بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
الٓمّٓرٰ تِلْکَ اٰیٰتُ الْکِتٰبِ وَالَّذِیْٓ اُنْزِلَ اِلَیْکَ مِنْ رَّبِّکَ الْحَقُّ وَلٰکِنَّ اَکْثَرَ النَّاسِ لَا یُؤْمِنُوْنَ(۱)
اَللّٰہُ الَّذِیْ رَفَعَ السَّمٰوٰتِ بِغَیْرِ عَمَدٍ تَرَوْنَھَا ثُمَّ اسْتَوٰی عَلَی الْعَرْشِ وَسَخَّرَ الشَّمْسَ وَالْقَمَرَ کُلٌّ یَّجْرِیْ لِاَجَلٍ مُّسَمًّی یُُدَبِّرُ الْاَمْرَ یُْفَصِّلُ الْاٰیٰتِ لَعَلَّکُمْ بِلِقَآءِ رَبِّکُمْ تُوْقِنُوْنَ(۲)
وَھُوَ الَّذِیْ مَدَّ الْاَرْضَ وَجَعَلَ فِیْھَا رَوَاسِیَ وَ اَنْھٰرًا وَمِنْ کُلِّ الثَّمَرٰتِ جَعَلَ فِیْھَا زَوْجَیْنِ اثْنَیْنِ یُغْشِی الَّیْلَ النَّھَارَ اِنَّ فِیْ ذٰلِکَ لَاٰیٰتٍ لِّقَوْمٍ یَّتَفَکَّرُوْنَ(۳)
وَفِی الْاَرْضِ قِطَعٌ مُّتَجٰوِرٰتٌ وَّجَنّٰتٌ مِّنْ اَعْنَابٍ وَّزَرْعٌ وَّ نَخِیْلٌ صِنْوَانٌ وَّ غَیْرُ صِنْوَانٍ یُّسْقٰی بِمَآءٍ وَّاحِدٍ وَنُفَضِّلُ بَعْضَھَا عَلٰی بَعْضٍ فِی الْاُکُلِ اِنَّ فِیْ ذٰلِکَ لَاٰیٰتٍ لِّقَوْمٍ یَّعْقِلُوْنَ(۴)
وَاِنْ تَعْجَبْ فَعَجَبٌ قَوْلُہُمْ ءَ اِذَا کُنَّا تُرٰبًا ءَ اِنَّا لَفِیْ خَلْقٍ جَدِیْدٍ اُولٰٓءِکَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا بِرَبِّہِمْ وَاُولٰٓءِکَ الْاَغْلٰلُ فِیْٓ اَعْنَاقِھِمْ وَاُولٰٓءِکَ اَصْحٰبُ النَّارِ ھُمْ فِیْھَا خٰلِدُوْنَ(۵)
وَیَسْتَعْجِلُوْنَکَ بِالسَّیِّءَۃِ قَبْلَ الْحَسَنَۃِ وَقَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِہِمُ الْمَثُلٰتُ وَاِنَّ رَبَّکَ لَذُوْمَغْفِرَۃٍ لِّلنَّاسِ عَلٰی ظُلْمِہِمْ وَاِنَّ رَبَّکَ لَشَدِیْدُ الْعِقَابِ(۶)
وَیَقُوْلُ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا لَوْلَآ اُنْزِلَ عَلَیْہِ اٰیَۃٌ مِّنْ رَّبِّہٖ اِنَّمَآ اَنْتَ مُنْذِرٌ وَّلِکُلِّ قَوْمٍ ھَادٍ(۷) اَللّٰہُ یَعْلَمُ مَا تَحْمِلُ کُلُّ اُنْثٰی وَمَا تَغِیْضُ الْاَرْحَامُ وَمَا تَزْدَادُ وَکُلُّ شَیْءٍ عِنْدَہٗ بِمِقْدَارٍ(۸) عٰلِمُ الْغَیْبِ وَالشَّھَادَۃِ الْکَبِیْرُ الْمُتَعَالِ(۹) سَوَآءٌ مِّنْکُمْ مَّنْ اَسَرَّ الْقَوْلَ وَمَنْ جَھَرَبِہٖ وَمَنْ ھُوَ مُسْتَخْفٍم بِالَّیْلِ وَسَارِبٌم بِالنَّھَارِ(۱۰) لَہٗ مُعَقِّبٰتٌ مِّنْم بَیْنِ یَدَیْہِ وَمِنْ خَلْفِہٖ یَحْفَظُوْنَہٗ مِنْ اَمْرِ اللّٰہِ اِنَّ اللّٰہَ لَا یُغَیِّرُ مَا بِقَوْمٍ حَتّٰی یُغَیِّرُوْا مَا بِاَنْفُسِھِمْ وَاِذَآ اَرَادَ اللّٰہُ بِقَوْمٍ سُوْٓءً ا فَلَا مَرَدَّلَہٗ وَمَا لَھُمْ مِّنْ دُوْنِہٖ مِنْ وَّالٍ(۱۱)
