HomeQuranHadithMizanVideosBooksBlogs
مصنف : جاوید احمد غامدی

البیان: الرعد ۱۳: ۲۷- ۴۳ (۴)

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم 

(گذشتہ سے پیوستہ)  


وَیَقُوْلُ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا لَوْلَآ اُنْزِلَ عَلَیْہِ اٰیَۃٌ مِّنْ رَّبِّہٖ قُلْ اِنَّ اللّٰہَ یُضِلُّ مَنْ یَّشَآءُ وَیَھْدِیْٓ اِلَیْہِ مَنْ اَنَابَ(۲۷) اَلَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَتَطْمَءِنُّ قُلُوْبُھُمْ بِذِکْرِاللّٰہِ اَلَا بِذِکْرِ اللّٰہِ تَطْمَءِنُّ الْقُلُوْبُ(۲۸) اَلَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ طُوْبٰی لَھُمْ وَحُسْنُ مَاٰبٍ(۲۹) 
کَذٰلِکَ اَرْسَلْنٰکَ فِیْٓ اُمَّۃٍ قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِھَآ اُمَمٌ لِّتَتْلُوَا عَلَیْھِمُ الَّذِیْٓ اَوْحَیْنَآ اِلَیْکَ وَھُمْ یَکْفُرُوْنَ بِالرَّحْمٰنِ قُلْ ھُوَ رَبِّیْ لَآ اِلٰہَ اِلَّا ھُوَ عَلَیْہِ تَوَکَّلْتُ وَاِلَیْہِ مَتَابِ(۳۰) وَلَوْ اَنَّ قُرْاٰنًا سُیِّرَتْ بِہِ الْجِبَالُ اَوْ قُطِّعَتْ بِہِ الْاَرْضُ اَوْ کُلِّمَ بِہِ الْمَوْتٰی بَلْ لِّلّٰہِ الْاَمْرُ جَمِیْعًا اَفَلَمْ یَایْءَسِ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓا اَنْ لَّوْ یَشَآءُ اللّٰہُ لَھَدَی النَّاسَ جَمِیْعًا وَلَا یَزَالُ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا تُصِیْبُھُمْ بِمَا صَنَعُوْا قَارِعَۃٌ اَوْتَحُلُّ قَرِیْبًا مِّنْ دَارِھِمْ حَتّٰی یَاْتِیَ وَعْدُاللّٰہِ اِنَّ اللّٰہَ لَا یُخْلِفُ الْمِیْعَادَ(۳۱) وَلَقَدِ اسْتُھْزِئَ بِرُسُلٍ مِّنْ قَبْلِکَ فَاَمْلَیْتُ لِلَّذِیْنَ کَفَرُوْا ثُمَّ اَخَذْتُھُم فَکَیْفَ کَانَ عِقَابِ(۳۲) 
اَفَمَنْ ھُوَ قَآءِمٌ عَلٰی کُلِّ نَفْسٍم بِمَا کَسَبَتْ وَجَعَلُوْا لِلّٰہِ شُرَکَآءَ قُلْ سَمُّوْھُمْ اَمْ تُنَبِّءُوْنَہٗ بِمَا لَا یَعْلَمُ فِی الْاَرْضِ اَمْ بِظَاھِرٍ مِّنَ الْقَوْلِ بَلْ زُیِّنَ لِلَّذِیْنَ کَفَرُوْا مَکْرُھُمْ وَصُدُّوْا عَنِ السَّبِیْلِ وَمَنْ یُّضْلِلِ اللّٰہُ فَمَا لَہٗ مِنْ ھَادٍ(۳۳) لَھُمْ عَذَابٌ فِی الْحَیٰوۃِ الدُّنْیَا وَلَعَذَابُ الْاٰخِرَۃِ اَشَقُّ وَمَا لَھُمْ مِّنَ اللّٰہِ مِنْ وَّاقٍ(۳۴) 
