اواخرجمادی الثانی ۲ھ میں رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے قریش کی سرگرمیوں کی خبر لینے کے لیے حضرت عبداﷲ بن جحش کی سربراہی میں نومہاجرین کا ایک سریہ روانہ کیا۔ حضرت ابوحذیفہ بن عتبہ، حضرت عکاشہ بن محصن، حضرت عتبہ بن غزوان، حضرت سعد بن ابی وقاص، حضرت عامر بن فہیرہ، حضرت واقد بن عبداﷲ، حضرت خالد بن بکیر اور حضرت سہیل بن بیضا اس کے شرکا تھے۔ ایک روایت کے مطابق حضرت عمار بن یاسر نے بھی اس سریہ میں حصہ لیا۔ ہجرت مدینہ کے بعد یہ پہلی مہم تھی جس میں مسلمانوں کو کامیابی حاصل ہوئی۔عمرو بن حضرمی پہلا مشرک تھا جو اسلامی فوج کے ہاتھوں جہنم واصل ہوا، اس طرح عثمان بن عبداﷲاور حکم بن کیسان دور اسلامی کے اولین جنگی قیدی تھے۔ سرےۂ عبداﷲ بن جحش کی تاریخ میں بہت اہمیت ہے، کیونکہ اس سریہ کے بعد قریش کاشام سے تجارتی رابطہ منقطع ہو گیا جس سے ان کی معیشت کو سخت دھچکا لگا ۔عمرو بن حضرمی کا قتل مشرکین مکہ پر اس قدر شاق گزرا کہ ان کے بڑے بڑے سورما مسلمانوں سے بدلہ لینے کے لیے بدر کے میدان میں پہنچ گئے۔
حضرت عمار بن یاسر نے جنگ بدر میں بڑھ چڑھ کرحصہ لیا۔اس روز انھوں نے بنوامیہ کے حلیف عامر بن حضرمی ،بنو اسد کے حارث بن زمعہ اوربنو جمح کے مشرک سردار امیہ بن خلف کے بیٹے علی کو جہنم رسید کیا۔ حضرت عمار نے بنو تمیم کے ایک سورما کو بھی قتل کیاجس کا نام اہل تاریخ نے بیان نہیں کیا۔ابو قیس بن فاکہ کو حضرت علی نے انجام تک پہنچایا، تاہم ابن ہشام عمار بن یاسر کو اس کا قاتل بتاتے ہیں۔ حضرت عمار، حضرت سعدبن ابی وقاص اور حضرت عبد اﷲ بن مسعود جنگ بدر کی غنیمتوں میں شریک تھے۔ حضرت سعد تو دو قیدی لے آئے، لیکن حضرت عمار اور حضرت ابن مسعود کے ہاتھ کچھ نہ آیا (ابوداؤد، رقم ۳۳۸۸۔ نسائی، رقم ۳۹۶۹)۔
۳ھ: جنگ احد کے اگلے دن نبی صلی اﷲ علیہ وسلم احد کے تمام شرکا، حتیٰ کہ زخمیوں کوبھی لے کر مدینہ سے سات میل دور حمر الاسد کے مقام پر گئے اور تین دن قیام کیا۔ طاقت کااظہار کرنا آپ کا مقصد تھا، اسی لیے ابوسفیان کو، جو پلٹ کر مسلمانوں پر حملہ کرنا چاہتا تھا، مدینہ کا رخ کرنے کی جرأت نہ ہوئی۔واپس لوٹتے ہوئے آپ نے بنو امیہ کے معاویہ بن مغیرہ کو پکڑاجو راستے سے بھٹک گیا تھا۔اس نے جنگ احد میں سیدنا حمزہ کی ناک کاٹی اور ان کی نعش کا مثلہ کیا تھا۔ مدینہ پہنچ کر اس نے حضرت عثمان کے گھر جا کر امان لے لی۔ان کی درخواست پر آپ نے اسے تین دن کی مہلت دے دی اور فرمایا: اس کے بعداگر تو نظر آیا تو تجھے قتل کر دیا جائے گا ۔وہ مدینہ سے نکل کر روپوش ہو گیا تاکہ آپ کی جاسوسی کر سکے، چوتھے دن آپ نے حضرت زید بن حارثہ اور حضرت عمار بن یاسر کو اس کے پیچھے بھیجا اور فرمایا: وہ زیادہ دور نہیں گیا ہوگا، فلاں جگہ چھپا ہو گا،اسے دیکھتے ہی قتل کر دینا۔ حضرت عمار اور حضرت زید نے اسے حمات کے مقام پر جا لیا اور جہنم واصل کر دیا۔ دوسری روایات کے مطابق آں حضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے حضرت زبیر یا حضرت عاصم بن ثابت کو معاویہ کی گردن اڑانے کا حکم دیا۔