ھُوَ الَّذِیْ یُرِیْکُمُ الْبَرْقَ خَوْفًا وَّطَمَعًا وَّیُنْشِیئُ السَّحَابَ الثِّقَالَ(۱۲) وَیُسَبِّحُ الرَّعْدُ بِحَمْدِہٖ وَالْمَلٰٓءِکَۃُ مِنْ خِیْفَتِہٖ وَےُرْسِلُ الصَّوَاعِقَ فَیُصِیْبُ بِھَا مَنْ یَّشَآءُ وَھُمْ یُجَادِلُوْنَ فِی اللّٰہِ وَھُوَ شَدِیْدُ الْمِحَالِ(۱۳)
اللہ کے نام سے جو سراسر رحمت ہے، جس کی شفقت ابدی ہے۔
یہ سورہئ ’الٓمّٓرٰ‘ ہے۱۲۷؎۔ یہ کتاب الہٰی کی آیتیں ہیں ۱۲۸؎ اور تمھارے پروردگار کی طرف سے جو کچھ تم پر نازل کیا گیا ہے، وہ (سراسر) حق ہے۱۲۹؎، مگر (تمھاری قوم کے) اکثر لوگ مان نہیں رہے ہیں۔۱
اللہ ہی ہے جس نے آسمانوں کو ایسے ستونوں کے بغیر اونچا بنا کھڑا کیا ہے جو تم کو نظر آتے ہوں ۱۳۰؎، پھر وہ اپنے تخت سلطنت پر متمکن ہوا۱۳۱؎ اور اُس نے سورج اور چاند کو ایک قانون کا پابند بنایا۔ اِن میں سے ہر ایک ایک مقرر وقت کے لیے گردش کر رہا ہے۱۳۲؎۔ وہی نظم عالم کی تدبیر فرماتا ہے۔ وہ (اپنی) اِن نشانیوں کی وضاحت کرتا ہے، اِس لیے کہ تم اپنے پروردگار کی ملاقات کا یقین کرو۱۳۳؎۔۲
اور وہی ہے جس نے زمین کو بچھایا اور اُس میں پہاڑوں کے کھونٹے گاڑے اور ندیاں بہا دیں اور اُس میں ہر طرح کے پھلوں کے جوڑے پیدا کیے۔۱۳۴؎وہ رات کو (چادر کی طرح) دن پر اڑھا دیتا ہے۔ یقیناً اِن سب چیزوں میں اُن لوگوں کے لیے نشانیاں ہیں جو غور کریں ۱۳۵؎۔۳
اور زمین میں پاس پاس کے قطعے ہیں، انگوروں کے باغ ہیں، کھیتی ہے، کھجور کے درخت ہیں، جن میں جڑواں بھی ہیں اور اکہرے بھی۔۱۳۶؎ سب ایک ہی پانی سے سیراب کیے جاتے ہیں، لیکن اُن کے پھلوں میں ہم ایک کو دوسرے پر برتری دے دیتے ہیں۔ یقیناً اِن سب چیزوں میں اُن لوگوں کے لیے نشانیاں ہیں ۱۳۷؎ جو عقل سے کام لیں۔۴
اب اگر تعجب کرو تو تعجب کے قابل تو اِن کی یہ بات ہے کہ جب ہم مٹی ہو جائیں گے تو کیا ہم نئے سرے سے پیدا کیے جائیں گے؟۱۳۸؎ یہی لوگ ہیں جنھوں نے اپنے پروردگار کا انکار کر دیا ہے۱۳۹؎۔ یہی ہیں جن کی گردنوں میں طوق پڑے ہوئے ہیں ۱۴۰؎۔ یہی دوزخ کے لوگ ہیں، یہ اُس میں ہمیشہ رہیں گے۔۵
یہ بھلائی سے پہلے تم سے برائی کے لیے جلدی مچا رہے ہیں ۱۴۱؎، دراں حالیکہ (اِس رویے پر) عبرت ناک عذاب کی مثالیں اِن سے پہلے گزر چکی ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ تیرا پروردگار لوگوں کی زیادتیوں کے باوجود اُن سے درگذر فرمانے والا ہے۔ اور (اِس کے ساتھ) یہ بھی حقیقت ہے کہ تیرا پروردگار سخت سزا دینے والا ہے۔۶
