HomeQuranHadithMizanVideosBooksBlogs
مصنف : ڈاکٹر وسیم مفتی

حضرت عمار بن یاسر رضی اللہ عنہ (۳)

۳۵ھ میں مملکت اسلامیہ کے بڑے شہروں میں حضرت عثمان کے خلاف پروپیگنڈہ شروع ہو گیا۔ لوگوں کے مشورہ پر حضرت عثمان نے ان شہروں میں تحقیقاتی افسرروانہ کیے۔ حضرت محمدبن مسلمہ کوفہ، حضرت اسامہ بن زید بصرہ، حضرت عماربن یاسر مصر اور حضرت عبداﷲ بن عمر شام کی طرف بھیجے گئے۔ تینوں حضرات واپس آگئے اور خیر کی خبر دی، جبکہ حضرت عمارنے تاخیر کر دی۔ ان کے شہید کیے جانے کا شبہ ہونے لگا تھا کہ ابن ابی سرح کا خط آیا، اہل مصر نے حضرت عمار کو اپنا ہم راے بنا لیا ہے، بغاوت پر آمادہ لوگ ان کے پاس اکٹھے ہونے لگے ہیں اورانھوں نے حضرت عمار کی مدینہ واپسی موخر کرا دی ہے۔ حضرت عمار مصر سے لوٹے تو حضرت سعد بن ابی وقاص ان سے ملے اور کہا: ابوالیقظان، آپ اہل خیر میں سے ہیں،میں نے سنا ہے کہ آپ امیرالمومنین کے خلاف مسلمانوں کواکساکر فساد پھیلا رہے ہیں، حضرت عمارغضب ناک ہو گئے، عمامہ اتار کر کہا: میں نے عثمان کو ایسے ہی معزول کردیا ہے جس طرح یہ عمامہ اتارا ہے۔ حضرت سعد بولے: اب جبکہ آپ عمر رسیدہ ہوگئے ہیں، ہڈیاں کمزور پڑ گئیں اور زندگی پوری ہونے کو ہے ،اسلام کا قلادہ گردن سے اتار دیا ہے۔ حضرت عمار غصے میں لوٹ گئے اور حضرت سعد رونے لگے۔ حضرت عثمان پر ان کے غصے کاایک سبب یہ بھی تھا کہ انھوں نے عتبہ بن ابولہب کے بیٹے عباس کو گالی دی تو حضرت عثمان نے انھیں سزا دلوائی۔ حضرت سعدبن ابی وقاص کے بہت روکنے پر بھی حضرت عمار خلیفۂ ثالث کے خلاف مہم چلانے سے منع نہ ہوئے۔

۳۵ھ ہی میں مصر ،کوفہ اور بصرہ کے قریباًدو ہزارباغیوں نے مدینہ کا رخ کر لیا ۔ حضرت عثمان نے ان سے گفت و شنید کرنے اور انھیں شہر میں داخل ہونے سے روکنے کی ذمہ داری حضرت علی کو سونپی۔ کبار صحابہ کی ایک جماعت بھی ان کے ساتھ گئی۔ خلیفۂ سوم نے حضرت عمار بن یاسر کو بھی حضرت علی کے ساتھ چلنے کو کہا،لیکن انھوں نے انکار کر دیا۔ پھر انھوں نے حضرت سعد بن ابی وقاص کو بھیجا کہ حضرت عمار کو جانے پر آمادہ کریں، لیکن حضرت عمار اپنے انکار پر سختی سے قائم رہے۔ حضرت محمدبن ابوبکر، حضرت محمد بن ابو حذیفہ (شاذ روایت: محمد بن جعفر) اور حضرت عمار بن یاسر ہی تین افراد تھے جن سے باغی تائید کی توقع رکھتے تھے۔ بلوائیوں نے دیگر الزامات کے ساتھ حضرت عثمان پر یہ الزام بھی لگایا کہ انھوں نے حضرت عمار بن یاسر اور حضرت محمد بن ابوبکر کو پٹوایا۔ حضرت عثمان نے ان دونوں کو دی جانے والی سزاؤں کو برحق قرار دیا۔ ابن کثیر کہتے ہیں کہ اپنی تمام تر ناراضی کے باوجود حضرت عمار بن یاسر نے اس بات کی ہرگز تائید نہیں کی کہ حضرت عثمان کو شہید کر دیا جائے ۔وہ زیادہ سے زیادہ یہ خواہش رکھتے تھے کہ حضرت عثمان خلافت چھوڑ دیں، البتہ ان کی شہادت کے بعدابوجہم بن حذیفہ نے قصاص کی بات کی تو حضرت عمارنے ان کا ساتھ دینے سے انکار کر دیا۔

