HomeQuranHadithMizanVideosBooksBlogs
مصنف : ڈاکٹر وسیم مفتی

حضرت ابوذر غفاری رضی اﷲ عنہ (۱)

حضرت ابو ذرغفاری کا اصل نام جندب (یا بریر) تھا۔جنادہ ان کے والد، جبکہ سکن داداتھے، دوسری روایات میں ان کے والد کانام سکن یا عبداﷲ اور دادا کا سفیان بتایا گیا ہے۔ رملہ بنت وقیعہ ان کی والدہ تھیں۔ حضرت ابوذر بنوغفار سے منسوب ہیں جو بنو کنانہ(اور بنوضمرہ) کا ذیلی قبیلہ تھا، ابو ذر کے نویں جدغفار بن ملیل اس قبیلے کے بانی تھے، جبکہ بنوضمرہ کے بانی ضمرہ بن بکر ان کے گیارہویں جد تھے ۔ کنانہ بن خزیمہ پر حضرت ابوذر کا شجرہ نبی صلی اﷲ علیہ وسلم کے شجرے سے جا ملتا ہے۔ کنانہ نبی صلی اﷲ علیہ وسلم کے تیرھویں اور حضرت ابوذر کے چودھویں جد تھے۔ (ابن سعد) آں حضور صلی اﷲ علیہ وسلم نے بنوغفار کی ستایش کر تے ہوئے فرمایا: ’’غفار ،اﷲ ان کی مغفرت کرے، بنواسلم کواﷲ سلامت رکھے، بنوعصیہ نے اﷲ و رسول کی نافرمانی کی‘‘ (بخاری، رقم ۳۵۱۳۔ مسلم، رقم ۶۵۲۲)۔

