سترہ برس پہلے دسمبر کی پندرہ تاریخ تھی جب مولانا امین احسن اصلاحی دنیا سے رخصت ہوئے۔ صاحب ’’تدبر قرآن‘‘ — اللہ کی آخری کتاب کے بے مثل شارح۔
قرآن مجید زبان و بیان کا معجزہ ہے۔ عرب اپنی فصاحت و بلاغت پہ نازاں تھے۔ ساری دنیا ان کے لیے عجمی (گونگی) تھی۔ وہ اسی زعم میں تھے کہ آسمان سے ایک کلام کا ظہور ہوا۔ اس کلام کے شکوہ نے ان عربوں کو عجمی بنا دیا۔ لبید جیسا بے مثل شاعر ایسا مبہوت ہوا کہ شاعری سے توبہ کر لی۔ اللہ نے ایمان کی دولت سے نوازا۔ سیدنا عمر فاروق نے شعر کی فرمایش کی تو کہا: ’’کیا بقرہ اور آل عمران کے بعد بھی؟‘‘* ایک معجزہ نمودار ہوا۔ زبان و بیان کے اسالیب بدل گئے۔ قدیم پیمانے اگر متروک نہیں ہوئے تو بے اثر ضرور ہو گئے۔ انسانی تاریخ میں پہلی بار ایسا ہوا کہ ایک صحیفۂ ادب نبوت و رسالت کی دلیل ٹھہرا۔ مان لیا گیا کہ انسان ایسے کلام پر قادر نہیں۔ لاریب یہ آسمانوں سے اترنے والا کلام ہے۔
صدر اول کے بعد صدیوں تک یہ بات محض ایک عقیدہ تھی۔ قرآن مجید کے ایجاز اور اعجاز کو بہت سے اہل علم نے نمایاں کیا۔ قرآن مجید ایک حیرت کدہ ہے۔ جو بھی اس میں اترا کوئی عجیب بات دریافت کر لایا۔ اللہ کے آخری رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اس کے عجائب قیامت تک ختم نہیں ہوں گے۔ ہمیں اس کے مظاہر تاریخ کے ہر دور میں دکھائی دیتے ہیں۔ اس معجزے کا ایک پہلو مگر ایسا تھا جسے ابھی عقیدے سے ایک علمی دریافت میں بدلنا تھا۔ قدرت نے یہ کام امام حمید الدین فراہی کے مقدر میں لکھ دیا۔ ہماری علمی تاریخ میں پہلی بار انھوں نے کلام الٰہی کے اس پہلو کو ایک علمی حقیقت میں بدل ڈالا۔ معجزے کا یہ پہلو کیا ہے؟
ہم جانتے ہیں کہ قرآن مجید آج اس ترتیب کے ساتھ موجود نہیں ہے جس میں یہ نازل ہوا۔ اس کی موجودہ ترتیب بھی توقیفی، یعنی اللہ کی طرف سے ہے۔ ہم یہ بھی جانتے ہیں کہ آفاقی پیغام کے ساتھ ساتھ اس کتاب میں ان واقعات پر تبصرہ بھی کیا گیا ہے جو عہد رسالت مآب میں پیش آئے۔ پھر اس میں بھی کلام نہیں کہ جب کوئی آیت یا آیات نازل ہوتیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہدایت فرماتے کہ انھیں فلاں سورہ میں فلاں آیت سے پہلے یا بعد لکھ دیا جائے۔ سوال یہ ہے کہ اس نئی ترتیب میں حکمت کیا تھی؟ مختلف مواقع پر نازل ہونے والی آیات جب اللہ ہی کے حکم سے ایک مربوط کتاب میں ڈھلیں تو اس سے وجوہ میں آنے والا نظم کلام کیا تھا؟ بقرہ، آل عمران سے پہلے کیوں، بعد کیوں نہیں؟ انعام، مائدہ کے بعد ہی کیوں؟ بلاشبہ یہ زبان و بیان کا معجزہ تھا جسے امام فراہی نے ایک زندہ علمی حقیقت میں بدل ڈالا، اس امت کی تاریخ میں پہلی بار۔ میرا طالب علمانہ احساس ہے کہ تفسیر قرآن کی روایت میں اس سے بڑی علمی دریافت کوئی دوسری نہیں۔