حضرت علی و معاویہ کشمکش میں حضرت عمار بن یاسر حضرت علی کے حلیف اور طرف دار رہے۔ ۳۵ھ میں وہ حضرت علی کے معتمد خاص بن گئے۔ جنگ جمل سے پہلے انھوں نے حضرت طلحہ وزبیر کے خلاف عوامی مہم چلائی اور کوفہ کی آبادی کو حضرت علی کی حمایت پر جمع کر دیا۔ قاتلین عثمان سے قصاص لینے کا مطالبہ کرنے والے کوفہ میں جمع ہو چکے تھے۔حضرت علی نے ان سے بات کرنے کے لیے پہلے اشتر اور عبداﷲ بن عباس کو بھیجا۔انھوں نے کوفہ کے گورنر حضرت ابوموسیٰ اشعری سے ملاقات کی توانھوں نے کہا: تم شہید مظلوم حضرت عثمان کی تائید کرو گے تو فتنہ رفو ہو گا۔ اشتر اور ابن عباس لوٹ آئے تو حضرت علی نے حضرت حسن اور حضرت عمار کوکوفہ بھیجا۔ حضرت عمار کو نصیحت کی کہ فساد ختم کرنے کی کوشش کرنا۔ دونوں کوفہ پہنچے ،مسجد میں آئے تومسروق بن اجدع آگے بڑھ کر حضرت عمار سے مخاطب ہوا: تم لوگوں نے حضرت عثمان کو کیوں قتل کیا؟ حضرت عمار نے جواب دیا: انھوں نے ہماری عزتوں کو گالی گلوچ اور ہمارے جسموں کو مار پیٹ سے پامال کیا۔ حضرت ابوموسیٰ اشعری نے حضرت عمار بن یاسرسے سوال کیا: ابوالیقظان، کیا آپ نے دوسرے لوگوں کے ساتھ مل کر امیرالمومنین سیدنا عثمان پر حملہ کیا اور انھیں شہید کیا؟ انھوں نے جواب دیا: میں نے ایسا نہیں کیا، لیکن مجھے برا بھی نہیں لگا۔ حضرت ابوموسیٰ نے نبی صلی اﷲعلیہ وسلم کا ارشاد ’’جلد ہی ایک ایسا فتنہ رونما ہو گا جس میں بیٹھا ہوا کھڑے سے بہتر ہو گا،کھڑا ہوا پیدل چلنے والے سے بہتر ہو گا اور پیدل چلنے والا سوارسے بہتر ہوگا‘‘ * سنایا تو حضرت عمار غصے میں آگئے اور انھیں گالیاں دے ڈالیں۔ اس موقع پر بنوتمیم کا ایک شخص حضرت ابوموسیٰ کی حمایت میں اٹھ کھڑا ہوا اور حضرت عمار کوسب و شتم کرنے لگا۔ حضرت عمار اور حضرت ابو موسیٰ میں بہت جھگڑا ہو گیا، اسی شورو غوغامیں مجمع منتشر ہو گیا۔ ادھر اشتر نے گورنر حضرت ابوموسیٰ کے بچوں کو مارا پیٹا اور محل سے باہر نکال دیا ۔اس نے محل خالی کرنے کے لیے حضرت ابوموسیٰ کو ایک رات کی مہلت دی۔ اسی مجلس میں جب حضرت عمار اور حضرت حسن کوفہ کی جامع مسجد کے منبرپر کھڑے خطاب کررہے تھے، ایک شخص نے سیدہ عائشہ کو گالی دے ڈالی۔ حضرت عمار نے اسے ڈانٹ کر بٹھا دیااور کہا: خاموش ہو جااو لاخیرے، نیچ انسان! عائشہ دنیا و آخرت میں رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کی اہلیہ ہیں۔اصل بات یہ ہے کہ اﷲ نے یہ معلوم کرنے کے لیے تم کو آزمایش میں ڈالا ہے کہ تم اس کی اطاعت کرتے ہو یا عائشہ کی (بخاری، رقم ۳۷۷۲)؟