حضرت ابو ذر ’السّٰبِقُوْنَ الْاَوَّلُوْنَ‘* میں سے تھے۔ اسلام کی طرف لپکنے والوں میں ان کا نمبر چوتھا یا پانچواں تھا۔ حضرت ابوذرغفاری کے بھائی انیس کسی کام سے مکہ گئے۔ انھیں آنے میں دیر ہو گئی تو حضرت ابوذرنے وجہ پوچھی، انھوں نے بتایا: میں ایک شخص سے ملا ہوں جو یہ دعویٰ کرتا ہے کہ اﷲ نے اسے آپ کے دین(دین ابراہیم ) پر بھیجا ہے۔ حضرت ابوذر نے سوال کیا: لوگ اس کے بارے میں کیا تبصرہ کرتے ہیں؟ انیس نے جوخود شاعر تھے، جواب دیا: وہ اسے شاعراور جادوگرسمجھتے ہیں۔ وہ کاہنوں جیسی گفتگوکرتے ہیں نہ ان کا کلام شعر ہے ۔وہ تواعلیٰ اخلاق کی تعلیم دیتے ہیں۔ان کی گفتگو سے حضرت ابوذر کا شوق بڑھ گیا، انھوں نے زاد راہ لیا ، پانی سے بھرا مشکیزہ پکڑا اور خود مکہ عازم سفر ہوئے۔ بھائی نے کہا: اہل مکہ سے بچ کر رہنا،وہ انھیں اچھا نہیں سمجھتے اور اور ان سے برا سلوک روارکھتے ہیں۔ حضرت ابوذرپہلے اپنے ماموں کے ہاں پہنچے جو بہت مال دار اور صاحب حیثیت تھے۔ماموں نے خوب آؤ بھگت کی، تاہم ان کے قبیلے والوں نے باتیں بنائیں ۔ مکہ پہنچے تو کسی سے پوچھا: وہ شخص کہاں ہے جسے لوگ صابی (بے دین)کہہ کر پکارتے ہیں؟اس نے اشارہ کر کے دوسرے لوگوں کو بھی بلا لیا جو روڑے اور ہڈیاں لے کر ان پر پل پڑے۔وہ بے ہوش ہو کر گر پڑے، ہوش میں آئے تو خون میں لت پت ہوکر سرخ بت بنے ہوئے تھے۔ چاہ زمزم پر پہنچے،غسل کیا ، پانی پیا اور کعبہ کے پردوں سے لپٹ گئے۔ ایک دن اور رات اس طرح گزرے کہ آب زمزم کے علاوہ کوئی خوراک نہ تھی۔اگلی رات چاندنی رات تھی،دو عورتوں کے علاوہ کسی نے بیت اﷲ کا طواف نہ کیا۔وہ اساف اور نائلہ کے بتوں سے دعائیں مانگ رہی تھیں کہ حضرت ابوذر نے کہا: ان دونوں کا آپس میں نکاح پڑھا دو، بولیں: کاش یہاں ہماری قوم کا کوئی شخص ہوتا۔اسی اثنا میں رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم اور ابوبکرکوہ صفا سے اترتے نظر آئے۔ عورتوں نے بتایا کہ ایک صابی کعبہ کے پردوں میں چھپا بیٹھا ہے۔ آپ دونوں نے حجر اسود کا بوسہ لیا، طواف کیا اور نماز پڑھی۔ حضرت ابوذرپاس آئے،وہ پہلے شخص تھے جنھوں نے اسلامی طریقے سے نبی آخر الزمان صلی اﷲ علیہ وسلم کو سلام کیا۔ آپ نے سلام کاجواب دیا اور استفسار فرمایا: کہاں سے آئے ہو؟ بتایا: بنوغفار سے۔ یہاں کب سے ہو؟ جواب دیا: ایک دن اور رات سے۔ کسی نے کھانا دیا؟آب زم زم ہی سے پیٹ بھرا ہے اور اب بھوک کی وجہ سے کوئی کمزوری بھی نہیں۔آپ نے فرمایا: آب زم زم برکت والا ہے،بھوکے کے لیے کھانا اور بیمار کے لیے شفا ہے۔ سیدنا ابو بکر نے کہا: یا رسول اﷲ، انھیں آج رات کا کھانا کھلانے کی اجازت مجھے دے دیجیے۔ حضرت ابوذر اسی وقت نبی صلی اﷲ علیہ وسلم کے ساتھ سیدنا ابوبکرکے گھر پہنچے اور طائف کے میوے تناول کیے۔ حضرت ابوذر ایمان لے آئے تو آپ نے فرمایا: مجھے کھجوروں والی سرزمین کی طرف بھیجا گیا اورمیرا خیال ہے ،وہ یثرب ہی ہے۔ تو کیا تم میرا پیغام اپنی قوم کوپہنچاؤ گے؟ ہو سکتا ہے ،اﷲ تمھارے ذریعے سے انھیں نفع دے اور تمھیں اس کا اجر دے۔ حضرت ابوذر مسلمان ہونے کے بعد اپنے بھائی انیس کے پاس آئے تووہ بھی مسلمان ہو گئے، پھر دونوں بھائی اپنی والدہ کے پاس پہنچے، انھوں نے کہا: میں تمھارے دین سے اعراض نہیں کروں گی اور ایمان لے آئیں۔ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کی مدینہ تشریف آوری سے پہلے بنو غفار کے آدھے لوگ ایمان لاچکے تھے۔ بنوغفار کے سردار خفاف بن ایما اہل ایمان کو نماز پڑھاتے (مسلم، رقم ۶۴۴۲۔ احمد، رقم ۲۱۴۱۷)۔