یہ منکرین کہتے ہیں کہ اِس شخص پر اِس کے پروردگار کی طرف سے (عذاب کی) کوئی نشانی کیوں نہیں اتاری گئی؟ (اِنھیں بتاؤ کہ یہ تمھارا کام نہیں ہے، اِس لیے کہ) تم تو صرف خبردار کرنے والے ہو اور ہر قوم کے لیے (اِسی طرح) ایک راہ بتانے والا (آتا رہا) ہے۔ (اِن پر عذاب کے لیے کوئی نشانی کب ظاہر ہو گی؟ اِسے اللہ جانتا ہے، جس طرح) اللہ ہر مادہ کے حمل کو جانتا ہے اور جو کچھ رحموں میں گھٹتا اور بڑھتا ہے، اُس کو بھی جانتا ہے۔ ہر چیز اُس کے ہاں ایک اندازے کے مطابق ہے۱۴۲؎۔ وہ غائب و حاضرکا جاننے والا ہے، سب سے بڑا ہے، سب سے برتر ہے۔ اُس کے علم میں یکساں ہیں جو تم میں سے چپکے سے بات کریں اور جو پکار کر کریں اور جو رات (کی تاریکی) میں چھپے ہوئے ہوں اور جو دن میں چل رہے ہوں۔ اُن کے آگے اور پیچھے سے اُن پر امر الہٰی کے موکل لگے رہتے ہیں جو اُن کی نگرانی کرتے ہیں۔ (یہ جلدی نہ مچائیں)، اللہ کسی قوم کے ساتھ اپنا معاملہ اُس وقت تک نہیں بدلتا، جب تک وہ خود اپنے رویے میں تبدیلی نہ کر لے اور جب اللہ کسی قوم کی شامت لانے کا ارادہ کر لیتا ہے تو وہ کسی کے ٹالے نہیں ٹل سکتی اور نہ اللہ کے مقابل میں اُن کا کوئی مددگار ہو سکتا ہے۱۴۳؎۔۷-۱۱
وہی ہے جو تمھیں بجلی دکھاتا ہے جس سے خوف بھی پیدا ہوتا ہے اور امید بھی اور وہی (پانی سے) لدی ہوئی بدلیاں اٹھاتا ہے۔ اُن کی گرج اللہ کے ڈر سے اُس کی حمد کے ساتھ اُس کی پاکی بیان کرتی ہے اور فرشتے بھی (اِسی طرح) اُس کے ڈر سے اُس کی تسبیح کرتے ہیں، اُس کی حمد کے ساتھ۱۴۴؎۔ وہ کڑکتی ہوئی بجلیاں بھیجتا ہے، پھر جس پر چاہتا ہے، اُنھیں (بسا اوقات عین اُس حالت میں) گرا دیتا ہے، جبکہ وہ خدا کے بارے میں جھگڑ رہے ہوتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ وہ بڑی زبردست قوت والا ہے۱۴۵؎۔ ۱۲-۱۳
۱۲۷؎ اِس نام کے معنی کیا ہیں؟ اِس کے متعلق ہم اپنا نقطۂ نظر سورۂ بقرہ (۲) کی آیت ۱ کے تحت بیان کر چکے ہیں۔
۱۲۸؎ اصل الفاظ ہیں: ’تِلْکَ اٰیٰتُ الْکِتٰبِ‘۔ اِن میں ’تِلْکَ‘ کا اشارہ ’الٓمّٓرٰ‘ کی طرف ہے اور ’الْکِتٰب‘ کے معنی کتاب الہٰی کے ہیں۔ قرآن میں یہ لفظ جگہ جگہ اِس معنی کے لیے استعمال ہوا ہے اور اُسی طریقے پر استعمال ہوا ہے، جس پر کوئی لفظ اپنے مختلف مفاہیم میں سے کسی اعلیٰ اور برتر مفہوم کے لیے خاص ہو جایا کرتا ہے۔ یہ فقرہ کس لیے ارشاد ہوا ہے؟ استاذ امام لکھتے ہیں:
”...اِس فقرے میں بہ یک وقت اظہار احسان بھی ہے اور دھمکی بھی۔ احسان یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے وہ عظیم نعمت، جس کا اُس نے اپنے نبیوں اور رسولوں کے ذریعے سے وعدہ فرمایا تھا، اتار دی ہے۔ اب یہ لوگوں کا فرض ہے کہ اِس کی صدق دل سے قدر کریں اور اِس کی برکتوں سے متمتع ہوں۔ دھمکی کا پہلو یہ ہے کہ یہ کتاب الٰہی کی آیات ہیں تو جو لوگ اِن کی قدر کرنے کے بجاے اِن کا مذاق اڑائیں گے اور اِن کی مخالفت میں اپنا زور صرف کریں گے،وہ خود سوچ لیں کہ وہ اپنے لیے کس شامت کو دعوت دے رہے ہیں۔“(تدبرقرآن۴/ ۲۷۰)
۱۲۹؎ یعنی قطعی حقیقت ہے، اُس میں کسی ریب و گمان کی گنجایش نہیں ہے۔ چنانچہ ہر چیز جس طرح بیان ہوئی ہے، اُسی طرح واقع ہو کر رہے گی۔
۱۳۰؎ یعنی محسوس اور مرئی ہوں۔ دور حاضر کے انسانی علم نے اِسی چیز کو کشش ثقل کا نام دیا ہے۔ یہاں اِس سے مقصود اللہ تعالیٰ کی عظیم قدرت کی طرف توجہ دلانا ہے۔
۱۳۱؎ مطلب یہ ہے کہ اِن بے کراں آسمانوں کو پیدا کرکے وہ کسی گوشے میں نہیں جا بیٹھا ہے، جیسا کہ مشرکین گمان کرتے ہیں، بلکہ اپنے تخت سلطنت پر متمکن ہے اور زمین و آسمان کی تدبیر امور فرما رہا ہے۔ آگے ’یُدَبِّرُ الْاَمْرَ‘ کے الفاظ میں اِس کو کھول دیا ہے۔
۱۳۲؎ یہ دو بڑی نشانیوں کی مثال سے اِس حقیقت کو واضح کیا ہے کہ ہر چیز ہر وقت خدا کے قبضۂ قدرت میں ہے اور اُس وقت تک کے لیے گردش کر رہی ہے جو اُس کے لیے مقرر کر دیا گیا ہے۔ اِس عالم میں کوئی چیز بھی ابدی و سرمدی نہیں ہے، بلکہ کشاں کشاں ایک معین اجل کی طرف بڑھ رہی ہے۔
۱۳۳؎ یعنی اپنی کتاب میں اِن کی تفصیل کرتا ہے تاکہ جن حقائق پر یہ دلالت کر رہی ہیں، تم اُن کو سمجھو اور اِس کے نتیجے میں کائنات کی اِس عظیم حقیقت کا یقین حاصل کرلو کہ جس نے اپنی بے پایاں قدرت اور کمال حکمت کے ساتھ یہ دنیا بنائی ہے، وہ اِسے اتمام و تکمیل تک پہنچائے بغیر یوں ہی ختم نہیں ہونے دے گا، بلکہ لازماً اُس منزل تک لے جائے گا جو اِس کے لیے مقرر ہے۔
۱۳۴؎ یعنی جس طرح حیوانات کے جوڑے ہیں، اُسی طرح درختوں کے بھی نر و مادہ ہیں جن سے طرح طرح کے پھل پیدا ہوتے ہیں۔