مَثَلُ الْجَنَّۃِ الَّتِیْ وُعِدَ الْمُتَّقُوْنَ تَجْرِیْ مِنْ تَحْتِھَا الْاَنْھٰرُ اُکُلُھَا دَآءِمٌ وَّظِلُّھَا تِلْکَ عُقْبَی الَّذِیْنَ اتَّقَوْا وَّ عُقْبَی الْکٰفِریْنَ النَّارُ(۳۵)
وَالَّذِیْنَ اٰتَیْنٰھُمُ الْکِتٰبَ یَفْرَحُوْنَ بِمَآ اُنْزِلَ اِلَیْکَ وَمِنَ الْاَحْزَابِ مَنْ یُّنْکِرُ بَعْضَہٗ قُلْ اِنَّمَآ اُمِرْتُ اَنْ اَعْبُدَ اللّٰہَ وَلَآ اُشْرِکَ بِہٖ اِلَیْہِ اَدْعُوْا وَاِلَیْہِ مَاٰبِ(۳۶) وَکَذٰلِکَ اَنْزَلْنٰہُ حُکْمًا عَرَبِےًّا وَلَءِنِ اتَّبَعْتَ اَھْوَآءَ ھُمْ بَعْدَ مَا جَآءَ کَ مِنَ الْعِلْمِ مَالَکَ مِنَ اللّٰہِ مِنْ وَّلِیٍّ وَّ لَا وَاقٍ(۳۷)
وَلَقَدْ اَرْسَلْنَا رُسُلاً مِّنْ قَبْلِکَ وَجَعَلْنَا لَھُمْ اَزْوَاجًَا وَّذُرِّیَّۃً وَمَاکَانَ لِرَسُوْلٍ اَنْ یَّاْتِیَ بِاٰیَۃٍ اِلَّا بِاِذْنِ اللّٰہِ لِکُلِّ اَجَلٍ کِتَابٌ(۳۸) یَمْحُوا اللّٰہُ مَا یَشَآءُ وَیُثْبِتُ وَعِنْدَہٗٓ اُمُّ الْکِتٰبِ(۳۹)
وَاِنْ مَّا نُرِیَنَّکَ بَعْضَ الَّذِیْ نَعِدُھُمْ اَوْ نَتَوَفَّیَنَّکَ فَاِنَّمَا عَلَیْکَ الْبَلٰغُ وَعَلَیْنَا الْحِسَابُ(۴۰) اَوَلَمْ یَرَوْا اَنَّا نَاْتِی الْاَرْضَ نَنْقُصُھَا مِنْ اَطْرَافِھَا وَاللّٰہُ یَحْکُمُ لَا مُعَقِّبَ لِحُکْمِہٖ وَھُوَ سَرِیْعُ الْحِسَابِ(۴۱) وَقَدْ مَکَرَ الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِھِمْ فَلِلّٰہِ الْمَکْرُ جَمِیْعًا یَعْلَمُ مَا تَکْسِبُ کُلُّ نَفْسٍ وَسَیَعْلَمُ الْکُفّٰرُ لِمَنْ عُقْبَی الدَّارِ(۴۲)
وَیَقُوْلُ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا لَسْتَ مُرْسَلاً قُلْ کَفٰی بِاللّٰہِ شَھِیْدًام بَیْنِیْ وَبَیْنَکُمْ وَمَنْ عِنْدَہٗ عِلْمُ الْکِتٰبِ(۴۳)
یہ منکرین کہتے ہیں کہ اِس کے پروردگار کی طرف سے اِس شخص پر کوئی نشانی کیوں نہیں اتاری گئی؟ اِن سے کہہ دو، اللہ جس کو چاہتا ہے (اپنے قانون کے مطابق ۱۵۹؎اِسی طرح)گمراہ کر دیتا ہے اور اپنا راستہ اُنھی کو دکھاتا ہے جو اُس کی طرف متوجہ ہوں ۱۶۰؎، جو ایمان لائے اور جن کے دل اللہ کی اِس یاددہانی سے مطمئن ہوتے ہیں۔ سنو، اللہ کی اِس یاددہانی ہی سے دلوں کو اطمینان حاصل ہوتا ہے۱۶۱؎۔جو ایمان لائے اور جنھوں نے اچھے عمل کیے، اُن کے لیے خوش خبری ہے اور اچھا ٹھکانا ہے۔۲۷-۲۹