جمادی الاولیٰ ۳۶ھ میں جنگ جمل ہوئی جس میں دس ہزارسے زیادہ مسلمان شہید ہوئے۔اس جنگ میں حضرت علی، حضرت عمار، حضرت طلحہ، حضرت زبیر، حضرت عائشہ، حضرت ابن زبیر، حضرت حسن، حضرت حسین، حضرت سہل بن حنیف اور کئی صحابہ نے حصہ لیا۔ حضرت عماربن یاسرگھڑ سوار فوج کے کمانڈر تھے۔ حضرت زبیر بن عوام سیدہ عائشہ کی فوج میں تھے، حضرت عمار کو ان پر بہت غصہ تھا، کیونکہ وہ سمجھتے تھے کہ جنگ انھی کی وجہ سے شروع ہوئی ہے۔وہ بڑھ بڑھ کران پر حملہ کرتے رہے، لیکن حضرت زبیر اپنے آپ کو بچاتے رہے اور کوئی جوابی حملہ نہ کیا۔ حضرت عمار انھیں نیزہ مارنے لگے تھے کہ حضرت زبیرنے روک کر پوچھا: ابوالیقظان، کیا آپ مجھے مار ہی ڈالیں گے؟ انھوں نے کہا: نہیں، اے ابو عبداﷲ، تم نکل جاؤ،میں بھی ہٹ جاتا ہوں۔ آخرکار حضرت زبیرنے جنگ سے نکل جانے کا فیصلہ کر لیا۔ان کے پیش نظر نبی صلی اﷲ علیہ وسلم کا یہ فرمان تھا: ’’عمار، تمھیں ایک باغی گروہ قتل کرے گا۔‘‘ انھوں نے سوچا کہ اگر اس معرکہ میں حضرت عمار شہید ہوگئے تو ہماری فوج تو باغی قرار پائے گی۔ بصرہ کے سابق قاضی عمیرہ بن یشربی سیدہ عائشہ کے اونٹ کے سرپرکھڑے اس کی حفاظت کر رہے تھے۔ حضرت علی بولے: اونٹ پر کون حملہ کرے گا؟ہند بن عمرو جملی نے اپنے آپ کو پیش کیا۔عمیرہ نے انھیں روکا اور دو واروں میں قتل کر دیا۔پھر علبا بن ہیثم بڑھے اور عمیرہ کے ہاتھوں ختم ہوئے۔عمیرہ نے سیحان بن صوحان کو بھی موت سے ہم کنار کیا، پھر صعصہ کو شدید زخمی کیا اور وہ بھی چل بسے۔ اس کے بعد انھوں نے یہ فخریہ اشعار پڑھے:

إنما لمن ینکرنی ابن یشربی
قاتل علباء وہند الجملی
’’جومجھے نہیں جانتا ،جان لے کہ میں ابن یشربی ہوں ، علباء اور ہند جملی کا قاتل ہوں۔‘‘
وابن صوحان علی دین علی
’’اور ابن صوحان کا بھی جس نے علی کا ساتھ دیتے ہوئے جان دی۔‘‘
أضربہم ولا أری أبا حسن
کفی بہذا حزنًا من الحزن
’’میں ان پر وار کرتا رہا، میں نہیں سمجھتا تھا کہ ابوالحسن(علی)کے لیے یہ ایک غم کافی ہو گا۔‘‘
إنما نمر الأمر إمرار الرسن
’’ہم اس معاملے کو نکیل کی رسی کی طرح بار بار کھینچیں گے۔‘‘

