HomeQuranHadithMizanVideosBooksBlogs
مصنف : جاوید احمد غامدی

البیان: ابراہیم ۱۴: ۵- ۲۷ (۲)

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم 

(گذشتہ سے پیوستہ)  


وَلَقَدْ اَرْسَلْنَا مُوْسٰی بِاٰیٰتِنَآ اَنْ اَخْرِجْ قَوْمَکَ مِنَ الظُّلُمٰتِ اِلَی النُّوْرِ وَذَکِّرْھُمْ بِاَیّٰمِ اللّٰہِ اِنَّ فِیْ ذٰلِکَ لَاٰیٰتٍ لِّکُلِّ صَبَّارٍ شَکُوْرٍ(۵)
وَاِذْ قَالَ مُوْسٰی لِقَوْمِہِ اذْکُرُوْا نِعْمَۃَ اللّٰہِ عَلَیْکُمْ اِذْ اَنْجٰکُمْ مِّنْ اٰلِ فِرْعَوْنَ یَسُوْمُوْنَکُمْ سُوْٓءَ الْعَذَابِ وَیُذَبِّحُوْنَ اَبْنَآءَ کُمْ وَیَسْتَحْیُوْنَ نِسَآءَ کُمْ وَفِیْ ذٰلِکُمْ بَلَآ ءٌ مِّنْ رَّبِّکُمْ عَظِیْمٌ(۶) وَاِذْ تَاَذَّنَ رَبُّکُمْ لَءِنْ شَکَرْتُمْ لَاَزِیْدَنَّکُمْ وَلَءِنْ کَفَرْتُمْ اِنَّ عَذَابِیْ لَشَدِیْدٌ(۷) وَقَالَ مُوْسٰٓی اِنْ تَکْفُرُوْٓا اَنْتُمْ وَمَنْ فِی الْاَرْضِ جَمِیْعًا فَاِنَّ اللّٰہَ لَغَنِیٌّ حَمِیْدٌ(۸)
اَلَمْ یَاْتِکُمْ نَبَؤُا الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِکُمْ قَوْمِ نُوْحٍ وَّعَادٍ وَّ ثَمُوْدَ وَالَّذِیْنَ مِنْم بَعْدِ ھِمْ لَا یَعْلَمُھُمْ اِلَّا اللّٰہُ جَآءَ تْھُمْ رُسُلُھُمْ بِالْبَیِّنٰتِ فَرَدُّوْٓا اَیْدِیَھُمْ فِیْٓ اَفْوَاھِھِمْ وَقَالُوْٓا اِنَّا کَفَرْنَا بِمَآ اُرْسِلْتُمْ بِہٖ وَاِنَّا لَفِیْ شَکٍّ مِّمَّا تَدْعُوْنَنَآ اِلَیْہِ مُرِیْبٍ(۹) قَالَتْ رُسُلُھُمْ اَفِی اللّٰہِ شَکٌّ فَاطِرِ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ یَدْعُوْکُمْ لِیَغْفِرَلَکُمْ مِّنْ ذُنُوْبِکُمْ وَیُؤَخِّرَکُمْ اِلٰٓی اَجَلٍ مُّسَمًّی قَالُوْٓا اِنْ اَنْتُمْ اِلَّا بَشَرٌ مِّثْلُنَا تُرِیْدُوْنَ اَنْ تَصُدُّوْنَا عَمَّا کَانَ یَعْبُدُ اٰبَآؤُنَا فَاْتُوْنَا بِسُلْطٰنٍ مُّبِےْنٍ(۱۰) قَالَتْ لَھُمْ رُسُلُھُمْ اِنْ نَّحْنُ اِلَّا بَشَرٌ مِّثْلُکُمْ وَلٰکِنَّ اللّٰہَ یَمُنُّ عَلٰی مَنْ یَّشَآءُ مِنْ عِبَادِہٖ وَمَاکَانَ لَنَآ اَنْ نَّاْتِیَکُمْ بِسُلْطٰنٍ اِلَّا بِاِذْنِ اللّٰہِ وَعَلَی اللّٰہِ فَلْیَتَوَکَّلِ الْمُؤْمِنُوْنَ(۱۱) وَمَا لَنَآ اَلَّا نَتَوَکَّلَ عَلَی اللّٰہِ وَقَدْ ھَدٰنَا سُبُلَنَا وَلَنَصْبِرَنَّ عَلٰی مَآ اٰذَیْتُمُوْنَا وَعَلَی اللّٰہِ فَلْیَتَوَکَّلِ الْمُتَوَکِّلُوْنَ(۱۲) وَقَالَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا لِرُسُلِھِمْ لَنُخْرِجَنَّکُمْ مِّنْ اَرْضِنَآ اَوْ لَتَعُوْدُنَّ فِیْ مِلَّتِنَا فَاَوْحٰٓی اِلَیْھِمْ رَبُّھُمْ لَنُھْلِکَنَّ الظّٰلِمِیْنَ(۱۳) وَلَنُسْکِنَنَّکُمُ الْاَرْضَ مِنْم بَعْدِھِمْ ذٰلِکَ لِمَنْ خَافَ مَقَامِیْ وَخَافَ وَعِیْدِ(۱۴)
وَاسْتَفْتَحُوْا وَخَابَ کُلُّ جَبَّارٍ عَنِیْدٍ(۱۵) مِّنْ وَّرَآءِہٖ جَھَنَّمُ وَیُسْقٰی مِنْ مَّآءٍ صَدِیْدٍ(۱۶) یَّتَجَرَّعُہٗ وَلَا یَکَادُ یُسِیْغُہٗ وَیَاْتِیْہِ الْمَوْتُ مِنْ کُلِّ مَکَانٍ وَّمَا ھُوَ بِمَیِّتٍ وَمِنْ وَّرَآءِہٖ عَذَابٌ غَلِیْظٌ(۱۷)
مَثَلُ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا بِرَبِّھِمْ اَعْمَالُہُمْ کَرَمَادِنِ اشْتَدَّتْ بِہِ الرِّیْحُ فِیْ یَوْمٍ عَاصِفٍ لَا یَقْدِرُوْنَ مِمَّا کَسَبُوْا عَلٰی شَیْءٍ ذٰلِکَ ھُوَ الضَّلٰلُ الْبَعِیْدُ(۱۸) اَلَمْ تَرَ اَنَّ اللّٰہَ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ بِالْحَقِّ اِنْ یَّشَاْ یُذْھِبْکُمْ وَیَاْتِ بِخَلْقٍ جَدِیْدٍ(۱۹) وَّمَا ذٰلِکَ عَلَی اللّٰہِ بِعَزِیْزٍ(۲۰)
وَبَرَزُوْا لِلّٰہِ جَمِیْعًا فَقَالَ الضُّعَفٰٓؤُا لِلَّذِیْنَ اسْتَکْبَرُوْٓا اِنَّا کُنَّا لَکُمْ تَبَعًا فَھَلْ اَنْتُمْ مُّغْنُوْنَ عَنَّا مِنْ عَذَابِ اللّٰہِ مِنْ شَیْءٍ قَالُوْا لَوْ ھَدٰنَا اللّٰہُ لَھَدَیْنٰکُمْ سَوَآءٌ عَلَیْنَآ اَجَزِعْنَآ اَمْ صَبَرْنَا مَا لَنَا مِنْ مَّحِیْصٍ(۲۱)
وَقَالَ الشَّیْطٰنُ لَمَّا قُضِیَ الْاَمْرُ اِنَّ اللّٰہَ وَعَدَکُمْ وَعْدَ الْحَقِّ وَوَعَدْتُّکُمْ فَاَخْلَفْتُکُمْ وَمَاکَانَ لِیَ عَلَیْکُمْ مِّنْ سُلْطٰنٍ اِلَّآ اَنْ دَعَوْتُکُمْ فَاسْتَجَبْتُمْ لِیْ فَلَا تَلُوْمُوْنِیْ وَلُوْمُوْٓا اَنْفُسَکُمْ مَآ اَنَا بِمُصْرِخِکُمْ وَمَآ اَنْتُمْ بِمُصْرِخِیَّ اِنِّیْ کَفَرْتُ بِمَآ اَشْرَکْتُمُوْنِ مِنْ قَبْلُ اِنَّ الظّٰلِمِیْنَ لَھُمْ عَذَابٌ اَلِیْمٌ(۲۲)
وَاُدْخِلَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ جَنّٰتٍ تَجْرِیْ مِنْ تَحْتِھَا الْاَنْھٰرُ خٰلِدِیْنَ فِیْھَا بِاِذْنِ رَبِّھِمْ تَحِیَّتُھُمْ فِیْھَا سَلٰمٌ(۲۳)
