HomeQuranHadithMizanVideosBooksBlogs
مصنف : معز امجد

نظم اجتماعی کے متعلق پانچ احکام

ترجمہ وتدوین: شاہد رضا

رُوِیَ أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ: إِنَّ اللّٰہ أَمَرَ یَحْیَی بْنَ زَکَرِیَّا بِخَمْسِکَلِمَاتٍ أَنْ یَّعْمَلَ بِہَا وَ یَأْمُرَ بَنِیْ إِسْرَاءِیْلَ أَنْ یَّعْمَلُوْا بِہَا. وَإِنَّہُ کَادَ أَنْ یُّبْطِئَ بِہَا، فَقَالَ عِیْسٰی: إِنَّ اللّٰہَ أَمَرَکَ بِخَمْسِ کَلِمَاتٍ لِتَعْمَلَ بِہَا وَتَأْمُرَ بَنِیْ إِسْرَاءِیْلَ أَنْ یَّعْمَلُوْا بِہَا، فَإِمَّا أَنْ تَأْمُرَہُمْ وَإِمَّا أَنَا آمُرَہُمْ؟ فَقَالَ یَحْیٰی: أَخْشٰی إِنْ سَبَقْتَنِیْ بِہَا أَنْ یُّخْسَفَ بِیْ أَوْ أُعَذَّبَ، فَجَمَعَ النَّاسُ فِیْ بَیْتِ الْمَقْدِسِ، فَامْتَلَأَ الْمَسْجِدُ وَتَعَدَّوْا عَلَی الشُّرَفِ.
فَقَالَ: إِنَّ اللّٰہَ أَمَرَنِیْ بِخَمْسِکَلِمَاتٍ أَنْ أَعْمَلَ بِہِنَّ وَآمُرَکُمْ أَنْ تَعْمَلُوْا بِہِنَّ: أَوَّلُہُنَّ أَنْ تَعْبُدُوا اللّٰہَ وَلاَ تُشْرِکُوْا بِہِ شَیْئًا، وَإِنَّ مَثَلَ مَنْ أَشْرَکَ بِاللّٰہِ کَمَثَلِ رَجُلٍ اشْتَرٰی عَبْدًا مِنْ خَالِصِ مَالِہِ بِذَہَبٍ أَوْ وَرِقٍ، فَقَالَ: ہٰذِہِ دَارِیْ وَہٰذَا عَمَلِیْ فَاعْمَلْ وَأَدِّ إِلَیَّ، فَکَانَ یَعْمَلُ وَیُؤَدِّیْ إِلٰی غَیْرِ سَیِّدِہِ، فَأَیُّکُمْ یَرْضٰی أَنْ یَّکُوْنَ عَبْدُہُ کَذٰلِکَ؟
وَإِنَّ اللّٰہَ أَمَرَکُمْ بِالصَّلٰوۃِ، فَإِذَا صَلَّیْتُمْ فَلاَ تَلْتَفِتُوْا، فَإِنَّ اللّٰہَ یَنْصِبُ وَجْہَہُ لِوَجْہِ عَبْدِہِ فِیْ صَلٰوتِہِ مَا لَمْ یَلْتَفِتْ.
وَآمُرُکُمْ بِالصِّیَامِ، فَإِنَّ مَثَلَ ذٰلِکَ کَمَثَلِ رَجُلٍ فِیْ عِصَابَۃٍ مَعَہُ صُرَّۃٌ فِیْہَا مِسْکٌ فَکُلُّہُمْ یَعْجَبُ أَوْ یُعْجِبُہُ رِیْحُہَا، وَإِنَّ رِیحَ الصَّاءِمِ أَطْیَبُ عِنْدَ اللّٰہِ مِنْ رِیْحِ الْمِسْکِ.
وَآمُرُکُمْ بِالصَّدَقَۃِ، فَإِنَّ مَثَلَ ذٰلِکَ کَمَثَلِ رَجُلٍ أَسَرَہُ الْعَدُوُّ، فَأَوْثَقُوْا یَدَہُ إِلٰی عُنُقِہِ وَقَدَّمُوْہُ لِیَضْرِبُوْا عُنُقَہُ، فَقَالَ: أَنَا أَفْدِیْہِ مِنْکُمْ بِالْقَلِیْلِ وَالْکَثِیْرِ فَفَدٰی نَفْسَہُ مِنْہُمْ.
وَآمُرُکُمْ أَنْ تَذْکُرُوا اللّٰہَ، فَإِنَّ مَثَلَ ذٰلِکَ کَمَثَلِ رَجُلٍ خَرَجَ الْعَدُوُّ فِیْ أَثَرِہِ سِرَاعًا حَتّٰی إِذَا أَتٰی عَلٰی حِصْنٍ حَصِیْنٍ فَأَحْرَزَ نَفْسَہُ مِنْہُمْ، کَذٰلِکَ الْعَبْدُ لاَ یُحْرِزُ نَفْسَہُ مِنَ الشَّیْطَانِ إِلاَّ بِذِکْرِ اللّٰہِ.
