عہد فاروقی میں رومیوں نے سمندر کی جانب سے انطاکیہ پر حملہ کیا تو حضرت معاویہ شام کے گورنر تھے ۔ انھوں نے خلیفۂ دوم کے سامنے سمندری مہمات سر کرنے کے لیے بحری بیڑا تیار کرنے کی تجویز پیش کی تووہ آمادہ نہ ہوئے۔ان کی شہادت کے بعد رومیوں نے دوبارہ بحری حملہ کر کے اسکندریہ کی بندرگاہ اور شہر پر قبضہ کرلیاتو حضرت معاویہ نے یہی راے سیدنا عثمان کے سامنے رکھی اور دلیل دی کہ اسلامی مملکت کی ہزاروں میل لمبی سمندری سرحد کو بحری قوت ہی کے ذریعے سے محفوظ کیا جا سکتا ہے۔ حضرت معاویہ نے جزیرۂ قبرص پر فوج کشی کی راے بھی دی جو حمص کے پڑوس میں تھا اورایک باریک سمندری پٹی ان دونوں شہروں کے بیچ حائل تھی ۔ خلیفۂ سوم کو حضرت معاویہ کا مشورہ صائب محسوس ہوا،لیکن اس وجہ سے متردد تھے کہ سیدنا عمر اپنے دور خلافت میں اسے رد کر چکے تھے۔ حضرت معاویہ کے اصرار پر انھوں نے اجازت دے دی، تاہم شرط رکھی کہ صرف وہی لوگ سمندری فوج میں شامل کیے جائیں جو اپنی مرضی سے آئیں۔ حضرت معاویہ نے بحری جہاز تیار کرانے شروع کر دیے تھے،۲۸ھ میں انھیں توقع سے بڑھ کر رضاکار حاصل ہو گئے تو وہ انھیں لے کر قبرص روانہ ہو گئے۔ شام میں مقیم اصحاب رسول میں سے حضرت ابوذر، حضرت ابو الدرداء، حضرت شداد بن اوس اور حضرت عبادہ بن صامت اس لشکر میں شامل ہوئے۔ جزیرۂ قبرص رومی کنٹرول میں تھا، لیکن کسی رومی جہاز نے جیش اسلامی کا راستہ نہ روکا۔دشمن کے بے شمار فوجی مارے گئے اور قید ہوئے تو اہل قبرص نے خلافت اسلامی کو سات ہزاردوسو دینار سالانہ جزیہ دینے کا معاہدہ کر کے صلح کر لی ۔
ایک جنگ میں حضرت یزید بن ابوسفیان فوج کی کمان کر رہے تھے۔مال غنیمت تقسیم ہوا توایک خوب صورت باندی ایک فوجی کے حصہ میں آئی، لیکن حضرت یزید نے اسے اپنے لیے روک لیا۔ حضرت ابوذرغفاری نے ان سے کہا: باندی اس کے حق دار کو واپس کر دیں۔ حضرت یزیدبن ابوسفیان نے پس و پیش کی تو حضرت ابوذر بولے: میں نے رسول اﷲصلی اﷲ علیہ وسلم کو فرماتے سنا ہے، میری سنت کو سب سے پہلے بنو امیہ کا ایک شخص یزیدتبدیل کرے گا۔ حضرت یزیدنے پو چھا: اﷲکی قسم! کیا میں ان میں شامل ہو جاؤں گااور باندی واپس کر دی۔
۳۰ھ میں حضرت ابوذرکا حضرت معاویہ سے نزاع ہوا۔دونوں اصحاب شام میں مقیم تھے۔ حضرت معاویہ کے دل میں رنجش کی ابتدا اس طرح ہوئی کہ ایک خارجی لیڈر ابن سوداشام آیا۔ حضرت ابوذرسے ملا اور کہا: حضرت معاویہ کہتے ہیں کہ تمام مال اﷲ کا ہے اور ہر شے اﷲ کی ہے۔مال کو مسلمانوں سے منسوب نہ کر کے کیا وہ مسلمانوں کا حق ملکیت ختم نہ کر دیں گے؟