حضرت عمار پکارے: تو نے ایک مضبوط قلعے (سیدہ عائشہ)کی پناہ لے رکھی ہے ، تمھارے تک پہنچنے کی راہ نہیں۔تواپنے دعوے میں اگر سچا ہے تو اس لشکر سے نکل کر میری طرف آ۔ عمیرہ نے اونٹ کی مہار بنوعدی کے ایک شخص کو پکڑائی اور فوجوں کے مابین کھڑے ہو گئے۔ حضرت عمارسامنے آئے تو عمیرہ نے وار کیا جو حضرت عمار نے چمڑے کی ڈھال سے بچایاپھر انھوں نے تاک کر عمیرہ کے پاؤں کا نشانہ لیا۔پاؤں کٹ جانے سے وہ پیٹھ کے بل آن گرے۔انھیں قیدکر کے حضرت علی کے پاس لے جایا گیاتوانھوں نے رحم کی اپیل کی، لیکن حضرت علی نے یہ کہہ کر قتل کر ادیا کہ کیا تین آدمیوں کی جان لینے کے بعد بھی معافی کی گنجایش ہے؟

حضرت علی نے اپنے سپاہیوں کو بار بار حکم دیا: سیدہ عائشہ کے اونٹ کو نشانہ بناؤ، کیونکہ اس کے گرے بغیر جنگ ختم نہ ہو گی۔اونٹ کی حفاظت کرتے ہوئے حضرت عبدالرحمان بن عتاب، حضرت جندب بن زہیر، حضرت عبداﷲ بن حکیم اور سینکڑوں افراد شہید ہوئے، حضرت عبداﷲ بن زبیرکوبہتر زخم آئے۔آخرکار ایک شخص نے اونٹ کے پاؤں پر تلوار ماری تو وہ بلبلا کر سینے کے بل بیٹھ گیا۔اب اہل جمل منتشر ہوئے اور جیش علی نے اونٹ کا محاصرہ کر لیا۔ حضرت قعقاع بن عمرو، حضرت محمدبن ابوبکر اور حضرت عمار بن یاسر نے سیدہ عائشہ کے کجاوے کی رسیاں کاٹیں اور اسے اٹھا کر لاشوں سے پرے رکھ دیا۔پردے کے لیے چادریں تان دی گئیں، حضرت علی اور تمام کمانڈروں نے ام المومنین کو سلام کیا۔ حضرت عمار روبرو آئے اور پوچھا: اماں جان، آج آپ نے اپنے بیٹوں کی لڑائی کو کیسا پایا؟انھوں نے پوچھا: تو کون ہے؟ بتایا: آپ کا تابع فرمان بیٹا عمار، سیدہ عائشہ نے کہا: میں تیری ماں نہیں ہوں۔ حضرت عمار بولے: آپ ماں ہی ہیں چاہے آپ کو برا لگے۔ دودن کے بعد حضرت علی نے سیدہ عائشہ کو بڑے اہتمام کے ساتھ مکہ کی طرف روانہ کیا۔ بصرہ کی چالیس عورتیں اوران کے بھائی حضرت محمد بن ابوبکر ساتھ تھے۔وقت رخصت حضرت عمار بن یاسر نے کہا: آپ کا یہ سفر اس ذمہ داری سے کتنا ہی بعیدہو گیا ہے جو آپ کو دی گئی تھی؟ انھوں نے جواب دیا: واﷲ، تم سچ کہہ رہے ہو۔ حضرت عمار بولے: شکر ہے اس اﷲ کا جس نے آپ کی نوک زبان پر میرے حق میں فیصلہ دیا۔

