خلع اور فسخ نکاح کے باب میں اسلامی نظریاتی کونسل کی سفارش یہ ہے کہ عدالتیں دونوں میں فرق کریں۔ خلع شوہر کی رضا مندی ہی سے ہو سکتا ہے۔ عدالت، البتہ شکایت یا تنازعے کی صورت میں نکاح منسوخ کر سکتی ہے۔ یہ سفارش ان دنوں زیربحث ہے۔ سوال یہ ہے کہ اس بحث کی ضرورت کیوں پیش آئی؟
ہمارے ہاں نظریاتی کونسل کی تشکیل مسلکی عصبیت کی بنیاد پر ہوتی ہے۔ اس کی وجہ سیاسی ہے۔ چونکہ سماج کی مذہبی ساخت مسلکی ہے، اس لیے انھی علما کو معاشرتی پذیرائی حاصل ہوتی ہے جو کسی خاص مسلک سے وابستہ ہیں۔ ایک طرف محراب و منبر ان کے ہاتھ میں ہیں اور دوسری طرف انھوں نے اپنی سیاسی جماعتیں بھی بنا رکھی ہیں۔ یوں اہل اقتدار ان کی خوش نودی کے لیے ایسے علما کو کونسل میں شامل کرتے ہیں جو کسی مسلکی عصبیت کے حامل ہوں۔ جب انتخاب اس معیار پر ہو تو پھر کسی فرد کا علم و فضل بے معنی ہو جاتا ہے، اگر وہ مسلکی عصبیت نہیں رکھتا۔ اس کا نقصان یہ ہوتا ہے کہ کونسل کی راے روایتی علما کے فہم دین کے تابع ہو جاتی ہے۔ اس فہم دین کی ایک خصوصیت یہ ہے کہ اس میں فقہ اور شریعت کو مترادف سمجھا جاتا ہے۔ یوں ہر فیصلے میں قدیم فقہی آرا کو ماخذ دین کے طور پر قبول کیا جاتا ہے اور ان سے انحراف جرم سمجھا جاتا ہے۔ اسی سوچ کے تحت ائمۂ اربعہ پر اتفاق کو اجماع امت قرار دیا گیا ہے۔
ہمارا جدید طبقہ اس تفہیم دین سے اختلاف کرتا ہے۔ اس کے نزدیک یہ تعبیر ایک خاص دور کے سیاسی و سماجی حالات کے تابع ہے۔ اس کے تحت اگر اس وقت سیاسی معاملات میں کوئی موقف اختیار کیا گیا ہے تو مسلمانوں کو ایک حاکم قوت تصور کرتے ہوئے۔ جیسے دارالحرب اور دارالاسلام کی تعبیر ہے۔ اسی طرح سماجی حوالے سے وہ ایک پدر سرانہ سماج تھا۔ مرد کی برتری ایک مستحکم سماجی قدر تھی۔ اس لیے معاشرتی معاملات میں بھی جو آرا قائم کی گئیں، ان میں مرد کی بالادست حیثیت ہی کو پیش نظر رکھا گیا۔ یہ طبقہ خیال کرتا ہے کہ آج کا سیاسی و سماجی تناظر یک سر تبدیل ہو چکا۔ آج دنیا دارالحرب اور دارالاسلام میں منقسم نہیں ہے۔ آج کی قومی ریاستیں مذہب کی بنیاد پر تشکیل نہیں پاتیں۔ اسی طرح معاشرت بھی مخلوط ہو چکی۔ جن ممالک کو ہم غیر مسلم کہتے ہیں، ان کے شہریوں کی ایک بڑی تعداد مسلمان ہے۔ ان حالات میں وہ آرا اب قابل عمل نہیں رہیں جو فقہا نے دنیا کو دو حصوں میں منقسم کرتے ہوئے قائم کیں۔ اسی طرح، آج کا معاشرہ پدر سرانہ نہیں رہا۔ خاتون معاشی ذمہ داریوں کی ادائیگی میں مرد کے ساتھ شریک ہے۔ اسے اعلیٰ تعلیم تک رسائی حاصل ہے اور یوں اس کی قوت فیصلہ ماضی کے مقابلے میں کہیں زیادہ مستحکم اور قابل بھروسا ہے۔ اس طرح وہ اسباب ختم ہو چکے جو مرد کی بالادستی کی بنیاد تھے۔ لہٰذا اب دین کی وہ تعبیر قابل عمل نہیں ہو سکتی جو کسی پدرسرانہ سماج میں اختیار کی گئی ہے۔
اگر اسلامی نظریاتی کونسل کی تشکیل میں ان دونوں نقطہ ہاے نظر کا امتزاج پیش نظر رکھا جاتا تو میرا خیال ہے کہ اعتراض کے امکانات کم ہو جاتے۔ اسی طرح کونسل کی آرا بھی زیادہ متوازن ہو جاتیں۔ مشرف دور میں کسی حد تک یہ توازن قائم کرنے کی کوشش ہوئی۔ میرا احساس ہے کہ اس وقت کونسل کی جو سفارشات سامنے آئیں، ان میں قیل و قال کی گنجایش کم تھی۔ اختلاف کا امکان ظاہر ہے کہ ہمیشہ رہتا ہے، لیکن پھر اس کی نوعیت علمی ہوتی ہے اور اس کا خیرمقدم کیا جانا چاہیے۔ یہ سماج کے علمی ارتقا کا اظہار ہے۔ کونسل کی موجودہ تشکیل سماجی تقسیم کو تقویت پہنچا رہی ہے۔ ایک طبقہ خیال کرتا ہے کہ اس کو نمایندگی سے محروم رکھا گیا ہے۔ اس طرح اعتراض کی نوعیت علمی نہیں رہتی اور بحث کسی اور طرف نکل جاتی ہے۔