قَالَ النَّبِیُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ: وَأَنَا آمُرُکُمْ بِخَمْسٍ، أَللّٰہُ أَمَرَنِیْ بِہِنَّ: السَّمْعُ وَالطَّاعَۃُ وَالْجِہَادُ وَالْہِجْرَۃُ وَالْجَمَاعَۃُ، فَإِنَّہُ مَنْ فَارَقَ الْجَمَاعَۃَ قِیْدَ شِبْرٍ فَقَدْ خَلَعَ رِبْقَۃَ الْإِسْلَامِ مِنْ عُنُقِہِ إِلاَّ أَنْ یَّرْجِعَ. وَمَنِ ادَّعٰی دَعْوَی الْجَاہِلِیَّۃِ فَإِنَّہُ مِنْ جُثَا جَہَنَّمَ.
فَقَالَ رَجُلٌ: یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ، وَإِنْ صَلّٰی وَصَامَ؟
قَالَ: وَإِنْ صَلّٰی وَصَامَ. فَادْعُوْا بِدَعْوَی اللّٰہِ الَّذِیْ سَمَّاکُمْ، الْمُسْلِمِیْنَ الْمُؤْمِنِیْنَ، عِبَادَ اللّٰہِ.
روایت کیا گیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:بے شک، اللہ تعالیٰ نے حضرت یحییٰ بن زکریا (علیہ السلام) کو پانچ باتوں کا حکم دیا کہ وہ ان پر عمل کریں اور بنی اسرائیل کو بھی حکم دیں کہ وہ ان پر عمل کریں۔ قریب تھا کہ یحییٰ (علیہ السلام) ان کو آگے پہنچانے میں دیر کر دیتے۔ اس پر حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) نے (حضرت یحییٰ ) کو کہا: بے شک، اللہ تعالیٰ نے آپ کو پانچ باتوں کا حکم دیا ہے کہ آپ ان پر عمل کریں اور بنی اسرائیل کو بھی حکم دیں کہ وہ ان پر عمل کریں، تو کیا آپ ان کو (فوراً) حکم دیں گے یا میں خود ان کو حکم دوں؟ حضرت یحییٰ نے جواب دیا: (میں نے ایسا نہ کیاتو)۱ مجھے ڈر ہے کہ اگر آپ نے ان کو پہنچانے میں مجھ سے سبقت لے لی، مجھے زمین میں دھنسا دیا جائے گا یاسزا دی جائے گی، چنانچہ انھوں نے لوگوں کو بیت المقدس میں جمع کیا تومسجد بھر گئی ، یہاں تک کہ لوگ ستونوں پر چڑھ گئے۲۔
(اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے) حضرت یحییٰ نے کہا: بے شک، اللہ تعالیٰ نے مجھے پانچ باتوں کا حکم دیا ہے کہ میں ان پر عمل کروں او رتمھیں بھی حکم دوں کہ تم ان پر عمل کرو: ان میں سے پہلی یہ ہے کہ تم (تنہا) اللہ تعالیٰ کی عبادت کرو اور کسی چیز کو اس کا شریک نہ ٹھہراؤ،بے شک اس شخص کی مثال جو اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی کو شریک ٹھہراتا ہے، ایسی ہے جیسے ایک شخص اپنے خالص مال ، جس میں سونا یا چاندی شامل ہو، سے ایک غلام خریدے اور پھر (اس سے) کہے کہ یہ میرا گھر ہے اور یہ میرا کام، تم بہتر کام کرو اور اپنی محنت کا نفع مجھے دو، چنانچہ غلام کام کرتا ہے اور اس کا نفع اپنے مالک کے علاوہ کسی اور کو دے دیتا ہے، تو تم میں سے کون ہے جو یہ چاہے کہ اس کا غلام اس طرح کا ہو۳؟
