HomeQuranHadithMizanVideosBooksBlogs
مصنف : جاوید احمد غامدی

البیان: یوسف ۱۲: ۵۴- ۱۰۱ (۴)

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم 

(گذشتہ سے پیوستہ)  


وَ قَالَ الْمَلِکُ اءْتُوْنِیْ بِہٖٓ اَسْتَخْلِصْہُ لِنَفْسِیْ فَلَمَّا کَلَّمَہٗ قَالَ اِنَّکَ الْیَوْمَ لَدَیْنَا مَکِیْنٌ اَمِیْنٌ(۵۴) قَالَ اجْعَلْنِیْ عَلٰی خَزَآءِنِ الْاَرْضِ اِنِّیْ حَفِیْظٌ عَلِیْمٌ(۵۵)  
وَکَذٰلِکَ مَکَّنَّا لِیُوْسُفَ فِی الْاَرْضِ یَتَبَوَّاُ مِنْھَا حَیْثُ یَشَآءُ نُصِیْبُ بِرَحْمَتِنَا مَنْ نَّشَآءُ وَلَا نُضِیْعُ اَجْرَ الْمُحْسِنِیْنَ(۵۶) وَلَاَجْرُ الْاٰخِرَۃِ خَیْرٌ لِّلَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَکَانُوْا یَتَّقُوْنَ(۵۷)
وَجَآءَ اِخْوَۃُ یُوْسُفَ فَدَخَلُوْا عَلَیْہِ فَعَرَفَھُمْ وَھُمْ لَہٗ مُنْکِرُوْنَ(۵۸) وَلَمَّا جَھَّزَھُمْ بِجَھَازِھِمْ قَالَ اءْتُوْنِیْ بِاَخٍ لَّکُمْ مِّنْ اَبِیْکُمْ اَلَا تَرَوْنَ اَنِّیْٓ اُوْفِی الْکَیْلَ وَاَنَا خَیْرُ الْمُنْزِلِیْنَ(۵۹) فَاِنْ لَّمْ تَاْتُوْنِیْ بِہٖ فَلَا کَیْلَ لَکُمْ عِنْدِیْ وَلَا تَقْرَبُوْنِ(۶۰) قَالُوْا سَنُرَاوِدُ عَنْہُ اَبَاہُ وَاِنَّا لَفٰعِلُوْنَ(۶۱)
وَقَالَ لِفِتْےٰنِہِ اجْعَلُوْا بِضَاعَتَھُمْ فِیْ رِحَالِھِمْ لَعَلَّہُمْ یَعْرِفُوْنَھَآ اِذَا انْقَلَبُوْٓا اِلٰٓی اَھْلِھِمْ لَعَلَّھُمْ یَرْجِعُوْنَ(۶۲) فَلَمَّا رَجَعُوْٓا اِلٰٓی اَبِیْھِمْ قَالُوْا یٰٓاَبَانَا مُنِعَ مِنَّا الْکَیْلُ فَاَرْسِلْ مَعَنَآ اَخَانَا نَکْتَلْ وَاِنَّا لَہٗ لَحٰٰفِظُوْنَ(۶۳) قَالَ ھَلْ اٰمَنُکُمْ عَلَیْہِ اِلَّا کَمَآ اَمِنْتُکُمْ عَلٰٓی اَخِیْہِ مِنْ قَبْلُ فَاللّٰہُ خَیْرٌ حٰفِظًا وَّھُوَ اَرْحَمُ الرّٰحِمِیْنَ(۶۴)
وَ لَمَّا فَتَحُوْا مَتَاعَھُمْ وَجَدُوْا بِضَاعَتَھُمْ رُدَّتْ اِلَیْھِمْ قَالُوْا یٰٓاَبَانَا مَا نَبْغِیْ ھٰذِہٖ بِضَاعَتُنَا رُدَّتْ اِلَیْنَا وَنَمِیْرُ اَھْلَنَا وَنَحْفَظُ اَخَانَا وَنَزْدَادُ کَیْلَ بَعِیْرٍ ذٰلِکَ کَیْلٌ یَّسِیْرٌ(۶۵) قَالَ لَنْ اُرْسِلَہٗ مَعَکُمْ حَتّٰی تُؤْتُوْنِ مَوْثِقًا مِّنَ اللّٰہِ لَتَاْتُنَّنِیْ بِہٖٓ اِلَّآ اَنْ یُّحَاطَ بِکُمْ فَلَمَّآ اٰتَوْہُ مَوْثِقَھُمْ قَالَ اللّٰہُ عَلٰی مَا نَقُوْلُ وَکِیْلٌ(۶۶)
