HomeQuranHadithMizanVideosBooksBlogs
مصنف : جاوید احمد غامدی

البیان: ابراہیم ۱۴: ۲۸- ۵۲ (۳)

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم 

(گذشتہ سے پیوستہ)  


اَلَمْ تَرَ اِلَی الَّذِیْنَ بَدَّلُوْا نِعْمَتَ اللّٰہِ کُفْرًا وَّاَحَلُّوْا قَوْمَہُمْ دَارَ الْبَوَارِ(۲۸) جَھَنَّمَ یَصْلَوْنَھَا وَبِءْسَ الْقَرَارُ(۲۹) وَجَعَلُوْا لِلّٰہِ اَنْدَادًا لِّیُضِلُّوْا عَنْ سَبِیْلِہٖ قُلْ تَمَتَّعُوْا فَاِنَّ مَصِیْرَکُمْ اِلَی النَّارِ(۳۰) 
قُلْ لِّعِبَادِیَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا یُقِیْمُوا الصَّلٰوۃَ وَیُنْفِقُوْا مِمَّا رَزَقْنٰھُمْ سِرًّا وَّعَلَانِےَۃً مِّنْ قَبْلِ اَنْ یَّاْتِیَ یَوْمٌ لَّا بَیْعٌ فِیْہِ وَلَاخِلٰلٌ(۳۱)
اَللّٰہُ الَّذِیْ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ وَاَنْزَلَ مِنَ السَّمَآءِ مَآءً فَاَخْرَجَ بِہٖ مِنَ الثَّمَرٰتِ رِزْقًا لَّکُمْ وَسَخَّرَلَکُمُ الْفُلْکَ لِتَجْرِیَ فِی الْبَحْرِ بِاَمْرِہٖ وَ سَخَّرَلَکُمُ الْاَنْھٰرَ(۳۲) وَسَخَّرَلَکُمُ الشَّمْسَ وَالْقَمَرَ دَآءِبَیْنِ وَسَخَّرَلَکُمُ الَّیْلَ وَالنَّھَارَ(۳۳) وَاٰتٰکُمْ مِّنْ کُلِّ مَا سَاَلْتُمُوْہُ وَاِنْ تَعُدُّوْا نِعْمَتَ اللّٰہِ لَا تُحْصُوْھَا اِنَّ الْاِنْسَانَ لَظَلُوْمٌ کَفَّارٌ(۳۴)
وَاِذْ قَالَ اِبْرٰھِیْمُ رَبِّ اجْعَلْ ھٰذَا الْبَلَدَ اٰمِنًا وَّاجْنُبْنِیْ وَبَنِیَّ اَنْ نَّعْبُدَ الْاَصْنَامَ(۳۵) رَبِّ اِنَّھُنَّ اَضْلَلْنَ کَثِیْرًا مِّنَ النَّاسِ فَمَنْ تَبِعَنِیْ فَاِنَّہٗ مِنِّیْ وَمَنْ عَصَانِیْ فَاِنَّکَ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ(۳۶) رَبَّنَآ اِنِّیْٓ اَسْکَنْتُ مِنْ ذُرِّیَّتِیْ بِوَادٍ غَیْرِ ذِیْ زَرْعٍ عِنْدَ بَیْتِکَ الْمُحَرَّمِ رَبَّنَا لِیُقِیْمُوا الصَّلٰوۃَ فَاجْعَلْ اَفْءِدَۃً مِّنَ النَّاسِ تَھْوِیْٓ اِلَیْہِمْ وَارْزُقْھُمْ مِّنَ الثَّمَرٰتِ لَعَلَّھُمْ یَشْکُرُوْنَ(۳۷) رَبَّنَآ اِنَّکَ تَعْلَمُ مَا نُخْفِیْ وَمَا نُعْلِنُ وَمَا یَخْفٰی عَلَی اللّٰہِ مِنْ شَیْءٍ فِی الْاَرْضِ وَلَا فِی السَّمَآءِ(۳۸) اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ الَّذِیْ وَھَبَ لِیْ عَلَی الْکِبَرِ اِسْمٰعِیْلَ وَاِسْحٰقَ اِنَّ رَبِّیْ لَسَمِیْعُ الدُّعَآءِ(۳۹) رَبِّ اجْعَلْنِیْ مُقِیْمَ الصَّلٰوۃِ وَمِنْ ذُرِّیَّتِیْ رَبَّنَا وَتَقَبَّلْ دُعَآءِ(۴۰) رَبَّنَا اغْفِرْلِیْ وَلِوَالِدَیَّ وَلِلْمُؤْمِنِیْنَ یَوْمَ یَقُوْمُ الْحِسَابُ(۴۱) 