بے شک، اللہ تعالیٰ نے تمھیں نماز ادا کرنے کا حکم دیا ہے، چنانچہ جب تم نماز ادا کرو تو کسی اور چیز کی طرف توجہ مت کرو، کیونکہ جب تک وہ کسی اور چیز کی طرف توجہ نہیں کرتا، اللہ تعالیٰ اپنے بندے کی طرف توجہ رکھتا ہے۔
اور میں تمھیں روزے کا حکم دیتا ہوں، روزے کی مثال ایسی ہے، جیسے ایک شخص(سفر میں) ایک گروہ کے ساتھ ہے، اس کے پاس ایک مشک سے بھری ہوئی تھیلی ہے اور اس گروہ میں سے ہر شخص اس کی خوشبو کو پسند کرتا ہے۔ بے شک، اللہ تعالیٰ کے نزدیک روزہ دار کے منہ کی بو مشک کی بو سے بھی زیادہ پاکیزہ ہے۔
اور میں تمھیں صدقہ کا حکم دیتا ہوں، صدقے کی مثال ایسی ہے، جیسے کسی شخص کو دشمن قید کر لیں اور اس کے ہاتھ اس کی گردن کے ساتھ باندھ دیں اور وہ اسے قتل کرنے کے لیے لے جائیں، وہ ان سے کہتا ہے کہ میں اپنے آپ کو تم سے آزاد کرانے کے لیے تمھیں اپنی قلیل وکثیر رقم دیتا ہوں، تو وہ یہ رقم دے کر ان سے اپنے آپ کو آزاد کرا لیتا ہے۴۔
اور میں تمھیں حکم دیتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ کا ذکر کرو، اس کی مثال ایسی ہے، جیسے ایک شخص کو پکڑنے کے لیے اس کا دشمن دوڑتا ہوا اس کے پیچھے نکلا، یہاں تک کہ وہ ایک مضبوط قلعے میں آ گیا اور (اس میں پناہ لیتے ہوئے) اپنے آپ کو دشمن سے بچا لیا، اسی طرح سوائے اللہ تعالیٰ کے ذکر کے بندہ اپنے آپ کو شیطان سے نہیں بچا سکتا۔
نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: میں تمھیں پانچ (اضافی) باتوں کا حکم دیتا ہوں۵ ، اللہ تعالیٰ نے مجھے ان کا حکم دیا ہے: سمع، (حکمرانوں کی) اطاعت۶، جہاد۷، ہجرت۸ اور نظم اجتماعی۹، کیونکہ جس شخص نے ایک بالشت برابر بھی (اپنے آپ کو) نظم اجتماعی سے الگ کیا، اس نے اسلام کا قلادہ اپنے گلے سے اتار دیا۱۰، یہاں تک کہ وہ لوٹ آئے۔ جس شخص نے زمانۂ جاہلیت کی پکار۱۱ کی طرح پکارا، وہ دوزخ کے گہرے گڑھے میں ہو گا۔
ایک شخص نے عرض کیا: یا رسول اللہ، اگرچہ وہ نماز ادا کرے اور روزہ رکھے؟
آپ نے ارشاد فرمایا:اگرچہ وہ نماز ادا کرے اور روزہ رکھے۔ چنانچہ تم اسی نام سے پکارو جو تمھیں اللہ تعالیٰ دے چکا ہے: مسلمان، مومن۱۲، اے اللہ تعالیٰ کے بندو۔
ترجمے کے حواشی

