وہ مسافرکہ جس کے سفرکی ابتدامعدومیت سے ہوئی تھی،جووجود کی منزلیں طے کرتاہوا وادئ موت میں جا پہنچا تھا، جس نے برزخ میں کچھ دیرکے لیے قیام کیااورجس نے اب پھرسے وجود پالیاتھا؛وہ مسافر اب اپنی آخری منزل کی طرف رواں دواں ہوگا۔اس آخری منزل کوقرآن مجید کی زبان میں حشرکہتے ہیں۔
اس وقت یہ نہیں ہوگاکہ لوگ پہلی زندگی کی طرح وہاں جینے کاسامان یاکسی نئے امتحان کی تیاری کریں گے،بلکہ یہ سب ان کی جزااورسزاکے لیے ہوگا،چنانچہ سب اپنی اپنی عدالت کے لیے اپنے پروردگارکی طرف چل پڑیں گے:
وَنُفِخَ فِی الصُّوْرِ فَاِذَا ھُمْ مِّنَ الْاَجْدَاثِ اِلٰی رَبِّھِمْ یَنْسِلُوْنَ.(یٰس ۳۶: ۵۱)
’’اور صور پھونکاجائے گا تو یکایک وہ اپنی قبروں سے نکل کر اپنے پروردگار کی طرف چل پڑیں گے۔ ‘‘
پروردگار عالم کے حضور لوگوں کی پیشی کس طرح ہوگی،وہاں کاماحول کیساہوگا،سماعت کس طرح کی جائے گی اور فیصلہ سنانے کاطریقہ اوراس کی بنیادیں کیاہوں گی،یہ سب باتیں عدالت کے متعلق ہیں،ذیل میں ہم انھیں ذرا تفصیل سے بیان کرتے ہیں:
پیشی
خدائی عدالت دنیامیں بھی کسی نہ کسی درجے میں لگی رہتی ہے ،مگراس کے فیصلے بالعموم،قوموں کے بارے میں ہوا کرتے ہیں۔جوقوم علم اور اخلاق کھوبیٹھتی ہے،اللہ تعالیٰ اس کے زوال کا حکم سنادیتے ہیں اوراس طرح ’تِلْکَ الْاَیَّامُ نُدَاوِلُھَا بَیْنَ النَّاسِ‘ کے مصداق ا قوام عالم کاعروج او ر زوال ہوتا رہتا ہے۔جہاں تک آخرت کی عدالت کا معاملہ ہے تواس میں اقوام کے بجاے افرادکے فیصلے کیے جائیں گے۔یعنی وہاں لوگ اپنی مذہبی حیثیت اورسیاسی قومیت کے لحاظ سے نہیں ، بلکہ انفرادی اورذاتی حیثیت میں حاضرہوں گے۔البتہ،یہ ضرورہوگاکہ ان کے شریف یا شریر رہنماؤں کوبھی ان کے ساتھ ہی بلالیا جائے گا تاکہ نیک رہنماؤں کے لیے اس میں شرف اورتکریم ہواوربدکردار لیڈروں کے لیے ان کے پیرووں کی طرف سے لعنت اورپھٹکارہو:
وَکُلُّھُمْ اٰتِیْہِ یَوْمَ الْقِیٰمَۃِ فَرْدًا.(مریم ۱۹: ۹۵)
’’اورقیامت کے روز ان میں سے ہر ایک، اس کے حضورتنہا حاضر ہوگا۔‘‘
یَوْمَ نَدْعُوْا کُلَّ اُنَاسٍم بِاِمَامِھِمْ.(بنی اسرائیل ۱۷: ۷۱)
’’اس دن کو یاد رکھو جب ہم ہر گروہ کو اس کے رہنما سمیت بلائیں گے۔‘‘
کسی کی مجال نہ ہوگی کہ خداکے ہرکارے کی آوازپر لبیک نہ کہے اوراس کے دربارمیں جانے سے کترا جائے۔ جب آوازہ پڑے گاتوہرکسی کو جائے ہی بنے گی۔بلکہ اس کو نظر انداز کردینا تو بہت دورکی بات ہے،وہاں توسب لوگ، چاہے وہ خداکو مانتے رہے یااُس کے نافرمان اور انکاری رہے،اس طرح پیش ہوں گے کہ ان کی زبانوں پراس کی حمدکے ترانے ہوں گے:
یَوْمَءِذٍ یَّتَّبِعُوْنَ الدَّاعِیَ لاَعِوَجَ لَہٗ.(طٰہٰ ۲۰: ۱۰۸)
’’اس دن سب پکارنے والے کے پیچھے چل پڑیں گے۔اس سے ذراادھر ادھرنہ ہوسکیں گے۔‘‘
یَوْمَ یَدْعُوْکُمْ فَتَسْتَجِیْبُوْنَ بِحَمْدِہٖ.(بنی اسرائیل ۱۷: ۵۲)
’’یادرکھو،جس دن خداتمھیں پکارے گاتواس کی حمدکرتے ہوئے تم اس کے حکم کی تعمیل کروگے۔ ‘‘
انسان کاچہرہ آج بھی اس کے اندرکی ساری کہانی سناڈالتاہے،آخرت میں بھی اسی طرح ہوگا۔جولوگ اپنے انجام کے بارے میں پُرامید اورجولوگ خوف زدہ ہوں گے ،سب محض دیکھے سے پہچانے جائیں گے اور ان سب کے اعمال ان کے چہروں سے جھلکتے ہوں گے۔نیک عمل اپنی حقیقت میں سراسرروشنی ہیں،چنانچہ ان کے حاملین کے چہرے بھی روشن ہوں گے۔برے عمل اپنی حقیقت میں خاک اورسیاہی ہیں، اس لیے یہی کچھ ان کے حاملین کے چہروں پر چھا رہا ہو گا۔ مزید یہ کہ جن لوگوں نے دین میں عزیمتوں کی تاریخ رقم کی ہوگی،ان کے چہرے ہنستے ہوئے اور جنھوں نے خداکی نافرمانی میں مثالیں قائم کی ہوں گی،ان کے چہرے اترے ہوئے اورمرجھائے ہوئے ہوں گے:
وُجُوْہٌ یَّوْمَءِذٍ مُّسْفِرَۃٌ، ضَاحِکَۃٌ مُّسْتَبْشِرَۃٌ، وَّوُجُوْہٌ یَّوْمَءِذٍ عَلَیْھَا غَبَرَۃٌ، تَرْھَقُھَا قَتَرَۃٌ، اُولٰٓءِکَ ھُمُ الْکَفَرَۃُ الْفَجَرَۃُ.(عبس ۸۰: ۳۸۔۴۲)
’’کتنے چہرے اُس دن روشن ہوں گے،ہنستے ہوئے، ہشاش بشاش،اور کتنے چہرے ہوں گے کہ ان پراس دن خاک اڑتی ہوگی،سیاہی چھارہی ہو گی۔ یہی منکر ، یہی نافرمان ہوں گے۔‘‘
مجرم پیشی کے لیے لائے جائیں گے توہرایک کے ساتھ دوفرشتے ہوں گے۔ایک پیچھے سے ہانک رہاہوگا اور دوسرا گواہی دینے کے لیے اس کے ساتھ ہوگا۔دنیامیں جن لوگوں کو خدا کے سامنے جھکنے کی دعوت دی جاتی اوروہ اس سے اِعراض کرجاتے،وہاں حکم ہوگاکہ وہ اس کے حضور سجدہ ریز ہو جائیں،مگر وہ چاہنے کے باوجود ایسا نہ کرسکیں گے اور اِس طرح بھری عدالت میں ان کی فضیحت کا سامان ہوگا:
وَجَآءَ تْ کُلُّ نَفْسٍ مَّعَھَا سَآءِقٌ وََّشَھِیْدٌ.(ق ۵۰: ۲۱)
’’ہرشخص حاضرہوگیاہے،اس طرح کہ اس کے ساتھ ایک ہانک کرلانے والا ہے اورایک گواہی دینے والا۔‘‘
یَوْمَ یُکْشَفُ عَنْ سَاقٍ وَّیُدْعَوْنَ اِلَی السُّجُوْدِ فَلَا یَسْتَطِیْعُوْنَ، خَاشِعَۃً اَبْصَارُھُمْ، تَرْھَقُھُمْ ذِلَّۃٌ، وَقَدْ کَانُوْا یُدْعَوْنَ اِلَی السُّجُوْدِ وَھُمْ سٰلِمُوْنَ.(القلم ۶۸: ۴۲۔۴۳)