میرے نزدیک روایت سے وابستگی قابل تحسین ہے اور اس کا اہتمام ہونا چاہیے، لیکن اس کے دو شرائط ہیں: ایک یہ ہے کہ روایت بارہ سو سال نہیں، چودہ سو سال پر محیط ہو۔ اس کا آغاز رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت سے ہونا چاہیے، فقہی مسالک کی تاسیس سے نہیں۔ دوسری شرط یہ ہے کہ اس پر کتاب اللہ کی حاکمیت قائم ہو۔ ہر روایت اور ہر راے اسی میزان پر تولی جائے۔ اگر یہ دونوں باتیں پیش نظر رہیں تو روایت مسلسل آگے بڑھتی رہتی ہے۔ پھر جدید و قدیم کی تقسیم بے معنی ہو جاتی ہے۔ پھر ماضی حال کے راستے، مستقبل سے جڑ جاتا ہے۔ موجودہ تقسیم انقطاع کو لازم کرتی ہے۔ پھر قدیم جدید کا انکار کرتا ہے اور جدید قدیم کا۔ نظریاتی کونسل کی سفارشات پر اعتراض اسی کا اظہار ہے۔
یہ وہ پس منظر ہے جس میں ہمارے ہاں اسلامی نظریاتی کونسل کی سفارشات زیربحث ہیں۔ اگر ہم ذہنوں میں موجود قدیم و جدید کے فرق سے بلند ہو کر اس سفارش پر نظر ڈالیں تو اختلاف کو ختم کیا جا سکتا ہے۔ نظریاتی کونسل نے تفویض طلاق کا حق تسلیم کیا ہے۔ گویا عورت کا یہ حق مانا گیا ہے کہ وہ اگر خاوند کے ساتھ نہیں رہنا چاہتی تو اپنی مرضی سے الگ ہو سکتی ہے، اگر معاہدۂ نکاح میں شوہر نے یہ حق اسے تفویض کیا ہے۔ یہ صحیح ہے کہ خلع طلاق کامطالبہ ہے جو شوہر سے کیا جائے گا۔ اگر وہ طلاق دے دیتا ہے تو نزاع پیدا نہیں ہوتا۔ اختلاف تو اس وقت ہوتا ہے جب شوہر اس پر آمادہ نہ ہو۔ عام اصول یہی ہے کہ جب اختلاف ہو جائے تو معاملہ عدالت کے پاس جاتا ہے۔ خلع کا مقدمہ بھی عدالت میں جائے گا۔ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم اور خلفاے راشدین کے فیصلوں سے واضح ہے کہ عدالت صرف اس بات کی تحقیق کرے گی کہ بیوی فی الواقعہ ساتھ نہیں رہنا چاہتی۔ اسباب کا کھوج لگانا اس کی ذمہ داری نہیں ہے۔ یہ ثابت ہونے پر وہ لازماً دونوں میں علیحدگی کرا دے گی۔ عدالت عورت کو زبردستی روک نہیں سکتی۔ یہ خلع کے تصور کے خلاف ہے۔
عدالت کا یہ حکم اصلاً فسخ نکاح ہے۔ تاہم چونکہ تنسیخ نکاح کی دوسری صورتیں بھی ہو سکتی ہیں، اس لیے اسے الگ سے خلع کہا جا سکتا ہے۔ اس ابہام سے بچنے کے لیے بہتر ہے کہ عائلی قوانین ۱۹۶۱ء کی دفعہ ۸ میں تبدیلی کر دی جائے۔ اسلامی نظریاتی کونسل ۲۰۰۸ء میں یہ سفارش کر چکی جب ایک جدید اسلامی اسکالر ڈاکٹر خالد مسعود اس کے سربراہ تھے۔ اس وقت تجویز کردہ وضاحت کے الفاظ یہ ہیں: ’’بیوی کے مطالبۂ طلاق پر، عدالت شوہر کو طلاق دینے کے لیے کہے اور وہ طلاق دے دے تو یہ خلع ہے۔ لیکن شوہر طلاق نہ دے یا عدالت میں حاضر نہ ہو یا مفقود الخبر ہو جائے اور عدالت یک طرفہ کارروائی کے ذریعے سے نکاح ختم کر دے تو یہ ’فسخ نکاح‘ ہو گا‘‘۔
میرا خیال ہے کہ اس وضاحت کے بعد کسی مزید ترمیم کی ضرورت نہیں تھی۔ اسلامی نظریاتی کونسل کا مقدمہ جس طرح سامنے آیا ہے، اس سے پدرسرانہ سوچ کا تاثر لیا گیا۔ ۲۰۰۸ء میں جب کونسل خود ایک وضاحت تجویز کر چکی تو اس بحث کا ایک دفعہ پھر اٹھانا غیرضروری ہے۔ مجھے کبھی کبھی خیال ہوتا ہے کہ خود کونسل کے اراکین، اس ادارے کی تاریخ سے پوری طرح واقف نہیں ہیں۔ ورنہ وہ پہیہ دوسری بار ایجاد نہ کرتے۔ بہ صورت دیگر یہ اسی مسلکی عصبیت کا اظہار ہے، کونسل جس کی تشکیلی اساس ہے کیونکہ ۲۰۰۸ء کی نظریاتی کونسل میں بعض چہرے ایسے تھے جو شخصی علمی وجاہت کے باعث ادارے کے رکن بنے نہ کہ کسی مسلکی عصبیت کے تحت۔
____________