اس پر حضرت ابوذر حضرت معاویہ سے ملے اور پوچھا: کیا وجہ ہے کہ آپ مسلمانوں کے مال کو اﷲ کا مال قرار دیتے ہیں؟ حضرت معاویہ نے کہا: ابوذر، اﷲآپ پر رحم کرے ،کیا ہم اﷲ کے بندے نہیں؟ لہٰذا مال اسی کا ہوا اور حکم اسی کا۔ حضرت ابوذرنے اصرار کیا کہ آپ ایسا نہ کہیں، تب حضرت معاویہ نے وعدہ کیا کہ وہ مال مسلمین کہا کریں گے۔ ابن سودا پھر ابوالدرداء کے پاس آیا اور کہا: توتو یہودی لگتا ہے۔وہ حضرت عبادہ بن صامت کے ہاں گیاتو وہ اسے پکڑ کر حضرت معاویہ کے پاس لے آئے اور کہا: اسی نے حضرت ابوذرکو آپ کے پاس بھیجا تھا۔ پھر حضرت ابوذر نے معمول بنا لیا کہ جگہ جگہ شام کے لوگوں کو اکٹھا کرتے اور یہ وعظ کرتے کہ او دولت مندو، اپنے مال سے فقرا کی حالت سنوارو۔ وہ یہ فرمان الٰہی سنا تے: ’اَلَّذِیْنَ یَکْنِزُوْنَ الذَّہَبَ وَالْفِضَّۃَ وَلاَ یُنْفِقُوْنَہَا فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ فَبَشِّرْہُمْ بِعَذَابٍ اَلِیْمٍ‘، ’’جو لوگ سونا اور چاندی جمع کر کے رکھتے ہیں اور اسے اﷲ کی راہ میں خرچ نہیں کرتے، انھیں دردناک عذاب کی خوش خبری سنا دو‘‘(التوبہ ۹: ۳۴)۔ حضرت معاویہ کہتے کہ یہ آیت اہل کتاب کے بارے میں نازل ہوئی، جبکہ حضرت ابوذراصرار کرتے کہ ہمارے اور اہل کتاب، دونوں کے بارے میں ہے (بخاری، رقم ۱۴۰۶)۔ اس لیے کسی مسلمان کو ایک دن اور رات کے خرچ سے بڑھ کر مال اپنے پاس نہ رکھنا چاہیے، زائد مال صدقہ کرنا اس کے لیے واجب ہے۔ غریب مسلمان ان کی باتوں سے متاثر ہو کر امرا کی دولت کو اپنا حق سمجھنے لگے اور امرا کو ان سے شکایتیں ہونے لگیں تو حضرت معاویہ نے حضرت ابوذر کو ان سرگرمیوں سے روکا، لیکن وہ منع نہ ہوئے۔انھوں نے عوام کو بھی حضرت ابوذر کے پاس بیٹھنے سے منع کر دیا، حتیٰ کہ حضرت احنف بن قیس شام کی مسجد میں گئے تو دیکھا کہ حضرت ابوذر جہاں نماز پڑھتے، لوگ وہاں سے پرے ہٹ جاتے۔ ایک بار حضرت معاویہ نے ان کو آزمایا۔ انھوں نے رات ہونے سے پہلے ایک ہزار دینار حضرت ابوذر کو بھیجے۔ حضرت ابوذرنے سنبھالنے کے بجاے ترت بانٹ دیے۔ فجر کی نماز پڑھاتے ہی حضرت معاویہ نے دینار پہنچانے والے شخص کو دوبارہ حضرت ابوذر کے پاس بھیجا۔ اس نے آکر کہا: مجھے حضرت معاویہ کی سزا سے نجات دلائیں۔ انھوں نے دینار کسی اور کو بھیجے تھے، میں غلطی سے آپ کو دے گیا۔ حضرت ابوذر نے بتایا: بیٹا، وہ دینار تو میرے پاس رہے نہیں۔مجھے تین دن کی مہلت دو، میں اکٹھا کر کے تمھیں لوٹا دوں گا۔ حضرت معاویہ نے دیکھا کہ حضرت ابوذر کا فعل ان کے قول کی تائید کر رہا ہے تو تمام حالات سیدنا عثمان کو لکھ بھیجے اور کہا: ابوذرنے مجھے سخت مشکل میں ڈال دیا ہے۔ حضرت عثمان نے جواب دیا کہ فتنے نے ناک منہ نکال لیا ہے اور اب کودنے کو ہے۔ زخم نہ کریدو اور ابوذر کو میرے پاس بھیج دو۔
