HomeQuranHadithMizanVideosBooksBlogs
مصنف : رضوان اللہ

بعد از موت (۸)

دنیا کی جیلوں میں کم سے کم انسان کی بنیادی ضرورتوں کوپوراکرنے کااہتمام ضرورکیاجاتا ہے۔ دوزخ وہ جگہ ہو گی کہ اس میں ان کا اہتمام کیاجاناتوبہت دورکی بات،ان ضرورتوں اور ان کے لوازمات کووہاں بذات خود سزابنادیا جائے گا۔کھانے کے بارے میں بیان ہواہے کہ وہ جھاڑ کانٹوں، زخموں کے دھووَن اورزہریلے زقّوم پرمشتمل ہوگا۔ اس میں تلخی اور کڑواہٹ اتنی زیادہ ہوگی جیسے کوئی تیل کے تلچھٹ کوحلق سے اتارناچاہے اوریہ اپنی حدت اور جوش میں اس قدربڑھا ہوگاجیسے کھولتاہواپانی کسی کے منہ میں انڈیل دیاجائے۔ مجرمین اس کوکھانا چاہیں گے اوریہ ان کے گلے میں اٹک کررہ جائے گا۔کھانااس لیے کھایاجاتاہے کہ اس سے بھوک کامداوا ہو اورجسم میں کچھ توانائی آئے، مگر جہنم کے کھانے کی’ ’تاثیر‘‘ صرف یہ ہوگی کہ کھانے والااس کو کھائے گا اور یہ اُسے طاقت دے سکے گااورنہ اس کی آتشِ پیٹ کو بجھاپائے گا:

وَلَا طَعَامٌ اِلَّا مِنْ غِسْلِیْنٍ.(الحآقہ ۶۹: ۳۶)
’’اور دھووَن کے سوا(اس کے لیے) کوئی کھانا نہیں ہے۔‘‘
اِنَّ شَجَرَتَ الزَّقُّوْمِ، طَعَامُ الْاَثِیْمِ، کَالْمُھْلِ یَغْلِیْ فِی الْبُطُوْنِ، کَغَلْیِ الْحَمِیْمِ.(الدخان ۴۴: ۴۳۔۴۶)
’’زقوم کا درخت گناہ گاروں کاکھانا ہو گا،تیل کے تلچھٹ کی طرح، پیٹ میں کھولے گاجس طرح گرم پانی کھولتا ہے۔‘‘
اِنَّ لَدَیْنَآ اَنْکَالًا وَّجَحِیْمًا، وَّطَعَامًا ذَاغُصَّۃٍ وَّعَذَابًا اَلِیْمًا.(المزمل ۷۳: ۱۲۔۱۳)
’’(اِن کے لیے)ہمارے پاس بھاری بیڑیاں ہیں اور آگ کاڈھیر ہے اور گلے میں پھنستا ہوا کھانا ہے، اور بہت درد ناک عذاب بھی ۔‘‘
لَیْسَ لَھُمْ طَعَامٌ اِلَّا مِنْ ضَرِیْعٍ، لَّا یُسْمِنُ وَلاَ یُغْنِیْ مِنْ جُوْعٍ.(الغاشیہ ۸۸: ۶۔۷)
’’اُن کے لیے جھاڑکانٹوں کے سوا کوئی کھانانہ ہوگاجو نہ تواناکرے گا، نہ بھوک مٹائے گا۔‘‘

دوزخیوں کوپینے کے لیے جوکچھ ملے گا،قرآن میں اس کابھی بیان ہوا ہے۔فرمایاہے کہ وہاں گرم کھولتے ہوئے پانی کاایک چشمہ ہوگاجواس حدتک گرم ہوگاجیسے پگھلاہواتانباہو۔یہ لوگ گرمی اورپیاس سے بدحال ہوکرجب پانی طلب کریں گے توان کواسی میں سے پلایاجائے گا۔یہ اس کو منہ کے قریب لائیں گے تواس کی حدت اتنی زیادہ ہوگی کہ ان کے چہرے جھلس کررہ جائیں گے۔لیکن اس حدتک گرم ہونے کے باوجود یہ اسے ہی پئیں گے اوراس طرح غٹاغٹ پئیں گے، جس طرح تونس کی بیماری میں مبتلاکوئی اونٹ ہو جوپیتاچلاجائے اورپیاس ہوکہ بجھنے کانام نہ لے۔اس کافائدہ ہوگاتوبس یہی کہ اس کے اثرسے ان کی انتڑیاں تک پھٹ جائیں گی۔ اس کے علاوہ وہاں انھیں زخموں اورناسوروں سے رِستا ہوا گندامواد پینے کودیاجائے گا۔ پیاس کی حالت میں یہ کوشش کریں گے کہ اس لہوملی ہوئی پیپ ہی کو گھونٹ گھونٹ پی لیں،مگریہ مکروہ شکل اور متعفن ہونے کی وجہ سے ان کے حلق سے نہ اترے گی۔ اور سزا بالاے سزا یہ ہوگی کہ کھولتاہواپانی ان کے اوپرگراکران کی سزاکومزیدتکلیف دہ بنا دیاجائے گا:

تُسْقٰی مِنْ عَیْنٍ اٰنِیَۃٍ.(الغاشیہ ۸۸: ۵)
’’اُنھیں ایک کھولتے ہوئے چشمے کا پانی پلایا جائے گا۔‘‘
وَاِنْ یَّسْتَغِیْثُوْا یُغَاثُوْا بِمَآءٍ کَالْمُھْلِ یَشْوِی الْوُجُوْہَ، بِءْسَ الشَّرَابُ، وَسَآءَ تْ مُرْتَفَقًا.(الکہف ۱۸: ۲۹)
’’ اگر وہ پانی کے لیے فریاد کریں گے توان کی فریاد رسی اس پانی سے کی جائے گی جو پگھلے ہوئے تانبے کی طرح ہو گا۔ وہ چہروں کو بھون ڈالے گا۔ کیاہی براپانی ہو گا اور کیا ہی برا ٹھکانا!‘‘
وَسُقُوْا مَآءً حَمِیْمًا فَقَطَّعَ اَمْعَآءَ ھُمْ.(محمد ۴۷: ۱۵)
’’ان کو گرم پانی پلایاجائے گاتو وہ ان کی آنتوں کو ٹکڑے کرکے رکھ دے گا۔‘‘
فَشٰرِبُوْنَ عَلَیْہِ مِنَ الْحَمِیْمِ، فَشٰرِبُوْنَ شُرْبَ الْھِیْمِ.(الواقعہ ۵۶: ۵۴۔۵۵)
’’پھر اس (زقوم کے کھانے) پر کھولتا ہوا پانی پیو گے تو تونس لگے اونٹوں کی طر ح پیو گے۔‘‘
لَا یَذُوْقُوْنَ فِیْھَا بَرْدًا وَّلَا شَرَابًا، اِلَّا حَمِیْمًا وَّغَسَّاقًا.(النبا ۷۸: ۲۴۔۲۵)
’’نہ اس میں ٹھنڈک کامزہ چکھیں گے،نہ گرم پانی اوربہتی پیپ کے سواپینے کی کوئی چیز ان کے لیے ہوگی۔‘‘
مِنْ وَّرَآءِ ہٖ جَھَنَّمُ وَیُسْقٰی مِنْ مَّآءٍ صَدِیْدٍ، یَتَجَرَّعُہٗ وَلَایَکَادُ یُسِیْغُہٗ.(ابراہیم ۱۴: ۱۶۔۱۷)
’’اب اس کے آگے دوزخ ہے۔وہاں اس کوپیپ کا پانی پلایا جائے گا۔وہ اس کو گھونٹ گھونٹ پیے گا اور گلے سے اتارنہ سکے گا۔‘‘
یُصَبُّ مِنْ فَوْقِ رُءُ وْسِھِمُ الْحَمِیْمُ، یُصْھَرُ بِہٖ مَا فِیْ بُطُوْنِھِمْ وَالْجُلُوْدُ.(الحج ۲۲:۱۹۔۲۰)
’’ان کے سروں کے اوپر سے کھولتا ہوا پانی انڈیلا جائے گا۔ ان کے پیٹ کے اندرجوکچھ ہے، سب اس سے پگھل جائے گا اور (اوپر سے) ان کی کھالیں بھی۔‘‘