حضرت ابوذر غفاری کے اسلام لانے کا قصہ حضرت عبداﷲ بن عباس نے مختلف طرح بیان کیا ہے۔ وہ حضرت ابوذرکی زبانی روایت کرتے ہیں کہ میں غفار قبیلے سے تھا،ہمیں معلوم ہوا کہ مکہ میں ایک شخص پیدا ہوا ہے جو نبی ہونے کا دعویٰ کر رہا ہے۔ میں نے اپنے بھائی سے کہاکہ تم جا کر اس سے بات چیت کرو اورآ کرمجھے حال بتاؤ۔وہ آپ سے مل کر لوٹا او ر بتایا: میں نے ایک شخص کو دیکھا جو خیر کا حکم دیتا اور برائی سے روکتا ہے۔اتنی خبر سے میر ی تسلی نہ ہوئی، میں نے توشہ دان اور عصا لیا اور مکہ روانہ ہو گیا۔آپ کو پہچانتا نہ تھا اور یہ بھی نہ چاہتا تھا کہ کسی سے آپ کے بارے میں پوچھوں،اس لیے حرم میں بیٹھا زمزم کا پانی پیتا رہا۔ سیدنا علی کا مجھ پر گزر ہوا تو بولے: گویا یہ شخص مسافر ہے ۔میں نے کہا: ہاں، تو فرمایا: گھر چلیں۔میں ان کے ساتھ چل دیا، انھوں نے مجھ سے کچھ پوچھا نہ میں نے انھیں بتایا۔صبح ہوئی تو میں پھر حرم کی طرف چل دیا تاکہ آپ کا پتا دریافت کر سکوں۔کوئی ان کے بارے میں کچھ نہ بتاتا تھا۔ سیدنا علی پھر گزرے اور پوچھا: کیا مسافر کوابھی تک اپنی منزل معلوم نہیں ہو سکی؟ میں نے جواب دیا: نہیں، کہا: میرے ساتھ چلو، پھر پوچھا: کیا معاملہ ہے؟ اس شہر میں کس لیے آئے؟ میں نے کہا: اگر رازداری کریں گے تو بتاؤں گا۔ سیدنا علی نے کہا: ہاں ایسا ہی کروں گا۔میں نے کہا: ہمیں خبر ملی ہے کہ یہاں ایک شخص پیدا ہوا ہے جونبی ہونے کا دعویٰ کر رہا ہے۔میں نے اپنے بھائی کو ان سے بات چیت کرنے کے لیے بھیجا تھا۔اس کی اطلاع سے میری تشفی نہیں ہوئی، اس لیے خود ملنے کا قصد کیا ہے۔ حضرت علی نے کہا: آپ راہ یاب ہو گئے ہیں۔میں انھی کی طرف جارہا ہوں ۔میرے پیچھے پیچھے آتے جائیے۔اگرمیں نے کسی شخص سے خطرہ محسوس کیا تو دیوار کے ساتھ لگ کر جوتا صاف کرنے لگ جاؤں گا اور آپ چلتے جانا۔ سیدنا علی چلتے گئے اور میں بھی ان کے ساتھ ساتھ چلتا گیا، حتیٰ کہ ہم نبی صلی اﷲعلیہ وسلم کے پاس پہنچ گئے۔ میں نے کہا: مجھے اسلام سکھائیے ۔آپ نے اسلامی تعلیمات تلقین کیں اور میں اسی وقت مسلمان ہو گیا۔پھر نصیحت فرمائی: ایمان کے معاملے کو چھپاکر اپنے شہرلوٹ جاؤ اور جب ہمارے غلبے کی خبر سنو تو چلے آنا۔ میں جوش میں آ کر بولا: اس اﷲ کی قسم جس نے آپ کوحق کے ساتھ بھیجا ہے، میں ان مشرکوں کے سامنے بھی پکار پکار کر کہوں گا،پھر کعبہ کے پاس آکر بلند آواز سے کہنے لگے: اشہد ان لا الٰہ الا اﷲ وان محمداًرسول اﷲ۔مشرک مجھ پر پل پڑے اور مار مار کر ادھ موا کر دیا۔عباس بن عبدالمطلب بھاگے آئے اور کہا: تمھارا ناس ہو!تم بنوغفارکے ایک شخص کو قتل کررہے ہو، حالاں کہ تمھاری تجارت اور راہ گزر غفار سے ہو کر جاتی ہے۔تب انھوں نے مجھے چھوڑا۔اگلے روزپھر میں نے قریش کے سامنے اسلام کا اعلان کیا تو وہ بولے: اس صابی کو پکڑ لو۔وہی کل والا سلوک ہوا اور عباس نے مجھے چھڑایا (بخاری، رقم ۳۵۲۲۔ مسلم، رقم۶۴۴۵)۔