اَلَمْ تَرَکَیْفَ ضَرَبَ اللّٰہُ مَثَلًا کَلِمَۃً طَیِّبَۃً کَشَجَرَۃٍ طَیِّبَۃٍ اَصْلُھَا ثَابِتٌ وَّفَرْعُھَا فِی السَّمَآءِ(۲۴) تُؤْتِیْٓ اُکُلَھَا کُلَّ حِیْنٍ م بِاِذْنِ رَبِّھَا وَیَضْرِبُ اللّٰہُ الْاَمْثَالَ لِلنَّاسِ لَعَلَّہُمْ یَتَذَکَّرُوْنَ(۲۵)
وَمَثَلُ کَلِمَۃٍ خَبِیْثَۃٍ کَشَجَرَۃٍ خَبِیْثَۃِ نِ اجْتُثَّتْ مِنْ فَوْقِ الْاَرْضِ مَالَھَا مِنْ قَرَارٍ(۲۶)
یُثَبِّتُ اللّٰہُ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا بِالْقَوْلِ الثَّابِتِ فِی الْحَیٰوۃِ الدُّنْیَا وَفِی الْاٰخِرَۃِ وَےُضِلُّ اللّٰہُ الظّٰلِمِیْنَ وَیَفْعَلُ اللّٰہُ مَا یَشَآءُ(۲۷)
ہم نے (اِسی طرح) موسیٰ کو اپنی نشانیوں کے ساتھ بھیجا تھا۷؎ کہ اپنی قوم کو اندھیروں سے نکال کر روشنی میں لاؤ اور اُنھیں خدا کے (اُن) دنوں کی یاد دلاؤ (جن میں اُس کی دینونت کا ظہور ہوا ہے۸؎)۔ اِس میں شبہ نہیں کہ اِس میں ہر اُس شخص کے لیے بڑی نشانیاں ہیں جو (خدا کی آزمایشوں میں) صبر اور (اُس کے افضال و عنایات پر) شکر کرنے والا ہو۹؎۔ ۵
یاد کرو، جب موسیٰ نے اپنی قوم سے کہا کہ اپنے اوپر اللہ کی اُس نعمت کو یاد رکھو، جب اُس نے تمھیں فرعون کے لوگوں سے چھڑایا جو تمھیں نہایت برے عذاب دیتے تھے، وہ تمھارے بیٹوں کو ذبح کر دیتے تھے اور تمھاری عورتوں کو زندہ رکھتے تھے۔ تمھارے پروردگار کی طرف سے اِس میں ۱۰؎ (تمھارے لیے)بڑی عنایت تھی۔ اور یاد کرو، جب تمھارے پروردگار نے خبردار کر دیا تھا کہ اگر تم شکر کرو گے تو میں تم کو اور زیادہ دوں گا اور اگر ناشکری کرو گے تو میری سزا بھی بڑی سخت ہے۱۱؎۔ موسیٰ نے کہا کہ اگر تم ناشکری کرو اور زمین کے سارے لوگ بھی (اِسی طرح) نا شکرے ہو جائیں (تو خدا کا کچھ نہیں بگاڑو گے)، اِس لیے کہ اللہ بے نیاز اور اپنی ذات میں آپ محمود ہے۱۲؎۔۶-۸
تمھیں اُن لوگوں کی خبر نہیں پہنچی جو تم سے پہلے گزر چکے ہیں؟ قوم نوح، عاد و ثمود اور جو اُن کے بعد ہوئے ہیں، جنھیں خدا کے سوا کوئی نہیں جانتا۔اُن کے رسول اُن کے پاس کھلی کھلی نشانیاں لے کر آئے تو اُنھوں نے اپنے ہاتھ اُن کے منہ میں دے دیے۱۳؎ (کہ خاموش ہو جاؤ) اور کہہ دیا کہ جو تمھیں دے کر بھیجا گیا ہے، ہم اُس کو نہیں مانتے اور جس چیز کی طرف تم ہم کو بلا رہے ہو، اُس کے بارے میں ہم ایسے شک میں پڑ گئے ہیں جو سخت الجھن میں ڈال دینے والا ہے۔ اُن کے رسولوں نے کہا: کیا خدا کے بارے میں شک ہے جو آسمانوں اور زمین کا وجود میں لانے والا ہے۱۴؎؟ وہ تمھیں بلا رہا ہے کہ تمھارے گناہوں میں سے معاف فرمائے (جو اِس سے پہلے تم سے ہوئے ہیں) اور تم کو ایک مقرر مدت تک مہلت دے۔اُنھوں نے جواب دیا: تم ہماری طرح کے ایک آدمی ہی ہو۔ تم چاہتے ہو کہ ہمیں اُن چیزوں کی بندگی سے روک دو جنھیں ہمارے باپ دادا پوجتے آئے ہیں۔ (یہی بات ہے) تو ہمارے سامنے کوئی کھلا ہوا معجزہ لاؤ۱۵؎۔ اُن کے رسولوں نے اُن سے کہا: بے شک،ہم تمھاری ہی طرح کے آدمی ہیں، مگر اللہ اپنے بندوں میں سے جس پر چاہتا ہے، فضل فرماتا ہے۔ یہ ہمارے اختیار میں نہیں ہے کہ اذن الہٰی کے بغیر ہم تمھیں کوئی معجزہ لا دکھائیں۔ (سو تمھارا یہ مطالبہ اللہ کے حوالے ہے) اور ایمان والوں کو چاہیے کہ (اِس طرح کے معاملات میں) اللہ ہی پر بھروسا رکھیں۔ اور ہم کیوں نہ اللہ پر بھروسا رکھیں، جبکہ ہمارے (یہ) راستے اُسی نے ہمیں بتائے ہیں۔ تم جو اذیت بھی ہمیں دے رہے ہو، ہم اُس پر ہر حال میں صبر کریں گے اور (اللہ پر بھروسا کریں گے، اِس لیے کہ) بھروسا کرنے والوں کو اللہ ہی پر بھروسا کرنا چاہیے۔ (اِس پر) منکروں نے اپنے رسولوں سے کہہ دیا کہ ہم تم کو اپنی اِس سرزمین سے لازماً نکال دیں گے یا تمھیں (بالآخر) ہماری ملت میں واپس آنا ہو گا۔۱۶؎ تب اُن کے پروردگار نے اُن کی طرف وحی بھیجی کہ ہم اِن ظالموں کو ہلاک کر دیں گے اور اِن کے بعد تمھیں اِس ملک میں آباد کریں گے۔۱۷؎ یہ (بشارت ہے)اُن کے لیے جو میرے حضور (جواب دہی کے لیے) کھڑے ہونے سے ڈرے اور جو میری وعید سے ڈرے۔۹-۱۴
اُنھوں نے فیصلہ چاہا تھا،(سو فیصلہ ہو گیا) اور (اُس کے نتیجے میں) ہر سرکش ضدی نامراد ہوا۔ (اب) اُس کے آگے دوزخ ہے۔ وہاں اُس کو پیپ کا پانی پلایا جائے گا۔ وہ اُس کو گھونٹ گھونٹ پیے گا اور گلے سے اتار نہ سکے گا۔ موت ہر طرف سے اُس پر پلی پڑ رہی ہو گی، لیکن مرنے نہ پائے گا اور آگے ایک اور سخت عذاب اُس کا منتظر ہو گا۔۱۵-۱۷
جن لوگوں نے اپنے پروردگار سے کفر کیا ہے۱۸؎، اُن کے اعمال۱۹؎ کی مثال اُس راکھ کی سی ہے جس پر آندھی کے دن تند و تیز ہوا چل جائے۔ اُنھوں نے جو کچھ کیا ہو گا، اُس میں سے کچھ بھی نہ پا سکیں گے۔ یہی دور کی گمراہی ہے۲۰؎۔ کیا تم نے دیکھا نہیں کہ اللہ نے آسمانوں اور زمین کو حق کے ساتھ پیدا کیا ہے۔ (یہ اُس کی دی ہوئی مہلت ہے کہ وہ تمھارے اِس کفر و شرک کو گوارا کر رہا ہے)۔ وہ چاہے تو تمھیں لے جائے اور ایک نئی مخلوق (تمھاری جگہ) لے آئے۔ یہ اللہ پر کچھ بھی دشوار نہیں ہے۔۱۸-۲۰
