خیال وخامہ
o
واے افرنگ کہ آزردہ بھی ، چالاک بھی ہے
آپ صیاد بھی ہے ، بستۂ فتراک بھی ہے
فلسفہ میرے زمانے میں اگر ہے بھی تو کیا
غم ہستی کا فسانہ کہ طربناک بھی ہے!
سالک راہ کو لازم ہے کہ غافل نہ رہے
فتنۂ علم و نظر نشۂ ادراک بھی ہے
یاد آ جائے تو دل سوے وطن کھنچتا ہے
اے خوشا یاد کہ یہ خاک مری خاک بھی ہے!
اِس کو دیکھیں تو کہیں اور نہ جانے دے گا
حسن فطرت کہ طرح دار بھی ، بے باک بھی ہے
اور کیا چاہیے رندوں کی ضیافت کے لیے
حسن خود ساغر و مینا بھی، مے تاک بھی ہے
اک ذرا صبر کہ ہم آپ ہی اٹھ جائیں گے
کوچۂ دوست میں آخر خس و خاشاک بھی ہے
____________