HomeQuranHadithMizanVideosBooksBlogs
مصنف : رضوان اللہ

بعد از موت (۷)

فیصلہ

جب ہرشخص اپنے اعمال کو دیکھ لے گا توعدل کی میزان کھڑی کی جائے گی جوبالکل انصاف کے ساتھ ان کاتول کردے گی۔اس میزان کے فیصلے میں نہ کسی پرظلم ہوگا اورنہ زیادتی۔اس کے تولنے کی صلاحیت اس قدرہوگی کہ ہر ادنیٰ سے ادنیٰ عمل بھی، چاہے وہ رائی کے دانے کے برابرہو، اس میں تولاجاسکے گا،لیکن اس میں عجیب بات یہ ہوگی کہ اس کے کانٹے کوصرف وہ عمل ہلاپائے گاجواپنی ذات میں حق تھااور خدا اور آخرت کوسامنے رکھ کرانجام دیا گیا تھا۔ اس کے برخلاف ،ہر وہ عمل جو باطل تھااورخدا اور آخرت کے دن سے بے پرواہوکر کیاگیا تھا، اس میزان میں بالکل بے وزن ہوگا۔اب جن کے پلڑے بھاری رہیں گے وہ کامیاب اور جن کے پلڑے ہلکے اوربے وزن رہ جائیں گے وہ ناکام ٹھیریں گے اوراس طرح کامیابی اور ناکامی کا اعلان ہوجانے کے بعد عدالتی کارروائی اپنے اختتام کو پہنچ جائے گی:

وَنَضَعُ الْمَوَازِیْنَ الْقِسْطَ لِیَوْمِ الْقِیٰمَۃِ، فَلَا تُظْلَمُ نَفْسٌ شَیْءًا، وَاِنْ کَانَ مِثْقَالَ حَبَّۃٍ مِّنْ خَرْدَلٍ اٰتَیْنَا بِھَا وَکَفٰی بِنَا حٰسِبِیْنَ.(الانبیاء ۲۱: ۴۷)
’’(انھیں بتاؤ کہ) روز قیامت کے لیے ہم انصاف کی ترازورکھ دیں گے۔ پھرکسی جان پرذرابھی ظلم نہ ہوگااور اگر رائی کے دانے کے برابربھی کسی کاعمل ہوگا توہم اس کولاموجود کریں گے۔ہم (لوگوں کا)حساب لینے کے لیے کافی ہیں۔‘‘
وَالْوَزْنُ یَوْمَءِذِنِ الْحَقُّ.(الاعرااف ۷: ۸)
’’اوروزن کی چیزاس روزصرف حق ہو گا۔‘‘
اُولٰٓئِکَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا بِاٰیٰتِ رَبِّھِمْ وَ لِقَآءِہٖ فَحَبِطَتْ اَعْمَالُھُمْ فَلَا نُقِیْمُ لَھُمْ یَوْمَ الْقِیٰمَۃِ وَزْنًا.(الکہف ۱۸: ۱۰۵)
’’یہی لوگ ہیں جنھوں نے اپنے پروردگارکی آیات اور اس سے ملاقات کا انکارکیا۔سواُن کے اعمال ضائع ہوئے۔ اب قیامت کے دن ہم ان کو کوئی وزن نہ دیں گے۔‘‘
فَاَمَّا مَنْ ثَقُلَتْ مَوَازِیْنُہٗ فَھُوَ فِیْ عِیْشَۃٍ رَّاضِیَۃٍ، وَ اَمَّا مَنْ خَفَّتْ مَوَازِیْنُہٗ فَاُمُّہٗ ھَاوِیَۃٌ، وَمَآ اَدْرٰکَ مَاھِیَہْ، نَارٌحَامِیَۃٌ.(القارعہ ۱۰۱: ۶۔۱۱)
’’پھر جس کے پلڑے بھاری ہوئے ، وہ دل پسند عیش میں ہوگااورجس کے پلڑے ہلکے ہوئے، اُس کاٹھکانا گہری کھائی ہے۔اور تم کیاسمجھے کہ وہ کیاہے؟ دہکتی آگ ہے۔‘‘
وَقُضِیَ بَیْنَھُمْ بِالْحَقِّ وَھُمْ لَا یُظْلَمُوْنَ.(الزمر ۳۹: ۶۹)
’’اور اُن کے درمیان بالکل حق کے ساتھ فیصلہ کردیاجائے گااور اُن پر کوئی ظلم نہ ہوگا۔‘‘

