خیال و خامہ
o
نغمہ زن ہوتی ہے نے پھر نیستاں کی یاد میں
پھر کوئی نالہ قفس میں آشیاں کی یاد میں
راکھ کر ڈالا تھا جس نے آرزوؤں کا جہاں
عمر گزری ہے اُسی آتش بہ جاں کی یاد میں
رنگ ، خوشبو ، موسم گل ؛ پھر مہ و سال خزاں
بلبلیں ماتم کناں ہیں گلستاں کی یاد میں
بادہ کش حاضر ہیں ، پر وہ گرمی محفل کہاں
مے کدہ ویران ہے پیر مغاں کی یاد میں
پور آدم ، جس نے بخشی ہے تجھے یہ زندگی
چند لمحے اُس خداے مہرباں کی یاد میں
ہم نہیں ہوں گے تو یہ گوشہ تمھارے شہر میں
پھر بسا لے گا کوئی آشفتگاں کی یاد میں
وہ سراپا آشتی ، مہر و محبت کا بروز
اِس بڑھاپے میں بھی دل روتا ہے ماں کی یاد میں
____________