حضرت ابوذرغفاری فرمایا کرتے تھے: میں نے اپنے آپ کو چوتھا مسلمان پایا ہے، کیونکہ مجھ سے پہلے صرف تین نفوس قدسیہ نے اسلام قبول کیا تھا: نبی صلی اﷲ علیہ وسلم، سیدنا ابوبکر اور سیدنا بلال۔ ایسی ہی روایت حضرت ابوذر کے ماں جاے حضرت عمرو بن عبسہ نے اپنے بارے میں بیان کی۔ان دونوں کو معلوم نہیں تھا کہ ان میں سے پہلے کون ایمان لایا۔ واقدی کہتے ہیں کہ سابقین میں حضرت ابوذر اور حضرت عمرو بن عبسہ کا شمار چوتھے اور پانچویں نمبروں پر ہوتا ہے۔ السابقون الاولون کی فہرست میں حضرت خالد بن سعید کا شمار بھی پانچواں بتایا جاتا ہے۔ حضرت ابوذر نے اپنے قبول اسلام کا ذکر ان الفاظ میں کیا: میں رسالت مآب صلی اﷲ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اورالسلام علیک یارسول اﷲ کہنے کے بعداشہد ان لا الٰہ الا اﷲ وان محمداًرسول اﷲ کا کلمہ پڑھا۔میں نے آپ کے چہرۂ مبارک پر خوشی کی جھلک دیکھی۔

حضرت ابوذرغفاری نے اپنے بھتیجے کو بتایا کہ میں رسول اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم کی بعثت سے تین سال پہلے سے نماز پڑھ رہا ہوں۔ اس نے پوچھا: کس کی عبادت کرتے تھے؟ بتایا: اﷲ کی۔ اس نے پھر سوال کیا: کس طرف رخ کرتے تھے؟ جواب دیا: جدھر اﷲ رخ کر ادیتا۔ عشا پڑھ کر آخری رات کو چادر کی طرح بستر پر پڑ جاتا (مسلم، رقم ۶۴۴۴)۔

اسلام لانے سے پہلے حضرت ابوذر اپنے اہل قبیلہ کی طرح غارت گری کرتے تھے۔اکیلے ڈاکا ڈالتے ،منہ اندھیرے قافلے پر درندے کی طرح کود پڑتے، پھر اﷲ نے ان کے دل میں اسلام ڈال دیا۔وہ مکہ آئے اور سیدنا ابوبکر کے ایمان لانے کے چند دن بعد مسلمان ہو گئے۔ یہی بات تھی جو اقرع بن حابس نے نبی اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم سے کہی، اسلم، غفار اور مزینہ کے قبائل نے آپ کی بیعت کی ہے جو اپنے ہاں سے گزرنے والے حاجیوں کا مال اسباب چرایا کرتے تھے۔آپ نے فرمایا: ’’یہ تمیم، عامر، اسد اور غطفان کے قبائل سے بہتر ہیں جو خائب و خاسر ہوئے‘‘ (بخاری، رقم ۳۵۱۶)۔ زمانۂ جاہلیت میں یہ قبا ئل طاقت اور مرتبے میں فوقیت رکھتے تھے، لیکن اسلم ،غفار او ر مزینہ نے اسلام لانے میں سبقت کی، اس لیے ان کا رتبہ بلند ہو گیا۔

