قرآن مجیدمیں بیان ہواہے کہ نوح علیہ السلام بحیثیت رسول مبعوث کیے گئے تھے۔انھوں نے شرک جیسی غلاظت میں مبتلااپنی قوم کو سمجھایاکہ اللہ، پروردگارِعالم حقیقی معبود ہے، اس لیے صرف اس کی عبادت کرواور اسی سے ڈرو۔ اور یاد رکھو،اگرتم نے میری بات نہ مانی اوراپنی روش سے بازنہ آئے توتم پر ایک دردناک عذاب آکررہے گا۔ انھوں نے اِنذار کایہ کام نوسوپچاس برس کی طویل مدت تک کیا اور اس میں اپنی سب صلاحیتیں کھپادیں اوراپنے ذہن اورجسم کی ساری طاقت نچوڑ دی۔لیکن ان کی اس خیرخواہی اوردل سوزی کاجواب قوم نے یہ دیاکہ ان پربے جاقسم کے اعتراضات کیے اور ضداورمکابرت میں آکران کوجھٹلاکررکھ دیا۔چنانچہ اللہ نے منکروں پرعذاب نازل کرنے کافیصلہ کیا۔ جب یہ عذاب آن پہنچااور طوفان ابل پڑاتواس نے نوح کوحکم دیاکہ وہ ہرقسم کے جانوروں کا ایک ایک جوڑاکشتی میں رکھ لیں اوراپنے گھروالوں کوبھی اس کشتی میں سوارکرالیں، سواے ان کے جن کے بارے میں حکم صادر ہو چکا ہے، اور ان کو بھی سوارکرالیں جوایمان لائے ہیں۔
یہ کشتی جب پہاڑوں کی طرح اٹھتی ہوئی موجوں کے درمیان میں انھیں لیے ہوئے چلنے لگی تونوح نے دیکھاکہ ان کابیٹاان سے الگ کچھ فاصلے پر کھڑاہے۔انھوں نے نہایت درمندی اور شفقت سے اس کوآوازدی کہ بیٹا، آؤ ہمارے ساتھ سوارہوجاؤاوران منکروں کے ساتھ نہ رہو۔لیکن بیٹے نے جواب میں کہاکہ میں ابھی پہاڑ پر چڑھ کراس طوفان سے بچ جاؤں گا۔نوح نے جواب دیاکہ آج اللہ کے حکم سے کوئی بچانے والانہیں ہے،مگرجس پروہی رحم فرمائے۔ اتنے میں ایک موج دونوں کے درمیان حائل ہوئی اوران کا بیٹا بھی دوسرے منکروں کی طرح ڈوب کر رہا۔ اس کے بعدعذاب تھم جانے کاحکم دے دیا گیا۔نوح نے اپنے رب کو پکارا: ’رَبِّ اِنَّ ابْنِیْ مِنْ اَہْلِیْ وَاِنَّ وَعْدَکَ الْحَقُّ وَاَنْتَ اَحْکَمُ الْحٰکِمِیْنَ‘ پروردگار، میرا بیٹا تومیرے گھروالوں میں سے ہے اوراس میں شبہ نہیں کہ تیرا وعدہ سچاہے اورتوسب فیصلہ کرنے والوں سے بڑافیصلہ کرنے والاہے۔اس پرارشادہوا: ’اِنَّہٗ لَیْْسَ مِنْ اَہْلِکَ اِنَّہٗ عَمَلٌ غَیْْرُ صَالِحٍ فَلاَ تَسْءَلْنِ مَا لَیْْسَ لَکَ بِہٖ عِلْمٌ‘ اے نوح ،وہ تیرے گھر والوں میں سے نہیں ہے،وہ نہایت نابکار ہے۔ سومجھ سے اس چیزکے بارے میں سوال نہ کرو جس کاتجھے کچھ علم نہیں ہے۔میں تجھے نصیحت کرتاہوں کہ جذبات سے مغلوب ہوجانے والوں میں سے نہ بنو۔نوح نے فوراً عرض کیاکہ پروردگار، میں تیری پناہ مانگتاہوں کہ تجھ سے کوئی ایسی چیز مانگوں جس کامجھے علم نہیں ہے۔اوراگرتومجھے معاف نہ کرے گااورمجھ پررحم نہ فرمائے گا تومیں نامرادہوجاؤں گا۔
اس واقعہ میں سیدنانوح کاخدا سے کہنا: ’اِنَّ ابْنِیْ مِنْ اَہْلِیْ‘ اور اس کے جواب میں خداکایہ کہنا: ’اِنَّہٗ لَیْْسَ مِنْ اَہْلِکَ اِنَّہٗ عَمَلٌ غَیْْرُ صَالِحٍ فَلاَ تَسْءَلْنِ مَا لَیْْسَ لَکَ بِہٖ عِلْمٌ‘، اس ساری بات کی اصل حقیقت کیا ہے؟ اس بارے میں علماے تفسیر سے متعددآرامنقول ہیں۔ان میں سے چند نمایاں آرا مندرجہ ذیل ہیں:
