اللہ تعالیٰ کے احکام، خواہ وہ عبادات سے متعلق ہوں یا معاملات سے متعلق، سراسر فطری احکام ہیں۔ یہ اسی دین فطر ت کے احکام ہیں جو اللہ تعالیٰ نے تخلیق انسانیت کے بعد ان کی رشد و ہدایت کے لیے ان کے لیے پسند فرمایا ہے۔ روزہ انھی احکام میں سے ایک اہم حکم ہے۔نماز اور زکوٰۃ کے بعد یہ تیسری اہم فرض عبادت ہے۔ عربی زبان میں اسے ’صوم‘ کے لفظ سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ لغوی طور پر اس کے معنی کسی شے سے رک جانے اور اس کو ترک کر دینے کے ہیں، اور اصطلاح شریعت میں یہ خاص حدود و قیود کے ساتھ کھانے پینے اور ازدواجی تعلقات سے رک جانے کے لیے استعمال ہوتا ہے۔* اس کی فرضیت اور تشریع جس طرح اہل اسلام کے لیے ہے، اسی طرح امم سابقہ کے لیے بھی تھی۔ قرآن مجید میں اس کی وضاحت اس طرح بیان ہوئی ہے:
یٰٓاَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا کُتِبَ عَلَیْْکُمُ الصِّیَامُ کَمَا کُتِبَ عَلَی الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِکُمْ لَعَلَّکُمْ تَتَّقُوْنَ.(البقرہ۲: ۱۸۳)
’’ایمان والو، تم پر روزہ فرض کیا گیا ہے، جس طرح تم سے پہلوں پر فرض کیا گیا تھاتاکہ تم اللہ سے ڈرنے والے بن جاؤ۔‘‘
روز ے کی اصل غرض و غایت ، جیساکہ قرآن مجید نے واضح فرمائی ہے، یہ ہے کہ انسان کو تقویٰ حاصل ہو اور وہ ہمہ وقت اللہ تعالیٰ کے حدود کو پیش نظر رکھے اور اس بات سے ڈرے کہ اگر اس نے ان کو پامال کیا تو اللہ تعالیٰ کی گرفت سے کوئی راہ فرار نہیں ہوگی۔
تزکیۂ نفس اور تطہیر ذات کے لیے روزہ نہایت ہی اہم عبادت ہے۔ اصل مقاصد کو مدنظر رکھتے ہوئے اس پر عمل کیا جائے تو تقرب الی اللہ کے لیے یہ بہترین ذریعہ ہے اور اس سے انفس و آفاق کے در بہ آسانی وا ہو سکتے ہیں۔ انسان کی تعمیر سیرت اور کردار کے لیے یہ میزان و معیار ہے ، جس کے سبب سے اس کے مزاج میں استقلال و تسلسل کے ساتھ ساتھ مثبت تبدیلی پیدا ہوتی ہے۔جب وہ روزے کی حالت میں بے آمیز اطاعت، تسلیم و رضا، انابت و اخبات اور خشیت و ڈر کے ساتھ اپنے آپ کو اللہ رب العٰلمین کے سپرد کر دیتا اور صرف اسی سے لو لگاتا ہے تو وہ اس کے لیے دنیا و آخرت میں بہترین صلہ مقدر کر دیتا ہے۔ فرمان خداوندی ہے:
فإنہ لی و أنا أجزی بہ یدع شہوتہ و طعامہ من أجلی.(مسلم، رقم۱۱۵۱)
’’روزہ میرے لیے ہے اور میں ہی اس کی جزا دوں گا، کیونکہ روزہ دار اپنی خواہش اور کھانے پینے کو میرے لیے چھوڑتا ہے۔‘‘
تزکیۂ نفس کے پہلو سے روزہ متعدد روحانی، جسمانی، اخلاقی، فکری اور اصلاحی فوائد کا حامل ہے؛ زہد و تقویٰ ، فقر و سادگی، نرم خوئی، ایثار و ہم دردی اور صبر و استقامت اس کے عمومی فوائد ہیں۔ اس کی جملہ برکات کے لیے قرآن مجید کی تلاوت کی جائے ، اس کا فہم حاصل کیا جائے، اس پر عمل کیا جائے اور اس کے ابلاغ کے لیے اہتمام کیا جائے۔
اس کے برخلاف، اگر روزہ دار اللہ تعالیٰ کے اوامر و نواہی اور حدود و قیود سے بے پروائی، سہل اور غفلت کا ارتکاب کرتا ہے تو روزہ اس کے لیے بے سود؛ وہ مرغوبات کے حصول میں کوشاں رہے تو روزہ اس کے لیے بے معنی؛ وہ ریا اور بخالت کو اپنا شعار بنا لے تو روزہ اس کے لیے بے مقصد؛ وہ اشتعال اور غصے کو اپنا ہتھیار بنا لے تو روزہ اس کے لیے بے روح؛ وہ مخاصمت و مشاجرت میں اپنی زبان کو کھلا چھوڑ دے اور مشاتمت کو اپنی عادت بنا لے تو اللہ تعالیٰ کو اس کے روزے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:
من لم یدع قول الزور والعمل بہ فلیس للّٰہ حاجۃ فی أن یدع طعامہ و شرابہ.(بخاری، رقم۱۸۰۴)
’’جو شخص جھوٹ بولنا اور اس پر عمل کرنا نہ چھوڑے، تو اللہ تعالیٰ کو اس بات کی کوئی ضرورت نہیں کہ وہ اپنا کھانا پینا چھوڑ دے۔‘‘
_____
* میزان، جاوید احمد غامدی ۳۵۲۔
____________