ایمان لانے کے بعد حضرت ابوذر غفاری اپنے قبیلے میں واپس چلے گئے۔وہ اپنے ہاں سے گزرنے والے قریش کے قافلوں کو روکتے اور نبوت محمدی کی شہادت دینے پر مجبور کرتے۔ آں حضورصلی اﷲعلیہ وسلم کے مدینہ ہجرت فرمانے کے بعدبدر ،احد اور خندق کی جنگیں ہو چکیں تو حضرت ابوذر مدینہ منتقل ہو گئے۔ سفر و حضر میں وہ آپ کے ساتھ ساتھ رہنے لگے۔ انھوں نے اس امر پر آپ کی بیعت کی کہ اﷲ کی راہ میں کسی ملامت گر کی پروا نہ کریں گے اور حق ہی کہیں گے چاہے کڑوا کیوں نہ ہو۔ دار ہجرت میں مہاجرین و انصار کی مواخات قائم کرتے ہوئے رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا: اﷲ کی خاطر بھائی بھائی بن جاؤ۔سب سے پہلے آپ نے علی بن ابوطالب کا ہاتھ پکڑ کر فرمایا: یہ میرا بھائی ہے۔ حضرت ابوذر غفاری اس موقع پر مدینہ میں موجود تھے، آپ نے انھیں حضرت منذر بن عمرو ساعدی کا بھائی قرار دیا۔محمد بن عمر نے اس مواخات کا انکار کیا ہے، وہ کہتے ہیں: جنگ بدر کے بعد مواخات کے احکام ختم ہو گئے تھے، جبکہ حضرت ابوذرجنگ خندق کے بعد مدینہ آئے۔

جمادی الاولیٰ ۴ھ میں غزوۂ ذات الرقاع ہوا۔ حضرت ابوذر غفاری کو مدینہ کا عامل مقرر کر کے حضور صلی اﷲ علیہ وسلم چار سو صحابہ کی معیت میں نجد روانہ ہوئے۔ بنوغطفان کے ذیلی قبائل بنومحارب اور بنوثعلبہ کی سرکوبی آپ کے پیش نظر تھی۔اس غزوہ میں فوجوں کی مڈ بھیڑ تو نہ ہوئی، تاہم اہل ایمان نے پہلی بار صلوٰۃ خوف ادا کی۔

شعبان ۶ھ میں نبی صلی اﷲ علیہ وسلم غزوۂ بنو مصطلق(یا غزوۂ مریسیع) پر تشریف لے گئے توبھی حضرت ابوذرہی کو مدینہ کا قائم مقام حاکم مقرر فرمایا۔ دوسری روایت کے مطابق یہ ذمہ داری نمیلہ بن عبداﷲ کو سونپی گئی۔اس غزوہ میں مسلمانوں کے خلاف جتھہ بندی کرنے والے بنومصطلق کے سردارحارث بن ابوضرار کو شکست ہوئی۔

۶ھ آں حضور صلی اﷲ علیہ وسلم صلح حدیبیہ کے بعد مدینہ واپس تشریف لائے تو اپنی بیس اونٹنیاں رباح غلام کو دے کر چرنے کے لیے ذوقرد بھیج دیں ۔یہ مدینہ اور خیبر کے درمیان دودن کی مسافت پرجنگل میں واقع ایک چشمہ ہے ۔راتوں رات بنو غطفان (بنو فزارہ)کے عبدالرحمن بن عیینہ(یا عیینہ بن حصن) نے چالیس آدمیوں کے ساتھ غارت گری کی۔ حضرت ابوذر غفاری کے صاحب زادے کو جوگلہ بانی پرمامور تھے ،قتل کیا، ان کی بیوی کو اغوا کیا اورتمام اونٹنیاں ہنکا کر لے گئے۔ اتفاق سے سلمہ بن اکوع اور طلحہ بن عبیداﷲ کا غلام وہاں سے گزرے،وہ مدینہ کے قریب واقع جبل سلع پرچڑھ گئے اور مدد کی پکاردی، وا صباحاہ!ہائے صبح کی غارت گری! پھر لٹیروں کا پیچھا کیا اور بے مثال تیر اندازی کر کے اونٹ چھڑا لیے۔سلمہ کی پکار سن کر مدینہ کے شہ سواربھی رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کے پاس جمع ہو گئے۔ سب سے پہلے حضرت مقداد بن اسود پہنچے، پھر حضرت عباد بن بشر، حضرت سعد بن زید، حضرت اسید بن ظہیر، حضرت عکاشہ بن محصن، حضرت محرز بن نضلہ، حضرت حارث بن ربعی اور حضرت عبید بن زید آ گئے۔ آپ نے حضرت سعد بن زید کو امیر مقرر کر کے اس دستے کو حملہ آوروں کے پیچھے بھیجا، پھر آپ خود پانچ سو صحابہ کے ساتھ ذوقرد پہنچے اور پہاڑ کے دامن میں ایک دن قیام کیا۔

