اﷲ کے نبی ہیں؟فرمایا: ابوذر، میں مکہ کے ریگ زار میں تھا کہ دو فرشتے آئے ۔ایک زمین پر اتر آیا اور دوسرا آسمان وزمین کے درمیان معلق رہا۔پہلے فرشتے نے دوسرے سے پوچھا: کیا یہ وہی ہیں؟اس نے تائید کی تو کہا: ان کاایک شخص کے برابر وزن کرو۔ تولا گیاتو میرا پلڑا بھاری رہا۔پھر کہا: دس افراد ایک طرف رکھ کر تولو۔ وزن کیا گیاتوترازو کا جھکاؤ میری طرف تھا۔فرشتے نے کہا: اب سو آدمیوں کے ساتھ ان کا وزن کرو ،تولنے پر میں ہی بھاری رہا۔آخر کار اس نے کہا: ایک ہزار افراد ترازو کے ایک طرف رکھ کر وزن کرو،میرا وزن پھر بھی زیادہ ہی نکلا، جبکہ دوسرا پلڑا ہلکا ہونے کی وجہ سے مجھے ایسے لگ رہا تھا کہ یہ سب افرادمجھ پرگر پڑیں گے۔ پہلا فرشتہ بولا: تم انھیں پوری امت کے ساتھ تولتے توبھی ان کا وزن زیادہ ہوتا (سنن دارمی، رقم ۱۴)۔ پھر دونوں فرشتوں نے آپ کاپیٹ شق کر کے آب زمزم سے دھویا،سینہ چیر کردھویا، دل نکالا ، اسے کھول کر شیطانی اکساہٹیں اور خون کے لوتھڑے نکال کر پھینکے اور سکینت، ایمان ا ور حکمت اس میں انڈیل دیے۔پھرزخم سی کرآپ کے کندھوں کے درمیان مہر نبوت بنائی۔آپ نے بتایا کہ میں یہ تمام عمل اپنی آنکھوں سے دیکھتا رہا (تاریخ دمشق۳/ ۲۶۴)۔ یہی عمل معراج کی رات آپ کے ساتھ دہرایا گیا۔ حضرت ابوذر روایت کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: مکہ میں میرے گھر کی چھت پھٹی اور جبریل علیہ السلام آئے ۔انھوں نے میرا سینہ کاٹا ، اسے آب زمزم سے دھویا، پھر سونے کا تھال لائے جو حکمت و ایمان سے پر تھا۔ اسے میرے سینے میں انڈیل کر سینہ بند کیا ۔میرا ہاتھ پکڑا اور آسمان دنیا کی طرف پرواز کر گئے (بخاری، رقم ۱۶۳۶۔ مسلم، رقم ۳۳۴)۔ معراج کے واقعات بیان کرتے ہوئے حضرت ابوذر کہتے ہیں کہ میں نے پوچھا: یا رسول اﷲ، کیا آپ نے اپنے رب کو دیکھا؟آپ نے فرمایا،ایک نور تھا جو مجھے نظر آیا (مسلم، رقم ۳۶۲۔ ترمذی، رقم ۳۲۸۲)۔