۱۳۵؎ اوپر آسمان کی نشانیوں کی طرف توجہ دلائی تھی، اُس کے بعد اب یہ زمین کی نشانیوں کی طرف متوجہ کیا ہے کہ اِنھیں بھی دیکھو، دریا، پہاڑ، زمین سے پیدا ہونے والے قسم قسم کے پھل اور لیل و نہار کی گردش، یہ سب کس قدر مختلف چیزیں ہیں، مگر کس بے پایاں حکمت، بے مثال نظم و ترتیب اور کتنی اتھاہ معنویت کے ساتھ ایک دوسرے کے ساتھ متعلق ہیں۔ یہ اِس بات کا صریح ثبوت ہے کہ نہ یہ زمین و آسمان آپ سے آپ وجود میں آئے ہیں اور نہ اِن پر الگ الگ دیوتاؤں کی حکمرانی ہے، بلکہ ایک ہی قادر و حکیم ہے جس نے اِن کی ہر چیز میں یہ حیرت انگیز توافق، ہم آہنگی اور سازگاری پیدا کر دی ہے۔ اِس کو دیکھنے اور اِس پر غور کرنے کے بعد بھی اگر کوئی شخص یہ کہتا ہے کہ موت کے بعد کوئی زندگی نہیں ہے اور ایک دن یہ سب خاک میں گم ہو جائے گا تو یہ عقل و دانش کی نہیں، بلکہ حماقت و بلادت کی دلیل ہے۔
۱۳۶؎ درختوں کی نشوونما میں جو فرق پیدا ہوجاتا ہے، یہ اُس کا ذکر ہے۔ چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ کہیں ایک ہی جڑ سے کئی کئی تنے پھوٹ نکلتے ہیں اور کہیں ایک ہی تنا نکلتا ہے۔
۱۳۷؎ یعنی اِس بات کی نشانیاں کہ کائنات کا خالق زمین کی پیداوار میں کس قدر تنوع، رنگا رنگی، جدت اور بوقلمونی کے ساتھ اپنی ہمہ گیر قدرت اور اپنے بے خطا علم و حکمت کو نمایاں کرتا ہے۔
۱۳۸؎ مطلب یہ ہے کہ اگر کسی بات پر تعجب کرنا ہے تو زمین وآسمان کی اُن نشانیوں کو دیکھ کر، جن کا ذکر اوپر ہوا ہے، اُن لوگوں کی بات پر تعجب کرنا چاہیے جو مرنے کے بعد جی اٹھنے پر تعجب کا اظہار کرتے ہیں۔ یہ نشانیاں تو پکار پکار کر شہادت دے رہی ہیں کہ جس خدا نے اپنی مخلوقات میں کمال حکمت کے یہ نمونے دکھائے ہیں، اُس کا کوئی کام بھی عبث نہیں ہوسکتا۔ لہٰذا ممکن نہیں ہے کہ وہ انسان جیسی مخلوق کو پیدا کرکے اُسے یوں ہی خاک میں گم کر دے گا اور اُس کے لیے کوئی ایسی دنیا نہیں بنائے گا، جہاں اُس کا باطن ہر لحاظ سے اُس کے ظاہر کے ساتھ ہم آہنگ ہو جائے۔
۱۳۹؎ یہ اِس لیے فرمایا ہے کہ آخرت کا انکار درحقیقت خدا کا انکار ہے، کیونکہ آخرت کے انکار کے بعد خدا کے اقرار کے بھی کوئی معنی نہیں ہیں۔ یہ، اگر غور کیجیے تو خدا کی تمام اعلیٰ صفات قدرت، ربوبیت، علم اور حکمت کا انکار ہے۔ جو شخص اِن صفات کے بغیر خدا کو مانتا ہے، اُس کا ماننا اور نہ ماننا، دونوں برابر ہیں۔
۱۴۰؎ یعنی جہالت، ہٹ دھرمی، انانیت، تعصب اور اندھی تقلید کے طوق جو استاذ امام کے الفاظ میں اِن کی گردنیں نہ اوپر اٹھنے دیتے ہیں کہ آسمان کی نشانیوں پر غور کریں اور نہ زمین کی طرف جھکنے دیتے ہیں کہ اُس کی نشانیوں پر تدبر کی نگاہ ڈالیں۔ چنانچہ جو زاویۂ نظر اپنے لیے مقرر کیے ہوئے ہیں، اُسی پر جم کر رہ گئے ہیں۔ اُس سے ہٹ کر کسی اور طرف نظر دوڑانے کے لیے تیار نہیں ہیں۔