کامیاب ہوجانے والے اپنی ریاضتوں کا صلہ سامنے آتادیکھ کر شاداں وفرحاں ہوں گے۔ ان کے درمیان یگانگت کاماحول ہوگا۔انس اورمحبت کی فضائیں ہوں گی۔ انھیں ہرطرف سے مبارک سلامت کے پیام موصول ہو رہے ہوں گے۔اس کے مقابلے میں وہ لوگ جوناکام ٹھیریں گے، انھیں اپنے کیے پرسخت ندامت اورشرمساری ہو گی۔ حسرت کاوہ روگ ہوگاجوہرپل ان کوڈستا ہوگا۔آپس میں بدزبانی ہورہی ہوگی اوران کی باہمی محبتیں نفرت اور بے زاری میں بدل جائیں گی۔ خداکے پیغمبروں کوچھوڑکرجن رہنماؤں کی پیروی کی گئی ،وہاں وہ اپنے متبعین سے اظہار براء ت کر دیں گے۔اس پرمتبعین بھی آہیں بھربھرکے کہیں گے کہ اے کاش،ہمیں دوبارہ موقع ملے تو ہم بھی تم سے اسی طرح بے تعلق ہوجائیں:

وَاَسَرُّوا النَّدَامَۃَ لَمَّا رَاَوُا الْعَذَابَ.(یونس ۱۰:۵۴)
’’(اس وقت)یہ دل ہی دل میں پچھتائیں گے، جب عذاب کو (اپنی آنکھوں سے )دیکھ لیں گے۔‘‘
وَاَنْذِرْھُمْ یَوْمَ الْحَسْرَۃِ اِذْ قُضِیَ الْاَمْرُ.(مریم ۱۹: ۳۹)
’’انھیں حسرت کے اُس دن سے خبردار کردو،جب معاملے کافیصلہ کردیاجائے گا۔‘‘
اَلْاَخِلاّآءُ یَوْمَءِذٍم بَعْضُھُمْ لِبَعْضٍ عَدُوٌّ اِلَّا الْمُتَّقِیْنَ.(الزخرف ۴۳: ۶۷)
’’دنیاکے سب دوست،سواے پرہیز گاروں کے، اس دن ایک دوسرے کے دشمن ہوں گے۔‘‘
اِذْ تَبَرَّاَ الَّذِیْنَ اتُّبِعُوْا مِنَ الَّذِیْنَ اتَّبَعُوْا وَرَاَوُ الْعَذَابَ وَتَقَطَّعَتْ بِھِمُ الْاَسْبَابُ. وَقَالَ الَّذِیْنَ اتَّبَعُوْا لَوْ اَنَّ لَنَا کَرَّۃً فَنَتَبرَّاَ مِنْھُمْ کَمَا تَبَرَّءُ وْا مِنَّا.(البقرہ ۲: ۱۶۶۔۱۶۷)
’’اُس وقت جب وہ لوگ جن کی پیروی کی گئی، اپنے پیرووں سے بے تعلقی ظاہرکر دیں گے اور عذاب سے دوچار ہوں گے اور اُن کے تعلقات یک قلم ٹوٹ جائیں گے۔اور ان کے پیروکہیں گے کہ اے کاش، ہمیں ایک مرتبہ پھر دنیا میں جانے کاموقع ملے تو ہم بھی ان سے اسی طرح بے تعلقی ظاہر کریں ،جس طرح انھوں نے ہم سے بے تعلقی ظاہر کی ہے۔‘‘

اورتواوروہ شیطان کہ جس کے پیچھے ان لوگوں نے ہمیشہ کانقصان مول لے لیا،وہ بھی جب ان کی باہمی تو تکار سنے گا تویہ کہتاہواوہاں سے کھسک جائے گا:

وَمَاکَانَ لِیَ عَلَیْکُمْ مِّنْ سُلْطٰنٍ اِلَّآ اَنْ دَعَوْتُکُمْ فَاسْتَجَبْتُمْ لِیْ فَلَا تَلُوْْمُوْنِیْ وَلُوْمُوْٓا اَنْفُسَکُمْ، مَآ اَنَا بِمُصْرِخِکُمْ وَمَآ اَنْتُمْ بِمُصْرِخِیَّ، اِنِّیْ کَفَرْتُ بِمَآ اَشْرَکْتُمُوْنِ مِنْ قَبْلُ، اِنَّ الظّٰلِمِیْنَ لَھُمْ عَذَابٌ اَلِیْمٌ.(ابراہیم ۱۴: ۲۲)
’’میراتم پرکوئی زورنہیں تھا،میں نے اس کے سوا کچھ نہیں کیاکہ تمھیں دعوت دی اورتم نے میری دعوت پر لبیک کہا۔اس لیے مجھے ملامت نہ کرو،اپنے آپ ہی کو ملامت کرو۔اب نہ میں تمھاری فریاد کوپہنچ سکتاہوں نہ تم میری فریاد کوپہنچ سکتے ہو۔تم نے جومجھے شریک ٹھیرایا تھا، میں اس کاپہلے سے انکار کر چکا ہوں۔ حقیقت یہ ہے کہ اسی طرح کے ظالم ہیں جن کے لیے دردناک عذاب ہے۔‘‘

