HomeQuranHadithMizanVideosBooksBlogs
مصنف : جاوید احمد غامدی

غزل

خیال وخامہ


o

آئے تو التفات کا پیماں کیے بغیر
اب جا رہے ہیں درد کا درماں کیے بغیر
ہر بوالہوس ہے قیس بھی ، فرہاد بھی یہاں
دشت جنوں میں چاک گریباں کیے بغیر
اب کیا کہیں کہ ہے اُسی کافر ادا کا ساتھ
بنتی نہیں ہے جس کو مسلماں کیے بغیر
خالی تھا مدتوں سے نہاں خانۂ وجود
مہماں بنا لیا اُنھیں مہماں کیے بغیر
اِس کی بھی داد ہے کوئی ، زخم جگر تمام
اُن کو دکھا دیے ہیں نمایاں کیے بغیر
سامان زندگی ہے فراواں ، مگر وہی
آگے رہ حیات کا ساماں کیے بغیر
وہ فن ہی کیا ہوا جسے ظاہر نہ کر سکیں
ہر زاویے سے جسم کو عریاں کیے بغیر
ظلمت کدہ ہے دہر ، یہاں روشنی کہاں
اپنے لہو سے بزم چراغاں کیے بغیر
لیلاے علم سے نہیں ممکن کہ ہو وصال
ہر آبلے کو نذر بیاباں کیے بغیر
ہر موجۂ خیال سے ہونے لگا لہو
دل رو بروے دشنۂ مژگاں کیے بغیر
اِس تیرگی میں اب کوئی گرم سفر نہ ہو
ہر رہ گذر پہ شمع فروزاں کیے بغیر

____________

B