۱۴۱؎ مطلب یہ ہے کہ اِنھیں تو تم سے خدا کی رحمت و عنایت اور اپنے لیے خیر و صلاح کی طلب کرنی چاہیے تھی، مگر یہ اُس سے پہلے عذاب کے لیے جلدی مچارہے ہیں۔
۱۴۲؎ مطلب یہ ہے کہ جس طرح ہر حاملہ کے وضع حمل کا ٹھیک ٹھیک وقت صرف اللہ کے علم میں ہوتا ہے اور وہی جانتا ہے کہ اُس میں درپردہ کیا کمی بیشی ہو رہی ہے، اُسی طرح عذاب کا وقت بھی اُسی کے علم میں ہے اور وہی جانتا ہے کہ تمھارے حالات کے لحاظ سے اُس میں کیا کمی بیشی کرنی ہے۔ میں تو جو کچھ بتا سکتا ہوں، وہ یہ ہے کہ اپنے عقیدہ و عمل کے فساد کاحمل تم لوگ بھی قبول کر چکے ہو اور اپنی مدت کو پہنچ کر وہ بھی لازماً ظہور میں آجائے گا۔ میں اُسی سے تمھیں خبردار کر رہا ہوں، جس طرح پہلی قوموں کے رسول کرتے رہے ہیں۔
۱۴۳؎ یہ اُس سنت الٰہی کا حوالہ ہے جس کے تحت اللہ تعالیٰ جس طرح افراد کو صبر یا شکر کے امتحان کے لیے منتخب کرتا ہے،اُسی طرح قوموں کو بھی منتخب کرتا ہے۔اِس انتخاب کے نتیجے میں جب کوئی قوم ایک مرتبہ سرفرازی حاصل کر لیتی ہے تو اللہ اُس کے ساتھ اپنا معاملہ اُس وقت تک نہیں بدلتا، جب تک وہ علم و اخلاق کے لحاظ سے اپنے آپ کو پستی میں نہیں گرا دیتی۔ یہ خدا کی غیرمتبدل سنت ہے اور اپنی اِس سنت کے مطابق جب کسی قوم کے لیے بار بار کی تنبیہات کے بعد وہ ذلت و نکبت کا فیصلہ کر لیتا ہے تو اُس کا یہ فیصلہ کسی کے ٹالے نہیں ٹلتا اور دنیا کی کوئی قوت بھی خدا کے مقابلے میں اُس قوم کی کوئی مدد نہیں کر سکتی۔ انسان کی پوری تاریخ قوموں کے عزل ونصب میں اِس سنت کے ظہور کی گواہی دیتی ہے۔
۱۴۴؎ آیت میں ایک دوسرے کے مقابل الفاظ وضاحت قرینہ کی بنا پر حذف کر دیے گئے ہیں۔ ہم نے ترجمے میں اُنھیں کھول دیا ہے۔
۱۴۵؎ جو لوگ عذاب کا مطالبہ کر رہے تھے، یہ اُنھیں آفاق کی بعض نشانیوں کی طرف توجہ دلائی ہے کہ امید و بیم کا پیغام لے کر بجلیاں تو ہر روز تمھارے سروں پر چمکتی ہیں۔ اِن کے بعد اب کس نشانی کے منتظر ہو؟ تم عذاب کا مطالبہ کر رہے ہو اور اُدھر جو چیزیں عذاب بن کر نازل ہو سکتی ہیں اور جو عذاب کا فیصلہ لے کر آتے ہیں، سب خدا کے خوف سے لرزتے اور ہر وقت اُس کی حمد اور تسبیح میں مصروف رہتے ہیں کہ معلوم نہیں، کس وقت کیا حکم صادر ہو جائے۔
[باقی]
__________________________