ایک راے کے مطابق صورت واقعہ یہ ہے کہ جب نوح علیہ السلام کابیٹاخداکے عذاب کی لپیٹ میں آ گیا تو انھیں اس بات پرحیرت آمیزدکھ ہوا۔دکھ اس لیے کہ وہ بہرحال ان کابیٹاتھا۔حیرت اس بات پرکہ اللہ نے انھیں حکم دیاتھاکہ کشتی میں اپنے گھروالوں اوردوسرے ایمان والوں کوسوارکرالواوراس کامطلب،ظاہرہے یہی تھاکہ یہ لوگ اس عذاب سے بچ جائیں گے۔مگریہ کیاہواکہ محض اس بات پرکہ وہ کشتی میں سوارنہیں ہوا،عذاب کاشکارہوگیا۔اس پر انھوں نے شکایت کی: ’رَبِّ اِنَّ ابْنِیْ مِنْ اَہْلِیْ‘ پروردگار، میرا بیٹا تو میرے اہل میں سے تھا۔اس پرخدانے جواب دیا کہ تمھاری حیرت اپنی جگہ صحیح ہے، مگر حقیقت یہ ہے کہ ’اِنَّہٗ لَیْْسَ مِنْ اَہْلِکَ‘ وہ تمھارا بیٹاتھاہی نہیں، بلکہ ’اِنَّہٗ عَمَلٌ غَیْْرُ صَالِحٍ‘ وہ توایک ناجائز اولادتھا۔اس بات کا تمھیں علم نہیں ہے ، اس لیے اس چیزکے بارے میں مجھ سے سوال نہ کرو۔
یہ تفسیربعض وجوہ کی بنیادپرصحیح معلوم نہیں ہوتی:
اولاً،اس کی بنااس خیال پر ہے کہ اللہ کانوح سے وعدہ تھاکہ ان کے اہل محض ان کے اہل ہونے کی وجہ سے عذاب سے بچ جائیں گے۔اس لیے جب ان کابیٹاغرقاب ہواتووہ خداسے شکوہ کناں ہوئے ۔دراں حالیکہ ہم جانتے ہیں کہ دین میں اصل اہمیت حسب اور نسب کی نہیں ،بلکہ ایمان اورعمل کی ہے۔اوریہ ایسی صریح بات ہے کہ جس سے ایک عام آدمی بھی واقف ہے، ،چہ جائیکہ سمجھاجائے کہ اللہ کے رسول اس سے واقف نہ تھے۔یاوہ واقف تو تھے، مگرانھوں نے محض اولادکی محبت میں اس کوبھلادیا۔اصل میں یہ مغالطہ ایک لفظ کا صحیح معنی متعین نہ ہوسکنے کی وجہ سے پیداہواہے۔انھیں حکم ہوا تھا: ’احْمِلْ فِیْہَا مِنْ کُلٍّ زَوْجَیْْنِ اثْنَیْْنِ وَاَہْلَکَ اِلاَّ مَنْ سَبَقَ عَلَیْْہِ الْقَوْلُ وَمَنْ اٰمَنَ‘۔ یہاں ایک لفظ ’اَھْل‘ آیا ہے جس کا معنی گھروالے ہیں اور ان حضرات نے اس کایہی مطلب لے لیا ہے۔ حالاں کہ یہ لفظ یہاں تخصیص میں جاکراستعمال ہواہے ،یعنی اس سے سب اہل نہیں ،بلکہ وہ اہل مرادہیں جوایمان لا چکے ہیں۔ حکم کا موقع ومحل اوراس لفظ پر ’وَمَنْ اٰمَنَ‘ کاعطف ،خوداس تخصیص پر دلیل ہے۔نیزسلبی پہلو سے دیکھا جائے تو ’اَھْل‘ میں سے ’اِلاَّ مَنْ سَبَقَ عَلَیْْہِ الْقَوْلُ‘ کا استثنا بھی یہی بیان کررہاہے کہ اب اس سے مراد بے ایمان اہل نہیں ہیں۔
ثانیاً،اللہ کی صفت ستار اور پھر الہامی کتاب،خاص طورپر قرآن مجیدکی شان سے یہ بات نہایت فروترنظرآتی ہے کہ وہ اس طرح کے موضوعات کوزیربحث لائے اورلوگوں کے جائزاورناجائزاولاد ہونے کے فیصلے سنائے۔نیزاس راے کے نتیجے میں نوح کی بیوی پر بد چلنی کا جوالزام لگادیاگیاہے ،اس کومان لیناکسی طرح ممکن نہیں ہے ۔ نبی اپنی قوم کا اخلاقی رہنماہوتاہے ،اس لیے گھرکے ایک سربراہ کی حیثیت سے بھی اس پرکوئی حرف نہ آناچاہیے۔