وَقَالَ یٰبَنِیَّ لَا تَدْخُلُوْا مِنْم بَابٍ وَّاحِدٍ وَّادْخُلُوْا مِنْ اَبْوَابٍ مُّتَفَرِّقَۃٍ وَمَآ اُغْنِیْ عَنْکُمْ مِّنَ اللّٰہِ مِنْ شَیْءٍ اِنِ الْحُکْمُ اِلَّا لِلّٰہِ عَلَیْہِ تَوَکَّلْتُ وَعَلَیْہِ فَلْیَتَوَکَّلِ الْمُتَوَکِّلُوْنَ(۶۷) وَلَمَّا دَخَلُوْا مِنْ حَیْثُ اَمَرَھُمْ اَبُوْھُمْ مَا کَانَ یُغْنِیْ عَنْھُمْ مِّنَ اللّٰہِ مِنْ شَیْءٍ اِلَّا حَاجَۃً فِیْ نَفْسِ یَعْقُوْبَ قَضٰھَا وَاِنَّہٗ لَذُوْ عِلْمٍ لِّمَا عَلَّمْنٰہُ وَلٰکِنَّ اَکْثَرَ النَّاسِ لَا یَعْلَمُوْنَ(۶۸)
وَلَمَّا دَخَلُوْا عَلٰی یُوْسُفَ اٰوٰٓی اِلَیْہِ اَخَاہُ قَالَ اِنِّیْٓ اَنَا اَخُوْکَ فَلَا تَبْتَءِسْ بِمَا کَانُوْا یَعْمَلُوْنَ(۶۹) فَلَمَّا جَھَّزَھُمْ بِجَھَازِھِمْ جَعَلَ السِّقَایَۃَ فِیْ رَحْلِ اَخِیْہِ ثُمَّ اَذَّنَ مُؤَذِّنٌ اَیَّتُھَا الْعِیْرُ اِنَّکُمْ لَسٰٰرِقُوْنَ(۷۰) قَالُوْا وَاَقْبَلُوْا عَلَیْھِمْ مَّاذَا تَفْقِدُوْنَ(۷۱) قَالُوْا نَفْقِدُ صُوَاعَ الْمَلِکِ وَلِمَنْ جَآءَ بِہٖ حِمْلُ بَعِیْرٍ وَّاَنَا بِہٖ زَعِیْمٌ(۷۲) قَالُوْا تَاللّٰہِ لَقَدْ عَلِمْتُمْ مَّاجِءْنَا لِنُفْسِدَ فِی الْاَرْضِ وَمَا کُنَّا سٰرِقِیْنَ(۷۳) قَالُوْا فَمَا جَزَآؤُہٗٓ اِنْ کُنْتُمْ کٰذِبِیْنَ(۷۴) قَالُوْا جَزَآؤُہٗ مَنْ وُّجِدَ فِیْ رَحْلِہٖ فَھُوَ جَزَآؤُہٗ کَذٰلِکَ نَجْزِی الظّٰلِمِیْنَ(۷۵) فَبَدَاَ بِاَوْعِیَتِھِمْ قَبْلَ وِعَآءِ اَخِیْہِ ثُمَّ اسْتَخْرَجَھَا مِنْ وِّعَآءِ اَخِیْہِ کَذٰلِکَ کِدْنَا لِیُوْسُفَ مَا کَانَ لِیَاْخُذَ اَخَاہُ فِیْ دِیْنِ الْمَلِکِ اِلَّآ اَنْ یَّشَآءَ اللّٰہُ نَرْفَعُ دَرَجٰتٍ مَّنْ نَّشَآءُ وَ فَوْقَ کُلِّ ذِیْ عِلْمٍ عَلِیْمٌ(۷۶) 
قَالُوْٓا اِنْ یَّسْرِقْ فَقَدْ سَرَقَ اَخٌ لَّہٗ مِنْ قَبْلُ فَاَسَرَّ ھَا یُوْسُفُ فِیْ نَفْسِہٖ وَلَمْ یُبْدِھَا لَھُمْ قَالَ اَنْتُمْ شَرٌّ مَّکَانًا وَاللّٰہُ اَعْلَمُ بِمَا تَصِفُوْنَ(۷۷) قَالُوْا یٰٓاَیُّھَا الْعَزِیْزُ اِنَّ لَہٗٓ اَبًا شَیْخًا کَبِیْرًا فَخُذْ اَحَدَنَا مَکَانَہٗ اِنَّا نَرٰکَ مِنَ الْمُحْسِنِیْنَ(۷۸) قَالَ مَعَاذَ اللّٰہِ اَنْ نَّاْخُذَ اِلَّا مَنْ وَّجَدْنَا مَتَاعَنَا عِنْدَہٗٓ اِنَّآ اِذًا لَّظٰلِمُوْنَ(۷۹) فَلَمَّا اسْتَیْءَسُوْا مِنْہُ خَلَصُوْا نَجِیًّا قَالَ کَبِیْرُھُمْ اَلَمْ تَعْلَمُوْٓا اَنَّ اَبَاکُمْ قَدْ اَخَذَ عَلَیْکُمْ مَّوْثِقًا مِّنَ اللّٰہِ وَمِنْ قَبْلُ مَا فَرَّطْتُّمْ فِیْ یُوْسُفَ فَلَنْ اَبْرَحَ الْاَرْضَ حَتّٰی یَاْذَنَ لِیْٓ اَبِیْٓ اَوْ یَحْکُمَ اللّٰہُ لِیْ وَھُوَ خَیْرُ الْحٰٰکِمِیْنَ(۸۰) اِرْجِعُوْٓا اِلٰٓی اَبِیْکُمْ فَقُوْلُوْا یٰٓاَبَانَآ اِنَّ ابْنَکَ سَرَقَ وَمَا شَھِدْنَآ اِلَّابِمَا عَلِمْنَا وَمَا کُنَّا لِلْغَیْبِ حٰفِظِیْنَ(۸۱) وَسْءَلِ الْقَرْیَۃَ الَّتِیْ کُنَّا فِیْھَا وَالْعِیْرَ الَّتِیْٓ اَقْبَلْنَا فِیْھَا وَاِنَّا لَصٰدِقُوْنَ(۸۲) قَالَ بَلْ سَوَّلَتْ لَکُمْ اَنْفُسُکُمْ اَمْرًا فَصَبْرٌ جَمِیْلٌ عَسَی اللّٰہُ اَنْ یَّاْتِیَنِیْ بِھِمْ جَمِیْعًا اِنَّہٗ ھُوَ الْعَلِیْمُ الْحَکِیْمُ(۸۳)
وَتَوَلّٰی عَنْھُمْ وَقَالَ یٰٓاَسَفٰی عَلٰی یُوْسُفَ وَابْیَضَّتْ عَیْنٰہُ مِنَ الْحُزْنِ فَھُوَ کَظِیْمٌ(۸۴) قَالُوْا تَاللّٰہِ تَفْتَؤُا تَذْکُرُ یُوْسُفَ حَتّٰی تَکُوْنَ حَرَضًا اَوْ تَکُوْنَ مِنَ الْھٰلِکِیْنَ(۸۵) قَالَ اِنَّمَآ اَشْکُوْا بَثِّیْ وَحُزْنِیْٓ اِلَی اللّٰہِ وَاَعْلَمُ مِنَ اللّٰہِ مَالَا تَعْلَمُوْنَ(۸۶) یٰبَنِیَّ اذْھَبُوْا فَتَحَسَّسُوْا مِنْ یُّوْسُفَ وَاَخِیْہِ وَلَا تَایْءَسُوْا مِنْ رَّوْحِ اللّٰہِ اِنَّہٗ لَا یَایْءَسُ مِنْ رَّوْحِ اللّٰہِ اِلَّا الْقَوْمُ الْکٰفِرُوْنَ(۸۷)
فَلَمَّا دَخَلُوْا عَلَیْہِ قَالُوْا یٰٓاَیُّھَا الْعَزِیْزُ مَسَّنَا وَ اَھْلَنَا الضُّرُّ وَجِءْنَا بِبِضَاعَۃٍ مُّزْجٰۃٍ فَاَوْفِ لَنَا الْکَیْلَ وَتَصَدَّقْ عَلَیْنَا اِنَّ اللّٰہَ یَجْزِی الْمُتَصَدِّقِیْنَ(۸۸) قَالَ ھَلْ عَلِمْتُمْ مَّا فَعَلْتُمْ بِیُوْسُفَ وَاَخِیْہِ اِذْ اَنْتُمْ جٰھِلُوْنَ(۸۹) قَالُوْٓا ءَ اِنَّکَ لَاَنْتَ یُوْسُفُ قَالَ اَنَا یُوْسُفُ وَھٰذَآاَخِیْ قَدْ مَنَّ اللّٰہُ عَلَیْنَا اِنَّہٗ مَنْ یَّتَّقِ وَیَصْبِرْ فَاِنَّ اللّٰہَ لَا یُضِیْعُ اَجْرَ الْمُحْسِنِیْنَ(۹۰) قَالُوْا تَاللّٰہِ لَقَدْ اٰثَرَکَ اللّٰہُ عَلَیْنَا وَاِنْ کُنَّا لَخٰطِءِیْنَ(۹۱) قَالَ لَا تَثْرِیْبَ عَلَیْکُمُ الْیَوْمَ یَغْفِرُ اللّٰہُ لَکُمْ وَھُوَ اَرْحَمُ الرّٰحِمِیْنَ(۹۲) اِذْھَبُوْا بِقَمِیْصِیْ ھٰذَا فَاَلْقُوْہُ عَلٰی وَجْہِ اَبِیْ یَاْتِ بَصِیْرًا وَاْتُوْنِیْ بِاَھْلِکُمْ اَجْمَعِیْنَ(۹۳)