’’یہ اُس دن کو یاد رکھیں،جب بڑی ہلچل پڑے گی اور یہ سجدے کے لیے بلائے جائیں گے تو سجدہ نہ کر سکیں گے۔ ان کی آنکھیں جھکی ہوں گی،ان پرذلت چھا رہی ہوگی۔(یہ ظالم،اِن کی کمرتختہ ہوگئی)،یہ اُس وقت بھی سجدے کے لیے بلائے جاتے تھے ، جب یہ بھلے چنگے تھے۔‘‘
ماحول اور مزاج
عدالت کاماحول اوروہاں کاجومنظرہوگا ،اس کے بارے میں قرآن نے بیان کیاہے کہ بہت سے فرشتے، بالخصوص جبریل جیساخداکاانتہائی مقرب فرشتہ بھی صف باندھے ہوئے کھڑا ہو گا۔دراں حالیکہ جبریل علیہ السلام واحد شخصیت ہیں جن کے بارے میں قرآن نے ’ذِیْ قُوَّۃٍ عِنْدَ ذِی الْعَرْشِ مَکَیْنٍ‘ کہہ کرخدا کے ہاں اُن کے بلند مرتبہ ہونے کا بیان کیاہے۔ کسی کواللہ عزوجل کے سامنے خودسے بات کرنے کی اجازت نہیں ہوگی۔بات وہی کر پائے گا جسے اس کی طرف سے بات کرنے کااذن ملے گا۔مزید یہ کہ وہ شخص بات بھی وہی کرسکے گاجوہراعتبار سے صحیح ہو گی اورکسی بھی طرح عدل وانصاف سے ہٹی ہوئی نہ ہوگی:
لاَ یَمْلِکُوْنَ مِنْہُ خِطَابًا یَوْمَ یَقُوْمُ الرُّوْحُ وَالْمَلآءِکَۃُ صَفًّا،لاَّ یَتَکَلَّمُوْنَ اِلَّا مَنْ اَذِنَ لَہُ الرَّحْمٰنُ وَقَالَ صَوَابًا.(النبا ۷۸: ۳۷۔۳۸)
’’کسی کو یارانہیں کہ اُس کی طرف سے کوئی بات کرے۔ اُس دن جب فرشتے اور جبریل امین، (سب اس کے حضور میں) صف بستہ کھڑے ہوں گے۔ وہی بولیں گے جنھیں رحمٰن اجازت دے اور وہ صحیح بات کہیں۔‘‘
اس عدالت میں فرشتوں کااپناکوئی مقدمہ زیرسماعت نہ ہوگا،مگراس کے باوجودان کی یہ حالت ہوگی تواس سے اندازہ کیاجاسکتاہے کہ جن کے مقدمات باقاعدہ زیرسماعت ہوں گے، ان لوگوں پرکیابیت رہی ہوگی۔چنانچہ قرآن نے ان کے بارے میں بیان کیاہے کہ پروردگار کا اس قدرجلال ہوگاکہ سب آوازیں پست ہو جائیں گی۔ کسی کو جرأت نہ ہوگی کہ اونچی آوازمیں بات کرسکے۔اس کے سامنے کوئی اپنے عمل کی بنیادپر نخراکرے یاپھراس کونازوادا دکھائے،یہ توممکن ہی نہیں۔ اس کے حضورتو اونچے اونچے شملے سرنگوں ہو جائیں گے اوربڑی بڑی شخصیات نہایت مودبانہ انداز میں اور سرجھکائے ہوئے کھڑی ہوں گی:
وَخَشَعَتِ الْاَصْوَاتُ لِلرَّحْمٰنِ فَلَا تَسْمَعُ اِلَّا ھَمْسًا.(طٰہٰ ۲۰: ۱۰۸)
’’اور تمام آوازیں خداے رحمان کے آگے پست ہو جائیں گی،سو تم ایک دبی دبی سرگوشی کے سواکچھ نہ سنوگے۔‘‘
وَعَنَتِ الْوُجُوْہُ لِلْحَیِّ الْقَیُّوْمِ.(طٰہٰ ۲۰: ۱۱۱)
’’سب کے چہرے اس حیّ وقیّوم کے سامنے جھکے ہوں گے۔‘‘