فہم کلام کے باب میں امام فراہی نے جن امور کو اپنے غور و فکر کا محور بنایا، ان میں دو باتیں بنیادی ہیں:
ایک یہ کہ قرآن مجید کی آیات اور سورتوں میں ربط ہے۔ یہ ربط اسے ایک ایسی دیدہ زیب عمارت بنا دیتا ہے جس میں کوئی ایک اینٹ بھی کسی دوسرے جگہ لگائی جاتی تو عمارت کا حسن مجروح ہوتا۔
دوسرا یہ کہ قرآن مجید زبان و بیان میں مقلد نہیں، مجتہد ہے۔ یہ اگرچہ موجود اسالیب کلام کو پیش نظر رکھتا ہے، لیکن اس کا اپنا ایک آہنگ بھی ہے۔
قرآن کی زبان اور اسالیب میں جو ندرت ہے، اس کی کوئی مثال نہیں۔ امام نے اپنی ان دریافتوں کا قرآن مجید کے فہم پر اطلاق کیا اور ایک تفسیر لکھنے کا ارادہ کیا۔ وہ چند آخری سورتوں کی تفسیر ہی لکھ پائے کہ اللہ نے انھیں اپنے پاس بلا لیا۔ یہاں سے یہ سلسلۃ الذہب دوسرے دور میں داخل ہوتا ہے۔ یہ امام اصلاحی کا دور ہے — امام فراہی کے شاگرد رشید۔
مولانا امین احسن اصلاحی نے اپنے استاد سے جو کچھ سیکھا، اس میں نصف صدی کی ریاضت اور غور و فکر کو شامل کیا تو اس کا حاصل ’’تدبرقرآن‘‘ کی صورت میں سامنے آیا۔ انھوں نے اپنے استاد اور امام کی صرف تقلید نہیں کی، بلکہ اسے اپنی دریافت بنا دیا۔ وہ کئی مقامات پر اپنے استاد سے اختلاف بھی کرتے ہیں۔ یوں انھوں نے زبان حال سے یہ پیغام بھی دیا کہ غیر نبی کے ساتھ عقیدت و محبت کو عقل اور ضمیر کے تابع ہونا چاہیے۔ ’’تدبر قرآن‘‘ میں پہلی بار یہ حقیقت ایک علمی دریافت کے طور پر سامنے آئی کہ قرآن مجید کا نظم کیا ہے؟ اس کی سورتوں اور آیات میں کیا ربط ہے؟ اسالیب کلام کس طرح جوہر کلام تک رہنمائی کرتے ہیں؟ قرآن مجید کو سمجھنے کے داخلی وسائل کیا ہیں اور کیوں وہ اپنے فہم میں جوہری طور پر کسی خارجی وسیلے کا محتاج نہیں ہے؟
مولانا نے، تاہم اس نظم اور اسالیب کلام کو زیادہ تر اپنی تفسیر تک محدود رکھا۔ اگر ہم صرف ان کا ترجمۂ قرآن پڑھیں تو آیات میں ربط کی تلاش میں دقت پیش آتی ہے۔ اب ایک عام قاری کے لیے یہ آسان نہیں ہوتا کہ وہ ’’تدبر قرآن‘‘ کی نو جلدوں کی ورق گردانی کرتا رہے۔ قرآن مجید کے ایک سنجیدہ قاری کے لیے تو ناگزیر ہے کہ وہ اس بحر میں اترے اور موتی تلاش کرے، لیکن عام پڑھا لکھا آدمی اس مشقت کا کم ہی متحمل ہوتا ہے، اس لیے یہ ضرورت باقی تھی کہ قرآن کا یہ نظم اور اسالیب کلام کی قرآنی ندرت ترجمے میں سامنے آئے۔ یہ وہ مرحلہ ہے جہاں ’’البیان‘‘ کا ظہور ہوتا ہے — اس سلسلۃ الذہب کی تیسری کڑی۔