ام المومنین ام سلمہ مخزومی کے پہلے شوہر ابوسلمہ جنگ احد میں زخمی ہوئے اور سرےۂ ابوسلمہ میں شرکت کے بعد وفات پائی۔عدت گزرنے کے بعدوہ آں حضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے نکاح میں آگئیں۔تب زینب ان کی گود میں دودھ پیتی تھیں۔ آپ جب بھی آتے، انھیں دودھ پلاتے دیکھ کر لوٹ جاتے۔یہ صورت حال( بنومخزوم کے حلیف) حضرت عمار بن یاسرکو بہت کھٹکی۔ چنانچہ انھوں نے زینب کی دودھ پلائی کا انتظام کیا (احمد، رقم ۲۶۶۰۰)۔ ابن جوزی بیان کرتے ہیں کہ حضرت عمار بن یاسرنے رسول اﷲصلی اﷲ علیہ وسلم کو ام سلمہ کی طرف جاتے دیکھاتو بھاگتے ہوئے گئے، زینب کو ان کی گود سے اٹھا لائے اور کہا: یہ منحوس بچی مجھے دے دو جو رسول پاک کی حاجت میں رکاوٹ بن رہی ہے۔ آپ آئے تو بچی کو نہ پاکر پوچھا: زینب کہاں ہے؟ ام سلمہ نے بتایا: اسے عمار لے گئے ہیں۔
شوال ۴ھ میں غزوۂ احزاب ہواجسے جنگ خندق بھی کہا جاتا ہے ۔مدینہ کے ایک طرف پہاڑیاں اور دوسری طرف مکانات تھے۔ حضرت سلمان فارسی کی تجویز پر تیسری طرف جو کھلی تھی ، پانچ گز چوڑی اور پانچ گز گہری خندق کھودی گئی۔ دس دس صحابہ کو چالیس چالیس ذراع(پچیس گزسے کچھ زیادہ)زمین کھودنی تھی۔ حضرت عمار بیماری سے اٹھے تھے اور روزے سے تھے اور اسی حالت میں خندق سے پتھر اور مٹی نکال رہے تھے ۔ سیدنا ابوبکر نے کہا: عمار، تو تو اپنے آپ کومارڈالے گا۔آں حضور صلی اﷲ علیہ وسلم نے سنا تو عمارسے مخاطب ہوئے،یہ سمجھتے ہیں کہ تو مر جائے گا۔تمھاری جان تو ایک باغی گروہ لے گا (مسلم، رقم ۷۴۲۶۔ احمد، رقم ۲۲۵۰۸)۔
۴ھ میں بنوغطفان کی شاخوں بنومحارب اور بنو ثعلبہ کے بارے میں پتا چلا کہ مدینہ پر حملہ کی تیاریوں میں مصروف ہیں۔چنانچہ نبی صلی اﷲ علیہ وسلم چار سو صحابہ کا لشکر لے کر ان کے مقابلہ کے لیے نکلے ۔آپ کے پہنچنے پر وہ منتشر ہو گئے، تاہم ایک مشرک کی بیوی کسی مسلمان کے ہاتھوں ماری گئی۔اس نے بیوی کابدلہ لینے کی قسم کھائی اور اسلامی فوج کا پیچھا کرنا شروع کر دیا۔دن ڈھلا تو نبی صلی اﷲ علیہ وسلم نے پڑاؤ ڈالا اور پوچھا: رات کے وقت کون ہماری حفاظت کرے گا؟ ایک مہاجر حضرت عمار بن یاسر اور ایک انصاری حضرت عباد بن بشر رضاکارانہ طور پر آگے بڑھے اور کہا: یا رسول اﷲ، ہم پہرہ دیں گے۔ دونوں گھاٹی کے خارجی راستے پر پہنچے، حضرت عباد نے حضرت عمار سے پوچھا: رات کا پہلا یا آخری کون سا حصہ چاہیں گے کہ میں آپ کو آرام کا موقع دوں؟ حضرت عمار نے کہا: پہلے پہر آپ میری جگہ کھڑے ہو جائیں۔ حضرت عمار سو گئے تو حضرت عباد نوافل پڑھنے کھڑے ہو گئے۔ اسی اثنا میں دشمن فوج کا ایک آدمی ادھر آگیا اور حضرت عباد کے جسم پر تیر مار دیا۔ حضرت عباد نے تیر کھینچ کر نکال لیا اور کھڑے تلاوت کرتے رہے۔اس نے دوسری بار تیر مارا، حضرت عباد نے پھر اسے نکال پھینکا اور حالت قیام میں رہے۔ جب اس نے تیسرا تیر پھینکا تووہ اسے نکال کر رکوع و سجود میں چلے گئے، پھر (سلام پھیر کر) حضرت عمار کو جگایا اور بتایا کہ میں تیر لگنے سے زخمی ہو گیا ہوں۔ وہ فوراً اٹھ کھڑے ہوئے، دشمن کو پتا لگ گیا کہ میں پکڑا جاؤں گا تو وہ بھاگ گیا۔ حضرت عمار نے حضرت عباد کو خون میں لت پت دیکھا تو کہا: آپ نے پہلا نشانہ لگنے پر مجھے کیوں نہ جگایا؟ حضرت عباد بن بشر نے جواب دیا: میں ایک سورت (سورۂ کہف) کی تلاوت کر رہا تھا،اسے مکمل کیے بغیر چھوڑنے کو دل نہ چاہا۔
شعبان ۵ھ میں خبرپہنچی کہ بنومصطلق کا سردار حارث بن عزار جنگ کی تیاریوں میں مصروف ہے اور دوسرے قبائل کو بھی مسلمانوں کے خلاف اکسا رہا ہے تو آں حضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے سات سو صحابہ کے ساتھ بنو مصطلق پر حملہ کیا۔قریش کا علم حضرت ابوبکر صدیق یا حضرت عمار بن یاسرکے ہاتھ میں تھا، جبکہ انصار کا پرچم حضرت سعد بن عبادہ نے اٹھا رکھا تھا۔ پہلے آپ کے حکم پر سیدنا عمر نے انھیں اسلام قبول کرنے کی دعوت دی۔ وہ نہ مانے، بلکہ الٹا تیر اندازی شروع کردی توآپ نے یک لخت حملہ کرنے کا حکم دیا۔ مریسیع کے مقام پر ہونے والے اس غزوہ میں یہودیوں کو سخت ہزیمت اٹھانا پڑی۔اس موقع پرعبداﷲ بن ابی کا گروہ منافقین بھی سرگرم رہا۔ واقعۂ افک عائشہ اسی مہم سے واپسی پر پیش آیا۔
آں حضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے حضرت خالد بن ولید کی سربراہی میں ایک قبیلے کی طرف سریہ روانہ کیا، حضرت عمار بھی اس میں شریک تھے۔جب وہ قبیلے کے پاس پہنچے تو تمام لوگ بھاگ گئے، البتہ ایک شخص اپنے کنبے سمیت موجود رہا۔ وہ حضرت عمار بن یاسر کے پاس آیااور پوچھا: کیا مجھے ایمان لانے سے کوئی سہولت ملے گی یا میں بھی قوم کی طرح فرار ہو جاؤں؟ حضرت عمار نے اسے امان دے دی۔ حضرت خالد آئے تو کہا: آپ کیسے امان دے سکتے ہیں، امیر سریہ تو میں ہوں؟ حضرت عمارنے کہا: میں نے آپ کی طرف سے امان دی ہے۔ دونوں میں یہ تکرار ہوتی رہی تو معاملہ آں حضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے سامنے پیش کیا گیا۔آپ نے حضرت عمار کی دی ہوئی امان تو برقرار رکھی، لیکن آیندہ کے لیے منع فرما دیا کہ امیرکے علاوہ کوئی امان دینے کا فیصلہ کرے۔اس نزاع میں حضرت خالد نے حضرت عمار کو گالی دی تو آپ ناراض ہوئے اور فرمایا: جو عمار سے بغض رکھے گا، اﷲ بھی اس سے بغض رکھے گا اور جو عمار کو لعنت ملامت کرے گا، اﷲ بھی اس پر لعنت کرے گا (تاریخ دمشق ۴۶/۲۷۶)۔