حویطب بن عبدالعزیٰ زمانۂ جاہلیت میں حضرت ابوذر غفاری کے دوست تھے، لیکن اسلام سے دور رہے۔ صلح حدیبیہ میں مشرکوں کی طرف سے شریک ہوئے۔ مسلمان عمرۂ قضا کے لیے آئے تو حویطب اور سہیل ہی تھے جنھوں نے سورج غروب ہونے سے پہلے پہلے صحابہ کو مکہ خالی کرنے کو کہا۔فتح مکہ کا موقع آیاتو اپنی اسلام دشمنی کی وجہ سے حویطب کو سخت خوف لاحق ہوا،اپنے گھر والوں کوامن کی جگہ بھیج کر وہ مکہ سے فرار ہورہے تھے کہ عوف کے باغ میں حضرت ابوذرسے ملاقات ہو گئی۔حویطب واپس ہونے لگے، لیکن حضرت ابوذر نے روک کر کہا: خوف نہ کرو، تم امن میں ہو، اپنے گھر لوٹ جاؤ۔ حویطب نے کہا: مجھے راستے ہی میں قتل کر دیا جائے گا، پھر میرے اہل و عیال بھی مختلف جگہ بٹے ہوئے ہیں۔ حضرت ابوذر نے کہا: اپنے گھر والوں کو لے آؤ ،میں خودتمھیں واپس پہنچاؤں گا۔چنانچہ حویطب کے دروازے پر کھڑے ہو کر انھوں نے امان کا نعرہ لگایا۔ رسول اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم کو معلوم ہوا تو فرمایا: چند لوگوں کا استثنا کر کے میں تمام اہل مکہ کوپہلے ہی امان دے چکا ہوں۔ اب حضرت ابوذر حویطب سے مخاطب ہوئے، بہت سا خیر تم نے کھو دیا، لیکن ابھی خیر کثیر باقی ہے۔ محمد صلی اﷲ علیہ وسلم کے پاس جا کر اسلام قبول کر لے۔وہ تمام انسانوں سے زیادہ بردبار اور سب سے بڑھ کرصلۂ رحمی کرنے والے ہیں ۔حویطب آپ کے پاس آئے، حضرت ابوذر کے سکھائے ہوئے کلمات ’السلام علیک أیہا النبی و رحمۃ اﷲ‘ سے سلام کیاتو آپ نے ’وعلیک السلام‘ فرما کر پوچھا: تم حویطب ہو؟ انھوں نے اثبات میں جواب دیا او ر کلمۂ شہادت پڑھا۔آپ بہت خوش ہوئے اور فرمایا: اس اﷲ کا شکر ہے جس نے تجھے ہدایت دی۔ اسلام لانے کے بعدحویطب نے حضرت ابوذرکو چالیس ہزار درہم قرض دیے، وہ حنین اور طائف کے غزوات میں حضرت ابوذرکے ساتھ شریک ہوئے۔

۸ھ جنگ حنین میں بنوغفار کا علم حضرت ابوذرغفاری نے اٹھا رکھا تھا۔ انھوں نے اس غزوہ میں حاصل ہونے والے مال غنیمت میں سے سو اونٹ حویطب کو دے دیے۔