صفین دریاے فرات کے کنارے شام میں واقع ہے۔یہاں۳۶ھ اور۳۷ھ میں جنگ صفین ہوئی،پہلا حصہ ذی الحجہ ۳۶ھ کے ایک ماہ پر محیط رہاجس میں معمولی جھڑپیں ہوتی رہیں۔محرم کی حرمت میں ایک مہینے کی تعطیل ہوئی اوریکم صفر ۳۷ھ(دوسری روایت :ربیع الثانی ۳۷ھ)کو جنگ کا دوبارہ آغاز ہوا ،یہ مرحلہ نو دن جاری رہا۔ حضرت عمار بن یاسر نے اس جنگ میں بھرپور حصہ لیا۔وہ کوفہ کی پیادہ فوج کے امیر، جبکہ حضرت زیاد بن نضر گھڑسوار دستے کے قائد تھے۔ ماہ صفر کا پہلاجمعہ آیا،جنگ کو دوبارہ شروع ہوئے تین دن ہوچکے تھے، حضرت عمار بن یاسر کا مقابلہ عمرو بن عاص کے دستے سے ہوا۔ گھمسان کی جنگ ہوئی، حضرت زیاد بن نضر کے حملے کو شامیوں نے روک لیا، لیکن جب حضرت عمار نے ہلہ بولا تو وہ پسپا ہونے لگے، دن کے اختتام تک حضرت عمارنے عمروکی فوج کو پرے دھکیل دیا۔ جنگ صفین کے ساتویں روز حضرت عمار بن یاسر اور حضرت قیس بن سعد قرآن مجید کی تلاوت اور رجز خوانی پر مامور تھے۔ وہ آیات قتال کی قراء ت کر کے سپاہیوں کو جوش دلا رہے تھے۔ آٹھویں دن جیش علی کے میمنہ و میسرہ کو بھاری نقصان اٹھانا پڑا۔سورج ڈوبنے کو تھا ، دونوں فوجوں کے دستہ ہاے راست و چپ برسر پیکار تھے، جبکہ قلب ہنگامۂ کارزار سے محفوظ تھے۔ آخرکار حضرت عمار بن یاسر نے خطاب کیا: اے اﷲ، ان فاسقوں سے جہاد کرنے سے بڑھ کر کوئی عمل آج مجھے پسند نہ ہو گا۔ جو شخص اﷲ کی خوشنودی چاہتا ہے اور اس کو مال واولاد کی طرف لوٹنے کی خواہش نہیں ،ایک جتھے کی صورت میرے ساتھ آجائے۔ہمارے ساتھ مل کر ان لوگوں پر حملہ کر دو جو مطالبہ تو حضرت عثمان کے قصاص کا کر رہے ہیں، لیکن دنیا کے پجاری ہیں اوردلوں میں باطل ارادے چھپائے ہوئے ہیں۔ایک جماعت ان کے ساتھ چل پڑی، حضرت علی کے علم بردارہاشم بن عتبہ کو لے کر وہ جیش معاویہ کے قلب پر حملہ آور ہوئے۔جانے سے پہلے دودھ کاپیالہ مانگا اور فرمایا: رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کا ارشاد ہے، دنیا سے جانے سے پہلے آخری شے جو تم نوش کرو گے دودھ کا گھونٹ ہو گا (احمد، رقم ۱۸۷۸۲)۔ پانی ملا دودھ پی کر کہا: الحمد ﷲ، جنت نیزوں کے سائے میں ہے۔ پھر پکارے: عمروبن عاص، تو برباد ہو ،تونے مصر میں اپنا دین بیچ ڈالا۔ایک روایت کے مطابق شام کی ایک باندی نے دودھ کا پیالہ پیش کیا، حضرت عمارنے گھونٹ بھر کر احنف کو دیا،انھوں نے گھونٹ لے کرباقی دودھ بنوسعد کے ایک شخص کو پلا دیا۔ رات ہو چکی تھی ، مدمقابل قلب کے کمان دار ذوالکلاع نے مشکل سے یہ حملہ روکا۔خوب تلوار چلی، حضرت عمار نے مبارزت میں دو آدمیوں کو قتل کیا، پھر خود زخمی ہو گئے اور اسی ہلے میں جام شہادت نوش کیا۔ ابوالغادیہ نے نیزہ مارا ،وہ گر پڑے تو ابن حوی سکسکی نے جھک کر ان کا سر کاٹ لیا۔کچھ لوگ عمر بن حارث خولانی کو حضرت عمار کا قاتل بتاتے ہیں۔ حضرت عمار کی عمر اکانوے یا چرانوے برس ہوئی۔ حضرت عمار کی میت کو غسل دیے بغیر صفین میں دفنادیا گیا، حضرت علی نے ان کی اور ان کے ساتھ شہید ہونے والے ہاشم بن عتبہ کی نماز جنازہ پڑھائی۔ کئی صدیوں کے بعد بھی صفین کے مقام پر حضرت عمار کی قبر کی نشان دہی کی جاتی رہی۔