(اے پیغمبر)، ہم نے اِسی طرح (ایسی کسی نشانی کے بغیر ہی) تم کو رسول بنا کر بھیجا ہے، ایک ایسی قوم میں جس سے پہلے بہت سی قومیں گزر چکی ہیں، اِس لیے کہ تم اُنھیں وہ پیغام سنا دو جو ہم نے تم پر وحی کیا ہے، ہر چند وہ خداے رحمن کا انکار کر رہے ہیں ۱۶۲؎۔ اِن سے کہوکہ وہی میرا پروردگار ہے، اُس کے سوا کوئی الٰہ نہیں، میں نے اُسی پر بھروسا کیا ہے اور (جانتا ہوں کہ ایک دن) اُسی کی طرف لوٹنا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اگر کوئی ایسا قرآن بھی ہوتا جس سے پہاڑ چلنے لگتے یا زمین ٹکڑے ہو جاتی یا اُس سے مردے بولنے لگتے، (تب بھی یہ ایمان لانے والے نہیں تھے۔۱۶۳؎ اِس لیے یہ تمھارا کام نہیں ہے کہ اِنھیں نشانیاں دکھاؤ)، بلکہ تمام اختیار اللہ ہی کے ہاتھ میں ہے۔ پھر کیا ایمان والے (یہ جان کر بھی اِن سے) مایوس نہیں ہوئے کہ اگر اللہ چاہتا تو سارے انسانوں کو ہدایت دے دیتا۱۶۴؎؟(تم دیکھتے رہو)، اِن منکروں پر برابر کوئی نہ کوئی آفت اِن کے اعمال کی پاداش میں آتی رہے گی یا اِن کی بستی کے قریب کہیں نازل ہوتی رہے گی، یہاں تک کہ اللہ کا وعدہ آن پورا ہو۱۶۵؎۔یقینا اللہ اپنے وعدے کی خلاف ورزی نہ کرے گا۔ تم سے پہلے بھی رسولوں کا مذاق اڑایا گیا تو میں نے انکار کرنے والوں کو ڈھیل دی، پھر میں نے اُن کو پکڑا تو (دیکھو کہ) کیسی تھی میری سزا!۳۰-۳۲
پھر کیا وہ جو ایک ایک شخص کے عمل کی خبر رکھنے والا ہے (اور جو کسی بات پر قدرت نہیں رکھتے، یکساں ہیں ۱۶۶؎)اور اِنھوں نے (اِسی بنا پر) اللہ کے شریک بنا لیے ہیں؟ اِن سے کہو، اُن کے نام تو بتاؤ، کیا تم خدا کو ایسی چیز کی خبر دے رہے ہو جس سے وہ (خود اپنی) زمین میں بے خبر ہے یا پھر اوپری باتیں کر رہے ہو۱۶۷؎؟ (نہیں)، بلکہ اِن منکروں کے لیے اِن کا فریب۱۶۸؎ خوشنمابنا دیا گیا ہے اور یہ راہ حق سے روک دیے گئے ہیں۔ (حقیقت یہ ہے کہ) جنھیں اللہ (اپنے قانون کے مطابق) گمراہی میں ڈال دے، اُنھیں کوئی راہ دکھانے والا نہیں ہے۔ اُن کے لیے دنیا کی زندگی میں بھی عذاب ہے اور آخرت کا عذاب تو اِس سے کہیں سخت ہے اور اُنھیں کوئی اللہ سے بچانے والا نہ ہوگا۔ ۳۳-۳۴
(اِس کے برخلاف) اللہ سے ڈرنے والوں کے لیے جس جنت کا وعدہ کیا گیا ہے، اُس کی تصویر یہ ہے کہ اُس کے نیچے نہریں بہ رہی ہوں گی، اُس کے پھل دائمی اور اُس کا سایہ لازوال ہو گا۱۶۹؎۔یہ اُن لوگوں کا انجام ہے جو خدا سے ڈرنے والے ہیں اورمنکروں کا انجام یہ ہے کہ اُن کے لیے دوزخ کی آگ ہے۔۳۵