وہاں ہراس شخص کی دادرسی کی جائے گی جس کی دنیامیں حق تلفی ہوئی یااس پرکوئی ظلم اور تعدی کی گئی۔اسی طرح ہراس شخص کوداد مل کررہے گی جس نے اپنے رب کافرماں برداربن کر زندگی گزاری اوراس کے بندوں کے حقوق کی ہردم نگہداشت کی۔وہ عدالت بدعنوان ،ظالم اور اندھی بھی نہیں ہوگی۔ اُس میںیہاں کی عدالتوں کی طرح ایسانہیں ہوگا کہ جرم کوئی کرے اور اس کے بدلے میں دَھرکوئی اورلیاجائے،کسی بڑے کے کہے سنے مجرمین بری ہو جائیںیا رشوت اور معاوضہ دے کرخلاصی پا جائیں یاپھرانھیں عدالت کے مقابلے میں کہیں اور سے مدد ہی مل جائے:
وَاتَّقُوْا یَوْمًا لَّاتَجْزِیْ نَفْسٌ عَنْ نَّفْسٍ شَیْءًا وَّلاَ یُقْبَلُ مِنْھَا شَفَاعَۃٌ وَّلَا یُؤْخَذُ مِنْھَا عَدْلٌ وَّلَا ھُمْ یُنْصَرُوْنَ.(البقرہ ۲: ۴۸)
’’اور اس دن سے ڈرو جب کوئی کسی کے کچھ بھی کام نہ آئے گا اور نہ اس سے کوئی سفارش قبول کی جائے گی اور نہ اس سے کوئی معاوضہ لیاجائے گا اور نہ لوگوں کو کوئی مددہی ملے گی۔‘‘
اس عدالت میں ان مظلوموں کی خصوصی طورپرشنوائی ہوگی جن پرظلم کرنے والے کوئی اور نہیں،ان کے اپنے تھے۔وہ اپنے کہ جنھیں ان کاکفیل بنایاگیاتھا،جنھیں ان کی حفاظت کی ذمہ داری دی گئی تھی ،مگریہ خودان پرظلم کرنے والے بن گئے۔چنانچہ اس قدر لاچاراور بے بس مظلوموں کامدعی عالم کاپروردگارخودبنے گا۔ اس طرح کی چارہ سازی کی ایک مثال قرآن مجید میں ان لفظوں میں بیان ہوئی ہے:
وَاِذَا الْمَوْءٗ دَۃُ سُءِلَتْ، بِاَیِّ ذَنْبٍ قُتِلَتْ.(التکویر ۸۱: ۸۔۹)
’’اور جب اُس سے، جو زندہ گاڑ دی گئی، پوچھا جائے گاکہ وہ کس گناہ پرماری گئی ؟‘‘
سماعت
سماعت شروع ہونے سے پہلے فرشتے اُن حضرات کاحوصلہ بڑھائیں گے جنھوں نے اللہ تعالیٰ کواپنارب مانا اور ہر قسم کے حالات میں اس کے عہد پر قائم رہے۔وہ انھیں تسلی دیں گے کہ آپ لوگوں کی سب آزمایشیں اب ختم ہو گئیں؛ پریشانیوں کے زمانے لَدگئے؛ مطمئن ہو رہیے، صلے کا دوربس آیاہی چاہتاہے:
اِنَّ الَّذِیْنَ قَالُوْا رَبُّنَا اللّٰہُ ثُمَّ اسْتَقَامُوْا تَتَنَزَّلُ عَلَیْھِمُ الْمَلآءِکَۃُ اَلَّا تَخَافُوْا وَلَا تَحْزَنُوْا وَاَبْشِرُوْا بِالْجَنَّۃِ الَّتِیْ کُنْتُمْ تُوْعَدُوْنَ.(حٓم السجدہ ۴۱: ۳۰)
’’جن لوگوں نے کہا:ہمارارب اللہ ہے، پھر اس پر ثابت قدم رہے، ان پریقیناًفرشتے اتریں گے (اور کہیں گے):اب نہ کوئی اندیشہ کرواورنہ ہی کوئی غم اور اس جنت کی خوش خبری قبول کروجس کاتم سے وعدہ کیا جاتا تھا۔‘‘