حضرت ابوذر مدینہ پہنچے اور کوہ سلع کے دامن میں لوگوں کی مجلسیں دیکھیں تو کہا: مدینہ والوں کو ایک بڑی شورش اور ہول ناک جنگ مبارک ہو۔ حضرت عثمان سے ملے توانھوں نے پوچھا: کیا وجہ ہے کہ باشندگان شام آپ کی زبان زوری کی شکایت کرتے ہیں؟ حضرت ابوذر نے اپنا نقطۂ نظر پیش کیا تو سیدنا عثمان گویا ہوئے: ابوذر، میں اپنے بارے میں جو چاہوں فیصلہ کر سکتا ہوں، رعایا کو اجتہاد اور میانہ روی کی دعوت دے سکتا ہوں، لیکن یہ نہیں کرسکتا کہ انھیں زہد اختیار کرنے پر مجبور کروں۔ تب حضرت ابوذر نے کہا: مجھے مدینہ سے باہر جانے کی اجازت دیجیے، کیونکہ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے حکم فرمایا تھا: ’’جب آبادی کوہ سلع تک بڑھ جائے تو تم مدینہ سے چلے جانا۔‘‘ سیدنا عثمان کے ہاں کہنے پر وہ مدینہ سے تین ایام کی مسافت پر واقع بستی ربذہ میں آ گئے اور ایک مسجد تعمیر کر کے وہاں رہنے لگے۔کسی معترض کے جواب میں انھوں نے کہا: عثمان اگر مجھے حکم دیتے کہ سر کے بل چل کر جاؤں توبھی چلا جاتا۔ حضرت عثمان نے روزانہ خرچ مقرر کرنے کے علاوہ انھیں کچھ اونٹ اور خدمت کے لیے دو غلام دیے ۔لوگ کہتے کہ سیدنا عثمان نے آپ کو مدینہ سے نکال کر اچھا نہیں کیا تو کہتے: سلطان کی تذلیل نہ کرو جو سلطان کی ذلت کرنا چاہے، اس کی توبہ بھی قبول نہ ہو گی۔اس انکساری کے باوجود حضرت معاویہ اور حضرت عثمان سے ان کا نزاع شیعہ مورخین کو خوب بھایا،انھوں نے حضرت ابوذر کی جلا وطنی کو اپنی خواہشات کے مطابق دوسرا رنگ دے دیا ۔یہ روایت یعقوبی کے تفردات میں سے ہے، حضرت علی، حضرت حسن، حضرت حسین، حضرت عبداﷲ بن جعفر اور حضرت عمار بن یاسر حضرت ابوذر کو رخصت کرنے آئے۔ حضرت ابوذر سیدنا علی کو دیکھ کر رو پڑے، حضرت علی کچھ کہنے لگے تو حضرت مروان نے یہ کہہ کر منع کرنا چاہا کہ امیر المومنین نے ان سے بات کرنا منع کیا ہے۔ حضرت علی نے اسے دھتکار دیا اور حضرت ابوذر کو گرم جوشی سے الوداع کہا۔ ابن اثیر کہتے ہیں کہ جس برے طریقے سے حضرت ابوذر کو مدینے سے نکالا گیا، اسے بیان کرنا موزوں نہیں۔ اس صورت میں ہمیں سیدنا عثمان کی طرف سے عذرخواہی کرنا ہو گی، کیونکہ اپنی رعایا کی تربیت کرناحاکم کی ذمہ داری ہوتی ہے۔