ایک بار رسول اﷲ صلی اﷲعلیہ وسلم نے گدھے پر سفر کیا، حضرت ابوذرغفاری کو آپ نے پیچھے بٹھا لیا ۔دوران سفر میں فرمایا: اے ابوذر، اگر ایسا وقت پڑا کہ سخت بھوک کی وجہ سے لوگ بستر سے مسجد تک آنے کے قابل نہ رہے تو تم کیا کرو گے؟انھوں نے کہا: اﷲ و رسول بہتر جانتے ہیں(کیا کرنا ہو گا؟)، فرمایا: (ان حالات میں بھی)پاک دامنی اختیار کرنا۔ آپ نے پھر سوال فرمایا: اگر مرگ اس قدر پھیل گئی کہ لوگوں کے گھر قبرستان بننے لگے تو کیا کرو گے؟ حضرت ابوذر نے پھرجواب دیا: اﷲ ورسول بہتر جانتے ہیں، فرمایا: صبر کرنا۔ تیسرا سوال ارشاد ہوا: اے ابوذر، تو نے اگر لوگوں کو ایک دوسرے کو قتل کرتے دیکھا، حتیٰ کہ احجار زیت(مدینے کا ایک مقام جہاں آں حضور صلی اﷲ علیہ وسلم نے نماز استسقا ادا فرمائی تھی) ان کے خون سے ڈوب گیا تو تمھاراکیا رد عمل ہو گا؟جواب وہی تھا کہ اﷲ ورسول کو بہتر علم ہے ۔آپ نے فرمایا: دروازہ بند کر کے گھر میں بیٹھے رہنا۔ حضرت ابوذر نے پوچھا: اگر مجھے پھر بھی نہ چھوڑا گیا؟ فرمایا: تم اپنے قبیلے والوں کے پاس چلے جانا۔ حضرت ابوذرنے مزید سوال کیا: تب میں بھی اسلحہ اٹھا لوں؟ آپ نے ارشاد کیا: تو تم ان کے ساتھ شامل ہو جاؤ گے۔ اگر تلوار کی چمک نے تمھیں پریشان کردیا تو اپنی چادر کا پلو منہ پر ڈال لینا تاکہ دوسرا تمھارا اور اپنا گناہ سمیٹ لے (ابوداؤد، رقم ۴۲۶۱۔ ابن ماجہ، رقم ۳۹۵۸۔ احمد، رقم ۲۱۲۲۲)۔

دن بھر آں حضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی خدمت کرنے کے بعد حضرت ابوذر غفاری مسجد نبوی میں سو جاتے۔ ایک دفعہ آپ نے انھیں نیند سے جگا کر پوچھا:لوگ جب تمھیں یہاں سے نکال دیں گے تو کیا کرو گے؟ عرض کیا: میں شام چلا جاؤں گا جو انبیا کی سر زمین ہے۔ آپ نے سوال فرمایا: وہاں سے نکالا تو؟ جواب دیا: میں تلوار اٹھا لوں گا اورمرتے دم تک جہاد کروں گا۔ رسول اﷲ صلی ا ﷲعلیہ وسلم مسکرائے اور فرمایا: میں تمھیں اس سے بہتر بات بتاتا ہوں،سمع و طاعت کرنا چاہے سیاہ فام غلام تمھاراحاکم بن جائے (احمد، رقم ۲۱۲۷۸)۔ دوسری روایت میں یہ بات اس طرح بیان ہوئی ہے کہ آپ نے فرمایا: ابوذر، اس وقت کیا کرو گے جب تم پر ایسے حاکم مسلط ہو جائیں گے جو مال غنیمت ہڑپ کر جائیں گے؟ حضرت ابوذر نے کہا: آپ کو مبعوث کرنے والے رب کی قسم، میں تلوارکاندھے پر رکھ کر اس سے لڑوں گا، حتیٰ کہ آپ سے آ ملوں گا۔ فرمایا: میں اس سے بہتر بات کی طرف تمھاری رہ نمائی کر دیتا ہوں، صبر کرنا حتیٰ کہ مجھ سے آن ملو(ابو داؤد، رقم ۴۷۵۹۔ احمد، رقم ۲۱۴۵۰)۔

