HomeQuranHadithMizanVideosBooksBlogs
مصنف : ڈاکٹر وسیم مفتی

حضرت مصعب بن عمیر رضی اﷲ عنہ (۲)

۱۳ ؍ نبوی کا موسم حج آیا تو حضرت مصعب بن عمیرمکہ واپس آ گئے۔ حضرت براء بن معرورکی قیادت میں بہتر مردوں اور دو عورتوں پر مشتمل انصارکا ایک قافلہ بھی ان کے ساتھ مکہ پہنچا۔ حضرت براء بڑے جوشیلے تھے، راستے میں کعبہ کی طرف رخ کر کے نماز پڑھتے آئے تھے اور رسول اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم کو یثرب لے جانا چاہتے تھے۔ حضرت جابر بن عبداﷲ کہتے ہیں: سب نے تائیدکی کہ ہم کب تک آپ کو مکہ کے پہاڑوں کے بیچ ترساں وپریشاں پھرتا دیکھیں گے۔مکہ پہنچنے کے بعد حضرت مصعب نے سب سے پہلے آں حضور صلی اﷲ علیہ وسلم سے ملاقات کی اور آپ کو انصار کی اسلام سے شیفتگی کے بارے میں بتایا۔ حضرت مصعب کی والدہ کو ان کی آمد کی اطلاع ملی توپیغام بھیجا: اے نافرمان، تو اس شہر میں آیا ہے جہاں میں ہوں۔سب سے پہلے مجھ سے نہ ملے گا؟انھوں نے جواب بھیجا: میں رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم سے پہلے کسی سے نہ ملوں گا۔چنانچہ آپ سے ملاقات کرنے کے بعد حضرت مصعب والدہ کے پاس گئے تواس نے کہا: تو ابھی تک صابئی ہے۔ حضرت مصعب نے کہا: میں رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کے دین پر ہوں جو اﷲ نے پسند کیا ہے۔ ماں نے کہا: تجھے وہ مرثیے پسند نہیں آئے جو میں نے تیرے حبشہ اور یثرب جانے کے بعد کہے؟ اس نے روکنا چاہاتو حضرت مصعب نے کہا: تو میری اتنی خیرخواہ اور مجھ پر اتنی مہربان ہے تو شہادت دے دے کہ اﷲ کے سوا کوئی معبود نہیں اور محمد اس کے بندے اور رسول ہیں۔ ماں نے جواب دیا: روشن ستاروں (ثریا) کی قسم، میں تیرے دین میں داخل نہ ہوں گی، مبادا میری راے کو برا اور عقل کو کمزور کہا جائے۔ میں اس دین پر رہتی ہوں اور تو اپنے دین پر قائم رہ۔