وگرنہ اخلاقی حیثیت کوکھودینے کی وجہ سے، بالخصوص ایک بدکارعورت کے شوہرہونے کے ناتے ،کون اس قابل رہتاہے کہ لوگوں کواخلاق کی تعلیم دے سکے۔چنانچہ یہ توہواہے کہ نبی کی کوئی بیوی کفرکا ارتکاب کرے،مگرجہاں تک اخلاق کی بات ہے تووہ خود اوراس کی ازواج اخلاق کی اس بلندسطح پرہوتے ہیں کہ کسی کو الزام دھرنے کا موقع نہیں ملتا۔۱ بلکہ اگرکہیں بعض معانداورشرارتی عناصراللہ کے رسول کے گھرکو ہدف تنقید بنانا چاہتے ہیں تو اللہ ایسابالکل نہیں ہونے دیتا۔ اس کی تفصیل کے لیے سورۂ نور اوراحزاب دیکھ لی جاسکتی ہیں جہاں محمد رسول اللہ کے گھرانے پراٹھائے گئے اخلاقی اعتراضات کاخدا نے مسکت جواب دیا اوراس شر سے بچنے کی تدابیرتک بتائی ہیں۔ مزیدیہ کہ ’فَخَانَتٰہُمَا۲ ‘ کے جس لفظ سے نوح کی بیوی کوبدچلن ثابت کرنے کی کوشش کی گئی ہے،اتنی بڑی بات کہنے کے لیے یہ لفظ صریح بالکل نہیں ہے ۔
ثالثاً،ان حضرات کے استدلالات سے قطع نظر،قرآن نے واضح طورپربتادیاہے کہ وہ نوح کاحقیقی بیٹاہی تھا۔ نوح کے الفاظ ’یٰبُنَیَّ‘ سے ہوسکتاتھا احتمال پیداہوکہ نوح اس لیے اس کواپنابیٹاکہہ رہے کہ وہ حقیقت حال سے انجان ہیں، مگرجب اللہ خود یہ بیان کردے کہ نوح نے اپنے بیٹے کوآوازدی تواس معاملے میں اس سے زیادہ واضح کوئی اوربات نہیں ہوسکتی ۔الفاظ یہ ہیں: ’وَنَادٰی نُوْحُ نِ ابْنَہٗ‘۔
اس کے مقابل میں بعض علماے تفسیراس واقعہ کی ایک اورطرح سے توجیہ کرتے ہیں۔ان کے مطابق یہاں مسئلہ حسب ونسب پرنجات اورکسی اولادکے جائزیاناجائزہونے کانہیں ہے۔ڈوبنے والانوح کاحقیقی بیٹاتھااوران پریہ بات پہلے سے واضح تھی کہ ’وَاَھْلَکَ‘ سے مرادان کے اہل میں سے صرف ایمان والے ہیں۔لیکن یہ حادثہ چونکہ بڑی اہم نوعیت کاتھاجس میں ان کااپنابیٹابھی جان گنوابیٹھا، اس لیے انھوں نے شفقت پدری سے مجبورہوکرخداسے شکایت کی کہ اے پروردگار، وہ جیسابھی تھا،بہرحال میرے اہل میں سے تھا۔ا س پراللہ نے ان کو سخت اندازمیں تنبیہ کی کہ ’اِنَّہٗ لَیْْسَ مِنْ اَہْلِکَ‘ وہ تیرے اُن اہل میں سے نہیں تھاجن کی نجات کے بارے میں بات ہوئی تھی۔ اس لیے ’اِنَّہٗ عَمَلٌ غَیْْرُ صَالِحٍ‘ تیرا اس کے لیے مجھ سے یہ بات کرناایک ناروا فعل ہے اوراس کی وجہ یہ ہے کہ تجھے ان باتوں کاعلم نہیں ہے۔چنانچہ مجھ سے اس معاملے میں بات نہ کروجس کاتجھے کچھ علم نہیں ہے۔
یہ توجیہ بھی ایسی نہیں کہ جس کوآسانی سے قبول کرلیاجاسکتاہو۔اس کے مان لینے میں بھی کچھ موانع موجودہیں:
اول یہ کہ ’اِنَّہٗ لَیْْسَ مِنْ اَہْلِکَ‘ اور ’اِنَّہٗ عَمَلٌ غَیْْرُ صَالِحٍ‘ کے جملے کچھ اس طرح آپس میں پیوست ہیں کہ یہ فرض کرلیناکہ ان میں ایک ’اِنَّہٗ‘ کا مرجع نوح کابیٹااوردوسرے کامرجع اس کے بجاے نوح کاکوئی عمل ہے، بہت زیادہ تکلف برتے بناممکن نہیں ہے۔مزیدیہ کہ اس صورت میں ایسامحسوس ہوتاہے کہ پہلاجملہ ابھی اپنے تتمہ کا منتظر تھا اورایک دم کوئی دوسری بات اس کے ساتھ جوڑدی گئی ہے۔یہ کلام کا وہ عیب ہے جوقرآن کے ایک عام درجے کے طالب علم کے مزاج پربھی گراں گزرتاہے۔