جنگ صفین کی اگلی رات لیلۃ الہریر تھی۔ ہریر کے معنی ہیں: کتے کی چوں چوں ۔جنگ قادسیہ کی طرح جنگ صفین کی اس رات کو بھی یہ نام دیا گیا۔ شاید یہ زمانۂ جاہلیت کی جنگ ہریر (یوم الہریر) سے مستعار ہے جو بکر بن وائل اور بنوتمیم کے قبائل میں ہوئی،اس میں بنوتمیم کا سردار حارث بن بیبہ مارا گیا تھا۔قادسیہ اور صفین کی ان دونوں راتوں میں مشترک بات یہ ہے کہ ان میں شدید لڑائی اور بھاری جانی نقصان ہوااور ان سے اگلا دن فیصلہ کن رہا۔ جنگ صفین کی اس ہولناک رات اوراگلے پچھلے دو دنوں میں مسلسل تیس گھنٹے معرکہ آرائی ہوئی جس میں طرفین کے ستر ہزار مسلمان شہید ہوئے، بیعت رضوان میں شریک تریسٹھ صحابہ بھی ان میں شامل تھے۔جنگ کے آخری دن حضرت علی نے حضرت معاویہ سے کہا: خون ریزی کرنے کے بجاے دوبدو جنگ کر لو، لیکن انھوں نے یہ سوچ کر کہ حضرت علی کا مد مقابل جان بر نہیں ہوتا، انکار کر دیا۔ تب حضرت علی نے ربیعہ اور ہمدان کے قبائل کو اپنی ڈھال اور نیزہ قرار دیا۔ خود خچر پر سوار ہوئے اور ان قبیلوں کے بارہ ہزار رضاکاروں کو ساتھ ملایااور شامیوں پر یک بارگی ٹوٹ پڑے ۔جیش معاویہ کی صفیں بکھر گئیں، سپاہیوں کے کشتوں کے پشتے لگاتے ہوئے وہ حضرت معاویہ تک جا پہنچے۔ دوپہر کے بعدمالک اشتر نے گھڑسوارفوج کے ساتھ حملہ کیا جو فیصلہ کن ثابت ہوا۔ شکست ہونے کو تھی کہ حضرت معاویہ پکارے: ہم لوگوں کو کیوں مروا رہے ہیں؟اﷲ کو حاکم کیوں نہیں بنا لیتے۔ حضرت عمرو بن عاص کے مشورے پر شامی فوج نے قرآن نیزوں پر بلند کرلیے اور صلح کی پیش کش کر دی۔ حضرت عبداﷲ بن عباس بولے: اب لڑائی ختم ہو ئی اور فریب شروع ہوگیا ہے، لیکن سپاہیوں نے جولڑتے لڑتے تھک چکے تھے صلح کی پیش کش کو غنیمت سمجھااور تلواریں میانوں میں ڈال لیں۔ سبائی فرقہ بھی حرکت میں آگیا ،اس نے جنگ بند ی کے لیے دھمکیاں دینا شروع کردیں حضرت علی تو اشترکے دستے کو واپس بلا نے پر مجبور ہو گئے۔ فریقین میں جنگ بندی کا معاہدہ ہوا اور نزاعات کو ثالثی کے ذریعے سے طے کرنے کا فیصلہ ہوا۔ افسوس کہ یہ معاہدہ روبہ عمل نہ آ سکا، بلکہ الٹا فتنۂ خوارج نے زور پکڑ لیا۔ ایک روایت ہے کہ حضرت عمار بن یاسر نے شہادت سے پہلے قرآن کو حکم بنانے کی تجویز کو ناپسند کیا تھا ۔انھوں نے جنگ کو ترجیح دی اور لڑتے لڑتے جام شہادت نوش کر لیا۔