صلح حدیبیہ کے موقع پر حضرت عمار بن یاسر بیعت رضوان میں شامل ہوئے۔
۸ھ: فتح مکہ کے روز رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے عام معافی کااعلان کیا، تاہم چار مردوں — عکرمہ بن ابوجہل، عبداﷲ (یا عبدالعزیٰ) بن خطل، مقیس بن صبابہ ،عبداﷲ بن سعد بن ابی سرح — اور دو عورتوں — ہند بنت عتبہ اور ام سارہ — کا استثنا کرتے ہوئے ارشاد فرمایا: انھیں قتل کردو چاہے وہ کعبہ کے پردوں سے لپٹے ہوں۔عبداﷲ بن خطل کعبہ کے پردے سے چپکا ہوا تھا۔ حضرت سعیدبن حریث اور حضرت عمار بن یاسر اس کی طرف لپکے۔ حضرت سعیدقوی اور جوان تھے ،اسے پکڑنے اور جہنم رسید کرنے میں کامیاب ہو گئے۔مقیس کو بازار میں لوگوں نے پکڑ کر مار ڈالا۔باقی اصحاب کو بچ جانے اور دائرۂ اسلام میں داخل ہو جانے کی مہلت مل گئی (نسائی، رقم ۴۰۷۲)۔
حضرت عمار بن یاسرسے روایت ہے کہ میں نے رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کی معیت میں انسانوں اورجنوں کے ساتھ قتال کیا ہے، پوچھا گیا: آپ نے جنوں سے کیسے جنگ کرلی؟ تو انھوں نے بتایا: ایک سفر میں ہم آپ کے ساتھ تھے۔میں نے کنویں سے پانی نکالنے کے لیے ڈول اور مشکیزہ پکڑا تو آپ نے فرمایا: ایک آنے والا آئے گا اور تمھیں پانی لینے سے روکے گا۔میں کنویں کی منڈیر پر پہنچا تو ایک سیاہ فام جنگجو آیا اور کہا: واﷲ، تو آج ایک ڈول بھی نہ نکالنے پائے گا۔ہم دونوں ہاتھا پائی کرتے ہوئے گتھم گتھا ہو گئے ، آخر کار میں نے اسے پچھاڑ دیا اورپتھر مار کر اس کا ناک منہ توڑ ڈالا۔لوٹا تو آپ نے تمام واقعہ سن کر فرمایا: وہ شیطان تھا،تمھیں پانی لینے سے روکنے آیا تھا (الطبقات الکبریٰ، ابن سعد ۲/ ۲۲۱)۔
ایک باربنو تمیم کے سردار اقرع بن حابس اوربنو فزارہ کے لیڈرعیینہ بن حصن رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم سے ملنے آئے تو دیکھا کہ آپ غریب اہل ایمان حضرت صہیب، حضرت بلال، حضرت عمار اور حضرت خباب — کے ساتھ تشریف فرما ہیں۔ انھوں نے ان کو نظر حقارت سے دیکھا اور آپ کو الگ لے جا کر کہا: ہم چاہتے ہیں کہ آپ ہمارے لیے ایسی نشست رکھیں جس سے عربوں کوہماری فضیلت کا احساس ہو۔ آپ کے پاس عربوں کے وفد آ رہے ہیں، ہمیں شرم آتی ہے کہ وہ ہمیں ان غلاموں کے ساتھ بیٹھا دیکھیں۔ ہمارے جانے کے بعدآپ چاہیں تو ان کے پاس بیٹھ جائیں۔آپ نے ہامی بھر لی تو ان لوگوں نے تحریر کرنے کو کہا۔ آپ نے کاغذ منگوا کر سیدنا علی کو لکھنے کا کہا۔ اسی دوران میں جبریل علیہ السلام وحی لے کر نازل ہو گئے:
وَلَاتَطْرُدِ الَّذِیۡنَ یَدْعُوْنَ رَبَّہُمْ بِالْغَدٰوۃِ وَ الْعَّشِیِّ یُرِیۡدُوْنَ وَجْہَہٗ، مَا عَلیۡکَ مِنْ حِسَابِہِمْ مِّنْ شَیْءٍ وَّمَا مِنْ حِسَابِکَ عَلَیۡہِمْ مِّنْ شَیْءٍ فَتَطْرُدَہُمْ فَتَکُوْنَ مِنَ الظّٰلِمِیۡنَ. (الانعام۶: ۵۲)
’’(اے نبی)، ان لوگوں کو نہ دھتکاریے جو اپنے رب کی خوشنودی چاہنے کے لیے صبح و شام اسے پکارتے ہیں۔ ان کے اعمال کے حساب میں سے آپ پر کچھ عائد نہیں ہوتا اور آپ کے اسوۂ حسنہ کے حساب کی ان پر کوئی ذمہ داری نہیں۔ایسا نہ ہو کہ ان کو دھتکار کر آپ ظالموں میں سے ہو جائیں۔ ‘‘
حضرت خباب کہتے ہیں کہ ہم آپ کے اتنا قریب ہو گئے کہ گھٹنے آپ کے گھٹنوں سے ملا لیے۔ آپ ہمارے پاس ہی بیٹھتے اور جب خود جانا چاہتے تو تشریف لے جاتے (ابن ماجہ، رقم ۴۱۲۷)۔ اس منفرد حدیث کے راوی ابو سعید ازدی کی روایات تفرد کی صورت میں قبول نہیں کی جاتیں۔ یہ واقعہ مدینہ میں پیش آیا، جبکہ حضرت سعد بن ابی وقاص فرماتے ہیں: سورۂ انعام کی یہ آیت میرے، حضرت ابن مسعود، حضرت صہیب، حضرت عمار، حضرت مقداد اور حضرت بلال کے بارے مکہ میں نازل ہوئی (ابن ماجہ، رقم۴۱۲۸)۔
۹ھ: نبی صلی اﷲ علیہ وسلم غزوۂ تبوک کے سفرپر تھے،دو منافق ودیعہ بن ثابت اور مخشن بن حمیر آپ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے باتیں کرنے لگے کہ کیا تم سمجھتے ہو کہ رومیوں سے جنگ ایسے ہی ہوگی، جیسے عرب ایک دوسرے سے کرتے ہیں۔ بخدا، کل ہم تمھیں بیڑیوں میں جکڑا دیکھیں گے۔مخشن بولا: میرا دل چاہتا ہے کہ ہم میں سے ہر ایک کو سو سو کوڑے مارنے کا فیصلہ کیا جائے۔آپ کو علم ہوا تو ان کی بازپرس کے لیے حضرت عمار بن یاسر کو بھیجا اور فرمایا: اگر وہ نہ مانیں تو ان کی کہی باتیں سنا دینا۔آخر کار وہ آپ سے معذرت کرنے آئے۔ودیعہ نے آپ کی اونٹنی کا بند پکڑ کر کہا: ہم تو ہنسی مذاق کر رہے تھے۔تب یہ آیت وعید نازل ہوئی: ’اَبِاللّٰہِ وَاٰیٰتِہٖ وَرَسُوْلِہٖ کُنْتُمْ تَسْتَہْزِءُ وْنَ‘، ’’کیا تم اﷲ ،اس کی آیتوں اور اس کے رسول کا مذاق اڑاتے ہو؟‘‘ (التوبہ۹: ۶۵)۔ مخشن نے توبہ کر لی اور شہادت کی دعا مانگی تو انھیں اﷲ کی طرف سے معافی مل گئی۔ان کا ذکر ان الفاظ میں ہوا: ’اِنْ نَّعْفُ عَنْ طَآءِفَۃٍ مِّنْکُمْ نُعَذِّبْ طَآءِفَۃً‘، ’’اگر ہم نے تمھارے ایک گروہ کو معاف کر دیا تو دوسرے کو (ضرور) سزا دیں گے‘‘ (التوبہ ۹: ۶۶)۔ ابن جوزی نے اس واقعے کو مختلف طریقے سے بیان کیا ہے، وہ کہتے ہیں کہ غزوۂ تبوک سے واپسی پرجدبن قیس،و دیعہ بن خدام اور جہیر بن جمیر رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ سے آگے چل رہے تھے۔ان میں سے دو آپ کا مذاق اڑانے لگے اور تیسرا ان کی باتوں پر ہنسنے لگا۔ تب جبرئیل علیہ السلام آئے اور ان کے ٹھٹھے کی خبر دی۔ آپ نے حضرت عمار کو یہ پوچھنے کے لیے بھیجا کہ کس بات پرٹھٹھا کر رہے ہو،اﷲ تمھیں جلا ڈالے۔وہ آپ سے معذرت کرنے آئے تو سورۂ توبہ کی مندرجہ بالا آیات ’لاَ تَعْتَذِرُوْا قَدْ کَفَرْتُمْ بَعْدَ اِیْمَانِکُمْ‘، ’’عذر نہ تراشو، تم نے (بظاہر) ایمان قبول کر کے کفر کا ارتکاب کیا ہے‘‘ (۶۵۔۶۶) نازل ہوئیں۔