لوگوں کواس دن تین گروہوں میں تقسیم کردیاجائے گا۔ایک اصحاب یمین اوردوسرے اصحاب شمال اورتیسرے سابقون:
وَکُنْتُمْ اَزْوَاجًا ثَلٰثَۃً، فَاَصْحٰبُ الْمَیْمَنَۃِ، مَآ اَصْحٰبُ الْمَیْمَنَۃِ! وَاَصْحٰبُ الْمَشْءَمَۃِ، مآ اَصْحٰبُ الْمَشْءَمَۃِ! وَالسّٰبِقُوْنَ السّٰبِقُوْنَ اُولٰٓئِکَ الْمُقَرَّبُوْنَ.(الواقعہ ۵۶ :۷۔۱۱)
’’(اس دن)تم تین گروہوں میں تقسیم ہو جاؤ گے۔ ایک گروہ دائیں والوں کا ہو گا، سو کیا کہنے ہیں دائیں والوں کے! دوسرا بائیں والوں کا، تو کیا بدبختی ہے بائیں والوں کی! اور آگے والے تو پھر آگے والے ہی ہیں۔ وہی مقرب ہوں گے۔‘‘
عدالت میں انسان کے اچھے اوربرے اعمال کے دفتر پیش کردیے جائیں گے۔ جن کو کامیاب قرارپاناہے،ان کے دفتران کے دائیں ہاتھ میں اورجنھیں مجرم قرارپاناہے ،ان کے دفتران کے بائیں ہاتھ میں دیے جائیں گے۔ مجرمین کے ہاتھ ان کی پیٹھ پیچھے باندھ دیے گئے ہوں گے،اس لیے ان کے دفتران کوپیچھے ہی سے تھمائے جائیں گے۔ ان کا دائیں ہاتھ میں دیا جانا،اصل میں نجات اورکامیابی کی اور بائیں ہاتھ میں دیاجانا،خسران اورناکامی کی علامت ہو گا۔۱
دائیں ہاتھ والوں کی خوشی اس موقع پر دیدنی ہو گی۔ وہ دوسروں کو آگے بڑھ بڑھ کر اپنا اعمال نامہ دکھائیں گے۔ اس کے مقابلے میں بائیں ہاتھ والے حسرت کا اظہار اور اپنے متوقع انجام پر واویلا کر رہے ہوں گے۔ اول الذکر کے ساتھ نرمی کاخصوصی معاملہ کیاجائے گااوران کی چھوٹی موٹی کوتاہیوں کونظراندازکردیاجائے گا:
فَاَمَّّا مَنْ اُوْتِیَ کِتٰبَہٗ بِیَمِیْنِہٖ فَیَقُوْلُ ھَآؤُمُ اقْرَءُ وْا کِتٰبِیَہْ، اِنِّیْ ظَنَنْتُ اَنِّیْ مُلٰقٍ حِسَابِیَہْ، فَھُوَ فِیْ عِیْشَۃٍ رَّاضِیَۃٍ .... وَاَمَّّا مَنْ اُوْتِیَ کِتٰبَہٗ بِشِمَالِہٖ فَیَقُوْلُ یٰلَیْتَنِیْ لَمْ اُوْتَ کِتٰبِیَہْ، وَلَمْ اَدْرِ مَا حِسَابِیَہْ، یٰلَیْتَھَا کَانَتِ الْقَاضِیَۃَ.(الحآقہ ۶۹: ۱۹۔ ۲۱، ۲۵۔ ۲۷)
’’پھر جس کا نامۂ اعمال اُس کے دہنے ہاتھ میں دیا جائے گا، وہ کہے گا: لو پڑھو ، میرانامہ اعمال، مجھے یہ خیال رہا کہ (ایک دن)مجھے اپنے اس حساب سے دوچار ہوناہے۔چنانچہ وہ ایک دل پسند عیش میں ہو گا ... اورجس کانامۂ اعمال اُس کے بائیں ہاتھ میں دیا جائے گا، وہ کہے گا: اے کاش، میرا یہ نامۂ اعمال مجھے نہ ملتا اور میرا حساب کیا ہے، میں اس سے بے خبر ہی رہتا۔ اے کاش ، وہی (موت)فیصلہ کن ہو جاتی۔‘‘