حضرت عبداﷲ بن سلمہ کہتے ہیں کہ صفین کے روز میں نے حضرت عمار کو یوں دیکھا کہ ایک طویل القامت، گندمی رنگ کا خوردہ سال بوڑھا کانپتے ہاتھوں سے بھالا پکڑے ہوئے کہہ رہا ہے: اس ذات کی قسم جس کے قبضے میں میری جان ہے، میں نے اس بھالے کے ساتھ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کی معیت میں تین مرتبہ قتال کیا ہے اور یہ چوتھی بار ہے۔اس رب کی قسم جس کے قبضے میں میری جان ہے،ہمارے یہ مد مقابل اگر ایسی چوٹ پہنچائیں کہ ہمیں بحرین (یا یمن)کے شہر ہجر کے کھجورکے درختوں کی شاخوں میں پھنسا دیں تو بھی مجھے یقین ہو گا کہ ہمارے مصلحین حق پر ہیں اور یہ گمراہی کو اختیار کیے ہوئے ہیں (احمد، رقم ۱۸۷۸۶۔ مستدرک حاکم، رقم ۵۶۵۱)۔

ابن ہشام کہتے ہیں کہ حضرت عمار نے جنگ صفین میں یہ اشعار بھی پڑھے:

نحن ضربناکم علی تنزیلہ
فالیوم نضربکم علی تاویلہ
’’ہمارے مقابلے میںآنے والو، ہم نے تمھیں رسول پر نازل ہونے والے قرآن پر عمل کرتے ہوئے چوٹیں لگائی تھیں اور آج اسی قرآن کی تاویل کے مطابق ماریں گے۔‘‘
ضربًا یزیل الہام عن مقیلہ
ویذہل الخلیل عن خلیلہ
’’ایسی مار جو کھوپڑی کو سینے سے الگ کردے اور دوست کو دوست سے غافل کر دے۔‘‘
أو یرجع الحق إلی سبیلہ
’’یا حق اپنی راہ پکڑ لے ۔‘‘

جنگ ختم ہوئی تو کئی سپاہیوں نے حضرت عمروبن عاص کے پاس آ کر حضرت عمار کو قتل کرنے کا دعویٰ کیا۔ حضرت عمرو نے ہر ایک سے پوچھا: تم نے انھیں (آخری وقت) کیا کہتے سنا؟وہ الٹ پلٹ جواب دیتے رہے، حتیٰ کہ ابن حوی آیا اور بتایا کہ میں نے انھیں یہ رجز پڑھتے سنا:

الیوم ألقی الأحبۃ
محمدًا وحزبہ
’’ آج میں دوستوں سے ملوں گا،یعنی محمد اور ان کی جماعت سے۔‘‘