تبوک سے واپسی پر منافقین کے ایک گروہ نے آں حضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کو راستے میں آنے والی ایک گھاٹی کے اوپر سے گرانے کا پروگرام بنایا۔اﷲ کی طرف سے آپ کو مطلع کر دیا گیا۔آپ نے اعلان کروا دیا کہ آپ گھاٹی پر سے جائیں گے ،وہاں کوئی اور نہ آئے، جبکہ صحابہ وادی میں سے گزریں گے۔ حضرت عمار بن یاسر آپ کی اونٹنی کی باگ پکڑے ہوئے تھے اور حضرت حذیفہ بن یمان اسے پیچھے سے ہانک رہے تھے۔ چلتے چلتے بارہ (یا چودہ )نقاب پوش منافقوں نے آپ کو گھیرے میں لے لیا۔ حضرت حذیفہ نے آپ کو بتایا تو آپ نے انھیں ڈانٹا، پھر حضرت حذیفہ اپنا ڈنڈا لے کر ان کی طرف لپکے اور ان کی سواریوں کا رخ واپس موڑ دیا۔جب انھیں احساس ہوا کہ ان کی سازش بے نقاب ہو گئی ہے تو جلدی سے لشکر میں بکھر گئے۔اندھیرے اور نقاب کی وجہ سے حضرت حذیفہ ان کو پہچان نہ سکے، لیکن نبی صلی اﷲ علیہ وسلم نے ان کے نام بتا دیے اور صیغۂ راز میں رکھنے کا حکم دیا۔ حضرت حذیفہ کے اس مشورے پر کہ انھیں قتل کرا دیاجائے، آپ نے فرمایا: میں نہیں چاہتا کہ لوگ کہیں کہ محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) اپنے ساتھیوں کو مروا دیتے ہیں ( احمد، رقم ۲۳۶۸۲)۔
عہد صدیقی :(۱۱ھ) میں جنگ یمامہ ہوئی جس میں حضرت عمارنے شرکت کی ۔اس جنگ میں ان کا ایک کان کٹ گیا تووہ ایک چٹان پر کھڑے ہو کر پکارنے لگے: مسلمانو، کیاتم جنت سے بھاگ رہے ہو؟ میں ہوں عمار بن یاسر ،میری طرف آؤ۔ چنانچہ وہ دوسرے سپاہیوں کے ساتھ زخمی حالت میں ہی لڑائی کرتے رہے،ان کا کان پھڑپھڑاتا رہا۔بعد میں کوئی ان کو کن کٹا کہہ کر پکارتا تو کہتے: تو نے میرے بہترین کان کو گالی دے ڈالی۔
خلیفۂ دوم نے حضرت عمارکا وظیفہ چھ ہزار درہم مقرر کیا۔ ابن عساکرکہتے ہیں کہ سیدنا عمر جابیہ کے دورے پر گئے تو حضرت عمار بن یاسران کے ساتھ تھے۔کسی نصرانی نے رسالت مآب صلی اﷲ علیہ وسلم کے پاس آنے والے نجران کے وفد کے بارے میں کوئی بات کی تو حضرت عمر بولے: حضرت عمار کو بلاؤ۔عمار آئے اور وفد نجران کا قصہ سنایا۔