ہم نے جن کو کتاب عطا فرمائی ہے۱۷۰؎، وہ اُس چیز سے خوش ہیں جو تم پر نازل کی گئی ہے اور (تمھارے منکرین کے) گروہوں میں ایسے بھی ہیں جو اُس کی بعض چیزوں کو نہیں مانتے۱۷۱؎۔ تم اُن کو صاف کہہ دو کہ مجھے حکم دیا گیا ہے کہ خدا ہی کی بندگی کروں اور کسی کو اُس کا شریک نہ ٹھیراؤں۔ میں اُسی کی طرف بلاتا ہوں اور اُسی کی طرف میرا لوٹنا ہے۔ ہم نے یہ کتاب اِسی لیے۱۷۲؎ ایک فرمان کی حیثیت سے۳۷۱؎ عربی میں اتاری ہے۔ اب اگر تم اُس علم کے بعد۱۷۴؎ جو تمھارے پاس آ چکا ہے، اُن کی خواہشوں ۱۷۵؎ کی پیروی کرو گے تو اللہ کے مقابل میں نہ تمھارا کوئی مددگار ہو گا نہ بچانے والا۱۷۶؎۔ ۳۶-۳۷
(اِنھیں اعتراض ہے کہ تم کوئی نشانی کیوں نہیں دکھاتے اور دنیوی علائق کیوں رکھتے ہو)؟ ہم نے، (اے پیغمبر)، تم سے پہلے بھی رسول بھیجے اور (چونکہ انسان ہی تھے، اِس لیے) اُن کو بیویاں بھی دیں اور اولاد بھی۔ اور کسی رسول کے اختیار میں نہیں تھا کہ وہ اذن الہٰی کے بغیر کوئی نشانی لا دکھائے۔ (ہر چیز کے لیے ایک وقت ہے اور) ہر وقت کے لیے ایک نوشتہ ہے۔ اللہ جو کچھ چاہتا ہے، (اُس میں سے) مٹا دیتا ہے اور جس چیز کو چاہتا ہے، باقی رکھتا ہے اور اِس نوشتے کی اصل اُسی کے پاس ہے۱۷۷؎۔۳۸-۳۹
ہم جو وعید اِنھیں سنا رہے ہیں، اُس کا کچھ حصہ ہم تمھیں دکھا دیں گے یا تم کو وفات دیں گے (اور اِس کے بعد اِن سے نمٹیں گے)۔ سو تمھاری ذمہ داری صرف پہنچانا ہے اور اِن کا حساب لینا ہمارا کام ہے۔ کیا یہ نہیں دیکھ رہے کہ اِس سرزمین کو ہم اِس کے کناروں سے کم کرتے ہوئے اِس کی طرف بڑھ رہے ہیں ۱۷۸؎۔اللہ فیصلہ کرتا ہے، کوئی اُس کے فیصلے کو ہٹانے والا نہیں ہے اور وہ بہت جلد حساب چکا دینے والا ہے۱۷۹؎۔ جو اِن سے پہلے گزرے ہیں، اُنھوں نے بھی چالیں چلی تھیں، مگر چالیں سب اللہ کے اختیار میں ہیں۔ ہر ایک جو کچھ کر رہا ہے، وہ اُس کو جانتا ہے۔ اور یہ منکرین بھی عنقریب جان لیں گے کہ آخرت کی کامیابی کس کے لیے ہے۔۴۰-۴۲
(یہ سب سننے کے بعد بھی تمھارے) منکرین کہتے ہیں کہ تم خدا کے بھیجے ہوئے نہیں ہو۔ کہہ دو، میرے اور تمھارے درمیان اللہ کی گواہی کافی ہے اور اُن لوگوں کی گواہی جن کے پاس کتاب کا علم ہے۱۸۰؎۔۴۳