دوم یہ کہ اس راے کے مطابق نوح علیہ السلام کے بارے میں جو نازیبابات فرض کرنی پڑتی ہے، وہ حسب نسب کی علت سے بھی بڑھ کرغلط ہے۔وہ یہ کہ نوح جانتے بوجھتے ہوئے بھی کہ بیٹاعذاب کامستحق ہے، اس پرمتعجب ہیں اوراس سے بڑھ کریہ کہ متردد اورشکوہ کناں بھی ہیں۔حالاں کہ ایک رسول کہ جس کومطاع بناکربھیجاجاتاہے ،جس کی شہادت پرخداعذاب کواتارنے یانہ اتارنے کافیصلہ کرتاہے اورجس کویہ منصب ہرطرح کی دنیوی آلایشوں اورعلائق سے پاک ہوکرنبھاناہوتاہے،اس کے بارے میں آخریہ کیسے مان لیا جائے کہ اس شہادت کی زدجب اس کے اپنے اہل پرپڑے گی تواس کے سارے پیمانے بدل جائیں گے اورسب کچھ جذبات کی نذر ہوجائے گا؟
سوم یہ کہ رسولوں کے اس عمومی رویے کے ساتھ ساتھ قرآن مجیدمیں خاص نوح علیہ السلام کے مزاج اوران کی طبیعت کے بارے میں جوکچھ بیان ہواہے، اس کی موجودگی میں بھی یہ تسلیم نہیں کیاجاسکتاکہ ان پرشفقت پدری کا جذبہ غالب آگیا ہوگا۔ کیونکہ یہ نوح وہی ہیں، جواتمام حجت ہوجانے کے بعددین اورحق کی غیرت میں یہاں تک چلے گئے ہیں کہ خداسے دعاکرتے ہیں کہ ’وَلَا تَزِدِ الظّٰلِمِیْنَ اِلَّا ضَلٰلاً‘ ۳ کہ ان ظالموں کی گمراہی میں اضافہ ہی کر۔ پھر کس دینی حمیت سے کہتے ہیں کہ ’رَبِّ لَا تَذَرْ عَلَی الْاَرْضِ مِنَ الْکٰفِرِیْنَ دَیَّارًا‘۴ کہ پروردگار، ان منکروں میں سے تواب کسی کوزمین پرنہ چھوڑاور ’وَلَا تَزِدِ الظّٰلِمِیْنَ اِلَّا تَبَارًا‘ ۵ کہ ان ظالموں کے لیے اب ان کی بربادی کے سواکسی چیزمیں اضافہ نہ کر۔اب ان کے بارے میں کوئی کس طرح فرض کرلے کہ وہ محض اولادکی محبت میں ساڑھے نوسوسال کی دعوت اوراس کی بنیادیں، یوں منہدم یابے قدرکردیں گے؟۶
اس واقعہ کی تیسری توجیہ آج کے بعض اہل علم کی طرف سے پیش کی گئی ہے۔اس کے مطابق نوح علیہ السلام کا بیٹا منکر اور کافر نہ تھا۔اس کاجرم صرف یہ تھاکہ وہ عذاب آجانے کے بعدقوم کوچھوڑکرنوح کے ساتھ کشتی میں سوار نہیں ہواجوکہ نجات کی بنیادی شرائط میں سے تھا۔لیکن اس میں ایمان جوخود نجات کی بنیادی شرط ہے،بہرحال موجود تھا، اس لیے نوح کورنج ہوااورانھوں نے خداسے شکوہ کیا۔اس پرانھیں متنبہ کردیاگیاکہ شرطوں کو پوراکیے بغیرکسی کے لیے بھی نجات مقدرنہیں ہوتی۔
اس تاویل میں یہ مثبت کوشش ہوئی ہے کہ کسی طرح سیدنا نوح پراٹھنے والے اعتراضات کو کم کیاجائے تاکہ ان پر جاہلی عصبیتوں کااسیر ہونے یاایمان کے معاملے میں کسی کمزوری کی تہمت نہ آسکے ۔اس لحاظ سے یہ راے حددرجہ معقول محسوس ہوتی ہے۔لیکن جب قرآن کے الفاظ اوراس کے سیاق پرنظرڈالی جائے تواس راے پربھی کچھ سوالات پیدا ہو جاتے ہیں جن کاجواب نہ ملے توعلم وعقل کاکسی طرح اطمینان نہیں ہوتا:
پہلی بات یہ ہے کہ باپ اوربیٹے کے مکالمے کوسرسری ہی دیکھ لیاجائے تویہ بات مان لینے کی رتی بھر گنجایش نہیں رہتی کہ بیٹے کے جواب کواس شخص کاجواب سمجھ لیاجائے جس کے دل میں کچھ بھی ایمان موجودہے۔صاف معلوم ہوتا ہے کہ یہ جواب اُس شخص کاہے جوایمان سے بالکل تہی دامن اوراس موقع پرمسلسل تکذیب اورانکارکی ہٹ پرقائم ہے۔ نوح نہایت شفقت بھرے اندازمیں جس میں انتہادرجے کی درمندی بھی جھلک رہی ہے، اس سے کہتے ہیں: ’یٰبُنَیَّ ارْکَبْ مَّعَنَا وَلاَ تَکُنْ مَّعَ الْکٰفِرِیْنَ‘ بیٹا، آؤ ہمارے ساتھ سوارہوجاؤاوران منکروں کے ساتھ نہ رہو تو اس کی ڈھٹائی کایہ عالم ہے کہ وہ اس نازک موقع پرباپ کی نصیحت کوپرِکاہ کی حیثیت نہیں دیتا اور اس پرخلوص دعوت کو یہ کہہ کرہوامیں اڑادیتاہے: ’سَاٰوِیْٓ اِلٰی جَبَلٍ یَّعْصِمُنِیْ مِنَ الْمَآءِ‘ کشتی پرسوارہوناکیا ضروری ہے؟ میں ابھی پہاڑ پر چڑھ بیٹھوں گااور اس طرح اس پانی سے بچ جاؤں گا۔گویااس کے نزدیک یہ معاملہ نہ اسلام اور کفر کاہے اورنہ یہ خداکاعذاب ہی ہے ،بس عام ساکوئی طوفان ہے جس سے بچنے کے لیے کوئی اونچی چٹان کفایت کرتی ہے۔اس کی ایمان سے محرومی اس لیے بھی واضح ہے کہ جب باپ اوربیٹے کامکالمہ ختم ہوااوروہ غرقاب ہو گیا تو اس پراللہ نے ’فَکَانَ مِنَ الْمُغْرَقِیْنَ‘ کے الفاظ کے ساتھ تبصرہ کیا۔ظاہرہے، ان الفاظ سے مرادمحض یہ نہیں ہے کہ وہ ڈوب جانے والوں میں شامل ہوگیا،بلکہ اس موقع کی رعایت سے ان کا مطلب سمجھاجائے تووہ یہ ہے :وہ بھی انھی میں جاشامل ہواجواپنے کفراورانکارکی وجہ سے ڈوب مرے ۔اس سے بھی آگے بڑھ کرقرآن کااسلوب یہ بھی بتا دیتا ہے کہ اس کاکسی درجے میں مسلمان ہونا تو کجا،یہ آخری درجے کاکافرہے۔یہ رسول کے اہل میں سے تھا،اس لیے دوسروں سے بڑھ کراس کوہدایت کاطالب ہوناچاہیے تھا،مگراس نے گھرمیں موجودہدایت کی بے قدری کی اوراس کا منکر ہو گیا، حتیٰ کہ آخری وقت کی نصیحت کو بھی درخوراعتنانہ جانا۔ چنانچہ جب یہ ڈوب گیاتوحکم ہوا: ’یٰٓاَرْضُ ابْلَعِیْ مَآءَ کِ وَیٰسَمَآءُ اَقْلِعِیْ‘۔ اے زمین،اپناپانی نگل لے اوراے آسمان، تھم جا۔گویایہ عذاب اصلاًآیاہی اس کے لیے تھا۔ یہ ڈوب مراتوعذاب بھی اپنے اختتام کوپہنچ گیااورکہہ دیاگیا: ’بُعْدًا لِّلْقَوْمِ الظّٰلِمِیْنَ‘ ظالموں پر خدا کی پھٹکارہو۔
دوسرایہ کہ قرآن نے ’اِنَّہٗ عَمَلٌ غَیْْرُ صَالِحٍ‘ کے الفاظ استعمال کیے ہیں۔ اگربات یہی ہوتی کہ اس کو صرف کشتی میں نہ بیٹھنے کی وجہ سے عذاب ہوا تواس کے لیے پھرموزوں ترین الفاظ یہ ہوتے: ’اِنَّہٗ عَمِلَ غَیْْرَ صَالِحٍ‘ کہ اس کوہم نے اس لیے سزادی کہ اس نے ایک غلط کام کیا۔لیکن قرآن نے یہاں فعل کے بجاے مصدراستعمال کیاہے جس سے مقصوداس عمل میں مبالغہ لاناہے۔چنانچہ اب اس کا ترجمہ یہ نہیں ہے کہ اس نے ایک غلط کام کیاتھا،بلکہ درست ترجمہ یہ ہے کہ یہ بہت بڑاغلط کارتھا۔