تو حضرت عمرو نے کہا: توسچ کہتا ہے،تو ہی ان کا قاتل ہے ،ساتھ ہی کہا: تو نے اپنے رب کو ناراض کر دیا ہے،میر ادل تو چاہتا ہے کہ اس سانحہ سے بیس برس قبل ہی مر گیا ہوتا ۔اسی طرح دو اور آدمی حضرت عمار کے قتل اورجنگ میں ان کے چھوڑے ہوئے سامان کا دعویٰ کرتے ہوئے عمرو کے پاس آئے تو انھوں نے کہا: نکل جاؤ، تمھارا ناس ہو، دوزخ کے لیے جھگڑ رہے ہو؟رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے حضرت عمارپر ظلم ڈھانے والوں اور ان کی جان لینے والے کو جہنمی ہونے کی وعید سنائی ہے (مسلم، رقم ۲۹۱۶)۔ حضرت معاویہ بولے: ان لوگوں نے ہمارے لیے اپنی جانیں کھپا دی ہیں اور تم انھیں دوزخ کی باتیں سنا رہے ہو؟ حضرت عمرو نے جواب دیا: واﷲ، ایسا ہی معاملہ ہے۔ حضرت معاویہ کے کمانڈر ذوالکلاع کو آں حضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کا حضرت عمار کو فرمایا ہوا ارشاد: ’’تمھیں ایک باغی گروہ قتل کرے گا‘‘ بہت کھٹکتا تھا۔ وہ حضرت عمارکی شہادت سے پہلے مارے گئے تو حضرت عمروبن عاص نے حضرت معاویہ سے کہا: مجھے سمجھ نہیں آتا کہ حضرت عمار کے قتل کی خوشی مناؤں یا ذوالکلاع کی موت کو زیادہ مبارک سمجھوں۔ حضرت عمارکے جانے کے بعد ذوالکلاع زندہ رہتے تو اہل شام کی اکثریت کو حضرت علی کے پاس لے جاتے اور ہماری فوج برباد ہو جاتی۔ حضرت عمرو بن عاص کے بیٹے عبداﷲ نے اسی فرمان نبوی کو مدنظر رکھتے ہوئے جنگ میں اپنے باپ کا ساتھ نہیں دیا، حالاں کہ وہ اس موقع پرموجود تھے (احمد، رقم ۶۵۳۸)۔ ایک اور صحابی حضرت خزیمہ بن ثابت جنگ جمل اور جنگ صفین میں حضرت معاویہ کی فوج میں شامل تھے، لیکن اس ارشاد نبوی کو ذہن میں رکھتے ہوئی تلوار نکالی نہ لڑائی میں حصہ لیا اور کہا: عمار کی شہادت کے بعد قتال کروں گا۔ چنانچہ یہ خبر سن کر وہ خیمے میں گئے، غسل کر کے اسلحہ زیب تن کیا اور لڑتے لڑتے شہید ہوئے۔ حضرت معاویہ حضرت عمارکی شہادت سے لاتعلقی ظاہر کرتے رہے، حضرت عمرو بن عاص نے ان کی توجہ اس فرمان رسالت کی طرف دلائی تووہ جھنجھلا گئے اور کہا: کیا ہم نے انھیں قتل کیا ہے؟ انھیں توان لوگوں نے مروایا ہے جو انھیں ساتھ لائے تھے (احمد، رقم ۶۹۲۶۔ مستدک حاکم، رقم ۵۶۶۰)۔ حضرت عمر بن خطاب کے آزاد کردہ ہنی جیش معاویہ میں شامل تھے۔ وہ بتاتے ہیں کہ جنگ کے دوران میں حضرت معاویہ کے سپاہی عہد کرتے رہے، ہم ہرگز حضرت عمار کو قتل نہ کریں گے۔ ایسا کیا تو ہم پر گمراہ گروہ کا اطلاق ہو جائے گا۔ حضرت عمار کی شہادت کے روز انھوں نے حضرت عمرو کو یہ خبر سنائی تو انھیں یقین نہ آیا۔ خود جا کر حضرت عمار کی میت دیکھی تو ان کا رنگ فق ہو گیا اور کہا: جس نے انھیں شہید کیا، خارجی ہو گیا۔

[باقی]

_____

* بخاری، رقم ۷۰۸۱۔

________

B