وَلَا تَحْسَبَنَّ اللّٰہَ غَافِلًا عَمَّا یَعْمَلُ الظّٰلِمُوْنَ اِنَّمَا یُؤَخِّرُھُمْ لِیَوْمٍ تَشْخَصُ فِیْہِ الْاَبْصَارُ(۴۲) مُھْطِعِیْنَ مُقْنِعِیْ رُءُ وْسِھِمْ لَایَرْتَدُّ اِلَیْھِمْ طَرْفُھُمْ وَاَفْءِدَتُھُمْ ھَوَآءٌ(۴۳)
وَاَنْذِرِ النَّاسَ یَوْمَ یَاْتِیْھِمُ الْعَذَابُ فَیَقُوْلُ الَّذِیْنَ ظَلَمُوْا رَبَّنَآ اَخِّرْنَآ اِلٰٓی اَجَلٍ قَرِیْبٍ نُّجِبْ دَعْوَتَکَ وَنَتَّبِعِ الرُّسُلَ اَوَلَمْ تَکُوْنُوْٓا اَقْسَمْتُمْ مِّنْ قَبْلُ مَا لَکُمْ مِّنْ زَوَالٍ(۴۴) وَّسَکَنْتُمْ فِیْ مَسٰکِنِ الَّذِیْنَ ظَلَمُوْٓا اَنْفُسَھُمْ وَتَبَیَّنَ لَکُمْ کَیْفَ فَعَلْنَا بِھِمْ وَضَرَبْنَا لَکُمُ الْاَمْثَالَ(۴۵) وَقَدْ مَکَرُوْا مَکْرَھُمْ وَعِنْدَ اللّٰہِ مَکْرُھُمْ وَاِنْ کَانَ مَکْرُھُمْ لِتَزُوْلَ مِنْہُ الْجِبَالُ(۴۶)
فَلَا تَحْسَبَنَّ اللّٰہَ مُخْلِفَ وَعْدِہٖ رُسُلَہٗ اِنَّ اللّٰہَ عَزِیْزٌ ذُوانْتِقَامٍ(۴۷) یَوْمَ تُبَدَّلُ الْاَرْضُ غَیْرَ الْاَرْضِ وَالسَّمٰوٰتُ وَبَرَزُوْا لِلّٰہِ الْوَاحِدِ الْقَھَّارِ(۴۸) وَتَرَی الْمُجْرِمِیْنَ یَوْمَءِذٍ مُّقَرَّنِیْنَ فِی الْاَصْفَادِ(۴۹) سَرَابِیْلُہُمْ مِّنْ قَطِرَانٍ وَّ تَغْشٰی وُجُوْھَہُمُ النَّارُ(۵۰) لِیَجْزِیَ اللّٰہُ کُلَّ نَفْسٍ مَّا کَسَبَتْ اِنَّ اللّٰہَ سَرِیْعُ الْحِسَابِ(۵۱) ھٰذَا بَلٰغٌ لِّلنَّاسِ وَلِیُنْذَرُوْا بِہٖ وَلِیَعْلَمُوْٓا اَنَّمَا ھُوَ اِلٰہٌ وَّاحِدٌ وَّلِیَذَّکَّرَ اُولُوا الْاَلْبَابِ(۵۲)
تم نے دیکھا نہیں ۳۳؎ اُن لوگوں کو جنھوں نے اللہ کی نعمت۳۴؎ کے بدلے میں نا شکری کی اور اپنی قوم کو ہلاکت کے گھر    جہنم     میں لا اتارا ہے؟ وہ اُس میں داخل ہوں گے اور وہ کیا ہی برا ٹھکانا ہے۔ اُنھوں نے اللہ کے شریک ٹھیرائے تاکہ (لوگوں کو) اُس کے راستے سے بھٹکا دیں۔ اُن سے کہو، مزے کر لو، تمھارا ٹھکانا بالآخر دوزخ ہی کی طرف ہے۔ ۲۸-۳۰