وہاں کا پہناوا بھی اپنی ذات میں سراسرعذاب ہوگا۔یہ آہنی طوق اورستر گزلمبی زنجیروں میں توپہلے سے جکڑے ہوں گے اوپرسے آگ کاایک لباس بھی انھیں پہنادیاجائے گا۔ دنیا میں آگ سے محفوظ رہنے والے لباس تیارکیے جاتے ہیں،اس کے برخلاف وہاں ان پرآتش گیرمادہ لگاہوگاجولپک لپک کرآگ کو پکڑے گا:

فَالَّذِیْنَ کَفَرُوْا قُطِّعَتْ لَھُمْ ثِیَابٌ مِّنْ نَّارٍ.(الحج ۲۲: ۱۹)
’’سوجنھوں نے انکارکردیاہے،ان کے لیے آگ کے کپڑے تراشے جائیں گے۔‘‘
سَرَابِیْلُھُمْ مِّنْ قَطِرَانٍ.(ابراہیم ۱۴: ۵۰)
’’ان کے لباس تارکول کے ہوں گے۔‘‘

یہ توان بدنصیبوں کے روٹی اورکپڑے کاحال ہوا،ان کے رہنے کامعاملہ اس سے بھی بدتر ہوگا۔ان کی بیرکیں کیاہوں گی، تنگ وتاریک کوٹھڑیاں ہوں گی جن میں انھیں باندھ کرٹھونس دیا جائے گا۔بعض مجرم ایسے ہوں گے کہ انھیں ان تنگ جگہوں میں ڈال دینے پراکتفانہ ہوگا، بلکہ وہ لمبے لمبے ستونوں سے بھی باندھ دیے جائیں گے اورنتیجہ یہ کہ ہلنے جلنے سے بھی معذورہوں گے۔ ان کے بچھونے آگ سے بنے ہوں گے اورآگ ہی کے بالاپوش ان کے اوپرہوں گے۔گویاان کے دن اگر عذاب سہتے گزریں گے توراتیں بھی آرام دہ ہونے کے بجاے انتہائی کرب ناک انداز میں گزریں گی:

وَاِذَآ اُلْقُوْا مِنْھَا مَکَانًا ضَیِّقًا مُّقَرَّنِیْنَ....(الفرقان ۲۵: ۱۳)
’’اور جب اس کی کسی تنگ جگہ میں باندھ کرڈال دیے جائیں گے...۔‘‘
فِیْ عَمَدٍ مُّمَدَّدَۃٍ.(الہمزہ ۱۰۴: ۹)
’’اونچے ستونوں میں (جکڑ کر باندھے ہوئے)۔‘‘
لَھُمْ مِّنْ جَھَنَّمَ مِھَادٌ، وَّمِنْ فَوْقِھِمْ غَوَاشٍ.(الاعراف ۷: ۴۱)
’’اُن کے لیے دوزخ کابچھونااور اوپر سے اُسی کا اوڑھنا ہوگا۔‘‘