تیسرایہ کہ اس راے سے سیدنانوح پرہونے والے کچھ اعتراضات تورفع ہوجاتے ہیں ،مگران سے مختلف ایک اورسنگین اعتراض آن وارد ہوتاہے۔ نوح پوری قوم کے لیے اِتمام حجت کاذریعہ ہیں،مگراس راے کے مطابق تادمِ شکوہ انھیں معلوم نہیں ہے کہ خداکے عذاب سے بچنے کی بنیادی شرطیں کیا ہیں۔ حتیٰ کہ یہ سارامعاملہ جب اپنے منطقی انجام کو پہنچ جاتاہے تو کہیں اس وقت جاکراللہ اس کم علمی پر انھیں تنبیہ کرتے ہیں: ’فَلاَ تَسْءَلْنِ مَا لَیْْسَ لَکَ بِہٖ عِلْمٌ‘۔ دراں حالیکہ ہم جانتے ہیں کہ موعودہ عذاب اتنی ہلکی چیزنہیں ہوتاکہ اس کی بنیادی شرطیں واضح ہوجانے کے بغیراس کو اتار دیا جائے۔ یہ خداکاعذاب ہوتاہے،اس لیے وہ خوداس کی براہ راست نگرانی کرتااوراس کے ہر ہر مرحلے کے بارے میں رسول کوہدایات دیتاہے۔رسول کی یہ منصبی ذمہ داری ہوتی ہے کہ وہ اس کے متعلق چیزوں کو کھول کرلوگوں کے سامنے بیان کر دے اوراس معاملے میں کوئی کسراٹھانہ رکھے۔اس طرح جب حق پوری طرح واضح ہوجاتاہے اورمجرموں پرعذاب اترا چاہتاہے تو اس سے پہلے مختلف طریقوں سے رسول کے ساتھیوں اورمخالفین کو علیحدہ کیا جاتا ہے۔ ان کوآپس میں ممیزکرنے کایہ عمل بھی چونکہ بنیادی حیثیت رکھتاہے ،اس لیے اس کوبھی رسول بڑی تفصیل سے بیان کرتااوراس کے لیے جوعملی اقدامات کیے جاسکتے ہوں ان کوعمل میں لاتا ہے۔ چنانچہ سیدنا نوح کے بارے میں یہ بات فرض کرلیناکسی طرح ممکن نہیں ہے کہ ان کوآخروقت تک پتانہ ہوکہ کشتی میں سوارہونا نجات کی بنیادی شرط ہے۔بلکہ قرآن کے الفاظ اس معاملے میں بالکل واضح ہیں کہ نوح علیہ السلام کوممیزکرنے کی اس شرط کاعلم تھااوراس کے مضمرات سے بھی وہ واقف تھے۔یہی وجہ ہے کہ انھوں نے عذاب آنے سے پہلے اپنی دعا میں اپنے گھرکے حوالے سے اس کاذکرکیا تھا: ’رَبِّ اغْفِرْ لِیْ وَلِوَالِدَیَّ وَلِمَنْ دَخَلَ بَیْْتِیَ مُؤْمِنًا‘ ۷ میرے مالک تو مجھے معاف فرما دے میرے ماں باپ کومعاف فرمادے،ان سب کومعاف فرمادے جومیرے گھرمیں مومن ہو کر داخل ہو جائیں۔ یہی وجہ ہے کہ وہ کشتی میں سوارہوئے توفرمایا: ’بِسْمِ اللّٰہِ مَجْرٖہَا وَمُرْسٰہَا اِنَّ رَبِّیْ لَغَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ‘۔ ۸ اس کشتی کا چلنا اور ٹھیرنا اللہ ہی کے نام سے ہے ۔میراپروردگاربخشنے والاہے ،اس کی شفقت ابدی ہے۔ گویا کشتی میں سوارہوناہی اب اللہ کی مغفرت اوررحمت کاذریعہ ہے۔ اسی لیے انھوں نے بیٹے سے کہا تھا: ’ارْکَبْ مَّعَنَا وَلاَ تَکُنْ مَّعَ الْکٰفِرِیْنَ‘ کشتی میں آن بیٹھواوران کافروں کے ساتھ نہ رہو۔ اوراسی لیے انھوں نے فرمایا تھا: ’لاَ عَاصِمَ الْیَوْمَ مِنْ اَمْرِ اللّٰہِ‘ کشتی میں بیٹھ جاؤ،وگرنہ کوئی اورچیزاللہ کے اس عذاب سے نہ بچاسکے گی۔
یہ چندمسائل ہیں جن کی وجہ سے مذکورہ توجیہات پردل مطمئن نہیں ہوتا۔ سوہماری راے میں ان آیتوں کی ایک اور توجیہ ہوسکتی ہے جس سے یہ سوالات ختم ہوجاتے اورسب اعتراضات رفع ہوجاتے ہیں اوربات کچھ بن سی جاتی ہے۔ (وگرنہ حقیقی علم تواللہ ہی کے پاس ہے)۔