(اے پیغمبر)، میرے جو بندے ایمان لے آئے ہیں، اُن سے کہہ دو کہ نماز کا اہتمام رکھیں اور جو کچھ ہم نے اُن کو عطافرمایا ہے، اُس میں سے کھلے اور چھپے (اللہ کی راہ میں) خرچ کریں ۳۵؎، اِس سے پہلے کہ وہ دن آجائے جس میں نہ خرید وفروخت ہو گی اور نہ کسی کی دوستی کام آئے گی۔۳۱
(یہ مشرکین دیکھتے نہیں کہ) اللہ ہی ہے جس نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا اور آسمان سے پانی اتارا، پھر اُس سے تمھاری روزی کے لیے طرح طرح کے پھل نکالے اور کشتی کو تمھارے کام میں لگا دیا کہ اُس کے حکم سے سمندر میں چلے اور اُس نے دریاؤں کو تمھارے کام میں لگایا اور سورج اور چاند کو تمھارے کام میں لگایا، دونوں برابر چلے جا رہے ہیں۔ (اِسی طرح) دن اور رات کو بھی اُس نے تمھارے کام میں لگایا اور تمھیں ہر چیز میں سے جو تم نے مانگی، عطا فرمایا۳۶؎۔ اگر تم اللہ کی نعمتوں کو گننا چاہو تو نہیں گن سکتے۔ (اِس پر بھی خدا کے شریک ٹھیراتے ہو)؟ حقیقت یہ ہے کہ انسان بڑا ہی بے انصاف اور بڑا ناشکرا ہے۔ ۳۲-۳۴
(یہ ابراہیم کی اولاد ہیں)۔ اِنھیں وہ واقعہ سناؤ، جب ابراہیم نے دعا کی تھی۳۷؎ کہ میرے پروردگار، اِس شہر کو امن کا شہر۳۸؎ بنا اور مجھے اور میری اولاد۳۹؎ کو اِس سے دور رکھ کہ ہم بتوں کو پوجنے لگیں۔پروردگار، اِن بتوں نے بہت لوگوں کو گمراہی میں ڈال دیا ہے۴۰؎۔ (یہ میری اولاد کو بھی گمراہ کر سکتے ہیں)، اِس لیے جو (اُن میں سے) میری پیروی کرے، وہ میرا ہے اور جس نے میری بات نہیں مانی، (اُس کا معاملہ تیرے حوالے ہے)، پھر تو بخشنے والا ہے، تیری شفقت ابدی ہے۔ اے ہمارے پروردگار، میں نے اپنی کچھ اولاد کو تیرے حرمت والے گھر کے پاس ایک بن کھیتی کی وادی میں لا بسایا ہے۔ پروردگار، اِس لیے کہ وہ (اِس گھر میں) نماز کا اہتمام کریں ۴۱؎۔ سو تولوگوں کے دل اُن کی طرف مائل کر دے اور اُنھیں پھلوں کی روزی عطا فرما، اِس لیے کہ وہ (تیرا) شکر ادا کریں ۴۲؎۔ پروردگار، تو جانتا ہے جو کچھ ہم چھپاتے ہیں اور جو کچھ ظاہر کرتے ہیں ۴۳؎۔ حقیقت یہ ہے کہ اللہ سے کچھ بھی چھپا ہوا نہیں ہے، نہ زمین میں نہ آسمان میں۔ خدا کا شکر ہے جس نے مجھے اِس بڑھاپے میں اسمٰعیل اور اسحٰق عطا فرمائے ہیں ۴۴؎۔ اِس میں کچھ شک نہیں کہ میرا پروردگار دعا کا سننے والا ہے۔ پروردگار، مجھے نماز کا اہتمام کرنے والا بنا اور میری اولاد سے بھی (جنھیں میں یہاں بسا رہا ہوں)۔ ہمارے پروردگار، اور میری یہ دعا قبول فرما۔ پروردگار، تو مجھ کو بخش دے اور میرے والدین۴۵؎ کو اور سب ایمان والوں کو بخش دے، اُس دن جبکہ حساب قائم ہو گا۴۶؎۔ ۳۵-۴۱