وَلَمَّا فَصَلَتِ الْعِیْرُ قَالَ اَبُوْھُمْ اِنِّیْ لَاَجِدُ رِیْحَ یُوْسُفَ لَوْلَآ اَنْ تُفَنِّدُوْنِ(۹۴) قَالُوْا تَاللّٰہِ اِنَّکَ لَفِیْ ضَلٰلِکَ الْقَدِیْمِ(۹۵) فَلَمَّآ اَنْ جَآءَ الْبَشِیْرُ اَلْقٰہُ عَلٰی وَجْھِہٖ فَارْتَدَّ بَصِیْرًا قَالَ اَلَمْ اَقُلْ لَّکُمْ اِنِّیْٓ اَعْلَمُ مِنَ اللّٰہِ مَالَا تَعْلَمُوْنَ(۹۶) قَالُوْا یٰٓاَبَانَا اسْتَغْفِرْلَنَا ذُنُوْبَنَآ اِنَّا کُنَّا خٰطِءِیْنَ(۹۷) قَالَ سَوْفَ اَسْتَغْفِرُلَکُمْ رَبِّیْ اِنَّہٗ ھُوَ الْغَفُوْرُ الرَّحِیْمُ(۹۸)
فَلَمَّا دَخَلُوْا عَلٰی یُوْسُفَ اٰوٰٓی اِلَیْہِ اَبَوَیْہِ وَقَالَ ادْخُلُوْا مِصْرَ اِنْ شَآءَ اللّٰہُ اٰمِنِیْنَ(۹۹) وَرَفَعَ اَبَوَیْہِ عَلَی الْعَرْشِ وَخَرُّوْا لَہٗ سُجَّدًا وَقَالَ یٰٓاَبَتِ ھٰذَا تَاْوِیْلُ رُءْ یَایَ مِنْ قَبْلُ قَدْ جَعَلَھَا رَبِّیْ حَقًّا وَقَدْ اَحْسَنَ بِیْٓ اِذْ اَخْرَجَنِیْ مِنَ السِّجْنِ وَجَآءَ بِکُمْ مِّنَ الْبَدْوِ مِنْم بَعْدِ اَنْ نَّزَغَ الشَّیْطٰنُ بَیْنِیْ وَبَیْنَ اِخْوَتِیْ اِنَّ رَبِّیْ لَطِیْفٌ لِّمَا یَشَآءُ اِنَّہٗ ھُوَ الْعَلِیْمُ الْحَکِیْمُ(۱۰۰) رَبِّ قَدْ اٰتَیْتَنِیْ مِنَ الْمُلْکِ وَعَلَّمْتَنِیْ مِنْ تَاْوِیْلِ الْاَحَادِیْثِ فَاطِرَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ اَنْتَ وَلِیّٖ فِی الدُّنْیَا وَالْاٰخِرَۃِ تَوَفَّنِیْ مُسْلِمًا وَّاَلْحِقْنِیْ بِالصّٰلِحِیْنَ(۱۰۱)
بادشاہ نے کہا: اُس کو میرے پاس لاؤ، میں اُسے اپنے لیے خاص رکھوں گا۴۷؎۔ پھرجب اُس سے بات چیت کی تو (اِس قدر متاثر ہوا کہ) اُس نے کہا: اب تم ہمارے ہاں صاحب اقتدار ہو اور تم پر بھروسا کیا جائے گا۷۵؎۔ یوسف نے کہا: اِس ملک کے خزانے میرے سپرد کر دیجیے، میں حفاظت کرنے والا بھی ہوں اور علم بھی رکھتا ہوں ۷۶؎۔ ۵۴-۵۵
یوسف کو اِس طرح ہم نے اُس ملک میں اقتدار عطا فرمایا، وہ اُس میں جہاں چاہے، اپنی جگہ بنائے۷۷؎۔ ہم اپنی رحمت سے جس کو چاہتے ہیں، نوازتے ہیں اور خوبی اختیار کرنے والوں کا اجر ہم کبھی ضائع نہیں کرتے۷۸؎۔ آخرت کا اجر، البتہ اُن لوگوں کے لیے اِس سے کہیں بڑھ کر ہے جو ایمان لائے اور (خدا سے) برابر ڈرتے رہے۔ ۵۶-۵۷