ہمارے مطابق یہاں نوح کے بیٹے کی ولدیت زیربحث ہے نہ وہ حقیقت میں مسلمان یاپھرکھلاکافرہے اورنہ نوح کسی طورپراللہ سے شکوہ کناں ہی ہیں۔پھراصل بات کیا ہے؟ سورۂ ھود اورقرآن کے دوسرے مقامات کی روشنی میں اس کی سادہ صورت یہ بنتی ہے:
اتمام حجت ہوجانے کے بعد اللہ نے نوح کوکشتی بنانے کاحکم دیا۔جب عذاب آپہنچاتوفرمایاکہ اس میں ایمان والوں کو سوار کرا لو اوراپنے گھروالوں کوبھی سوارکرالو، سواے ان کے جوکفرپرقائم ہیں اوراس لیے ان کے بارے میں فیصلہ ہوچکاہے۔سونوح نے ایساہی کیا۔جب کشتی ان کولے کر چل پڑی تووہ کیادیکھتے ہیں کہ ان کابیٹا ان سے الگ ہو کر کھڑا ہے۔ یہ اس کو دعوت دیتے ہیں کہ وہ بھی اس کشتی میں سوار ہوجائے۔لیکن وہ انکارکرتاہے اور نتیجتاً عذاب کی لپیٹ میں آکرغرق ہوجاتاہے۔نوح جانتے ہیں کہ نجات کے لیے ایمان کے ساتھ ساتھ کشتی پر سوار ہونا بھی لازم تھا، اس لیے اس کے ڈوب جانے پر انھیں خداسے کوئی شکایت نہیں ہے اورنہ وہ اس کے سامنے شکوہ کناں ہوتے ہیں۔ البتہ جب عذاب تھم جاتاہے اورکشتی کوہ جودی پرجاٹکتی ہے تووہ اس کی اخروی نجات کے لیے بس دعا کرتے ہیں۔
ان کی اس دعاکامحرک جس طرح شفقت پدری کاجذبہ ہے،اسی طرح ان کایہ خیال ہے کہ وہ اُس مسلمان کے لیے دعاکررہے ہیں جوعذاب سے بچنے کی محض ایک شرط پوری نہ کرسکا۔ان میں سے پہلی چیزقطعاً معیوب نہیں ۔ یہ تودرمندی اورخیرخواہی کاوہ جذبہ ہے جوہراچھے انسان میں اپنی اولادکے لیے اورہرمسلمان داعی میں اپنے مخاطبین کے لیے ضرورپایاجاتاہے۔اللہ کے ہاںیہ اس قدرپسندیدہ ہے کہ ابراہیم ؑ نے جب اپنے باپ کے لیے دعاکی تواس نے ’اِنَّ اِبْرٰہِیْمَ لَاَوَّاہٌ حَلِیْمٌ‘ ۹ کہہ کراس جذبے کی تعریف کی۔جہاں تک نوح کااُس’’ مسلمان‘‘ کے لیے دعا کرنا ہے جونجات کاایک تقاضاپورانہ کرسکاتویہ بھی کچھ غلط نہیں ۔ہم دیکھتے ہیں کہ نبیؐ اکرم نے ان لوگوں کے لیے دعائیں کیں، جن کے سینوں کانفاق اب چھپی ہوئی چیزنہ رہاتھا۔ابراہیم ؑ کامعاملہ اس سے بڑھ کریہ ہوا کہ وہ اپنے اس باپ کے لیے بھی خداسے درخواست کرتے ہیں، جوواضح طورپر کافر ہے۔بلکہ سیدنا نوح کارویہ تواس معاملے میں حددرجہ احتیاط پرمبنی ہے۔ اول تووہ دعاکرنے ہی میں مترددنظرآتے ہیں، جیسا کہ ’وَنَادٰی نُوْحٌ رَّبَّہٗ فَقَالَ رَبِّ...‘ میں ’قَالَ‘ پر آنے والا حرف ’ف‘ بتا رہا ہے۔ وگرنہ یہ اس کے بغیر آتا، جیسا کہ حضرت زکریا علیہ السلام کی دعامیں آیا ہے: ’اِذْ نَادٰی رَبَّہٗ نِدَآءً خَفِیًّا قَالَ رَبِّ...‘۔ ۱۰ دوم یہ کہ انھوں نے کھلے لفظوں میں اس کے لیے کوئی سفارش نہیں کی۔ صرف یہ عرض کیاہے کہ پروردگار، اس سے غلطی ضرورہوئی ،مگروہ میرے مسلمان اہل میں سے تھا۔ پھر سارا معاملہ خداکی طرف تفویض کرتے ہوئے کہا کہ بے شک، تیراوعدہ ہوکررہنے والاتھااورتوسب سے بڑھ کر فیصلہ کرنے والاہے۔غرض یہ کہ نوح کی یہ دعاصرف اس لیے ہے کہ وہ اپنے بیٹے کومسلمان خیال کررہے ہیں،وگرنہ ’وَلاَ تُخَاطِبْنِیْ فِی الَّذِیْنَ ظَلَمُوْا اِنَّہُمْ مُّغْرَقُوْنَ‘ ۱۱ کا حکم سابق اورنوح علیہ السلام کا طبعی مزاج ،یہ دونوں تقاضا کرتے ہیں کہ وہ اس کے لیے بالکل دعانہ کریں ، جیسا کہ انھوں نے اپنی بیوی سمیت کسی کافرکے لیے دعانہیں کی۔