یہ ظالم جو کچھ کر رہے ہیں، تم خداکو اُس سے ہرگز غافل نہ سمجھو، (اے پیغمبر)۔ وہ اِنھیں صرف اُس دن کے لیے ٹال رہا ہے جس میں نگاہیں پھٹی کی پھٹی رہ جائیں گی۔ یہ سر اٹھائے ہوئے بھاگ رہے ہوں گے، اِن کی نظر(اُٹھے گی تو) اِن کی طرف پلٹ کر نہ آئے گی اور اِن کے دل اڑے ہوئے ہوں گے۔۴۲-۴۳
تم اِن لوگوں کو اُس دن سے خبردار کردو، جس دن اِنھیں عذاب آلے گا۔ اُس وقت یہ اپنی جانوں پر ظلم ڈھانے والے کہیں گے کہ اے ہمارے رب، ہمیں تھوڑی سی مہلت اور دے دے، ہم تیری دعوت قبول کرلیں گے اور رسولوں کی پیروی کریں گے    کیا تم اِس سے پہلے قسمیں نہیں کھاتے رہے تھے کہ تم (اپنی جگہ سے) ہٹنے والے نہیں ہو۔ تم اُنھی لوگوں کی بستیوں میں آباد تھے جنھوں نے اپنی جانوں پر ظلم ڈھائے تھے اور تم پر کھل چکا تھا کہ ہم نے اُن کے ساتھ کیا معاملہ کیا اور ہم نے تمھارے لیے اُن کی مثالیں بیان کر دی تھیں۔اُنھوں نے اپنی سب چالیں چل دیکھیں۔ اُن کی یہ چالیں (اب) اللہ کے پاس دھری ہیں، اگرچہ اُن کی چالیں ایسی تھیں کہ اُن سے پہاڑ بھی ٹل جائیں۔۴۴-۴۶
سو ہرگز خیال نہ کرو کہ اللہ اپنے رسولوں سے کیے ہوئے وعدوں کے خلاف کرے گا۔ یقیناً اللہ زبردست ہے، وہ انتقام لینے والا ہے۔ اُس دن کو یاد رکھو، جب یہ زمین دوسری زمین سے بدل دی جائے گی اور آسمان بھی اور سب (تنہا، بے یارومددگار) اللہ واحد و قہار کے سامنے نکل کھڑے ہوں گے۔ اُس دن تم مجرموں کو دیکھو گے کہ زنجیروں میں جکڑے ہوئے ہیں، اُن کے لباس تارکول کے ہیں اور اُن کے چہروں پر آگ چھائی ہوئی ہے۔ یہ اِس لیے کہ اللہ ہر شخص کو اُس کی کمائی کا بدلہ دے۔ بے شک، اللہ جلد حساب چکا دینے والا ہے۔ یہ لوگوں کے لیے ایک اعلان ہے، (اِس لیے کہ اُن پر حجت پوری ہو جائے) اور اِس لیے کہ وہ اِس کے ذریعے سے خبردار کر دیے جائیں اور اِس لیے کہ وہ جان لیں کہ وہی ایک معبود ہے اور اِس لیے کہ دانش مند (اِس سے) یاددہانی حاصل کر لیں۔ ۴۷-۵۲