حضرت براء اور حضرت کعب بن مالک حرم جا کر آپ سے ملے اور حج کے بعد ایام تشریق (گیارہ ، بارہ، تیرہ ذی الحجہ )کے درمیانے دن، یعنی بارہ تاریخ کو عقبہ کے مقام پر یثرب کے زائرین سے آپ کی ملاقات طے کی۔ حضرت کعب بیان کرتے ہیں کہ تہائی رات گزر گئی ،اہل قافلہ سو گئے تو ہم تیتروں کی طرح کھسکتے ہوئے نکل آئے اور عقبہ کے پاس گھاٹی میں اکٹھے ہو گئے۔ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم گھر سے نکلے توراستے میں عباس بن عبدالمطلب مل گئے۔ انھیں لے کر آپ بھی عقبہ کی طرف روانہ ہوئے۔ عباس مسلمان نہ ہوئے تھے، تاہم اپنے بھتیجے محمد صلی اﷲ علیہ وسلم سے ہم دردی رکھتے تھے۔ عقبہ پہنچ کر سب سے پہلے انھوں ہی نے گفتگو شروع کی کہ محمدکی حفاظت ان کا خاندان کرتا ہے۔ تم ان کو لے جانا چاہتے ہو تو ان کی حفاظت بھی کرنا ہوگی،وہاں لے جا کر چھوڑنا ہے تو بہتر ہے انھیں یہیں رہنے دو۔ انصار نے جواب دیا: ہم نے آپ کی بات سمجھ لی ہے۔یا رسول اﷲ، اب آپ ارشاد فرمائیے۔ آپ کھڑے ہوئے ،قرآن کی آیات تلاوت کرنے کے بعدحقوق اﷲ اور حقوق العباد کا بیان فرمایا۔اسعد بن زرارہ نے اپنے ساتھیوں کو مخاطب کرتے ہوئے کہا: تلواریں تمھیں بھنبھوڑیں گی ، اگر صبر کر سکتے ہو تو ساتھ دو،ورنہ پیچھے ہٹ جاؤ۔ حضرت براء نے کہا: ہم آپ کی اس طرح حفاظت کریں گے، جس طرح اپنی عورتوں کی کرتے ہیں۔ابو الہیثم بن تیہان بولے: آپ بھی وعدہ کریں ،ہمیں چھوڑ کر واپس نہیں آئیں گے۔ آپ نے فرمایا: میرا جینا اور مرنا تمھارے ساتھ ہو گا۔ حضرت عبداﷲ بن رواحہ نے پوچھا: ہم کو کیا ملے گا؟ فرمایا: جنت اور اﷲ کی رضا۔ حضرت عبداﷲ نے کہا: بس سودا ہو چکا۔ پھر سب نے سمع و طاعت اور نصرت و حمایت کی بیعت کی ، آپ نے خزرج کے نو اور اوس کے تین نقیبوں کا تقرر بھی کیا۔ اسے بیعت عقبۂ ثانیہ کہتے ہیں۔

انصار کے بیعت کرلینے کے بعدنبی صلی اﷲ علیہ وسلم نے صحابہ کو مدینہ کی طرف ہجرت کا عمومی مشورہ دیتے ہوئے فرمایا: اﷲ نے تمھارے بھائی بند بنا دیے ہیں اور ایسا شہر دے دیا ہے جہاں تم اطمینان سے رہ سکتے ہو۔ حضرت مصعب بن عمیر نے ذی الحجہ ،محرم اور صفر کے ایام نبی صلی اﷲ علیہ وسلم کی معیت میں گزارے اور ربیع الاول کی ابتدا میں مدینہ لوٹ گئے، جبکہ آپ ۱۲ ؍ ربیع الاول کو شہر ہجرت پہنچے۔ حضرت براء بن عازب کی روایت ہے کہ سب سے پہلے حضرت مصعب بن عمیر اور(ان کے بعد) حضرت عمرو بن ام مکتوم ہمار ے پاس مدینہ آئے۔ یہ دونوں انصار کو قرآن سکھاتے تھے۔ ان کے بعد حضرت بلال، حضرت سعد اور حضرت عمار بن یاسرنے شہر نبی کو ہجرت کی۔ پھر سیدنا عمر بیس صحابہ کے جلو میں وارد ہوئے (بخاری، رقم ۳۹۲۵۔ احمد، رقم ۱۸۴۲۱)۔ حضرت براء کہتے ہیں کہ ہم نے حضرت مصعب سے پوچھا: رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کہاں ہیں؟ انھوں نے کہا: آپ اپنے گھر میں ہیں، البتہ آپ کے صحابہ پیچھے آرہے ہیں (احمد، رقم ۳)۔

مدینہ تشریف آوری کے بعدنبی صلی اﷲ علیہ وسلم نے مہاجرین و انصار میں مواخات قائم فرمائی۔آپ نے فرمایا: اﷲ کی خوشنودی کے لیے بھائی بھائی بن جاؤ۔اس موقع پر آپ نے حضرت ابو ایوب خالد بن زیدانصاری کو حضرت مصعب بن عمیر کا انصاری بھائی اور حضرت سعد بن ابی وقاص کو مہاجر بھائی قرار دیا۔ ایک روایت کے مطابق حضرت مصعب کی مواخات حضرت ذکوان بن عبدقیس سے ہوئی۔