ایک بار مشرکین مکہ غارت گری کرکے مدینہ کے باہر چرنے والے مویشی اٹھا لے گئے۔ان میں رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کی سواری کے لیے مختص کن چری اونٹنی عضبا بھی تھی۔مشرکوں نے جاتے جاتے ایک مسلمان عورت کو بھی قید کر لیا۔رات ہوتی تو اونٹوں کو آرام کے لیے اپنے گھروں کے باہر میدان میں چھوڑ دیتے۔ ایک شب وہ غارت گر خواب غفلت میں سوئے ہوئے تھے کہ عورت نے اپنی رسیاں کھولیں اورمیدان میں نکل آئی۔وہ جس اونٹ پر ہاتھ پھیرتی ،بلبلاتا۔عضبا کے پاس پہنچی تو وہ سدھائی ہوئی ، مطیع اونٹنی ثابت ہوئی۔ اس پر سوار ہوئی اور اﷲ کو پکار کر قسم کھائی کہ وہ اسے بچا لے تو وہ اونٹنی کی قربانی کر دے گی۔مدینہ پہنچی تو رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کی اونٹنی فوراً پہچانی گئی۔ عورت نے آپ کو نذر کے بارے میں بتایا تو فرمایا: اﷲ نے تجھے اس اونٹنی کے ذریعے سے نجات دی ہے اور تو اسے ذبح کر کے بڑا برا بدلہ دے رہی ہے۔ معصیت خداوندی میں مانی جانے والی نذر پوری نہیں کی جاتی ، نہ اس شے کے بارے میں کی جانے والی نذر وفا کی جاتی ہے جو آدمی کی اپنی ملکیت نہ ہو (ابوداؤد، رقم ۳۳۱۶)۔ ابوداؤد کہتے ہیں کہ یہ عورت حضرت ابوذر غفاری کی اہلیہ تھیں۔

رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کا ارشاد ہے: ’’روئے زمین پر اور آسمان کے سائے تلے ،ابوذر سے زیادہ سچا لہجہ رکھنے والا کوئی نہیں‘‘ (ترمذی، رقم ۳۸۰۱۔ احمد، رقم ۲۷۳۶۶)۔ آپ نے مزید فرمایا: ابوذرسے زیادہ عیسیٰ علیہ السلام سے مشابہت بھی کوئی نہیں رکھتا(ترمذی، رقم ۳۸۰۲)۔ حضرت ابوذرمجلس نبوی میں موجود ہوتے تو نبی صلی اﷲ علیہ وسلم گفتگو کی ابتدا ان سے کرتے اور اگر نہ ہوتے تو ان کے بارے میں پوچھتے۔ حضرت ابوذر کہتے ہیں کہ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کے زمانے سے میری خوراک ایک صاع (تقریباً تین سیر) کھجور رہی ہے، میں اﷲ کے سامنے پیش ہونے تک ا سے نہیں بڑھاؤں گا۔ حضرت ابوذر کا وظیفہ چار ہزاردرہم سالانہ تھا،اس سے سال بھر کا راشن ڈال لیتے اورباقی سکوں میں تبدیل کرا لیتے جو سونا چاندی نہ ہوتے۔ ان کی باندی نے کہا: کچھ رقم ناگاہ ضرورت یا اچانک آ جانے والے مہمان کے لیے رکھ لیں تو کہا: میرے خلیل صلی اﷲ علیہ وسلم نے نصیحت کی ہے کہ کوئی مال سونا یا چاندی، جسے ذخیرہ کیا گیا، اپنے مالک کے لیے انگارا بن جائے گا۔ حضرت ابوالدرداء نے گھر تعمیر کرایا تو حضرت ابوذر غفاری نے کہا: دیکھو وہ ایسا گھر بنا رہاہے جسے اﷲ نے چھوڑنے کا حکم دیا ہے۔ ایک زمانہ آیا کہ حضرت ابوذر کی طرح حضرت سعد بن ابی وقاص، حضرت سعید بن زید، حضرت سلمہ بن اکوع، حضرت امام مالک اور حضرت سفیان ثوری نے بھی عزلت کی زندگی اختیار کر لی۔

شیعہ یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ آں حضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی وفات کے بعد سیدنا علی کے سب سے بڑھ کر وفاداریہ چار اصحاب رسول تھے: حضرت ابوذر غفاری، حضرت عمار بن یاسر، حضرت مقداد بن اسود اور حضرت سلمان فارسی۔ انھیں وہ ارکان اربعہ کانام دیتے ہیں، جبکہ حضرت بلال، حضرت عبداﷲ بن عباس، حضرت محمد بن ابوبکر اور حضرت جابر بن عبداﷲ کو مخلصین میں شمار کرتے ہیں۔

[باقی]

____________

B