۱۷ھ: عہد فاروقی میں ایرانیوں کو پے درپے ہزیمتوں کا سامنا کرنا پڑا اور ساسانی بادشاہ یزدگرد ایک شہر سے دوسرے شہر میں پناہ لیتا رہا۔یزدگرد کے تین سو مصاحب بھی جن میں سیاہ نمایاں تھا، شہر شہر دربدر ہوتے رہے ۔ اس خواری سے وہ عاجز آچکے تھے اوراسلام کا رعب اور دبدبہ ان کے دلوں میں بیٹھ چکا تھا۔اسی اثنا میں حضرت ابوموسیٰ اشعری اہواز فتح کرنے کے بعدشوستر (تستر)پہنچ چکے تھے۔ حضرت عمر نے حضرت عمار بن یاسر کو شوستر جانے کو کہا۔ حضرت عمار وہاں پہنچے توایرانی جرنیل سیاہ رامہرز کے رستے پر پڑاؤ ڈالے ہوئے تھا۔اس نے دس سرداروں کی معیت میں شیرویہ کو حضرت ابوموسیٰ اشعری کے پاس بھیجا اور اسلام قبول کرنے کے لیے کچھ شرائط پیش کیں جو انھوں نے حضرت عمر کے حکم پرمان لیں، اس طرح یہ سب مشرف بہ اسلام ہو گئے۔
۲۰ھ میں کوفہ کے کچھ لوگوں نے امیر المومنین حضرت عمر سے حضرت سعد بن ابی وقاص کی برائیاں کیں، حتیٰ کہ لکھ بھیجا کہ وہ نماز بھی صحیح نہیں پڑھاتے۔ مکمل تفتیش کے بعد ثابت ہوا کہ حضرت سعد سے کوئی غلطی نہیں ہوئی ،اس کے باوجود سیدنا عمر نے انھیں معزول کرنا مناسب سمجھا اور حضرت عبداﷲ بن عبداﷲ بن عتبان کو گورنر بنا دیا۔ حضرت عبداﷲ کے بعد حضرت زیاد بن حنظلہ اور ۲۱ھ میں حضرت عمار بن یاسر گورنر مقرر ہوئے۔ حضرت عمار کے ساتھ حضرت عبداﷲ بن مسعود بیت المال کے نگران اور حضرت عثمان بن حنیف سواد عراق کے امیر بنائے گئے۔ ان کے فرمان تقرری میں سیدنا عمر نے لکھا: یہ محمد صلی اﷲ علیہ وسلم کے ممتاز اور منتخب اصحاب میں سے ہیں،ان کی سمع و طاعت کرنا۔ انھوں نے ایک بکری ان کا روزینہ مقرر کیا اور ہدایت کی کہ نصف بکری اور پیٹ کا حصہ حضرت عمار کو دیا جائے ، چوتھائی بکری حضرت ابن مسعود اور چوتھائی حضرت عثمان کو دی جائے۔ اپنی گورنری کے زمانہ میں حضرت عمار نے فتح خوزستان میں حصہ لیا۔ اہل بصرہ نے نہاوند پر حملہ کیا تو حضرت عمار کی سربراہی میں اہل کوفہ نے ان کی مدد کی۔جنگ ختم ہونے پر بصریوں نے کوفیوں کو غنیمت کا حصہ دینے سے انکار کردیا۔بنوتمیم کا ایک شخص بولا: او کن کٹے، تو ہماری غنیمتوں میں ساجھی بننا چاہتا ہے؟ حضرت عمار بولے: تو نے میرے بہترین کان کو گالی دے ڈالی۔ پھر انھوں نے سیدنا عمر کو خط لکھا تو جواب آیا: مال غنیمت اسی کو ملتا ہے جوجنگ میں شریک ہو۔پونے دو سال اقتدار میں رہنے کے بعد ۲۲ ھ میں حضرت عمار بھی معزول ہوئے،ان کے بارے میں شکایتیں پہنچی تھیں کہ کاروبار مملکت کی سوجھ بوجھ نہیں رکھتے۔ایک شخص عطارد نے ان کے خلاف گواہی دی۔ حضرت سعد بن مسعود نے کہا: حضرت عمار کو یہ بھی معلوم نہیں کہ ان کی عمل داری میں کون کون سے علاقے ہیں۔اس پر سیدنا عمر نے یہ سوال ان سے کیا تو وہ صحیح جواب نہ دے سکے۔ حضرت عمار کی جگہ حضرت ابو موسیٰ اشعری نے لی۔ حضرت عمار سے پوچھا گیا: کیا معزولی سے آپ کو رنج پہنچا ہے؟ حضرت عمار نے جواب دیا: گورنری نے مجھے خوش نہ کیا تھا، البتہ معزولی سے میرا دل میلا ہوا ہے، تاہم سیدنا عمر کے اکرام میں کوئی کمی نہ آئی ، وہ اپنی مجالس میں حضرت عمار کواپنے قریب بٹھاتے اور کہتے: اس نشست کے حق دار حضرت عمار ہی ہیں۔