۲ھ: غزوۂ بدر میں آں حضور صلی اﷲ علیہ وسلم نے حضرت مصعب بن عمیرکو سفیداور بڑا علم عطا کیا۔ اس غزوہ میں دو سیاہ پرچم بھی تھے، عقاب نامی پرچم سیدنا علی کے ہاتھ میں تھا، دوسرا سیاہ علم انصاری صحابی حضرت سعد بن معاذ (عبادہ) نے تھام رکھا تھا۔ ابن اسحاق کہتے ہیں کہ سفید پرچم پہلے سیدنا علی کے پاس تھا۔ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے جب دیکھا کہ مشرکین کے تینوں جھنڈے حجابہ و لواء کے ذمہ دار قبیلے بنوعبدالدار کے افرادابوعزیز بن عمیر،طلحہ بن ابوطلحہ اور نضر بن حارث نے اٹھائے ہوئے ہیں تو فرمایا: ہم عبدالدار سے وفا کا زیادہ حق رکھتے ہیں۔ چنانچہ جیش اسلامی کا علم عبدالدار کے سکڑ پوتے حضرت مصعب بن عمیر کو تھما دیا۔ جنگ میں شامل دو گھوڑوں میں سے ایک حضرت مصعب کے پاس اور دوسرا حضرت زبیر بن عوام کے پاس تھا۔ حضرت سعد بن خیثمہ اور حضرت مقداد بن اسود بھی باری باری ان گھوڑوں پر سوار ہوتے رہے۔ ایک روایت میں حضرت علی سے منقول ہے: جنگ بدر میں مقداد اکیلے شاہ سوار تھے ،ان کے علاوہ کسی کے پاس گھوڑا نہ تھا (نسائی، رقم ۸۲۳۔ احمد، رقم ۱۳۸، ۱۰۲۳)۔ سیدنا علی ہی سے مروی دوسری روایت ہے کہ (قریش کے سو گھوڑوں کا مقابلہ کرنے کے لیے )ہماری فوج میں دو ہی گھوڑے تھے ، زبیر کا اور مقداد بن اسود کا (دلائل النبوہ، بیہقی ۳/ ۳۹)۔ حضرت مقداد میسرہ پر متعین تھے، ان کا گھوڑا چتکبرا تھا،اس کا نام سبحہ (لمبی سیر) یا بعزجہ تھا۔ حضرت زبیر کے پاس اسلامی فوج کے میمنہ کی کمان تھی، ان کے گھوڑے کا نام یعسوب (شہد کی مکھیوں کا سردار، گھوڑے کی پیشانی کی سفیدی) تھا۔ حضرت سعد بن خیثمہ اور حضرت مصعب بن عمیر بھی باری باری انھی دو گھوڑوں پرسوار ہوکر لڑتے رہے (دلائل النبوہ، بیہقی ۳/۱۱۰)۔ تیسری روایت بیان کرتی ہے کہ اس معرکۂ فرقان میں دو گھوڑوں نے حصہ لیا: ایک مقداد بن اسود کا سبحہ ، دوسر ا سبل نامی جو مرثد بن ابو مرثد کے پاس تھا (ابن سعد)۔

معرکۂ فرقان میں عظیم الشان فتح کے بعد آں حضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے قید میں آنے والے مشرکوں کو صحابہ میں بانٹ دیا اور فرمایا: ان سے اچھا سلوک کرنا۔ حضرت مصعب کے سگے بھائی ابوعزیز(زرارہ) بن عمیر نے مشرکین قریش کی طرف سے جنگ میں حصہ لیاتھا، نضر بن حارث کے جہنم رسید ہونے کے بعد اسی نے مشرکین کا پرچم تھاما۔ اختتام جنگ پر وہ ایک انصاری حضرت ابو یسر کے حصے میں آیا۔ انصاری اسے رسی سے باندھ رہے تھے کہ حضرت مصعب وہاں سے گزرے اور کہا: اس کے ہاتھ خوب باندھ لو، اس کی ماں دھن دولت والی ہے، شاید فدیہ دے کر چھڑا لے۔ ابوعزیز نے کہا: بھائی جان، کیا میرے بارے میں یہی ہے تمھاری وصیت؟ حضرت مصعب نے جواب دیا: تم نہیں، یہ انصاری میرا بھائی ہے۔ حضرت مصعب اور ابوعزیز(ابوعزہ) کی والدہ خناس بنت مالک نے جو قریش کے لشکر میں شامل تھی کسی قریشی کے زیادہ سے زیادہ دیے جانے والے فدیہ کے بارے میں دریافت کیا۔ اسے چار ہزار درہم بتائے گئے تو اتنی ہی رقم ادا کر کے ابوعزیز(زرارہ) کو چھڑا لیا۔ زرارہ کا بعد میں مسلمان ہو نا یقینی نہیں۔