۳۳؎ یہ اسلوب خطاب یہاں اظہار تعجب اور ملامت کے لیے ہے اور مخاطبین قریش اور اُن کے لیڈر ہیں جو اپنی قوم کو دھکیل کر کفر و شرک کے گڑھے تک لے آئے تھے، جیسا کہ آگے بیان ہوا ہے۔

۳۴؎ اشارہ ہے اُس نعمت عظمیٰ کی طرف جو قریش کو اللہ کی عنایت اور ابراہیم علیہ السلام کی دعا کی برکت سے حاصل ہوئی اور وہ پورے عالم کے لیے توحید کے مرکز اور خدا کے حرم کی پاسبانی کے لیے چن لیے گئے۔

۳۵؎ مطلب یہ ہے کہ اپنی قوم کے لوگوں کا رویہ اختیار کرنے کے بجاے وہ نماز اور انفاق کا اہتمام کریں تاکہ وہی امانت اب اُن کے سپرد کر دی جائے جس میں اُن کے یہ بھائی خیانت کر چکے ہیں۔

۳۶؎ یعنی ہر وہ چیز عطا فرمائی جس کا تقاضا تمھاری خلقت نے کیا اور جس چیز کی احتیاج تمھارے اندر رکھی، اُس کا جواب پوری مطابقت کے ساتھ فراہم کر دیا۔ اِس سے یہ حقیقت بالکل مبرہن ہو گئی کہ جس نے بنایا ہے، وہی پروردگار بھی ہے اور تمھاری سب ضرورتوں کا اہتمام بھی اُسی نے فرمایا ہے۔ اِس میں کوئی دوسرا کسی بھی درجے میں اُس کا شریک نہیں ہے۔

۳۷؎ آگے کی آیتوں سے واضح ہے کہ یہ دعا اُس وقت کی گئی، جب حضرت ابراہیم نے اپنے بیٹے اسمٰعیل علیہ السلام اور اُ ن کی والدہ کو سرزمین مکہ میں لا کر بسایا ہے۔

۳۸؎ سیدنا ابراہیم علیہ السلام نے جب اپنی ذریت کو مکہ میں آباد کیا تو اُس وقت یہ شہر نہ صرف یہ کہ تہذیب و تمدن اور آبادی و زرخیزی سے بالکل محروم تھا، بلکہ وحشی اور خانہ بدوش قبیلوں کی لوٹ مار سے بھی محفوظ نہ تھا۔ ابراہیم علیہ السلام نے اِسی بنا پر یہ دعا کی اور اللہ تعالیٰ نے اُسے اِس طرح قبول فرمایا کہ اولاً،اِس سرزمین میں لڑنا بھڑنا اور جنگ و جدال یک قلم ممنوع قرار دیا۔ ثانیاً، اِس کی طرف سفر کے لیے چار مہینے حرام قرار دیے، جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ اِس کے گردوپیش میں خطرناک سے خطرناک علاقے بھی اِن مہینوں میں بالکل پر امن ہو گئے۔ ثالثاً، اِس میں اپنے گھر کو ایسی ہیبت عطا فرمائی کہ اِس پر باہر سے اول تو کسی نے حملہ آور ہونے کی جرأت ہی نہیں کی، لیکن اگر کبھی ایسا ہوا تو اِس کے باشندوں کی اِس طرح مدد کی کہ اُن کی معمولی مزاحمت پر آسمان سے اُن کے لیے اپنے جنود قاہرہ بھیج کر اُس کے دشمنوں کو بالکل پامال کر دیا۔

۳۹؎ اصل میں لفظ ’بَنِیَّ‘آیا ہے جس کے معنی بیٹوں کے ہیں، لیکن یہ علیٰ سبیل التغلیب یہاں اولاد کے معنی میں آگیا ہے۔

۴۰؎ اصل الفاظ ہیں: ’اِنَّھُنَّ اَضْلَلْنَ کَثِیْرًا مِّنَ النَّاسِ‘۔ اِس میں چونکہ بتوں کی شدت تاثیر و تسخیر کا اظہار مقصود ہے، اِس لیے ضمیریں اور افعال وہ آگئے ہیں جو ذوی العقول کے لیے استعمال ہوتے ہیں۔

۴۱؎ نماز خدا کے ساتھ ہمارے تعلق کا اولین ظہور ہے، باقی تمام چیزیں اِسی سے پیدا ہوتی ہیں۔ چنانچہ ابراہیم علیہ السلام نے یہاں اِسی کا ذکر کیا ہے۔ وہ اِس حقیقت کو خوب جانتے تھے کہ اگر نماز اپنی صحیح روح کے ساتھ قائم رہے گی تو دین کی کوئی چیز بھی ضائع نہیں ہو گی، بلکہ یہی نماز ہر چیز کو قائم رکھنے کا ذریعہ بن جائے گی۔

۴۲؎ یہ دعا بھی اِس طرح پوری ہوئی کہ حج و عمرہ کی وجہ سے لوگوں کا رجوع اِس سرزمین کی طرف بہت بڑھ گیا۔ اِس سے تجارت اور کاروبار کو فروغ ہوا۔ باہر سے ہر قسم کی چیزیں اِس شہر کے بازاروں میں پہنچنے لگیں۔ پھر حرم کی تولیت کے باعث قریش کو ایسی عزت حاصل ہوئی کہ اُن کے قافلے بغیر کسی تعرض کے دوسرے ملکوں کو جانے لگے۔ اِس سے گلہ بانی اور شکار ہی پر گزر بسر کرنے والوں کی معیشت میں غیر معمولی تبدیلی آئی۔ چنانچہ ہر طرح کی اجناس اور پھل وغیرہ اِس شہر میں فراوانی کے ساتھ میسر ہو گئے۔