۱۔ اللہ تعالیٰ کے حکم کی تعمیل نہ کرنے کی صورت میں۔

۲۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ لوگ اتنی تعداد میں حاضر ہو گئے کہ مسجد کی جگہ تنگ پڑ گئی ، یہاں تک کہ لوگ مسجد کے ستونوں اور بلند مقامات پر چڑھ کر بیٹھ گئے۔

۳۔ اللہ تعالیٰ ہی انسان کا حقیقی مالک اور آقاہے، اور وہ تمام اشیا جن سے انسان لطف اندوز ہوتا ہے ، یہ سب صرف اللہ تعالیٰ نے ہی اسے عطا کی ہیں۔ اس بدیہی حقیقت کو نظرانداز کرتے ہوئے انسان بغیر کسی دلیل کے اللہ تعالیٰ کے ساتھ دوسروں کو شریک ٹھہراتا ہے جو نہ تو اس پر کسی قسم کی قدرت رکھتے ہیں اور نہ ہی اللہ تعالیٰ کی عطا کردہ اُن نعمتوں میں وہ ادنیٰ سے ادنیٰ حصہ رکھتے ہیں جن سے انسان زندگی میں بہرہ مند ہوتا ہے۔ اوپر ایک مثال روایت کی گئی ہے جس میں حضرت یحییٰ علیہ السلام ایک عقل سے اندھے انسان اور ایک غلام کا تقابل کرتے ہیں جسے ایک شخص خریدتا ہے اور اسے خوراک مہیا کرتا ہے، اسے کام پہ لگاتا ہے، مگرغلام اپنی محنت کی تمام کمائی اپنے مالک اور آقا کے علاوہ کسی اور کو دے دیتا ہے۔ اس سے بالبداہت واضح ہے کہ جس طرح کوئی شخص یہ نہیں چاہے گا کہ اس کا غلام اس طر ح کا ہو، وہ خالق حقیقی کس طرح چاہے گا کہ اس کا بندہ، جسے اس نے عظیم نعمتوں سے نوازا ہے، اس کے ساتھ کسی دوسرے کو شریک ٹھہرائے!

۴۔ اس طرح صدقہ انسان کو ان صغیرہ گناہوں کے نتائج سے محفوظ رکھتا ہے جن کا وہ زندگی میں ارتکاب کر بیٹھتا ہے۔

۵۔ یعنی جن باتوں کا حضرت یحییٰ علیہ السلام کو حکم دیا گیا تھا، ان پانچ باتوں کے علاوہ پانچ باتیں ۔

۶۔ یعنی حکومت کے احکامات کے سامنے سر تسلیم خم کرنا۔ یہ طرز اطاعت ایک منظم اور سیاسی ریاست کے لازمی اساسات میں سے ہے۔ جیسا کہ گذشتہ بیانات میں واضح کیا جا چکا ہے کہ ایک شخص کو صرف اسی صورت میں حکمران کے احکامات کا انکار کرنا چاہیے، جب حکمران اسے ایسی بات کا حکم دے جس سے خالق حقیقی کی معصیت لازم آتی ہو۔ اس استثنا کے ساتھ کہ جب حکمران کسی کو ایسی بات کا حکم دے جس سے اللہ تعالیٰ کے حکم کی خلاف ورزی ہوتی ہو، ہر شخص کو یہ حکم دیا گیا ہے کہ وہ ریاست کے حکمرانوں کا اطاعت گزار رہے۔

۷۔ امر شریعت ہونے کی حیثیت سے جب مسلم ریاست قدرت رکھتی ہو، اس پر یہ ضروری ہے کہ وہ ظلم وعدوان کے خلاف جنگ کرے۔ شریعت کی ہدایات کے مطابق، ظلم وجبر کے خلاف یہ منظم اور علانیہ جنگ جہاد کہلاتی ہے۔

۸۔ مذہبی تعلیمات کے حوالے سے جب کوئی سیاسی گروہ کسی شخص کو ظلم وستم کا نشانہ بنائے تو قرآن مجید نے اسے حکم دیا ہے کہ وہ ایسے علاقے کی طرف ہجرت کر جائے جہاں وہ آزادانہ طور پر اپنے مذہب پر عمل پیرا ہو سکے، جبکہ اس ہجرت کے دروازے وہاں اس کے لیے کھلے ہوں۔

۹۔ نظم اجتماعی کے ساتھ یہ وابستگی، ریاست کے قوانین کی توقیر اور اطاعت گزاری کا علامتی اظہار ہے، اور اسی طرح مسلمانوں کے سیاسی نمائندوں کے احترام اورفرماں برداری کا اظہار ہے۔