۳ ؍ شوال ۳ھ (۱۹ ؍ مارچ ۶۲۵ء) میں جنگ احد ہوئی۔جنگ کے آغاز میں رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے دریافت فرمایا: مشرکوں کا پرچم کس نے اٹھایا ہوا ہے؟ آپ کو بتایا گیا: بنو عبدالدار نے۔ فرمایا: ہم ان سے زیادہ حق وفا رکھتے ہیں۔ کہاں ہیں مصعب بن عمیر؟ وہ بولے: میں ادھر ہوں۔ آپ نے فرمایا: لو یہ علم۔ انصار کا پرچم آپ نے منذر بن حباب کو عطا کیا ۔ جنگ شروع ہوئی تو سعد بن ابو طلحہ قریش کا جھنڈا لے کر بڑھا۔اسے حضرت سعد بن ابی وقاص نے قتل کیا، پھر یکے بعد دیگرے مشرکوں کے پانچ رایت بردار مسلمانوں کے ہاتھوں جہنم رسید ہو چکے توپرچم حضرت مصعب بن عمیر کے چچا زاد ارطاۃ بن شرحبیل نے تھام لیا۔ حضرت مصعب ہی نے (دوسری روایت: حمزہ) آگے بڑھ کر ارطاۃ کوانجام تک پہنچایا۔ حضرت مصعب نے اس غزوہ میں رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کا خوب دفاع کیا۔ایک بار فتح حاصل کر لینے کے بعد مسلم فوج کفار کے اچانک حملے سے منتشر ہوئی توگھوڑے پر سوار ابن قمۂ لیثی نعرہ مارتے ہوئے بڑھا اور کہا: مجھے محمد کا پتا بتاؤ، اگر وہ بچ گئے تو میں نہ بچ پاؤں گا۔ حضرت مصعب نے جو علم مضبوطی سے تھامے ہوئے تھے، اس کا راستہ روکا۔ اس نے آپ کے شبہ میں ان کا دایاں ہاتھ کاٹ دیا۔انھوں نے پرچم بائیں ہاتھ میں لے لیا اور ’وَمَا مُحَمَّدٌ اِلاَّ رَسُوْلٌ قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِہِ الرُّسُلُ‘، ’’محمد تو بس اﷲ کے رسول ہیں،ان سے پہلے بھی رسول گزر چکے ہیں‘‘ (اٰل عمرٰن ۳: ۱۴۴) تلاوت کرنے لگے۔اس نے بایاں ہاتھ کاٹا تو حضرت مصعب نے علم بازوؤں میں لے کر سینے سے چمٹا لیا۔بد بخت ابن قمۂ نے تیرسے تیسرا وار کیا تو حضرت مصعب گر پڑے۔ بنوعبدالدار کے دو افراد سویبط بن سعد اور حضرت مصعب کے بھائی ابوالروم پرچم اٹھانے کو لپکے اور ابوالروم بن عمیر نے اسے اٹھا لیا۔ بنو مازن کی ام عمارہ(نسیبہ)بنت کعب بھی جو غازیان دین کی سقائی کررہی تھیں، اس موقع پر آپ کے دفاع میں شریک ہو گئیں۔ ابن قمۂ کے وار سے ان کے کاندھے پرگہرا گھاؤ آیا۔انھوں نے آگے بڑھ کر اس پرکئی جوابی وار کیے، لیکن وہ دشمن خدا دو زرہیں پہنے ہوئے تھا، اس لیے بچ گیا۔ حضرت مصعب کو شہید کرنے کے بعد ابن قمۂ اپنے لشکر میں لوٹا اور مشہور کر دیا کہ میں نے محمدکو (معاذ اﷲ) قتل کر دیا ہے۔عروہ بن زبیر کہتے ہیں کہ حضرت مصعب کو ابی بن خلف نے شہید کیا۔ ابی نے مکہ میں آپ کو (معاذاﷲ)قتل کرنے کی قسم کھائی تھی۔ آپ کو معلوم ہوا تو فرمایا: ان شاء اﷲ میں ہی اسے جہنم تک پہنچاؤں گا۔ غزوۂ احد کے دن اس نے زرہ پہن کر، ہتھیاروں سے لیس ہو کر ’’میں نہیں بچوں گا اگر محمد بچ گئے‘‘ کا نعرہ لگاتے ہوئے آپ پر حملہ کرنے کی کوشش کی تو حضرت مصعب نے اسے روکا اور آپ کے گرد لڑتے لڑتے شہید ہو گئے۔ اس اثنا میں رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کو سر سے پاؤں تک لوہے میں ملبوس ابی کی ہنسلی نظر آئی تو تاک کر اس کی زرہ کے کڑے اور خود کے درمیان نیزہ مارا۔اسے معمولی زخم آیا جس سے خون بھی نہ نکلا، لیکن وہ درد سے بیل کی طرح ڈکارنے لگا اور تاب نہ لاتے ہوئے جہنم واصل ہوا۔ دوسری روایت کے مطابق حضرت مصعب کی شہادت کے بعد رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے پرچم سیدنا علی کو تھما دیا۔ تیسری روایت ہے کہ علم ایک فرشتے نے ہاتھ میں لے لیا جس نے حضرت مصعب کی ہےئت اختیار کی ہوئی تھی۔ اختتام جنگ پر رسول اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم پکارے: مصعب، آگے بڑھو تو اس فرشتے نے آپ کی طرف منہ موڑ کر کہا: میں مصعب نہیں ہوں۔ آپ پہچان گئے کہ یہ تائید غیبی سے آنے والا فرشتہ ہے۔ حضرت مصعب کی والدہ خناس بنت مالک نے جنگ احد میں بھی مشرکوں کی طرف سے حصہ لیا۔