ربذہ کے محصولات اکٹھا کرنے کے لیے ایک سیاہ فام غلام مجاشع مقرر تھا۔نماز کا وقت ہوا تو اس نے حضرت ابوذر کو آگے ہونے کو کہا۔ انھوں نے اسے ہی نماز پڑھانے کو کہا اور رسول اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم کا فرمان سنایا: سمع و طاعت کرو، چاہے (نک کٹا) حبشی تمھارا حاکم بن جائے جس کا سر کشمش کے دانے کی طرح چھوٹا ہو (بخاری، رقم ۶۹۶۔ مسلم، رقم ۴۷۸۳)۔
حضرت سلمہ بن نباتہ بتاتے ہیں کہ ہم عمرہ کی نیت سے نکلے۔ ربذہ پہنچے تو حضرت ابوذرکے ہاں آئے، وہ گھر میں نہ تھے۔لوٹے تو غلام اونٹ کی ہڈی اٹھائے ان کے ساتھ تھا۔بتایا کہ یہ میری اور میرے کنبے کی ایک دن کی خوراک ہے۔
حضرت ابوذراس اندیشے سے کہ پھر سے بدو نہ بن جائیں، مدینہ آتے جاتے رہتے۔ایک بار وہ سیدنا عثمان سے ملنے آئے تو حضرت کعب احبار بھی ان کے پاس بیٹھے تھے۔ حضرت ابوذر سیدنا عثمان سے مخاطب ہوئے کہ آپ اغنیا سے اس وقت تک راضی نہ ہوں جب تک وہ اپنے پڑوسیوں اور اعزہ و اقارب سے حسن سلوک نہ کر لیں۔ حضرت عثمان نے کعب سے پوچھا: حضرت عبدالرحمن بن عوف کافی مال چھوڑ کر فوت ہوئے ہیں، آپ کا کیا خیال ہے؟ حضرت کعب نے کہا: جس شخص نے فرض ادا کیا، یعنی زکوٰۃدے دی،اپنی ذمہ داری پوری کر لی۔ حضرت ابوذر نے سونٹا پکڑا اور طیش میں آ کر حضرت کعب کا سر پھاڑ ڈالا اور کہا: نبی صلی اﷲ علیہ وسلم نے ایک بار مجھ سے فرمایا تھا: ’’ابوذر، کیا تم احد کو دیکھ رہے ہو ؟میں نے کہا: ہاں۔مجھے گمان ہوا کہ آپ مجھے کسی کام سے بھیجیں گے۔ فرمایا: میں ہرگز پسند نہیں کرتا کہ میرے پاس احد پہاڑ جتنا سونا ہو، میں سارے کا سارا خرچ کر ڈالوں اورتین دینار بھی بچ جائیں‘‘ (بخاری، رقم ۱۴۰۸۔ احمد، رقم ۴۵۳)۔ دوسری روایت ہے کہ’’ ہاں ایک دینار رہے تو میں اسے قرض ادا کرنے کے لیے استعمال کر لوں‘‘ (بخاری، رقم ۲۳۸۸)۔ سیدنا عثمان نے اس فرمان کی تصدیق کی، حضرت کعب سے سر پھٹنے کی معافی چاہی اور حضرت ابوذر سے کہا: اﷲسے ڈرو اور اپنے ہاتھ اور زبان کو قابو میں رکھو ۔
حضرت ابوذر ربذہ اکیلے ہی گئے تھے۔ حضرت معاویہ نے حضرت ابوذر کے اہل خانہ کو بعد میں ان کے پاس بھیجا۔ وقت رخصت ایک بھاری تھیلا ان کے پاس تھا۔اسے دیکھ کر حضرت معاویہ بولے: دیکھو دنیا سے بے رغبتی رکھنے والے کے پاس کیا ہے۔ان کی اہلیہ نے جواب دیا: بخدا، یہ درہم و دینار نہیں ،کچھ سکے ہیں جو حضرت ابوذر نے ہماری ضرورتوں کے لیے بھنا رکھے ہیں۔
حضرت ابوذرغفاری سیدنا علی کو خلافت کا حق دار سمجھتے تھے، اسی لیے خلیفۂ اول سیدنا ابوبکر کی بیعت میں تاخیر کی۔ یعقوبی نے اپنی مختصر تاریخ میں ان کا بلیغ خطبہ نقل کیا ہے جس میں انھوں نے سیدنا علی کو وصی رسول قر ار دیا۔ طبری، ابن کثیر اورجمہور مورخین کی مطول تاریخوں میں اس کا ذکر نہیں ملتا۔
[باقی]
____________