(یہ مہلت بہت جلد ختم ہو جائے گی)اور سب خدا کے روبرو نکل کھڑے ہوں گے۔ ۲۱؎ پھرجو کمزور تھے وہ اُن سے جو بڑے بنے ہوئے تھے، کہیں گے: ہم تمھارے پیچھے چلنے والے تھے تو کیا اللہ کے عذاب سے ہمیں کچھ بچا لو گے؟ وہ جواب دیں گے کہ اگر اللہ نے ہمیں راہ دکھائی ہوتی۲۲؎ تو ہم بھی تمھیں راہ دکھاتے۔ اب ہمارے لیے یکساں ہے کہ چیخیں چلائیں یا صبر کریں، ہمارے بچنے کی کوئی صورت نہیں ہے۔۲۱
اور جب فیصلہ چکا دیا جائے گا تو شیطان کہے گا: حقیقت یہ ہے کہ اللہ نے تم سے سچا وعدہ کیا تھا، (سو اُس نے وہ پورا کر دیا) اور میں نے بھی تم سے وعدہ کیا تھا، مگر میں نے تمھارے ساتھ وعدہ خلافی کی ہے۔ میرا تم پر کوئی زور نہیں تھا، میں نے اِس کے سوا کچھ نہیں کیا کہ تمھیں دعوت دی اور تم نے میری دعوت پر لبیک کہا۔ اِس لیے مجھے ملامت نہ کرو، اپنے آپ ہی کو ملامت کرو۔ اب نہ میں تمھاری فریاد کو پہنچ سکتا ہوں نہ تم میری فریاد کو پہنچ سکتے ہو۔ تم نے جو مجھے شریک ٹھیرایا تھا، میں نے اُس کا پہلے ہی انکار کردیا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اِسی طرح کے ظالم ہیں جن کے لیے دردناک عذاب ہے۔۲۲
(اِس کے برخلاف) جو لوگ ایمان لائے اور اُنھوں نے نیک عمل کیے ہیں، وہ ایسے باغوں میں داخل کیے جائیں گے جن کے نیچے نہریں بہتی ہوں گی۔ وہ اپنے پروردگار کے اذن سے وہاں ہمیشہ رہیں گے۔ اُن کی ملاقات اُن باغوں میں (ایک دوسرے پر) سلامتی ہو گی۔ ۲۳
(یہ اِس لیے کہ اُن کے علم و عمل کی بنیاد ایک کلمۂ طیبہ۲۳؎ ہے)۔کیا تم نے دیکھا نہیں کہ اللہ نے کلمۂ طیبہ کی مثال کس طرح بیان فرمائی ہے؟ وہ ایک شجرۂ طیبہ کے مانند ہے جس کی جڑیں زمین میں اتری ہوئی اور جس کی شاخیں فضا میں پھیلی ہوئی ہیں ۲۴؎۔ وہ اپنے پروردگار کے اذن سے اپنا پھل ہر فصل میں دیتا رہتا ہے۲۵؎۔(یہ کلمۂ طیبہ کی مثال ہے) اور اللہ لوگوں کے لیے تمثیلیں بیان فرماتا ہے تاکہ وہ یاددہانی حاصل کریں ۲۶؎۔ ۲۴-۲۵
اور(اِس کے مقابل میں) کلمۂ خبیثہ۲۷؎ کی مثال ایک شجرۂ خبیثہ کی ۲۸؎ہے جو زمین کے اوپر ہی سے اکھاڑ لیا جائے، اُس کو کوئی ثبات نہ ہو۲۹؎۔ ۲۶
ایمان والوں کو اللہ اِسی محکم بات سے۳۰؎ دنیا اور آخرت، (دونوں) کی زندگی میں ثبات عطا فرمائے گا ۳۱؎اور جو (اپنی جان پر) ظلم کرنے والے ہیں، اُن کو اللہ (منزل سے) بھٹکا دے گا۳۲؎۔ اللہ (اپنے علم و حکمت کے مطابق) جو چاہے، کر گزرتا ہے۔ ۲۷