بہرصورت،اس دن ناکام ہوجانے والے کچھ بھی کہیں اور کچھ بھی نالہ وفریادکریں،خدائی فیصلہ اس سب کے باوجودنافذہوکررہے گااوران کودوزخ میں ڈال دینے کے احکام جاری کردیے جائیں گے:

خُذُوْہُ فَغُلُّوْہُ، ثُمَّ الْجَحِیْمَ صَلُّوْہُ.(الحاقہ ۶۹: ۳۰۔۳۱)
’’اِس کو پکڑو اوراِس کی گردن میں طوق ڈال دو۔ پھر اِس کو دوزخ میں جھونک دو۔‘‘

دنیاکی عدالتوں کے برخلاف،خداکی عدالت ہرطرح سے صحیح اورغلط میں امتیازاورنیک وبد میں فرق کردے گی۔ لہٰذا عدل وانصاف کے اس کامل ظہورکے بعدہرطرف خداکی حمدکے ترانے پڑھے جارہے ہوں گے۔ قرآن مجید میں ہے:

وَقُضِیَ بَیْنَھُمْ بِالْحَقِّ وَقِیْلَ الْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ. (الزمر ۳۹: ۷۵)
’’اور اُن کے درمیان ٹھیک ٹھیک فیصلہ کر دیا جائے گا اور کہاجائے گا کہ شکرکا سزاوار اللہ پروردگارِ عالم ہے۔‘‘
دوزخ

دین اسلام کا بنیادی مقصدانسان کاتزکیہ اوراس کی طہارت ہے۔ جس طرح ملاوٹی سونے کا کھوٹ دورکرنے کے لیے آگ کی بھٹی دہکائی جاتی اوراس کے اندراسے تپاکرخالص کیا جاتا ہے، اسی طرح جولوگ اپنامیل کچیل دین کے ذریعے سے دورنہ کریں گے، انھیں پاک صاف کرنے کے لیے دوزخ کی آگ دہکائی جائے گی۔اس اعتبار سے دیکھاجائے تودوزخ آلودہ نفس لوگوں کے تزکیہ کی جگہ ہے اورآگ میں تپانے کایہ دورانیہ اُن کی سزا۔دوزخ میں تپائے جانے کے عمل کی شدت اوراس میں رہنے کی مدت،دونوں اس بات پرمنحصرہوں گی کہ اس میں جھونکے جانے والے شخص کی غلاظتیں کس حدتک کثیف اورمتعفن ہیں۔جیسے جیسے لوگ اپنی گندگیوں کاازالہ کرتے چلے جائیں گے، ویسے ویسے ان کی وہاں سے خلاصی ہوتی چلی جائے گی۔البتہ،کچھ مجرم ایسے بھی ہوں گے کہ جن میں جوہرِخالص ڈھونڈے سے نہ ملے گااوروہ اپنی ذات میں نراکھوٹ ہوں گے۔اس طرح کے مجرموں کے لیے دوزخ تزکیے کی نہیں، سزاکی جگہ ہوگی،اس لیے انھیں ہمیشہ کے لیے اس میں پڑاچھوڑدیاجائے گا۔

ہمیشہ کی سزاپانے والے کون ہوں گے؟قرآن مجیدنے بیان کیاہے کہ وہ لوگ جوخداکے سامنے سرکشی اوربغاوت پرآمادہ ہو جائیں، جان بوجھ کرکفروشرک کرنے لگیں،نفاق کے روگی ہو جائیں،جان اورمال اور آبرو کے خلاف سنگین کبائرکاارتکاب کرنے لگیں، ۱؂ یا گناہ کی زندگی کو اس طرح اپنا اوڑھنا بچھونا بنالیں کہ معلوم ہوگناہ انھیں ہر طرف سے گھیرے ہوئے ہے،ایسے سب لوگ خلود فی النار کے مستحق ٹھیریں گے اوردائمی عذاب میں گرفتاررہیں گے ۔