(اِس کے کئی برس بعد) یوسف کے بھائی مصر آئے ۷۹؎اور اُس کے ہاں بھی حاضر ہوئے۸۰؎ تو اُس نے اُنھیں پہچان لیا، مگر اُنھوں نے یوسف کو نہیں پہچانا۸۱؎۔ (پھر اُن کی واپسی کے وقت)،جب اُس نے اُن کا سامان تیار کرایا تو اُن سے کہا: (اب آؤ گے تو) اپنے سوتیلے بھائی کو بھی میرے پاس لانا، دیکھتے نہیں ہو کہ میں غلہ بھی پورے پیمانے سے دیتا ہوں اور بہت اچھی میزبانی کرنے والا بھی ہوں۔ لیکن اگر تم اُس کو میرے پاس نہیں لاؤ گے تو نہ میرے پاس تمھارے لیے غلہ ہے اور نہ تم میرے قریب پھٹکنا۸۲؎۔ اُنھوں نے کہا: ہم اُس کے بارے میں اُس کے باپ کو راضی کرنے کی کوشش کریں گے اور ہم یہ ضرور کریں گے۸۳؎۔ ۵۸-۶۱
یوسف نے اپنے خدام سے کہا کہ اِن لوگوں نے غلے کے عوض جو مال دیا ہے، وہ (چپکے سے) اِن کے کجاووں ہی میں رکھ دو۔ اِس سے مقصود یہ ہے کہ جب وہ اپنے اہل وعیال میں پہنچیں تو اِسے پہچان لیں (کہ اُنھی کا مال ہے جو اُنھیں واپس کر دیا گیا ہے) تاکہ وہ پھر آئیں ۸۴؎۔ سو جب وہ اپنے باپ کے پاس لوٹے تو کہا:ابا جان، (آیندہ) ہم سے غلہ روک دیا گیا ہے، لہٰذا ہمارے بھائی (بن یمین) کو بھی ہمارے ساتھ جانے دیجیے کہ ہم (اپنی سچائی ثابت کر سکیں اور) غلہ لائیں، ہم اُس کی حفاظت کا عہد کرتے ہیں۔ باپ نے جواب دیا: کیا میں اُس کے معاملے میں بھی تم پر ویسا ہی بھروسا کروں، جیسا اِس سے پہلے اُس کے بھائی کے معاملے میں تم پر بھروسا کر چکا ہوں؟ سو اللہ بہترین محافظ ہے اور وہ سب سے بڑھ کر رحم فرمانے والا ہے۸۵؎۔ ۶۲-۶۴
(اِس کے بعد) جب اُنھوں نے اپنا سامان کھولا تو دیکھا کہ اُن کی پونجی بھی اُنھیں لوٹا دی گئی ہے۔ (یہ دیکھ کر) وہ پکار اُٹھے: ابا جان، ہمیں اور کیا چاہیے! (دیکھیے)، یہ ہماری پونجی ہمیں لوٹا دی گئی ہے۔ اب ہم جائیں گے، اپنے اہل وعیال کے لیے رسد لائیں گے،۸۶؎ اپنے بھائی کی حفاظت کریں گے، ایک بار شتر غلہ زیادہ حاصل کریں گے، ۸۷؎یہ غلہ (جو اِس وقت ہم لائے ہیں، یہ) تھوڑا ہے۸۸؎۔ باپ نے جواب دیا:میں اُس کو ہرگز تمھارے ساتھ نہ بھیجوں گا، جب تک تم خدا کے نام پر مجھ سے عہد نہ کرو کہ تم اُس کو ضرور میرے پاس واپس لاؤ گے، الاّ یہ کہ تم کہیں گھِر جاؤ۔ سو(اُس کے اصرار پر) جب اُنھوں نے اُس کو اپنا پکا قول دے دیا تو اُس نے کہا: یہ قول و قرار جو ہم کر رہے ہیں، اِس پر اللہ نگہبان ہے۔۶۵-۶۶