۷؎ یہ اُن نشانیوں کا ذکر ہے جو موسیٰ علیہ السلام کو فرعون پر اتمام حجت کے لیے دی گئی تھیں، جیسے عصا اور یدبیضا وغیرہ۔

۸؎ یعنی جزا و سزا کے فیصلے ہوئے ہیں اور خدا نے رسولوں کے منکرین پر اِسی دنیا میں اپنا عذاب نازل کر دیا ہے، جیسے قوم نوح، قوم لوط اور قوم شعیب وغیرہ۔ قرآن میں یہ تعبیر اِنھی ایام کے لیے اختیار کی گئی ہے۔

۹؎ یہی دو صفات ہیں جو آدمی کے اندر موجود ہوں تو وہ آیات الٰہی کی طرف متوجہ ہوتا اور اُن سے عبرت حاصل کرتا ہے۔

۱۰؎ یعنی اِس مصیبت سے چھڑانے میں۔

۱۱؎ اِس وقت چونکہ یہود بھی درپردہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی مخالفت کے لیے سرگرم ہو چکے تھے، اِس لیے یہ بات اللہ تعالیٰ نے اُنھیں براہ راست خطاب کرکے کہہ دی ہے۔

۱۲؎ یہ غالباً اُسی تقریر کا خلاصہ ہے جو بائیبل کی کتاب استثنامیں بڑے شرح و بسط کے ساتھ نقل کی گئی ہے۔ موسیٰ علیہ السلام نے یہ تقریر اپنی وفات سے کچھ پہلے صحراے سینا میں بنی اسرائیل کے سامنے فرمائی تھی۔ اِسے کتاب استثنا کے ابواب ۴، ۶،۸،۰۱،۱۱ اور ۸۲ تا ۰۳ میں دیکھا جا سکتا ہے۔

۱۳؎ اصل الفاظ ہیں: ’فَرَدُّوْٓا اَیْدِیَھُمْ فِیْٓ اَفْوَاھِھِمْ‘۔ جب کوئی شخص غصے اور نفرت سے کسی کو بات کرنے سے روکنا چاہتا ہے تو اُس کے منہ پر ہاتھ رکھ دیتا ہے کہ زبان بند کرو، اِس کے بعد ایک حرف بھی زبان سے نہ نکالو۔ یہ اِسی صورت حال کی تعبیر ہے۔ لفظ ’رَدُّوْا‘ یہاں ’جَعَلُوْا‘ کے معنی میں ہے اور یہ لفظ اِس معنی میں استعمال ہوتا ہے۔

۱۴؎ یہ سوال استعجاب کی نوعیت کا ہے۔ مطلب یہ ہے کہ خدا کو توتم مانتے ہو۔ ہم جس چیز کی طرف تمھیں بلا رہے ہیں، وہ اِس کے سوا کیا ہے کہ بندگی کا مستحق بھی صرف وہی ہے۔ یہ تو خدا کو ماننے کا لازمی نتیجہ ہے۔ تم اِسے نہیں مان رہے تو پھر کیا خدا کے بارے میں کسی شک میں پڑ گئے ہو؟