تاہم ابدی سزاکایہ مطلب نہیں ہے کہ یہ لوگ بالکل اسی طرح ہمیشہ کے لیے دوزخ میں رہیں گے، جس طرح جنتی ہمیشہ کے لیے جنت میں رہیں گے۔اس کی وجہ یہ ہے کہ زیرنظر قرآن کی تعلیمات اصل میں مذکورہ جرائم کی سزاؤں کابیان ہیں کہ جن کے اطلاق میں پروردگار عالم کسی بھی درجے میں تغیر کا اختیار ضرور رکھتاہے۔ اس کی رحمت مدنظر رہے تواس تغیر کی تین صورتیں فرض کی جاسکتی ہیں: ایک یہ کہ اس دوزخ ہی کو ختم کردیاجائے ۔دوسری یہ کہ دوزخ تو قائم رہے ،مگر ان ابدی سزاپانے والوں میں سے وہ لوگ جوایمان سے بالکل تہی دامن رہے ہوں،مستقل جلتے رہنے سے جس طرح کھوٹ بھی آخرکار راکھ میں بدل جاتاہے، اسی طرح انھیں بھی کسی روز راکھ کی صورت میں بدل کر ان کی ہستی کو فناکردیاجائے۔تیسری یہ کہ دوزخ قائم رہے اور مجرموں میں سے وہ لوگ جو کم تردرجے کا ایمان، بہرحال رکھتے ہوں، انھیں بھی زندہ رکھاجائے اور اسی ایمان کالحاظ رکھتے ہوئے آخر کار انھیں دوزخ سے خلاصی دے دی جائے۔۲؂ اگلی دنیاکے بارے میں قیاس کرناموزوں نہیں ہے، مگرقرآن مجید کے کچھ اشارات ہیں جواس کی بنیاد فراہم کرتے ہیں:

فَاَمَّا الَّذِیْنَ شَقُوْا فَفِی النَّارِ لَھُم فِیْھَا زَفِیْرٌ وَّشَھِیْقٌ، خٰلِدِیْنَ فِیْھَا مَا دَامَتِ السَّمٰوٰتُ وْالْاَرْضُ اِلَّا مَا شَآءَ رَبُّکَ، اِنَّ رَبَّکَ فَعَّالٌ لِّمَا یُرِیْدُ، وَاَمَّا الَّذِیْنَ سُعِدُوْا فَفِی الْجَنَّۃِ خٰلِدِیْنَ فِیْھَا مَا دَامَتِ السَّمٰوٰتُ وَالْاَرْضُ اِلَّا مَا شَآءَ رَبُّکَ عَطَآءً غَیْرَ مَجْذُوْذٍ.(ہود ۱۱: ۱۰۶۔۱۰۸)
’’پھر جو بدبخت ہوں گے، وہ دوزخ میں جائیں گے۔ انھیں وہاں چیخنا اور چلانا ہے۔ وہ اسی میں پڑے رہیں گے، جب تک(اُس عالم کے)زمین وآسمان قائم ہیں۔الّا یہ کہ تیراپروردگارکچھ اور چاہے۔ اس میں شک نہیں کہ تیرا پروردگار جو چاہے،کرگزرنے والاہے۔ رہے وہ جو نیک بخت ہیں تووہ جنت میں ہوں گے۔وہ اسی میں رہیں گے، جب تک (اُس عالم کے) زمین وآسمان قائم ہیں، الّا یہ کہ تیرا پروردگار چاہے، ایسی عطاکے طورپرجوکبھی منقطع نہ ہوگی۔‘‘

پہلا یہ کہ قرآن مجیدمیں ایک مقام پر خوش بخت لوگوں کے صلے کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا گیاہے: ’عَطَآءً غَیْرَ مَجْذُوْذٍ‘ کہ ان پرہونے والی عنایتیں مستقل ہوں گی اوران میں کوئی انقطاع نہیں ہوگا،مگر بدبخت لوگوں کی سزا کو ’اِنَّ رَبَّکَ فَعَّالٌ لِّمَا یُرِیْدُ‘ کہ تیرا رب جوچاہے کرسکتاہے ، کہہ کراللہ تعالیٰ کے ارادے سے متعلق کردیاگیاہے :