فَاَمَّّا مَنْ اُوْتِیَ کِتٰبَہٗ بِیَمِیْنِہٖ فَسَوْفَ یُحَاسَبُ حِسَابًا یَّسِیْرًا وَّیَنْقَلِبُ اِلآی اَھْلِہٖ مَسْرُوْرًا، وَاَمَّا مَنْ اُوْتِیَ کِتٰبَہٗ وَرَآءَ ظَھْرِہٖ فَسَوْفَ یَدْعُوْا ثُبُوْرًا وَّیَصْلٰی سَعِیْرًا.(الانشقاق ۸۴: ۷۔۱۲)
’’پھرجس کانامۂ اعمال اس کے دہنے ہاتھ میں دیا جائے گا، اس کاحساب نہایت ہلکاہوگا اوروہ خوش خوش اپنے لوگوں کی طرف پلٹ آئے گا۔اورجس کا نامۂ اعمال اس کے پیچھے ہی سے (اس کے بندھے ہوئے ہاتھوں میں) پکڑا دیا جائے گا،وہ جلد موت کی دہائی دے گا اور دوزخ میں جا پڑے گا۔‘‘
عالم حشرمیں جب زمین اپنے پروردگارکے نورسے روشن ہوجائے گی تولاعلمی اورجہالت کے تمام بادل چھٹ جائیں گے اوروہ سارے حقایق واضح طورپرنظرآنے لگیں گے جوآج سورج کی روشنی میں بہت سے لوگوں کودکھائی نہیں دیتے۔دین کے اندرجوکچھ اختلافات پیداکردیے گئے ہیں،ان کی حقیقت بھی اس دن بالکل کھل کرلوگوں کے سامنے آجائے گی:
وَاَشْرَقَتِ الْاَرْضُ بِنُوْرِ رَبِّھَا.(الزمر ۳۹: ۶۹)
’’اور زمین اپنے پروردگار کے نور سے روشن ہو جائے گی۔‘‘
لَقَدْ کُنْتَ فِیْ غَفْلَۃٍ مِّنْ ھٰذَا فَکَشَفْنَا عَنْکَ غِطَآءَکَ فَبَصَرُکَ الْیَوْمَ حَدِیْدٌ.(ق ۵۰: ۲۲)
’’تم اس دن سے غفلت میں رہے تو (آج) وہ پردہ ہم نے ہٹا دیا جو تمھارے آگے پڑا ہوا تھا اور آج تو تمھاری نگاہ بہت تیزہے۔‘‘
اِلَی اللّٰہِ مَرْجِعُکُمْ جَمِیْعًا فَیُنَبِّءُکُمْ بِمَا کُنْتُمْ فِیْہِ تَخْتَلِفُوْنَ.(المائدہ ۵: ۴۸)
’’تم سب کو(ایک دن)اللہ ہی کی طرف پلٹنا ہے، پھر وہ تمھیں بتا دے گا سب چیزیں جن میں تم اختلاف کرتے رہے ہو۔‘‘
عدالت کی کارروائی کاباقاعدہ آغاز ہوگا۔ لوگوں سے ان کے فرائض اورذمہ داریوں کے بارے میں سوال ہوگا۔ نبیوں کواورجن قوموں کی طرف وہ بھیجے گئے،ان سب کوبلاکرپوچھاجائے گا۔یہ سوال اس لیے ہوگاکہ پیغمبروں کی اپنے فرائض سے سبک دوشی اوران کی سرخروئی ثابت ہواوردوسری طرف مکذبین کے لیے قطع عذربھی ہوجائے۔یعنی یہ بات آخری درجے میں ثابت ہوجائے کہ جن لوگوں نے اپنی راہ کھوٹی کی،انھوں نے اندھیرے میں نہیں،بلکہ پورے دن کی روشنی میں ٹھوکرکھائی،چنانچہ وہ اس بات کے سزاوارہیں کہ ان سے مواخذہ کیاجائے:
فَلَنَسْئَلَنَّ الَّذِیْنَ اُرْسِلَ اِلَیْھِمْ وَلَنَسْءَلَنَّ الْمُرْسَلِیْنَ.(الاعراف ۷: ۶)
’’توہم ان لوگوں سے پرسش کریں گے جن کی طرف رسول بھیجے گئے اور خود رسولوں سے بھی ہم استفسار کریں گے۔‘‘