۱۵۹؎ یعنی اپنے اِس قانون کے مطابق کہ جو لوگ انفس و آفاق کی نشانیوں سے آنکھیں بند کرکے قبول حق کے لیے معجزوں اور کرشموں کا مطالبہ کریں، وہ اِسی کے مستحق ہیں کہ گمراہ کر دیے جائیں۔

۱۶۰؎ ہدایت پانے کے لیے یہ لازمی شرط ہے۔ آدمی اگر ضد اور ہٹ دھرمی چھوڑ کر خدا کی طرف متوجہ ہو جائے تو اِس نعمت سے لازماً بہرہ یاب ہو جاتا ہے۔

۱۶۱؎ یعنی معجزوں اور کرشموں سے نہیں، بلکہ قرآن سے جب وہ اللہ تعالیٰ کی صفات، اُس کے سنن اور اُس کی معرفت کے دلائل و حجج سے حق کو پوری طرح مبرہن کر دیتا ہے۔ تاہم اِس کے لیے ضروری ہے کہ آدمی حق کو مجرد حق کی حیثیت سے پہچاننے کے لیے تیار ہو جائے۔

۱۶۲؎ یعنی اُس کی بندگی سے گریزاں ہیں اور اُس کے صفات و حقوق میں دوسروں کو اُس کا شریک بنا رہے ہیں۔ قرآن نے جگہ جگہ اِس رویے کو خدا کے انکار سے تعبیر کیا ہے۔

۱۶۳؎ یہ جواب شرط ہے جو اصل میں محذوف ہے۔

۱۶۴؎ یعنی اِن لوگوں کی طرف سے مایوس نہیں ہوئے، بلکہ ابھی تک امید لگائے بیٹھے ہیں کہ اِن کے مطالبات پورے کر دیے جائیں تو یہ ایمان لے آئیں گے، جبکہ اُن پر واضح کر دیا گیا ہے کہ اگر اِس طرح کا ایمان مطلوب ہوتا تو اِس کے لیے معجزے اور کرشمے دکھانے کے تکلف کی کیا ضرورت تھی۔ یہ کام تو اِس طرح بھی ہو سکتا تھا کہ اللہ آن کی آن میں سب کو اپنی قدرت سے مومن بنا دیتا۔ مگر اُس نے ایسا نہیں کیا، اِس لیے کہ وہ چاہتا ہے کہ لوگ عقل و بصیرت سے کام لیں اور اپنے اختیار و ارادہ کی آزادی کے ساتھ پورے شعور سے ایمان لائیں۔ یہی امتحان ہے جس میں انسانوں کو مبتلا کیا گیا ہے۔

۱۶۵؎ مطلب یہ ہے کہ اِن کی طلب کے مطابق معجزے اور کرشمے تو نہیں، مگر تنبیہات نازل ہوتی رہتی ہیں اور اِن کے کرتوتوں کی پاداش میں خود اِن پر یا اِن کے قرب و جوار کے لوگوں پر اِسی طرح نازل ہوتی رہیں گی تاکہ یہ بیدار ہوں اور پیغمبر کی دعوت پر غور کرنے کے لیے تیار ہو جائیں۔ اب یہ اِن پر ہے کہ اِنھی تنبیہات سے متنبہ ہو جائیں یا انتظار کرتے رہیں،یہاں تک کہ وہ آخری عذاب آجائے جس کی وعید اِنھیں سنائی جا رہی ہے۔

۱۶۶؎ جملے کا یہ حصہ اصل میں محذوف ہے۔ اِس سے متکلم کی نفرت و کراہت کا اظہار ہو رہا ہے۔ گویا اِس طرح کی بات کا ذکر بھی اُسے گوارا نہیں ہے۔

۱۶۷؎ یعنی بغیر سوچے سمجھے جو منہ میں آئے، کہہ رہے ہو۔ اِس جملے میں جو غصہ اور تحقیر چھپی ہوئی ہے، وہ محتاج بیان نہیں ہے۔

۱۶۸؎ شرک کے لیے یہ لفظ اِس لیے استعمال کیا ہے کہ اِس سے مذہبی پیشوا اپنے آپ کو بھی دھوکا دیتے ہیں اور اپنے اقتدار کو قائم رکھنے کے لیے لوگوں کو بھی دھوکے میں مبتلا کیے رکھتے ہیں۔

۱۶۹؎ اصل الفاظ ہیں: ’اُکُلُھَا دَآءِمٌ وَّظِلُّھَا‘۔ اِن میں ’ظِلُّھَا‘ کی خبر وضاحت قرینہ کی بنا پر حذف کر دی گئی ہے۔

۱۷۰؎ یہ صالحین اہل کتاب کا ذکر ہے، اِس لیے ’اُوْتُوا الْکِتٰبَ‘ کے بجاے ’اٰتَیْنٰھُمُ الْکِتٰبَ‘ کا اسلوب اختیار کیا گیا ہے۔ یہی لوگ تھے جنھوں نے بڑے ذوق و شوق کے ساتھ قرآن کا خیر مقدم کیا۔