دوسرایہ کہ دوزخ پروردگارکا کوئی وعدہ نہیں ہے،بلکہ مجرموں کوسنائی جانے والی ایک وعید ہے۔کچھ دینے کاوعدہ کیا جائے تواس کوپوراکرنااخلاقی طورپرلازم ٹھیرتاہے،مگرسزاکی دھمکی دے کر پھرچھوڑدیاجائے تواسے برانہیں جانا جاتا، بلکہ قابل تحسین سمجھاجاتاہے۔آخر ت میں اگر مجرموں کو بالکل ہی معاف کردیاجائے تویہ بات عدل کے منافی اوردیگرلوگوں کے حق تلف کرنے کے مترادف ہوگی،اس لیے انھیں سزاتوضرور دی جائے گی۔تاہم اگر ہمیشہ کی سزاسے انھیں خلاصی دے دی جائے تویہ بات عدل کے خلاف نہیں ہوگی،بلکہ خداکے فضل کے عین مطابق ہوگی۔

تیسرایہ کہ رحمت اور غضب،یہ دونوں اللہ تعالیٰ کی صفتیں ہیں،مگراس کی رحمت اس کے غضب پرسبقت کرگئی ہے۔اگراس کی رحمت کے مستحق قرارپانے والے ہمیشہ جنت کے مزے لوٹیں اوراس کے غضب کاشکار ہونے والے ہمیشہ دوزخ کی آگ کوبھگتیں تواس کامطلب یہ ہوگاکہ اس سے یہ دونوں صفتیں ہر طرح سے ایک ہی درجے میں روبہ عمل ہیں،دراں حالیکہ ایسابالکل نہیں ہے۔چنانچہ رحمت کا غضب سے آگے بڑھ جاناخوداس بات کامتقاضی ہے کہ مجرموں کوابدی سزا دیے جانے کے فیصلے میں بھی اس کاظہورہو۔

بہرحال،جیسا کہ ہم نے عرض کیاکہ اس باب میں حتمی بات کرنا ممکن نہیں،کچھ اشارے تھے جن کا ہم نے ذکرکردیاہے،وگرنہ اصل علم تو پروردگار عالم کے پاس ہے۔

جہنم کس طرح کی ہوگی،قرآن مجید نے اس کے بارے میں بھی کچھ معلومات دی ہیں۔ بیان ہواہے کہ اس کے سات دروازے ہوں گے، جن میں مجرموں کوان کے جرائم کے اعتبار سے داخل کیاجائے گا۔ ان کی تعداد سات ہونے کی وجہ یہ ہوسکتی ہے کہ قرآن مجید نے جن مہلک برائیوں کا ذکر کیاہے، ان کا شمارکریں تووہ سات عنوانات کے تحت آجاتی ہیں:شرک ،قطع رحم،قتل ، زنا ،جھوٹی شہادت، اثم اورعدوان۔چنانچہ انھی مہلکات کی بنیاد پر مجرموں کو خاص دروازوں سے داخل کیا جائے گا:

لَھَا سَبْعَۃُ اَبْوَابٍ، لِکُلِّ بَابٍ مِّنْھُمْ جُزْءٌ مَّقْسُوْمٌ.(الحجر ۱۵: ۴۴)
’’اس(جہنم)کے سات دروازے ہیں اور ہر دروازے کے لیے ان میں سے ایک حصہ خاص کر دیا گیا ہے‘‘

فرشتوں کی تعداد،جو اس دوزخ پر مقرر ہوں گے،انیس بتائی گئی ہے۔ظاہر ہے یہ اُس دنیا کی باتیں ہیں ،جہاں کے نوامیس یہاں سے بہت مختلف ہوں گے۔ہم نے نہ جہنم دیکھی ہے، اللہ اس کے دیکھنے سے ہمیں محفوظ رکھے ،اورنہ ہم خداکے اُن فرشتوں کی صلاحیت کارسے واقف ہیں،جو اس پر متعین کیے جائیں گے،اس لیے ان کی تعداد کے انیس ہونے میں کسی اچنبھے یاحیرت کی کوئی وجہ نہیں ہے :

عَلَیْھَا تِسْعَۃَ عَشَرَ.(المدثر ۷۴: ۳۰)
’’اُس(دوزخ)پر انیس(فرشتے) مقرر ہیں۔‘‘

مجرم اپنا فیصلہ سن لینے کے بعداُس وسیع وعریض اورہولناک سزاگاہ کو جس کے ایک چھوڑ سات دروازے ہوں گے اورجوخدائی فرشتوں کے زیرانتظام ہوگی، اپنے سامنے کھڑی دیکھیں گے۔یہ وہی دوزخ ہوگی کہ جس سے بچنے کے لیے انھیں کہاجاتااور یہ اعراض کرجاتے ،اس پر اَن دیکھا ایمان نہ لاتے اوراسے کھلی آنکھوں سے دیکھ کر ماننے پراصرارکیا کرتے ۔ان لوگوں کے لیے دوزخ کا غیظ وغضب دیدنی ہوگا۔ یہ دور سے آتے ہوں گے کہ وہ انھیں دیکھتے ہی آپے سے باہر ہوجائے گی:

وَبُرِّزَتِ الْجَحِیْمُ لِمَنْ یَّرٰی.(النٰزعٰت ۷۹: ۳۶)
’’اور دوزخ اُن کے سامنے بے نقاب کردی جائے گی جواُس سے دوچار ہوں گے۔‘‘
اِذَا رَاَتْھُمْ مِنْ مَّکَانٍم بَعِیْدٍ سَمِعُوْا لَھَا تَغَیُّظًا وَّزَفِیْرًا.(الفرقان ۲۵: ۱۲)
’’وہ ان کودورہی سے دیکھے گی تو (دیکھتے ہی بپھر جائے گی اور) یہ اس کا بپھرنا اوردھاڑناسنیں گے۔‘‘

جب مجرموں کوجہنم کی طرف لے جایاجائے گا تو ان کے ہرطرف اندھیر ے براجمان ہوں گے۔ ظلمتیں کسی آسیب کی طرح چھارہی ہوں گی۔سیاہیوں کے ایسے بادل ہوں گے کہ چھٹنے کانام نہ لیں گے۔یہ لوگ انھی تاریکیوں میں گھرے ہوئے،ٹھوکریں کھاتے اورگرتے پڑتے چل رہے ہوں گے ۔جب روشنی کی تلاش میں ایمان والوں سے مدد مانگیں گے تویکسرناکام ہوں گے۔ بعد ازاں ان کے اوراہل ایمان کے درمیان میں ایک دیوار حائل کردی جائے گی۔ اس دیوار میں ایک دروازہ ہوگاجس میں سے اہل ایمان تو گزرتے ہوئے رحمت میں جاداخل ہوں گے اوریہ خداکا عذاب بھگتنے کے لیے باہررہ جائیں گے:

یَوَمْ یَقُوْلُ الْمُنٰفِقُوْنَ وَ الْمُنٰفِقٰتُ لِلَّذِیْنَ اٰمَنُوا انْظُرُوْنَا نَقْتَبِسْ مِنْ نُّوْرِکُمْ ، قِیْلَ ارْجِعُوْا وَرَآءَ کُمْ فَالْتَمِسُوْا نُوْرًا، فَضُرِبَ بَیْنَھُمْ بِسُوْرٍ لَّہٗ بَابٌ، بَاطِنُہٗ فِیْہِ الرَّحْمَۃُ وَظَاھِرُہٗ مِنْ قِبَلِہِ الْعَذَابُ.(الحدید ۵۷: ۱۳)
’’جس دن منافق مرداورمنافق عورتیں اہل ایمان کو پکاریں گے کہ ذراہم پربھی عنایت فرمائیے کہ آپ کی روشنی سے ہم بھی کچھ فائدہ اٹھا لیں، مگراُن سے کہا جائے گا: (نہیں)، تم پیچھے کی طرف لوٹ جاؤ اور (وہیں اپنے لیے) روشنی تلاش کرو۔ پھر اُن کے اور اہل ایمان کے درمیان ایک دیوارکھڑی کردی جائے گی جس میں ایک دروازہ ہوگا۔اُس کے اندررحمت ہو گی اورباہرعذاب۔‘‘

مجرم دوزخ میں داخل کرنے کے لیے گروہ در گروہ لائے جائیں گے۔وہ سب مذہبی و غیرمذہبی رہنما جنھوں نے سیدھی راہ کو مشتبہ کیا،اس پر پہرے لگائے اوراپنی خود ساختہ راہوں پر ڈال کر لوگوں کوگم راہ کردیا،اس روز بھی قیادت کررہے ہوں گے۔جولوگ آنکھیں بندکرکے اوربطن وفرج کے غلام ہوکران کی اتباع کرتے رہے ،اُس روز یہی رہنما انھیں اپنے ساتھ دوزخ میں لے جاکر دم لیں گے:

وَسِیْقَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْٓا اِلٰی جَھَنَّمَ زُمَرًا.(الزمر ۳۹: ۷۱)
’’اور جنھوں نے انکار کیا،وہ جہنم کی طرف گروہ در گروہ ہانکتے ہوئے لائے جائیں گے۔‘‘
فَاتَّبَعُوْٓا اَمْرَ فِرْعَوْنَ، وَمَآ اَمْرُ فِرْعَوْنَ بِرَشِیْدٍ، یَقْدُمُ قَوْمَہٗ یَوْمَ الْقِیٰمَۃِ فَاَوْرَدَھُمُ النَّارَ، وَبِءْسَ الْوِرْدُ الْمَوْرُوْدُ.(ہود ۱۱: ۹۷۔۹۸)
’’پھر انھوں نے فرعون کی بات مانی،دراں حالیکہ فرعون کی بات راست نہیں تھی۔قیامت کے دن وہ اپنی قوم کے آگے آگے ہوگااورانھیں دوزخ میں لے جا اتارے گا۔کیاہی براگھاٹ ہے جس پر وہ اتریں گے۔‘‘

مجرموں کو جہنم کی طرف ہانکا جائے گا توان کے گلے میں آہنی طوق ہوں گے۔پاؤں میں لوہے کی بیڑیاں ہوں گی۔ فرشتے انھیں چٹیا اورپاؤں سے پکڑ کر کھینچ رہے ہوں گے۔ جب پاؤں سے پکڑ کر انھیں کھینچاجائے گا تو ظاہر ہے کہ اس وقت ان کے چہرے زمین کے ساتھ گھسٹ رہے ہوں گے ۔گویاعجیب بے بسی اورانتہائی ذلت کارویہ ہوگاجوان کے ساتھ روا رکھاجائے گا:

اِذِ الْاَغْلَالُ فِیْٓ اَعْنَاقِھِمْ وَالسَّلٰسِلُ.(المومن ۴۰: ۷۱)
’’جبکہ ان کی گردنوں میں طوق ہوں گے اور (ان کے پاؤں میں) زنجیریں ہوں گی۔‘‘
یُعْرَفُ الْمُجْرِمُوْنَ بِسِیْمٰھُمْ فَیُؤْخَذُ بِالنَّوَاصِیْ وَالْاَقْدَامِ.(الرحمٰن ۵۵: ۴۱)
’’مجرم وہاں اپنی علامت سے پہچان لیے جائیں گے، پھرپیشانی کے بالوں اور پاؤں سے پکڑے جائیں گے (اور جہنم میں پھینک دیے جائیں گے)۔‘‘
اَلَّذِیْنَ یُحْشَرُوْنَ عَلٰی وُجُوْھِھِمْ اِلٰی جَھَنَّمَ، اُولٰٓءِکَ شَرٌّ مَّکَانًا وَّاَضَلُّ سَبِیْلًا.(الفرقان ۲۵: ۳۴)
’’جولوگ اپنے مونہوں کے بل دوزخ کی طرف گھسیٹے جائیں گے،انھی کاٹھکانا بہت براہے اوروہی سب سے بڑھ کرگم کردہ راہ ہیں۔‘‘

جب یہ لوگ جہنم کے پاس پہنچ جائیں گے تواس وقت اس کے بنددروازے کھولے جائیں گے۔اس پرمقرر داروغے انھیں آڑے ہاتھوں لیں گے اورملامت کرتے ہوئے اورکوسنے دیتے ہوئے ان کااستقبال کریں گے:

حَتّٰٓی اِذَا جَآءُ وْھَا فُتِحَتْ اَبْوَابُھَا وَقَالَ لَھُمْ خَزَنَتُھَآ اَلَمْ یَاْتِکُمْ رُسُلٌ مِّنْکُمْ یَتْلُوْنَ عَلَیْکُمْ اٰیٰتِ رَبِّکُمْ وَیُنْذِرُوْنَکُمْ لِقَآءَ یَوْمِکُمْ ھٰذَا، قَالُوْا بَلٰی وَلٰکِنْْ حَقَّتْ کَلِمَۃُ الْعَذَابِ عَلَی الْکٰفِرِیْنَ.(الزمر ۳۹: ۷۱)
’’یہاں تک کہ جب وہ اس (جہنم) کے پاس پہنچیں گے تو اس کے دروازے کھول دیے جائیں گے اور اس کے داروغے ان سے کہیں گے: کیا تمھارے پاس تمھارے رب کی آیتیں سناتے اور اس دن کی ملاقات سے ڈراتے ہوئے تمھی میں سے رسول نہیں آئے ؟وہ کہیں گے: ہاں،آئے تو سہی، لیکن کافروں پر کلمۂ عذاب پورا ہو کر رہا۔‘‘