۲۳ھ: خلیفۂ دوم سیدنا عمر کی شہادت کے بعد ان کی مقررکردہ شوریٰ کے رکن حضرت عبدالرحمن بن عوف کے پاس ان کے جانشین کے انتخاب کا اختیارآیا تو پہلے دودن انھوں نے اصحاب راے سے مشورہ کرنے کے علاوہ عامۃ الناس، باپردہ عورتوں،مدارس میں پڑھنے والے بچوں، حتیٰ کہ مدینہ میں آنے والے مسافروں سے راے لی۔سب نے حضرت عثمان کے حق میں فیصلہ دیا ۔تیسرے دن فجر کی نماز کے بعدجب مسجدکھچا کھچ بھر گئی تو انھوں نے حاضرین سے پھر مشورہ مانگا۔ حضرت عمار بن یاسرنے کہا: اگر آپ چاہتے ہیں کہ مسلمانوں میں اختلاف رونما نہ ہو تو سیدنا علی کی بیعت کر لیں۔ حضرت مقداد بن اسود بولے: حضرت عمار صحیح کہتے ہیں، آپ نے سیدنا علی کو خلیفہ مان لیا تو ہم سمع و طاعت کریں گے۔ اب ابن ابی سرح کی باری تھی، انھوں نے کہا: قریش کے اختلاف سے بچنا ہے تو حضرت عثمان کے ہاتھ پر بیعت کر لیں۔ آپ نے حضرت عثمان کی بیعت کی تو ہم سنیں اور مانیں گے، حضرت عبداﷲ بن ابوربیعہ نے تائید کی۔ حضرت عمار نے ابن ابی سرح کو گالی دے کر کہا: تم کب سے مسلمانوں کے خیرخواہ ہو گئے؟ بنوہاشم اور بنوامیہ میں تکرار شروع ہو گئی تو حضرت عمار بولے: اﷲ نے اپنے نبی اور اپنے دین کے ذریعے سے ہماری عزت بڑھائی ہے ۔تم امر خلافت کو نبی کے اہل بیت سے نکال کر کہاں لے جانا چاہتے ہو؟ حضرت عمار کا حلیف ایک مخزومی بولا: ابن سمیہ، تو نے حد سے تجاوز کیا، قریش کی امارت سے تمھاراکیا تعلق؟ اس موقع پر حضرت سعد بن ابی وقاص نے مداخلت کی اور بولے: عبدالرحمن، قبل اس کے کہ لوگ فتنے میں مبتلا ہو جائیں، آپ خلیفہ کا انتخاب کر کے فارغ ہوں۔ حضرت عبدالرحمن بن عوف نے حضرت عثمان اور سیدنا علی سے کتاب اﷲ، سنت رسول اور سیدنا ابوبکر و سیدنا عمر کی پیروی کرنے کا پھر سے الگ الگ عہد لیا، حضرت عثمان کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لیا اوراپنا سر مسجد کی چھت کی طرف بلند کر کے کہا: اے اﷲ، سن لے اور گواہ رہ،میں نے یہ ذمہ داری حضرت عثمان پر ڈال دی ہے، پھر ان کی بیعت کر لی۔ حضرت عبدالرحمن کے بعد ان کے پاس کھڑے سیدنا علی نے بیعت کی، پھر مسجد میں موجود سب اہل ایمان بیعت کے لیے ٹوٹ پڑے (الطبقات الکبریٰ، ابن سعد)۔ حضرت عمار اور حضرت مقداد نے بھی فی الفور حضرت عثمان کی بیعت کر لی۔ اس روایت سے متضاد روایات بھی تاریخ کا حصہ ہیں۔ مثلاً یہ کہ سیدنا علی نے حضرت عبدالرحمن سے کہا: یہ پہلا دن نہیں کہ تم نے ہم پر غلبہ پایا ہے ’فصبر جمیل‘، اب صبر خوب کرنا ہو گا۔ مقداد بن اسود نے شکوہ کیا کہ سیدنا علی کے علم اور ان کے عدل و قضاکو ترک کر دیا گیا ہے۔
[باقی]
____________