۱۰۔ ’’اس نے اسلام کا قلادہ اپنے گلے سے اتار دیا‘‘ کے جملے کا مطلب ہے کہ ایسا شخص اس سماجی ضابطے کی مکمل طور پر بے حرمتی کا مجرم ہے جس کا اسلام نے اسے پابند کیا ہے۔

۱۱۔ ’’جاہلیت کی پکار‘‘ سے مراد ہے: لوگوں کو ان کے قبائلی اور خاندانی وابستگی کے ذریعے سے پکارنا اور اس طرح ان میں اس وابستگی کے لیے تعصب، عزت اور دفاع کا احساس پیدا کرنا۔ چونکہ اس طرح کا عمل اتحاد اور بھائی چارے کی روح کے منافی ہے، اس لیے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں کو مسلمانوں کے درمیان انتشار پھیلانے کی وجہ سے آخرت میں قبر کے نتائج سے آگاہ فرمایا ہے ۔

۱۲۔ دوسروں کو ایسے ناموں سے پکارنا جن سے نااتفاقی پھیلنے کا اندیشہ ہو، ان کے بجاے نبی علیہ السلام نے دوسروں کو ’مسلمان‘ اور ’مومن‘ کے ناموں سے پکارنے کا حکم دیا ہے ۔ ان ناموں سے پکارنے کے باعث ان میں اتحاد اور مساوات کا احساس پیدا ہو گا، لوگوں کے تعصبات دور ہوں گے اور ان کو اس بنیادی عنصر کی یاددہانی ہو گی جو ان کے درمیان بندھن کا باعث ہے، یعنی اللہ تعالیٰ پر ایمان اور اس کی فرماں برداری۔

خلاصۂ کلام

اس روایت سے واضح ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم فرمایا ہے کہ ماننے والے اپنے اوپر عائد فرائض کے ساتھ ساتھ زندگی کے مجموعی حالات میں بھی تبدیلی پیدا کریں۔ یہ بات واضح ہے کہ حضرت یحییٰ علیہ السلام ان آخری پیغمبروں میں سے تھے جنھیں بنی اسرائیل کی طرف بھیجا گیا تھا، اور ان کو اس وقت بھیجا گیا جب رومیوں کا غلبہ تھا۔ غیراسرائیلیوں کے ماتحت رہتے ہوئے حضرت یحییٰ علیہ السلام کو دین خداوندی کے صرف انھی احکامات کی طرف دعوت کے لیے حکم دیا گیا تھا جو بنی اسرائیل کی انفرادی حیثیت سے متعلق تھے۔ بہرحال، یہ بات ذہن نشین رہنی چاہیے کہ تورات بھی انھی احکام پر مشتمل ہے جو سیاسی نظم اور ریاست سے متعلق ہیں۔ تاہم، چونکہ حضرت یحییٰ علیہ السلام کے زمانے میں اس سیاسی نظم کا وجود نہیں تھااور حکومت بنی اسرائیل کے ہاتھوں سے منتقل ہو چکی تھی، اس لیے تورات کے یہ احکامات بنی اسرائیل کے لیے قابل عمل نہیں تھے، جب تک کہ حکومت ان کو واپس نہیں مل گئی۔

حضرت یحییٰ علیہ السلام کے زمانے میں بنی اسرائیل کو جن سیاسی حالات سے گزرنا پڑا ، اس کے برعکس نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعے سے پہلے مدینے میں اور پھر جزیرہ نماے عرب میں ایک مسلم ریاست قائم ہو چکی تھی۔ اس نظم اجتماعی کے قیام کے ساتھ مسلمانوں کی انفرادی حیثیت سے متعلق احکام کے علاوہ، وہ ایک بار پھر شریعت کے ان احکام کے مخاطب ہو گئے جو نظم اجتماعی سے متعلق تھے۔

متون

یہ روایت ترمذی، رقم ۲۸۶۳؛ احمد، رقم۱۷۲۰۹، ۱۷۸۳۳، ۲۲۹۶۱؛ ابن خزیمہ، رقم ۴۸۳، ۹۳۰، ۱۸۹۵؛ ابن حبان، رقم ۶۲۳۳؛ بیہقی، رقم ۳۳۴۸، ۱۶۳۹۰؛ابویعلیٰ، رقم ۱۵۷۱ اور عبدالرزاق، رقم۵۱۴۱، ۲۰۷۰۹ میں روایت کی گئی ہے۔

____________

B