۱۷۱؎ آگے کے مضمون سے واضح ہے کہ اِن بعض چیزوں میں سب سے نمایاں قرآن کی دعوت توحید تھی جسے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے منکرین میں سے بعض گروہ کسی حال میں تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں تھے۔

۱۷۲؎ اصل میں لفظ ’کَذٰلِکَ‘ ہے۔ یہ عربی زبان میں اُس معنی کے لیے بھی آتا ہے جسے ہم ’چنانچہ‘ یا ’اِسی لیے‘ جیسے الفاظ سے ادا کرتے ہیں۔

۱۷۳؎ یعنی ایک فرمان واجب الاذعان کی حیثیت سے جسے جھٹلایا گیا تو خدا کی عدالت اِسی زمین پر اپنا فیصلہ سنا دے گی۔

۱۷۴؎ یعنی وہ علم قطعی جس میں کسی ریب و گمان کی گنجایش نہیں ہے۔

۱۷۵؎ اصل میں لفظ ’اَھْوَآء‘ آیا ہے۔ اِس سے یہاں اِن گروہوں کی بدعتیں مراد ہیں، اِس لیے کہ اِن کی بنیاد علم پر نہیں، بلکہ خواہشوں ہی پر ہوتی ہے۔

۱۷۶؎ یہاں بھی خطاب اگرچہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ہے،مگر روے سخن منکرین ہی کی طرف ہے۔ استاذ امام کے الفاظ میں، اِس میں یہ بلاغت ہے کہ سننے والے اچھی طرح متنبہ ہو جائیں کہ اِس حکم کی خلاف ورزی کرکے جب پیغمبر بھی خدا کی پکڑ سے نہیں بچ سکتے تو تابہ دیگراں چہ رسد!

۱۷۷؎ مطلب یہ ہے کہ خدا کے فیصلے مبرم بھی ہوتے ہیں اور معلق بھی۔ پھر جو معلق ہیں، اُن میں وہ اپنی حکمت و مشیت کے تحت تبدیلی بھی کرتا ہے۔ لیکن جو کچھ کرتا ہے، وہی کرتا ہے، اِس لیے کہ اصل نوشتہ اُسی کے پاس ہے اور کسی دوسرے کے لیے اُس تک رسائی کا کوئی موقع نہیں ہے کہ وہاں جائے اور کسی نشانی کے ظہور کا وقت اپنی مرضی کے مطابق تبدیل کرلے۔

۱۷۸ یہ اُن فتوحات کی طرف اشارہ ہے جو اسلام کی دعوت کو مکہ کے اطراف میں حاصل ہو رہی تھیں۔ خدا نے اِسے اپنے اقدام سے تعبیر فرمایا ہے۔ مدعایہ ہے کہ اگر کوئی نشانی ہی دیکھنا چاہتے ہیں تو اِس نشانی کو کیوں نہیں دیکھتے کہ ہماری دعوت کے اثرات گردوپیش کے قبائل میں پھیلتے جا رہے ہیں، اِن کا دائرہ تنگ ہو رہا ہے اور صاف نظر آتا ہے کہ اِن کا یہ شہر بھی ایک دن اِس دعوت کی یلغار سے مفتوح ہو جائے گا۔

۱۷۹؎ رسولوں کی بعثت کے بعد اُن کے مخاطبین کے ساتھ کب کیا ہو گا؟ اِس کا فیصلہ اللہ کرتا ہے۔ یہ اُسی فیصلے کا حوالہ ہے۔ اِس کی حیثیت ایک قضاے مبرم کی ہوتی ہے، اِسے کوئی ٹال نہیں سکتا اور جس طرح کہ اوپر فرمایا ہے، رسول کی زندگی میں یا اُس کی وفات کے بعد یہ فیصلہ پورے انصاف کے ساتھ سنا دیا جاتا ہے۔

۱۸۰؎ یعنی صالحین اہل کتاب جن کا ذکر اوپر آیت ۶۳ میں ہو چکا ہے۔

کوالالمپور

۱۶/ مئی۲۰۱۲ء

___________________________

B