سماعت کے دوران عملوں کے دفترکھول دیے جائیں گے۔لوگوں سے شہادتیں لی جائیں گی۔نبی اپنے مخاطبین کے بارے میں اوردوسرے گواہ اپنے متعلقین کے بارے میں شہادتیں دیں گے۔ مدعیٰ علیہ سے عذرپیش کرنے اور معذرتیں بیان کرنے کاحق مکمل طورپرچھین لیاجائے گا۔ان کے مونہوں پرمہرکرکے ان کے دیگراعضاسے خودان کے بارے میں گواہی دلوادی جائے گی،حتیٰ کہ زمین بھی ان کے سب افعال کی خبرسنادے گی:
وَوُضِعَ الْکِتٰبُ وَجِایْءَ بِالنَّبِیّٖنَ وَالشُّھَدَآءِ.(الزمر ۳۹: ۶۹)
’’اورعمل کادفتر سامنے رکھ دیاجائے گا اور سب پیغمبر بلائے جائیں گے اور گواہ بھی۔‘‘
اَلْیَوْمَ نَخْتِمُ عَلٰٓی اَفْوَاھِھِمْ وَتُکَلِّمُنَآ اَیْدِیْھِمْ وَتَشْھَدُ اَرْجُلُھُمْ بِمَا کَانُوْا یَکْسِبُوْنَ.(یٰس ۳۶: ۶۵)
’’آج ہم ان کے مونہوں پر مہر کردیں گے اور ان کے ہاتھ ہمیں بتائیں گے اور ان کے پاؤں شہادت دیں گے جو کچھ وہ کرتے رہے ہیں ۔‘‘
یَوْمَئِذٍ تُحَدِّثُ اَخْبَارَھَا بِاَنَّ رَبَّکَ اَوْحٰی لَھَا.(الزلزال ۹۹: ۴۔۵)
’’اس دن ،تیرے پروردگار کے ایما سے، وہ (زمین) اپنی سرگذشت سنا ڈالے گی۔‘‘
اِتمام حجت کے لیے ان صالحین کے بیان بھی دلوائے جائیں گے جن کولوگوں نے خدائی کا منصب دیے رکھا۔ سیدنا مسیح علیہ السلام سے ان کی اوران کی ماں کی الوہیت کے بارے میں پوچھا جائے گاتووہ عرض کریں گے کہ انھوں نے ایساکرنے کاکبھی بھی حکم نہیں دیا۔ان کایہ بیان اس بات کا ثبوت ہوگاکہ گمراہ ہونے والوں کے پاس اپنی گمراہی کے لیے کوئی دلیل نہیں تھی،بلکہ یہ ان کاخودساختہ عقیدہ اورسیدنامسیح پرایک صریح بہتان تھا۔اسی طرح معبودقراردیے جانے والے دیگرصالحین سے پوچھاجائے گاکہ ان کے پیرووں کی گمراہی میں کیاان کابھی کوئی حصہ تھا؟ وہ سب بھی اپنی صفائی پیش کردیں گے اوراُنھی کو خطاوارقراردیں گے جو بڑی عقیدت اورمحبت سے دنیامیں ان کوپوجتے رہے ہوں گے:
وَاِذْ قَالَ اللّٰہُ یٰعِیْسَی ابْنَ مَرْیَمَ ءَ اَنْتَ قُلْتَ لِلنَّاسِ اتَّخِذُوْنِیْ وَاُمِّیَ اِلٰھَیْنِ مِنْ دُوْنِ اللّٰہِ ،قَالَ سُبْحٰنَکَ مَا یَکُوْنُ لِیْٓ اَنْ اَقُوْلَ مَا لَیْسَ لِیْ بِحَقٍّ، اِنْ کُنْتُ قُلْتُہٗ فَقَدْ عَلِمْتَہٗ، تَعْلَمُ مَا فِیْ نَفْسِیْ وَلَآ اَعْلَمُ مَا فِیْ نَفْسِکَ، اِنَّکَ اَنْتَ عَلَّامُ الْغُیُوْبِ.(المائدہ ۵: ۱۱۶)