جنگ احد میں چار مہاجرین اور پینسٹھ انصار شہید ہوئے۔عروہ نے شہدا کی کل تعداد سینتالیس بتائی ہے ۔بائیس مشرک جہنم واصل ہوئے۔اختتام غزوہ پر رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے حضرت مصعب کا لاشہ میدان جنگ میں پڑا دیکھا تو ان کے حق میں دعا کی اوریہ آیت تلاوت فرمائی: ’مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ رِجَالٌ صَدَقُوْا مَا عَاہَدُوا اللّٰہَ عَلَیْْہِ فَمِنْہُمْ مَّنْ قَضٰی نَحْبَہٗ وَمِنْہُمْ مَّنْ یَّنْتَظِرُ وَمَا بَدَّلُوْا تَبْدِیْلاً‘، ’’اہل ایمان میں کتنے ہی ایسے لوگ بھی ہیں جنھوں نے وہ عہد سچ کر دکھایا جو اﷲ سے باندھ رکھا تھا،ان میں سے کچھ اپنا عہد نبھا چکے اور کچھ اس حال میں منتظر ہیں کہ وہ ذرا نہیں بدلے‘‘ (الاحزاب ۳۳: ۲۳۔ مستدرک حاکم، رقم ۴۹۰۵)۔ پھر فرمایا: اﷲ کا رسول گواہی دیتا ہے کہ تم روز قیامت اﷲ کے ہاں شہدا شمار ہو گے۔شہداے احد کی تدفین کا مرحلہ آیا تو سید الشہدا حضرت حمزہ کی میت کپڑے میں لپیٹ کر لائی گئی۔ نبی صلی اﷲ علیہ وسلم نے سات تکبیریں کہہ کر ان کی نماز جنازہ پڑھائی، پھر باقی شہدا کی میتیں لا کر ان کے پہلو میں رکھی گئیں اور آپ نے باری باری سب کی نماز جنازہ پڑھائی۔دو دوشہیدوں کو ایک ایک کفن پہنایا گیا۔ حضرت مصعب بن عمیر کے پاس ایک ہی دھاری دار چادر تھی جسے کفن بنایا گیا، اسے سر پر رکھتے تو پاؤں ننگے ہو جاتے ،پاؤں پر ڈالتے تو سر باہر نکل آتاآخر کار آں حضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا: اس کے پاؤں پر تھوڑی سی اذخر گھاس رکھ دو (ابوداؤد، رقم ۲۸۷۶)۔ حضرت مصعب کے بھائی حضرت ابو الروم، حضرت سویبط بن سعد اور حضرت عامر بن ربیعہ نے حضرت مصعب کو قبر میں اتارا۔ آں حضور صلی اﷲ علیہ وسلم شہداے احد کی قبروں پر اکثر جایا کرتے تھے۔ گھاٹی کے کنارے پر آ کر فرماتے: تم نے صبر کیا،تم پر سلامتی ہو۔ تمھارا آخرت کا گھر کیا ہی اچھا ہے۔ آپ نے تلقین کی کہ لوگو، یہ شہدا اﷲکے ہاں زندہ ہیں،ان کی زیارت کر کے انھیں سلام کیا کرو۔ اس ذات کی قسم جس کے قبضے میں میری جان ہے، قیامت تک جو مسلمان ان کے حضور سلام پہنچائے گا، یہ اسے جواب دیں گے۔ آپ کے بعد سیدنا ابوبکر، سیدنا عمر، سیدنا عثمان اور دوسرے صحابہ بھی شہدا کو سلام کرنے آتے رہے۔