جہنم کی بھاڑمیں جھونکے جانے سے پہلے مجرموں کی ہلکی پھلکی ’’تواضع‘‘ کاانتظام کیا جائے گا۔ یہ اس طرح ہوگاکہ انھیں گرم کھولتے ہوئے پانی میں سے گھسیٹتے ہوئے گزاراجائے گا۔یہ ابتدائی ’’خاطر مدارات‘‘ ہی اتنی بھیانک ہوگی کہ ان کی طبیعت کے سارے کس بل نکال دے گی۔اس کے بعدانھیں آگ کے الاؤ میں اس طرح ڈال دیاجائے گاجیسے بھڑکتے ہوئے کسی تنور میں گھاس پھوس ڈالی جاتی ہے:

اِذِ الْاَغْلٰلُ فِیْٓ اَعْنَاقِھِمْ وَالسَّلٰسِلُ، یُسْحَبُوْنَ فِی الْحَمِیْمِ ثُمَّ فِی النَّارِ یُسْجَرُوْنَ.(المومن ۴۰: ۷۱۔۷۲)
’’جبکہ ان کی گردنوں میں طوق ہوں گے اور (ان کے پاؤں میں) زنجیریں ہوں گی،وہ گرم پانی میں گھسیٹے جائیں گے پھر آگ میں جھونک دیے جائیں گے۔‘‘

دوزخ میں مجرموں کے داخل ہوتے ہی جنتی انھیں آوازدے کرپوچھیں گے اورمقصد محض ان کی فضیحت ہوگا۔وہ ان سے پوچھیں گے کہ خدا کے جن وعدوں کے لیے ہم نے بازیاں کھیلیں، انھیں تو ہمارے رب نے پورا کردیا،تم بتاؤ، تمھاری سزاکی جووعیدیں تھیں، کیاوہ بھی پوری ہوئیں؟ وہ اعتراف کریں گے تو ایک منادی کرنے والا پکارکرکہے گا: ’’اِن ظالموں پر خداکی لعنت ہو‘‘، ان کی طرف سے خداکی لعنت کایہ جملہ اصل میں اس بات کااعلان ہوگاکہ یہ لوگ خدا کی رحمت سے دور ہوچکے ہیں ،اس لیے ان کے برے انجام کی ابتدااب ہونے ہی کوہے:

وَنَادآی اَصْحٰبُ الْجَنَّۃِ اَصْحٰبَ النَّارِ اَنْ قَدْ وَجَدْنَا مَا وَعَدَنَا رَبُّنَا حَقًّا، فَھَلْ وَجَدْتُّمْ مَّا وَعَدَ رَبُّکُمْ حَقًّا، قَالُوْا نَعَمْ فَاَذَّنَ مُؤَذِّنُم بَیْنَھُمْ اَنْ لَّعْنَۃُ اللّٰہِ عَلَی الظّٰلِمِیْنَ.(الاعراف ۷: ۴۴)
’’جنت کے لوگ دوزخ والوں کوپکار کر پوچھیں گے کہ ہم نے تواُس وعدے کو بالکل سچاپایاجوہمارے پروردگار نے ہم سے کیاتھا،کیاتم نے بھی اس وعدے کو سچا پایاجوتمھارے پروردگارنے(تم سے) کیا تھا؟ وہ جواب دیں گے: ہاں۔ پھر ایک پکارنے والا اُن کے درمیان پکارے گا کہ خداکی لعنت اِن ظالموں پر۔‘‘

[باقی]

_____

۱؂ مثال کے طورپر ،کسی مسلمان کو عمداًقتل کردیں،قانونِ وراثت کی خلاف ورزی کریں یابدکاری کے عادی مجرم ہو جائیں۔

۲؂ یہ ضروری نہیں کہ ابدی سزا کے مستحق ان مجرمو ں کو رہائی دینے کے بعد اُسی جنت میں جگہ ملے جو صالحین کو انعام کے طورپرعنایت ہوگی۔البتہ ،یہ ضرور ہوسکتاہے کہ پروردگار کی جورحمت ان کی سزا میں تخفیف کاباعث بنے ،وہی رحمت ان کے لیے کسی دوردراز کے سیارے میں الگ سے جنت بسانے کا انتظام بھی کردے ۔ اور اگر جنت نہ بھی ملے تو کیاہے!ان کے لیے یہی بات جنت کے مترادف ہوگی کہ یہ دوزخ سے بالآخر نکال لیے جائیں۔

____________

B