جہنم کی آگ کس طرح کی ہوگی، بیان ہواہے کہ وہ اتنی بڑی اوربھیانک ہوگی کہ کسی محل جتنے اونچے اور زردرنگ کے اونٹوں جیسے شعلے پھینک رہی ہوگی۔اس میں گرمی اس انتہاکی ہوگی کہ دورہی سے چہروں کوجھلس دے گی اور کھالوں کو ادھیڑ کر رکھ دے گی۔ اس میں کسی کمی کاامکان نہ ہوگااوراگرکہیں دھیمی ہونے لگے گی تواس کو مزید بھڑکا دیا جائے گا۔ مجرموں کواس میں ڈال کر اسے اینٹوں کے بھٹے کی طرح اوپر سے ڈھانک بھی دیاجائے گا تاکہ اس کی حدت باہرنہ نکلنے پائے اور یہ ساری کی ساری ان کو جلانے میں خرچ ہو۔یہاں کی آگ تو ہم دیکھتے ہیں کہ صرف جلاتی ہے، مگر وہاں کی آگ میں یہ عجیب اثرہوگاکہ وہ جلانے کے ساتھ ساتھ جسموں کے اندرگھس کردلوں تک بھی جا پہنچے گی:

اِنَّھَا تَرْمِیْ بِشَرَرٍ کَالْقَصْرِ، کَاَنَّہٗ جِمٰلَتٌ صُفْرٌ.(المرسلٰت ۷۷: ۳۲۔۳۳)
’’وہ (آگ)محلوں جیسے انگارے پھینکتی ہے ،زرد اونٹوں کی طرح۔‘‘
وَمَآ اَدْرٰکَ مَا سَقَرُ، لَا تُبْقِیْ وَلَا تَذَرُ، لَوَّاحَۃٌ لِّلْبَشَرِ.(المدثر ۷۴: ۲۷۔۲۹)
’’اورتم کیا سمجھے کہ دوزخ کیاہے؟وہ نہ ترس کھائے گی، نہ چھوڑے گی۔ چمڑی جھلس دینے والی۔‘‘
کُلَّمَا خَبَتْ زِدْنٰھُمْ سَعِیْرًا.(بنی اسرائیل ۱۷: ۹۷)
’’جب کبھی آگ دھیمی ہونے لگے گی، ہم اس کوان پر مزیدبھڑکادیں گے۔‘‘
اِنَّھَا عَلَیْھِمْ مُّؤْصََدَۃٌ.(الہمزہ ۱۰۴: ۸)
’’یہ (سرکش)اُس میں موندے ہوئے ہوں گے۔‘‘
نَارُ اللّٰہِ الْمُوْقَدَۃُ الَّتِیْ تَطَّلِعُ عَلَی الْاَفْئِدَۃِ.(الہمزہ ۱۰۴: ۶۔۷)
’’اللہ کی بھڑکائی ہوئی آگ جودلوں تک پہنچے گی۔‘‘

اس آگ کا دھواں دوزخ میں ہرطرف پھیلاہواہوگا۔کوئی سوچ سکتا ہے کہ دوزخ کی گرمی میں یہ دھواں ہی غنیمت ہوگا جوکم سے کم سایہ توفراہم کرے گا،مگرقرآن نے وضاحت کی ہے کہ اس میں دھوئیں کے تکلیف دہ پہلو تو سبھی موجودہوں گے اورفائدہ کچھ بھی نہ ہوگا:

وَاَصْحٰبُ الشِّمَالِ، مَآ اَصْحٰبُ الشِّمَالِ! فِیْ سَمُوْمٍ وَّحَمِیْمٍ، وَظِلٍّ مِّنْ یَّحْمُوْمٍ.(الواقعہ ۵۶: ۴۱۔۴۳)
’’اور بائیں والے توکیابدبختی ہے بائیں والوں کی! وہ لو کی لپٹ اورکھولتے پانی اوردھوئیں کے سایے میں ہوں گے۔‘‘
اِنْطَلِقُوْٓا اِلٰی مَاکُنْتُمْ بِہٖ تُکَذِّبُوْنَ، اِنْطَلِقُوْٓا اِلٰی ظِلٍّ ذِیْ ثَلٰثِ شُعَبٍ.(المرسلٰت ۷۷: ۲۹۔۳۰)
’’اب چلواس چیزکی طرف جس کوتم جھٹلاتے رہے۔ چلو اس سایے کی طرف جس کی تین شاخیں ہیں،(تم کو ہر طرف سے گھیرنے کے لیے)۔‘‘
لاَبَارِدٍ وَّلَاکَرِیْمٍ. (الواقعہ ۵۶: ۴۴)
’’اس(دھوئیں کے سایے) میں نہ ٹھنڈک ہو گی، نہ وہ کوئی فائدہ پہنچائے گا۔‘‘
لَاظَلِیْلٍ وَّلَایُغْنِیْ مِنَ اللَّھَبِ.(المرسلٰت ۷۷: ۳۱)
’’اس میں نہ چھاؤں ہے، نہ یہ آگ کے شعلوں سے بچاتاہے۔‘‘