غزوۂ احدسے فارغ ہونے کے بعد آں حضرت صلی اﷲ علیہ وسلم مدینہ پہنچے تو حضرت مصعب کی اہلیہ حضرت حمنہ بنت جحش (دوسری عورتوں کے ساتھ) آپ کے استقبال کے لیے آئیں۔ جنگ سے لوٹنے والے اصحاب نے ان کے بھائی حضرت عبداﷲ بن جحش کی شہادت کی خبرسنائی تو انھوں نے انا ﷲ وانا الیہ راجعون کہا اور دعاے مغفرت کی۔ ان کے ماموں حضرت حمزہ کی شہادت کے بارے میں بتایا گیا توبھی انھوں نے انا ﷲ کہہ کر مغفرت کی دعا مانگی اور جب انھیں اپنے شوہر حضرت مصعب بن عمیر کے شہید ہونے کا پتا چلا تو وہ چلائیں اور آہ و بکا کی۔ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے دیکھا کہ بھائی اور ماموں کی وفات کی خبرسن کر انھوں نے صبر کا مظاہرہ کیا، لیکن خاوند کی شہادت کا سن کر گریہ کیا تو فرمایا: عورت کے نزدیک اس کے شوہر کا ایک مقام ہوتا ہے (ابن ماجہ، رقم ۱۵۹۰)۔

