HomeQuranHadithMizanVideosBooksBlogs
مصنف : جاوید احمد غامدی

البیان: ابراہیم ۱۴: ۱- ۴ (۱)

ابراھیم ـــــــــ الحجر


یہ دونوں سورتیں اپنے مضمون کے لحاظ سے توام ہیں۔ پہلی سورہ میں جس چیز کے لیے قریش کو تنبیہ و تہدید ہے، دوسری میں اُسی کے حوالے سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو تسلی دی گئی ہے کہ مطمئن رہو، یہ قرآن بجاے خود ایک واضح حجت ہے، یہ نہیں مانتے تو اِنھیں اِن کے حال پر چھوڑ و، وہ وقت اب جلد آنے والا ہے، جب یہ آرزوئیں کریں گے کہ اے کاش، ہم نے یہ رویہ اختیار نہ کیا ہوتا۔

دونوں کا موضوع وہی انذار و بشارت ہے جو پچھلی سورتوں سے چلا آ رہا ہے۔ اتنا فرق، البتہ ہوا ہے کہ نتائج کا بیان زیادہ صریح ہو گیا ہے اور فہمایش تنبیہ، ملامت اور زجر و توبیخ میں تبدیل ہو گئی ہے۔

دونوں سورتوں میں خطاب اصلاً قریش ہی سے ہے اور اِن کے مضمون سے واضح ہے کہ ام القریٰ مکہ میں یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت کے مرحلۂ اتمام حجت میں نازل ہوئی ہیں۔

__________

  

بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
الٓرٰ کِتٰبٌ اَنْزَلْنٰہُ اِلَیْکَ لِتُخْرِجَ النَّاسَ مِنَ الظُّلُمٰتِ اِلَی النُّوْرِ بِاِذْنِ رَبِّھِمْ اِلٰی صِرَاطِ الْعَزِیْزِ الْحَمِیْدِ(۱) اللّٰہِ الَّذِیْ لَہٗ مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَمَا فِی الْاَرْضِ وَوَیْلٌ لِّلْکٰفِرِیْنَ مِنْ عَذَابٍ شَدِیْدِنِ(۲) الَّذِیْنَ یَسْتَحِبُّوْنَ الْحَیٰوۃَ الدُّنْیَا عَلَی الْاٰخِرَۃِ وَیَصُدُّوْنَ عَنْ سَبِیْلِ اللّٰہِ وَیَبْغُوْنَھَا عِوَجًا اُولٰٓءِکَ فِیْ ضَلٰلٍم بَعِیْدٍ(۳) وَمَآ اَرْسَلْنَا مِنْ رَّسُوْلٍ اِلَّا بِلِسَانِ قَوْمِہٖ لِیُبَیِّنَ لَھُمْ فَیُضِلُّ اللّٰہُ مَنْ یَّشَآءُ وَیَھْدِیْ مَنْ یَّشَآءُ وَھُوَ الْعَزِیْزُ الْحَکِیْمُ(۴) 

ـــــــــ ۱ ـــــــــ

اللہ کے نام سے جو سراسر رحمت ہے، جس کی شفقت ابدی ہے۔
یہ سورۂ ’الٓرٰ‘ ہے۱؎۔ یہ کتاب ہے جو ہم نے تمھاری طرف اتاری ہے، اِس لیے کہ تم لوگوں کو اندھیروں سے نکال کر روشنی میں لے آؤ،۲؎اُن کے پروردگار کے اذن سے۳؎، اُس خدا کے راستے کی طرف جو زبردست ہے، اپنی ذات میں آپ محمود ہے۴؎۔ وہی اللہ کہ آسمانوں اور زمین میں جو کچھ ہے، سب اُسی کا ہے۔ (سو) اُن کے لیے جو (اِس کتاب کے) منکر ہیں، ایک عذاب شدید کی تباہی ہے۔ (اُن کے لیے) جو دنیا کی زندگی کو آخرت پر ترجیح دیتے ہیں اور خدا کے راستے سے روکتے ہیں اور اُس میں ٹیڑھ پیدا کرنا چاہتے ہیں ۵؎۔ یہ لوگ بہت دور کی گمراہی میں ہیں۔(اِن کے لیے یہ کتاب اِن کی زبان میں اتاری گئی ہے) اور (ہمارا طریقہ یہی ہے کہ) ہم نے جو رسول بھی بھیجا ہے، اُس کی قوم کی زبان میں بھیجا ہے، اِس لیے کہ وہ اُنھیں اچھی طرح کھول کر سمجھا دے۔ پھر اللہ جس کو چاہتا ہے، (اپنے قانون کے مطابق۶؎) گمراہ کر دیتا ہے اور جس کو چاہتا ہے، ہدایت دیتا ہے۔ وہ زبردست ہے، بڑی حکمت والا ہے۔ ۱-۴

۱؎ اِس نام کے معنی کیا ہیں؟ اِس کے متعلق ہم نے اپنا نقطۂ نظر سورۂ بقرہ (۲) کی آیت ۱ کے تحت تفصیل کے ساتھ بیان کر دیا ہے۔

۲؎ اصل میں ’ظُلُمٰت‘ اور ’نُوْر‘ کے الفاظ آئے ہیں۔ اِن میں ’نُوْر‘ واحد اور ’ظُلُمٰت‘ جمع ہے۔ اِس کی وجہ یہ ہے کہ گمراہی ہزارراستوں سے آتی ہے، مگر ہدایت کا راستہ ایک ہی ہے جسے قرآن صراط مستقیم سے تعبیر کرتا ہے۔

۳؎ یہ اِس لیے فرمایا ہے کہ ہدایت کی توفیق خدا کے اذن سے ملتی ہے اور یہ اذن اُنھی لوگوں کو حاصل ہوتا ہے جو اپنے آپ کو اِس کا اہل ثابت کر دیتے ہیں۔

۴؎ چنانچہ وہی سزاوار ہے کہ اُس سے ڈرا جائے اور وہی حق دار ہے کہ اُس کی حمد کی جائے اور اُس سے امیدیں باندھی جائیں۔

۵؎ یعنی اُس کو خدا کے بجاے اپنے ٹھیراے ہوئے معبودوں کی طرف موڑدینا چاہتے ہیں۔

۶؎ یعنی اپنے اِس قانون کے مطابق کہ جو ہدایت کے مستحق ہیں، اُنھیں ہدایت دی جائے اور جو گمراہی چاہتے ہیں، اُنھیں اُسی کے اندھیروں میں بھٹکنے کے لیے چھوڑ دیا جائے۔

[باقی]

_____________

B