اس آگ اوردھوئیں کے عذاب میں جلانے کااندازبھی بہت زیادہ تکلیف دہ ہوگا۔ جس طرح کوڑے کرکٹ کاپہلے ڈھیربناتے اورپھراسے جلاتے ہیں تاکہ اس کاہرجز دوسرے کوجلانے میں مددگارہو،اسی طرح مجرموں کووہاں ایک دوسرے پرڈھیربناکرپھر آگ میں جھونکاجائے گا۔لیکن اس طرح آگ کے حوالے کردیناان کی سزاکاانتہائی درجہ ہوتاتب بھی کچھ غنیمت تھی،مگروہاں تو ان کی سزامیں ہرپل شدت لائی جاتی رہے گی۔جس طرح کباب بناتے ہوئے سیخ کودہکتے ہوئے انگاروں پر مسلسل گھمایاجاتاہے تاکہ کباب کاہرحصہ ان کے سامنے آکرپک جائے، دوزخ میں ان کے چہروں کوآگ پراسی طرح گھمایاجائے گا۔ان کی شکلیں مسخ ہوکرایسی ہو جائیں گی جیسے جانورکی سری کوآگ پربھوناجائے تواس کے ہونٹ سکڑکراوپرکوچڑھ جاتے اوردانت نظرآنے لگتے ہیں:

وَالَّذِیْنَ کَفَرُوْٓا اِلٰی جَھَنَّمَ یُحْشَرُوْنَ، لِیَمِیْزَ اللّٰہُ الْخَبِیْثَ مِنَ الطَّیِّبِ وَ یَجْعَلَ الْخَبِیْثَ بَعْضَہٗ عَلٰی بَعْضٍ فَیَرْکُمَہٗ جَمِیْعًا فَیَجْعَلَہٗ فِیْ جَھَنَّمَ.(الانفال ۸: ۳۶۔۳۷)
’’اورسب منکروں کوجمع کرکے جہنم کی طرف ہانک دیا جائے گا۔اس لیے کہ(اپنی جنت کے لیے) اللہ پاک سے ناپاک کوالگ کرے اورناپاک کوایک دوسرے پرڈھیر کرے،پھراس ڈھیرکوجہنم میں جھونک دے۔‘‘
یَوْمَ تُقَلَّبُ وُجُوْھُھُمْ فِی النَّارِ یَقُوْلُوْنَ یٰلَیْتَنَآ اَطَعْنَا اللّٰہَ وَاَطَعْنَا الرَّسُوْلاَ.(الاحزاب ۳۳: ۶۶)
’’اس دن ان کے چہرے آگ میں الٹ پلٹ کیے جائیں گے۔ وہ کہیں گے: اے کاش ،ہم نے اللہ کی اطاعت کی ہوتی اورہم نے رسول کی اطاعت کی ہوتی۔‘‘
تَلْفَحُ وُجُوْھَھُمُ النَّارُ وَھُمْ فِیْھَا کٰلِحُوْنَ.(المومنون ۲۳: ۱۰۴)
’’ان کے چہروں کو آگ جھلس دے گی اوران کے منہ اس میں بگڑے ہوئے ہوں گے۔‘‘

[باقی]

____________

B