۱۵؎ مطلب یہ ہے کہ اپنے معبودوں کے بارے میں ایسی سنگین بات ہم اپنے ہی جیسے ایک آدمی کی کس طرح مان سکتے ہیں۔ ہمیں کوئی معجزہ دکھاؤ جس کو دیکھ کر یقین آجائے کہ تم فی الواقع خدا کے بھیجے ہوئے ہو۔

۱۶؎ یہ اُنھوں نے اپنے گمان کے مطابق کہا ہے، اِس لیے کہ دعوت سے پہلے وہ یہی سمجھتے تھے کہ رسول بھی اُسی مذہب پر ہیں جو اُنھوں نے اپنے لیے اختیار کر رکھا ہے۔

۱۷؎ رسولوں کے باب میں یہی خدا کی سنت ہے۔ ہم اِس کتاب میں جگہ جگہ اِس کی وضاحت کر چکے ہیں۔

۱۸؎ یعنی جانتے بوجھتے اُس کے شریک ٹھیرائے ہیں۔ شرک اپنی حقیقت کے لحاظ سے کفر ہی ہے، اِس لیے کہ دین میں خدا کا صرف وہی ماننا تسلیم کیا جاتا ہے جو توحید پر پورے ایمان کے ساتھ ہو۔ چنانچہ آیت میں ’الَّذِیْنَ کَفَرُوْا‘ سے مراد مشرکین قریش ہی ہیں جو سورہ کے مخاطب ہیں۔

۱۹؎ اِس سے، ظاہر ہے کہ اُن کے وہ اعمال مراد ہیں جو اُنھوں نے اپنی طرف سے نیکی کے اعمال سمجھ کر کیے ہوں گے۔ قرآن نے یہ بات جگہ جگہ واضح کر دی ہے کہ شرک کے ساتھ کوئی عمل بھی خدا کے ہاں مقبول نہیں ہے۔

۲۰؎ یعنی ایسی گمراہی ہے جس سے لوٹ کر آنے کا کوئی امکان ہی باقی نہیں رہا۔

۲۱؎ مطلب یہ ہے کہ کسی کے لیے کوئی پردہ یا اوٹ باقی نہیں رہے گی، تمام سہارے ختم ہو جائیں گے اور لوگ تنہا اور بے یارومددگار خدا کے حضور پیش ہو جائیں گے۔

۲۲؎ یعنی اِس بات کی توفیق دی ہوتی کہ عقل سے کام لیتے اور دنیا ہی میں صحیح راستہ دیکھ لیتے۔

۲۳؎ یعنی کلمۂ توحید اور اُس پر مبنی عقائد و نظریات۔

۲۴؎ اصل الفاظ ہیں:’اَصْلُھَا ثَابِتٌ وَّفَرْعُھَا فِی السَّمَآءِ‘۔اِس میں مقابل کے الفاظ عربیت کے اسلوب پر حذف ہو گئے ہیں۔ اِنھیں کھول دیجیے تو گویا پورا جملہ یہ ہے: ’أَصْلُھَا ثَابِتٌ فِی الْاَرْضِ وَفَرْعُھَا عَالٍ فِی السَّمَآءِ‘۔

۲۵؎ یعنی سدابہار ہے، اُس پر کبھی خزاں نہیں آتی۔

۲۶؎ یہ قریش کو متنبہ فرمایا ہے کہ وہ چیتیں اور سوچیں کہ اللہ تعالیٰ اِس تمثیل کے ذریعے سے اُنھیں جن حقائق کی یاددہانی کرا رہا ہے، وہ کیا ہیں؟ استاذ امام امین احسن اصلاحی نے وضاحت فرمائی ہے۔ وہ لکھتے ہیں:

”کلمۂ توحید کی تمثیل ایک ایسے درخت سے دے کر قرآن نے ایک حقیقت تو یہ واضح فرمائی کہ اِس کی جڑیں انسانی فطرت کے اندر بھی گہری اتری ہوئی ہیں اور عنداللہ بھی یہ سب سے زیادہ قدرو قیمت رکھنے والی حقیقت ہے۔ گویا زمین و آسمان، میں جو مقام اِس کو حاصل ہے، وہ کسی اور چیز کو حاصل نہیں۔ 
دوسری حقیقت یہ واضح فرمائی کہ اِس کو انسانی فطرت کے اندر سے بھی برابر غذا اور قوت حاصل ہوتی رہتی ہے اور اوپر سے بھی برابر ترشحات اِس پر نازل ہوتے رہتے ہیں جو اِس کو ہمیشہ سرسبزو شاداب رکھتے ہیں۔
تیسری حقیقت یہ واضح فرمائی کہ اِس کی برکات ابدی اور دائمی ہیں۔ اِس کا فیض ہمیشہ جاری رہتا ہے۔ جس کے سینے میں یہ نور موجود ہے، وہ ہمیشہ آسودہ اور شاد کام رہتا ہے۔“(تدبرقرآن۴/ ۳۲۵)   

۲۷؎ یعنی کلمۂ شرک اور اُس پر مبنی عقائد و نظریات۔

۲۸؎ یعنی ایسے درخت کی جو جھاڑ جھنکاڑ کی قسم کا ہے۔ اُس میں نہ پھل آتا ہے نہ پھول نکلتے ہیں۔ نہ اُس کے سایے میں بیٹھ سکتے ہیں نہ اپنے لیے کوئی غذا حاصل کر سکتے ہیں۔ استاذ امام کے الفاظ میں گویا ایک خودرو، خاردار، بدبودار، بے فیض و بے ثمر جھاڑی ہے جس کو ہاتھ لگائیے تو اُس کے کانٹے ہاتھوں کو زخمی کریں، چکھیے تو اُس کی تلخی سے زبان اینٹھ جائے، پاس بیٹھیے تو اُس کی بو سے قوت شامہ ماؤف ہو کے رہ جائے۔

۲۹؎ مطلب یہ ہے کہ کلمۂ شرک کی کوئی بنیاد نہ عقل و فطرت کے اندر ہے نہ انبیا علیہم السلام کی تعلیمات میں۔ یہ گویا ایک خود رو جھاڑی ہے جو زمین کے اوپر ہی اوپر ہے، نہ اِس کی کوئی گہری جڑ ہے، نہ فضا کی بلندی نے اِس کو قبول کیا ہے۔ اِسے کوئی اکھاڑنا چاہے تو اوپر ہی سے اکھاڑ کر پھینک سکتا ہے۔

۳۰؎ یعنی کلمۂ توحید سے۔

۳۱؎ مطلب یہ ہے کہ دنیا میں وہ فکر و عمل کی ہر پریشانی اور سرگردانی سے محفوظ رہیں گے اور آخرت میں بغیر کسی حیرانی اور سراسیمگی کے ٹھیک اُس منزل پر پہنچ جائیں گے جس کے لیے سرگرم سفر رہے۔ اُن کے پاے استقلال میں یہاں اور وہاں کوئی لغزش نہیں آئے گی۔

۳۲؎ یعنی اُن کے کسی عمل کو نتیجہ خیز نہیں ہونے دے گا۔ اُن کی ہر سعی رایگاں جائے گی اور وہ بالکل نامراد ہو کر رہ جائیں گے۔ آیت میں لفظ ’ظٰلِم‘’ظٰلِمٌ لِّنَفْسِہِ‘کے معنی میں ہے۔ قرآن میں شرک کو اِسی بنا پر ’ظُلْمٌ عَظِیْمٌ‘ کہا گیا ہے۔ یہاں بھی ’ظٰلِمِیْن‘سے مراد وہی مشرکین قریش ہیں جو سورہ کے مخاطب ہیں۔

[باقی]

____________________

B