بہرحال،اللہ جوہرکھلی اورچھپی ہوئی بات کاعلم رکھتاہے ،اس نے نوح کوحقیقت حال بتاتے ہوئے کہا: ’اِنَّہٗ لَیْْسَ مِنْ اَہْلِکَ اِنَّہٗ عَمَلٌ غَیْْرُ صَالِحٍ‘ کہ یہ تیرے مومن اہل میں سے نہیں تھا،یہ تونہایت نابکارتھا۔ یعنی تم اسے مسلمان سمجھ رہے ہو،حالاں کہ یہ مسلمان تھا اور نہ کھلاکافر،بلکہ یہ توایک منافق تھا۔پھرانھیں اس دعاسے یہ کہہ کرروک دیا: ’فَلاَ تَسْءَلْنِ مَا لَیْْسَ لَکَ بِہٖ عِلْمٌ‘ چنانچہ جس بات کاتمھیں علم نہیں ہے ،اس کے بارے میں مجھ سے دعانہ کرو۔۱۲
اس کے بعد فرمایا: ’اِنِّیْٓ اَعِظُکَ اَنْ تَکُوْنَ مِنَ الْجٰہِلِیْنَ‘ میں تجھے نصیحت کرتاہوں کہ جذبات سے مغلوب ہو جانے والوں میں سے نہ ہوجانا۔یہ جذبات اصل میں ان کے وہی پدری جذبات ہیں۔ان سے بازرہنے کی نصیحت مطلق نہیں،بلکہ اس بنیادپرہے کہ حقیقت واضح ہوچکی ہے ،اس لیے اب ان جذبات سے مغلوب نہ ہونا اور اس کے لیے دعابالکل نہ کرنا۔نوح نے اسی رد عمل کااظہارکیا،جس طرح کے ردعمل کااظہارخداکے ایک برگزیدہ نبی کوکرناچاہیے تھا۔۱۳ انھوں نے اپنی اس دعاکوایک غلطی جانااور خداسے یہ کہہ کرالتجا کی:
رَبِّ اِنِّیْٓ اَعُوْذُبِکَ اَنْ اَسْءَلَکَ مَا لَیْْسَ لِیْ بِہٖ عِلْمٌ وَاِلاَّ تَغْفِرْلِیْ وَتَرْحَمْنِیْٓ اَکُنْ مِّنَ الْخٰسِرِیْنَ.
’’پروردگار، میں تیری پناہ مانگتاہوں کہ تجھ سے کوئی ایسی چیزمانگوں جس کامجھے علم نہیں ہے۔ اور (جانتا ہوں کہ) اگر تو مجھے معاف نہ کرے گااورمجھ پررحم نہ فرمائے گا تومیں نامرادہوجاؤں گا۔‘‘
أللّٰھم أرنا الحق حقًا وارزقنا إتباعہ وأرنا الباطل باطلاً وارزقنا إجتنابہ۔
_____
۱ چنانچہ ابن عباسؓ کی یہ بات بالکل صحیح ہے کہ کبھی بھی کسی نبی کی عورت نے بدکاری نہیں کی۔طبری ۱۵/ ۱۴۴۔
۲ التحریم ۶۶: ۱۰۔
۳ نوح ۷۱: ۲۴۔
۴ نوح ۷۱: ۲۶۔
۵ نوح ۷۱: ۲۸۔
۶ دین کے معاملے میں نوح کے ا س مزاج کورسول اللہ نے بھی بیان فرمایاہے جب بدرکے قیدیوں کے بارے میں حضرت عمرکی سخت راے پر ان کو نوح سے تشبیہ دی ہے۔مسنداحمد ۶/ ۱۳۸۔
۷ نوح ۷۱: ۲۸۔
۸ ھود ۱۱: ۴۱۔
۹ التوبہ ۹: ۱۱۴۔
۱۰ مریم ۱۹: ۳۔۴۔
۱۱ ھود ۱۱: ۳۷۔
۱۲ ایساہی معاملہ تھوڑے سے فرق کے ساتھ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ بھی ہوا۔آپ نے اس طرح کے کچھ لوگوں کے لیے دعائیں کیں توآپ کو بھی یہ بتاکراس سے منع کردیاگیاکہ یہ لوگ اللہ اوراس کے رسول کے منکر ہیں۔ التوبہ ۹: ۸۴۔
۱۳ جیساکہ ابراہیم علیہ السلام پرجب واضح ہوگیاکہ ان کاباپ خداکادشمن ہے تووہ اس سے بے تعلق ہو گئے۔ التوبہ ۹: ۱۱۴۔
________