HomeQuranHadithMizanVideosBooksBlogs
مصنف : جاوید احمد غامدی

غزل

خیال و خامہ


o
مہ و ستارہ کی گردش ہے پھر جنوں آمیز
یہ کس نے اشہب دوراں کو پھر کیا مہمیز
کسی کے عارض و گیسو کو چھو کے آئی ہے
ہواے شہر کہ ہونے لگی نشاط انگیز
نہ بادہ خوار سلامت یہاں، نہ جام و سبو
یہ مے کدہ ہے کہ ساقی کا غمزۂ خوں ریز
ترا پیام نہ ہو تو ’الست‘ کافی ہے
کہ لوح قلب پہ لکھی ہے اُس کی دستاویز
مرے حساب کو شاید حضور بھی دیکھیں
یہی خیال ہے اہل نظر کی رستاخیز
زباں پہ مدح عمر ہے تو کیا کہ رکھتے ہیں
دلوں میں ہم بھی تمناے عشرت پرویز
نہ ہو نفاق تو الحاد پھر غنیمت ہے
اگرچہ اُس کو بھی ہے علم و عقل سے پرہیز
ترا کرم ہے کہ لایا ہے برگ و بار آخر
مرا نخیل کہ ہے باغ میں ابھی نوخیز
وہ قوم اپنے زمانے سے فیض کیا پاتی
سبق ملا ہے یہ جس کو تو با زمانہ ستیز

____________

B