’’اور یاد کرو ،جب اللہ پوچھے گا:اے مریم کے بیٹے عیسیٰ،کیاتم نے لوگوں سے کہاتھاکہ خداکے سواتم مجھے اورمیری ماں کومعبودبنالو۔وہ عرض کرے گا:سبحان اللہ، یہ کس طرح رواتھاکہ میں وہ بات کہوں جس کا مجھے کوئی حق نہیں ہے۔ اگر میں نے یہ بات کہی ہوتی تو آپ کے علم میں ہوتی،(اس لیے کہ)آپ جانتے ہیں جوکچھ میرے دل میں ہے اورآپ کے دل کی باتیں میں نہیں جانتا۔تمام چھپی ہوئی باتوں کے جاننے والے تو آپ ہی ہیں۔‘‘
وَیَوْمَ یَحْشُرُھُمْ وَمَا یَعْبُدُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰہِ فَیَقُوْلُ ءَ اَنْتُمْ اَضْلَلْتُمْ عِبَادِیْ ھٰٓؤُلَآءِ اَمْ ھُمْ ضَلُّوا السَّبِیْلَ. قَالُوْا سُبْحٰنَکَ مَا کَانَ یَنْبَغِیْ لَنَآ اَنْ نََّتَّخِذَ مِنْ دُوْنِکَ مِنْ اَوْلِیَآءَ وَ لٰکِنْ مَّتَّعْتَھُمْ وَ اٰبَآءَ ھُمْ حَتّٰی نَسُوا الذِّکْرَ وَکَانُوْا قَوْمًام بُوْرًا.(الفرقان ۲۵: ۱۷۔۱۸)
’’یہ اس دن کادھیان کریں،جس دن وہ انھیں اکٹھا کرے گا اور ان کو بھی جنھیں یہ خدا کے سوا پوجتے ہیں۔ پھر پوچھے گا: کیا تم نے میرے ان بندوں کو گمراہ کیا تھا یا یہ خود ہی راہ راست سے بھٹک گئے تھے۔ وہ جواب دیں گے کہ پاک ہے تیری ذات،ہمیں یہ حق کہاں تھا کہ ہم تیرے سوا دوسروں کو کارساز بنائیں! مگر (ہوا یہ کہ) تو نے ان کو اور ان کے باپ دادا کو خوب سامان زندگی دیا، یہاں تک کہ وہ تیری یاددہانی بھلابیٹھے اورایسے لوگ بن گئے جوبرباد ہوکر رہے۔‘‘
عملوں کاساراریکارڈ،گواہوں کی شہادتیں اورخداکے مقابل میں معبوداورمطاع قرار دیے جانے والے حضرات کی لاتعلقی کے بعدگویاہرشے واضح ہوجائے گی۔ہرایک کاکیادھرااس کے سامنے ہوگا۔جن کے عمل جس حدتک صالح رہے اورجنھوں نے جب جب برائی کی،یہ اپنی آنکھوں کے سامنے یہ سب کچھ موجود پائیں گے :
فَمَنْ یَّعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّۃٍ خَیْرًا یَّرَہٗ، وَمَنْ یَّعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّۃٍ شَرًّا یَّرَہٗ.(الزلزال ۹۹: ۷۔۸)
’’پھر جس نے ذرہ برابر بھلائی کی ہے، وہ بھی اسے دیکھ لے گا، اور جس نے ذرہ برابر برائی کی ہے، وہ بھی اُسے دیکھ لے گا۔‘‘
[باقی]
_____
۱ فیصلے سے پہلے ہی اصحاب یمین اوراصحاب شمال میں تقسیم کردیاجانااس لیے ممکن ہوگاکہ وہ عدالت کسی ظاہربین قاضی کی نہیں، خداے علّام الغیوب کی ہو گی جو ہر کسی کے عمل اور ان کے نتائج سے واقف ہو گا۔ بلکہ جن لوگوں کامعاملہ نیکی اور بدی میں بالکل واضح ہوتا ہے، انھیں تو موت کے وقت ہی جنت اوردوزخ کی بشارت دے دی جاتی ہے اور مجرموں کی تو دھول دھپے سے طبیعت بھی درست کی جاتی ہے (النحل ۱۶: ۲۸، ۲۹، ۳۲۔ الانفال ۸: ۵۰) ۔
____________