حضرت مصعب بن عمیر نرم جلد والے ،خوب صورت تھے ،موزوں قد و قامت کی وجہ سے لوگوں کی نگاہوں کا مرکز بن جاتے تھے۔ان کے والدین خوش حال اور متمول تھے۔ چنانچہ وہ عمدہ لباس زیب تن کرتے ، بڑے بال رکھتے،خوشبو سے معطر رہتے اورحضرموت کے بنے ہوئے نوک دار(حضرمی) جوتے پہنتے۔اسلام لانے کے بعد حضرت مصعب کا ناز و نعم مفلوک الحالی میں بدل گیا، ان کی جلد سوکھ کر پھٹ گئی۔رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم ان کے زمانۂ خوش حالی کو یاد کر کے فرماتے: میں نے مکہ میں مصعب بن عمیرسے زیادہ عمدہ زلفوں والا، اعلیٰ لباس پہننے والا اور زیادہ خوش حال کسی کو نہیں دیکھا (مستدرک حاکم، رقم ۴۹۰۴)۔ سیدنا علی فرماتے ہیں: ہم رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کے ساتھ مسجدنبوی میں بیٹھے تھے کہ حضرت مصعب بن عمیرآئے ،ان کے جسم پر ایک چادر کے علاوہ کوئی کپڑا نہ تھا جس پر پوستین کے پیوند لگے ہوئے تھے۔ آپ انھیں دیکھ کر رو پڑے، کیونکہ وہ نازو نعم میں پلے ہوئے تھے اور آج کس حال میں تھے۔ پھر سوال فرمایا: ’’وہ دن کیسے ہوں گے جب تم میں سے کوئی صبح کو ایک جوڑا پہنے ہو گا، شام کو دوسرا لباس زیب تن کر لے گا۔ اس کے سامنے کھانے کی ایک رکابی رکھی جائے گی اور دوسری اٹھا لی جائے گی۔تم گھروں میں اس طرح چھپ کر بیٹھو گے، جس طرح کعبہ پردے میں لپٹا ہوتا ہے؟‘‘ صحابہ نے کہا: یا رسول اﷲ، ہم تب بہتر حال میں ہوں گے ،عبادت کے لیے فارغ ہوں گے اورروزی کی فکر نہ ہو گی۔آپ نے فرمایا: نہیں، تم (دینی اعتبار سے) اس دن سے آج بہتر ہو (ترمذی، رقم ۲۴۷۶)۔ دوسری روایت جو حضرت زبیر بن عوام سے مروی ہے، مختلف متن رکھتی ہے۔ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم قبا میں کچھ صحابہ کے ساتھ تشریف فرما تھے۔ حضرت مصعب بن عمیرآ کر کھڑے ہوئے، ان کی چادر ان کا جسم چھپانے سے کوتاہ دکھائی دے رہی تھی۔ صحابہ نے یہ دیکھ کرسر جھکا لیے۔ حضرت مصعب نے سلام کیا تو سب نے جواب دیا۔ تب آپ نے حضرت مصعب کی تعریف کی اور فرمایا: ’’میں نے اسے مکہ میں والدین کے پاس دیکھا ہے، انھوں نے اسے بہت نازوں سے، نعمتوں میں رکھا ہوا تھا۔ قریش کا کوئی نوجوان اس جیسا آسودہ حال نہ تھا،پھر اﷲ کی رضاجوئی میں ، اس کے رسول کی نصرت کرنے کے لیے اس نے یہ آسودگی ختم کر ڈالی۔سن لو ، تم پربھی حالات بدل بدل کر آئیں گے، حتیٰ کہ جب ایران و روم فتح ہو جائیں گے، تمھی میں سے کوئی ہو گا جو صبح کو ایک جوڑا پہنے ہو گا، شام کو دوسرا لباس زیب تن کر لے گا،صبح اسے ایک طرح کے کھانے کی رکابی پیش کی جائے گی، شام کے وقت دوسرے طعام کی صحنک دی جائے گی۔‘‘ صحابہ نے پوچھا: یا رسول اﷲ، ہم آج بہتر حال میں ہیں یا اس روز ہوں گے ؟آپ نے فرمایا: نہیں، تم اس دن سے آج کہیں بہتر ہو۔ سیدنا علی سے ایک اور روایت مروی ہے کہ نبی صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا: مجھ سے پہلے ہر نبی کو سات معزز رفقا دیے گئے تھے، جبکہ مجھے چودہ رفقا (یا نقیبوں) کی معیت حاصل ہے۔ سیدنا علی کہتے ہیں کہ ہم نے پوچھا: وہ کون ہیں؟ فرمایا: میں (علی)، میرے دونوں بیٹے (سیدنا حسن و حسین)، حضرت جعفر، حضرت حمزہ، حضرت ابوبکر، حضرت عمر، حضرت مصعب بن عمیر، حضرت بلال، حضرت سلمان، حضرت مقداد، حضرت ابوذر، حضرت عمار، اور حضرت عبداﷲ بن مسعود (ترمذی، رقم ۳۷۸۵)۔ احمدکی روایت ۱۲۶۲ میں حضرت مصعب کے بجاے حضرت حذیفہ کا ذکر ہے۔ حضرت مصعب کی عمر چالیس برس ہوئی۔

