خیال وخامہ
o
اب جفا ہی وفا نہ ہو جائے
یہ بھی اُن کی ادا نہ ہو جائے
رنج دیتے ہو ، یہ بھی سوچا ہے
رنج راحت فزا نہ ہو جائے
بے کسی آہ تک تو آ پہنچی
اب یہ حرف دعا نہ ہو جائے
رہنماؤں کا ذکر کیا کیجے
ہم سے کچھ نا سزا نہ ہو جائے
دیپ پھر جل اٹھیں امیدوں کے
پھر وہ نغمہ سرا نہ ہو جائے
پھر وہی التجا کہ غیر نہ ہو
پھر وہی ماجرا نہ ہو جائے
وہ خدا ہے ، اُسی کو شایاں ہے
کبر تیری ردا نہ ہو جائے
بیچ منجدھار جس نے چھوڑا تھا
پھر وہی نا خدا نہ ہو جائے
ہجر میں بھی سوال مشکل تھا
اب یہ مشکل سوا نہ ہو جائے
رشتہ ہاے دماغ بے حاصل
دل اگر آشنا نہ ہو جائے
کیا مزہ درد مند ہونے میں
درد اگر لا دوا نہ ہو جائے
عقل ہی رہبری کرے ، لیکن
عقل زنجیر پا نہ ہو جائے
یہ مرا حرف آرزو بھی کہیں
نقش بند ہوا نہ ہو جائے
____________