۹ھ آں حضور صلی اﷲ علیہ وسلم غزوۂ تبوک کے لیے روانہ ہوئے تو منافق ایک ایک کر کے چھٹتے گئے۔جب کوئی لشکر چھوڑتا تو صحابہ آپ کو خبر کرتے۔آپ فرماتے: جانے دو، اگر اس میں کوئی بھلائی ہوئی تو اﷲ تم سے ملا دے گا۔ حضرت ابوذر غفاری مخلص مومن تھے، تاہم چلتے چلتے ان کا اونٹ مچل گیا ، وہ لشکر سے پیچھے رہ گئے تو صحابہ نے آپ کو بتایا کہ حضرت ابوذر رک گئے ہیں۔آپ نے پھر فرمایا: انھیں کچھ نہ کہو۔ ان میں بھلائی ہو گی تو اﷲ ضرور تم سے ملا دے گا۔ اونٹ کی ہٹ ختم نہ ہوئی تو انھوں نے کجاوہ اتارکر کمر پرلادا اور آپ کے پیچھے پیدل چل پڑے۔ نبی صلی اﷲ علیہ وسلم نے ایک جگہ پڑاؤ ڈالا تو ایک مسلمان نے انھیں دور چلتا دیکھ کر کہا: یا رسول اﷲ، یہ ایک شخص اکیلا چلاآ رہا ہے، آپ نے فرمایا: ابوذر ہو گا۔ غور سے دیکھ کرسب نے تائید کی، ہاں حضرت ابوذر ہی ہیں توفرمایا،’’اﷲ ابوذر پر رحم کرے ، اکیلا چلتا ہے، اکیلا وفات پائے گا اور اکیلا ہی اٹھایا جائے گا، اہل ایمان کی ایک جماعت اس کی گواہی دے گی۔‘‘

خریم بن فاتک اسدی ایمان لانے کے بعدمدینہ پہنچے۔جمعہ کا دن تھا ،اہل ایمان مسجد نبوی کی طرف رواں دواں تھے۔خریم نے مسجد کے دروازے پر اونٹ کو بٹھایا تو حضرت ابوذر نے ان کا استقبال کیا اور کہا: ہمیں آپ کے اسلام لانے کی خبر مل چکی ہے۔ مسجد میں چلیں اور جمعہ کی نماز پڑھ لیں۔

خلیفۂ اول سیدنا ابوبکر کی وفات کے بعد حضرت ابوذر غفاری نے شام میں سکونت اختیار کر لی۔

۱۵ھ میں خلیفۂ ثانی سیدنا عمر نے اہل ایمان کے لیے وظائف مقررکیے ۔انھوں نے حضرت حسن، حضرت حسین، حضرت ابوذر اور حضرت سلمان کے لیے اہل بدر کے برابر حصہ مقرر کیا، حالاں کہ یہ جنگ بدر میں شریک نہ ہوئے تھے۔ یہ ان اصحاب کی فضیلت کا اعتراف تھا۔

حضرت ابوذر بیت المقدس کی فتح میں سیدنا عمر کے ہم رکاب تھے۔

۲۳ھ میں حضرت معاویہ صائفہ کی مہم پر نکلے اور عموریہ تک گئے۔اس مہم میں حضرت عبادہ بن صامت، حضرت ابوایوب انصاری، حضرت ابوذر غفاری اور حضرت شداد بن اوس ان کے ساتھ تھے۔

۲۸ھ (یا ۲۹ھ)میں قبرص فتح ہوا، حضرت معاویہ کی قیادت میں جانے والے لشکر میں حضرت ابوذر غفاری، حضرت عبادہ بن صامت، ان کی اہلیہ حضرت ام حرام، حضرت مقداد بن اسود، حضرت ابوالدرداء اور حضرت شداد بن اوس شامل تھے۔

[باقی]

_____

* التوبہ ۹: ۱۰۰۔

____________

B