حضرت عبدالرحمن بن عوف روزہ سے تھے۔ وقت افطار کھانا لایا گیا تو کہا: حضرت مصعب بن عمیر کو شہید کر دیا گیا، حالاں کہ وہ مجھ سے بہتر تھے۔انھیں ایک چادر کا کفن پہنایا گیا،سر ڈھانپا جاتا تو پاؤں ننگے ہو جاتے اور اگر پاؤں ڈھانک دیے جاتے تو سر باہر نکل آتا۔ سیدنا حمزہ کو جام شہادت پلایا گیا، وہ بھی مجھ سے اچھے تھے۔ اب ہمیں دنیا میں خوب کشادگی دے دی گئی ہے، مجھے اندیشہ ہے کہ ہماری نیکیاں جلد چکا دی گئی ہیں۔ پھر وہ رونے لگے اور روتے روتے کھانا چھوڑ دیا (بخاری، رقم ۱۲۷۵)۔ خباب بن ارت فرماتے ہیں کہ ہم نے نبی صلی اﷲ علیہ وسلم کے ساتھ ہجرت کی ،اﷲ کی خوشنودی ہی ہمارا مقصد تھا، اس لیے ہمارا اجر اﷲ کے ہاں محفوظ ہو گیا ۔پھرہم میں سے وہ ہوئے جوکوئی صلہ پائے بغیر گزر گئے، جیسے حضرت مصعب بن عمیر، احد کے دن شہید ہوئے ۔انھیں کفن دینے کے لیے ہمیں ایک ہی دھاری دار چادر ملی۔اس سے ان کاسر ڈھانکتے تو پاؤں ننگے ہو جاتے اور اگر پاؤں پر ڈالتے تو سر باہر نکل آتا۔تب رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے ہمیں حکم دیاکہ ان کا سر ڈھانپ دیں اور پاؤں پر اذخر گھاس رکھ دیں۔ہم میں سے وہ لوگ بھی تھے جن کے ثمرات پختہ ہو گئے اوروہ اب ان سے محظوظ ہو رہے ہیں(بخاری، رقم ۳۹۱۴۔ مسلم ،رقم ۲۱۳۳ )۔

حضرت مصعب بن عمیر کی اولاد نرینہ نہ ہوئی۔ حضرت حمنہ بنت جحش سے ان کی ایک ہی بیٹی زینب پیدا ہوئیں جو عبداﷲ بن عبداﷲ سے بیاہی گئیں۔ حضرت مصعب کی نواسی کا نام قریبہ تھا۔

مطالعۂ مزید: السیرۃ النبویۃ(ابن ہشام)، الطبقات الکبریٰ (ابن سعد)،تاریخ الامم والملوک(طبری)، حلےۃ الاولیاء و طبقات الاصفیاء(ابو نعیم اصفہانی)، دلائل النبوۃ (بیہقی)، جمہرۃ انساب العرب(ابن حزم)،المنتظم فی تواریخ الملوک و الامم (ابن جوزی)،الاستیعاب فی معرفۃ الاصحاب(ابن عبدالبر)،الکامل فی التاریخ(ابن اثیر)، اسد الغابۃ فی معرفۃ الصحابۃ (ا بن اثیر)، البداےۃ والنہاےۃ(ابن کثیر)،تاریخ الاسلام (ذہبی)، سیر اعلام النبلاء (ذہبی)، کتاب العبر ودیوان المبتدأ والخبر (ابن خلدون) ،الاصابۃ فی تمییز الصحابۃ (ابن حجر)،سیرۃ النبی (شبلی نعمانی)، تاریخ اسلام(اکبرشاہ نجیب آبادی)، اردو دائرۂ معارف اسلامیہ(مقالہ : Fr.Buhl)، سیرت سرور عالم(ابوالاعلیٰ مودودی)، مصعب الخیر(ریاض حسین شاہ)، Wikipedia۔

____________

B