۴۳؎ یہ فقرہ نہایت بلیغ ہے۔ استاذ امام لکھتے ہیں:

”...اِس فقرے کی بلاغت احاطہئ بیان میں نہیں آسکتی۔ بندہ جب اپنے رب سے کسی اہم معاملے میں دعا کرتا ہے تو اُس کو ایک بڑی مشکل یہ پیش آتی ہے کہ بعض باتیں وہ کہنا تو چاہتا ہے، لیکن وہ بیان میں نہیں آتیں، اِسی طرح بعض باتیں ایسی ہوتی ہیں جو دل میں تو ہوتی ہیں، لیکن وہ اُن کے کہنے میں کسی مبہم سبب سے کچھ حجاب سا محسوس کرتا ہے۔ اِس فقرے نے اِس طرح کی ساری باتوں کو سمیٹ لیا، اِس لیے کہ خدا کا علم ظاہر و مخفی، سب کو محیط ہے۔“ (تدبرقرآن۴/ ۳۳۴)    

۴۴؎ یہ دعا کے حق میں اُن احسانات کا حوالہ ہے جو اللہ تعالیٰ نے اِس سے پہلے اُن پر کیے تھے۔ اِس سے ضمناً یہ بات بھی پوری قطعیت کے ساتھ واضح ہو جاتی ہے کہ حضرت ابراہیم نے اسمٰعیل علیہ السلام اور اُن کی والدہ کو اُن کی پیدایش کے بعد نہیں،بلکہ اُس وقت مکہ کی وادی غیر ذی زرع میں لا کر بسایا، جب اسمٰعیل علیہ السلام کے واقعہ قربانی کے بعد اسحق علیہ السلام بھی پیدا ہو چکے تھے اور اسمٰعیل اِس قابل تھے کہ بیت اللہ کے خادم اور متولی کی حیثیت سے اپنی ذمہ داریاں پوری کر سکیں۔

۴۵؎ لفظ ’وَالِدَیْن‘بتا رہا ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اِس دعا میں اپنے والد    آزر    کو بھی شامل کیا ہے۔ یہ اُس وعدے کی بنا پر ہے جو اُنھوں نے ہجرت کے وقت باپ سے کیا تھا کہ ’سَاَسْتَغْفِرُلَکَ رَبِّیْ‘۔* قرآن سے معلوم ہوتا ہے کہ بعد میں اللہ تعالیٰ نے آپ کو اِس سے روک دیا۔ یہ دعا، ظاہر ہے کہ اِس ممانعت سے پہلے کی ہے۔

۴۶؎ اِس دعا میں لفظ ’رَبِّ‘یا ’رَبَّنَا‘ بار بار دہرایا گیا ہے۔ اِس کی وجہ کیا ہے؟ استاذ امام لکھتے ہیں:

”...یوں بظاہر تو یہ ایک تکرار سی محسوس ہوتی ہے، لیکن درحقیقت یہ چیز دعا کی خصوصیات، بلکہ اُس کے لوازم میں سے ہے۔ دعا کا اصل مزاج تضرع، استمالت، استغاثہ اور التجا و فریاد ہے۔ یہ چیز مقتضی ہوتی ہے کہ جس سے دعا کی جارہی ہے، اُس کو بار بار متوجہ کیا جائے۔ جب بندہ خدا کو ’رَبِّیْ‘ سے خطاب کرتا ہے تو وہ گویا اُس لطف خاص کو اپنی دعا کے حق میں سفارشی بناتا ہے جس کا تجربہ اُسے خود ہے اور جب اُس کو ’رَبَّنَا‘ سے خطاب کرتا ہے تو وہ اُس کے اُس کرم عام کو اپنی دعا کے حق میں سفارشی بناتا ہے جس کا مشاہدہ تمام خلق میں ہو رہا ہے۔“(تدبرقرآن۴/ ۳۳۴)    

_________

* مریم ۹۱:۷۴۔

__________________________

B