یہ جاوید احمد غامدی صاحب کا ترجمۂ قرآن ہے۔ پہلا ترجمۂ قرآن جو نظم کلام کی رعایت سے کیا گیا۔ آپ اسے پڑھتے ہیں تو کہیں یہ گمان نہیں ہوتا کہ قرآن مجید متفرق آیات کا مجموعہ ہے۔ کلام خود بتاتا ہے کہ یہ ایک مربوط کلام ہے۔ یہ ایک رسول کی سرگذشت انذار ہے جو اس زمین پر اللہ تعالیٰ کی آخری عدالت تھے۔ جن کی حیات مبارکہ میں لوگوں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا کہ کیسے عرب کی سرزمین پر وہ قیامت برپا ہوئی، جس نے کھرے اور کھوٹے کو الگ الگ کر دیا۔ جس نے اللہ تعالیٰ کی آیات کا انکار کرنے والوں کو عذاب سے دوچار کیا اور اللہ پر ایمان لانے والوں اور اعمال صالح کرنے والوں کو اجر عظیم سے نوازا۔ ایسے ہی اس عالم کا پروردگار ایک دن ساری دنیا کے لوگوں کو جمع کرے گا اور اسی طرح کھرے اور کھوٹے کو الگ الگ کر دے گا۔ یوں قرآن مجید اس قیامت صغریٰ کی روداد بیان کرتا اور قیامت پر اسے ایک ناقابل تردید دلیل بنا دیتا ہے۔ ’’البیان‘‘ کو پڑھیے تو اللہ کے آخری رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی سرگذشت انذار مشہور ہو جاتی ہے۔ یہ بھی اندازہ ہوتا ہے کہ قرآن مجید کو متفرق اقوال کا مجموعہ سمجھنے اور ایک مربوط کلام ماننے میں کیا فرق ہے اور کیسے یہ فرق خود آیات کی فہم میں زمین آسمان کا فرق ڈال دیتا ہے۔ جاوید احمد غامدی صاحب کا مولانا اصلاحی سے وہی رشتہ ہے جو خود مولانا کا اپنے استاد امام فراہی سے تھا۔ محبت و عقیدت میں ڈوبا ہوا، لیکن کھلی آنکھوں کے ساتھ۔ یوں جاوید صاحب اپنے استاد سے کئی مقامات کی شرح میں اختلاف بھی کرتے ہیں۔
ایک ڈیڑھ ماہ پہلے ’’البیان‘‘ کی تکمیل ہو گئی۔ اس کی تین جلدیں شائع ہو چکی ہیں۔ دو جلدوں کی اشاعت باقی ہے۔ میں نے اس سعادت پر جاوید صاحب کو سراپا شکر و جذبات دیکھا۔ بلاشبہ، سب کام اللہ کی توفیق ہی سے ہوتے ہیں۔ ہر انسانی کاوش غلطی کا احتمال لیے ہوتی ہے۔ اللہ کو تو مطلوب یہی ہے کہ کوئی بندہ اس کی راہ میں صدق دل سے کوئی قدم اٹھائے۔ اصل قیمت اسی صدق کی ہے۔ مولانا اصلاحی آج زندہ ہوتے تو کتنے خوش ہوتے۔ ان کے استاد نے جو چراغ جلایا، جسے انھوں نے نصف صدی کی ریاضت کا روغن دیا، آج جلاوطنی کی آندھیوں میں بھی، پوری آب و تاب کے ساتھ روشن ہے۔ یہ کتاب اللہ کا چراغ ہے اور یہ پھونکوں سے بجھ نہیں سکتا۔
_____
* الاستیعاب، ابن عبد البر، بہامش الاصابہ ۳/ ۲۳۷۔
____________