(پھر روانہ ہونے لگے تو) اُس نے اُن کو ہدایت کی کہ میرے بیٹو، تم سب ایک ہی دروازے سے (مصر کے دارالسلطنت میں) داخل نہ ہونا، بلکہ الگ الگ دروازوں سے جانا۸۹؎۔ (یہ محض ایک تدبیر ہے، ورنہ) حقیقت یہ ہے کہ میں اللہ کے مقابل میں تمھارے کچھ بھی کام نہیں آسکتا۔ تمام اختیار تو اللہ ہی کا ہے۔ میں نے اُسی پر بھروسا کیا ہے اور بھروسا کرنے والوں کو اُسی پر بھروسا کرنا چاہیے۔ (چنانچہ) جس وقت وہ (شہر میں) داخل ہوئے، جہاں سے اُن کے باپ نے اُن کو ہدایت کی تھی تو (واقعہ بھی یہی تھا کہ) وہ اللہ کے مقابل میں اُن کے کچھ بھی کام نہیں آسکتا تھا، مگر یعقوب کے دل میں بس ایک خیال تھا جو اُس نے پورا کر لیا۹۰؎۔ وہ بے شک اُس علم سے بہرہ مند تھا جو ہم نے اُسے سکھایا تھا، مگر اکثرلوگ جانتے نہیں ہیں ۹۱؎۔۶۷-۶۸
یہ لوگ جب یوسف کے حضور پہنچے تو اُس نے اپنے بھائی کو خاص اپنے پاس جگہ دی۔ (پھر تنہائی کے کسی وقت میں) اُس نے اُسے بتایا کہ میں تمھارا بھائی، (یوسف) ہوں۔ سو جو کچھ یہ کرتے رہے ہیں، اب اُس کا غم نہ کرو۹۲؎۔ پھر (اُن کی واپسی کے وقت)، جب اُن کا سامان تیار کرایا تو اپنا پیالہ (ازراہ محبت) اپنے بھائی کے سامان میں رکھ دیا۹۳؎۔ اِس کے بعد (خدا کی قدرت سے ایسا ہوا کہ عین اُسی وقت) ایک پکارنے والے نے پکارا کہ قافلے والو، تم یقیناً چور ہو۔ اُنھوں نے اُن کی طرف پلٹ کر پوچھا: تمھاری کیا چیز کھوئی گئی ہے؟ اُنھوں نے جواب دیا: ہم بادشاہ کا پیمانہ نہیں پا رہے ہیں۔ (اُن کے جمعدار نے کہا): اور جو اُس کو لائے گا، اُس کے لیے ایک بار شتر غلہ ہے، میں اِس کا ذمہ لیتا ہوں۔ یوسف کے بھائیوں نے کہا: خدا کی قسم، تمھیں معلوم ہے کہ ہم اِس لیے نہیں آئے کہ اِس ملک میں فساد کریں اور ہم چوری کرنے والے لوگ نہیں ہیں۔ اُنھوں نے کہا: اگر تم جھوٹے ثابت ہوئے تو چور کی کیا سزا ہے؟ اُنھوں نے کہا: اُس کی سزا؟ جس کے سامان سے کھوئی ہوئی چیز نکلے، وہ آپ ہی اپنی سزا میں رکھ لیا جائے۹۴؎۔ اِس طرح کے ظالموں کو ہم یہی سزا دیا کرتے ہیں ۹۵؎۔ اِس پر اُس شخص نے یوسف کے بھائی کی خرجی سے پہلے اُن کی خرجیوں کی تلاشی لینا شروع کی، پھر (بادشاہ کا پیمانہ تو نہیں ملا۹۶؎، لیکن) اُس کے بھائی کی خرجی سے اُس نے وہ (پیالہ) برآمد کر لیا (جو یوسف نے رکھا تھا)۔ ہم نے اِس طرح یوسف کے لیے (اُس کے بھائی کے روکنے کی) تدبیر کی، (اِس لیے کہ) بادشاہ کے قانون کی رو سے وہ اپنے بھائی کو روکنے کا مجاز نہ تھا۹۷؎، الاّ یہ کہ خدا ہی چاہے۹۸؎۔ ہم جس کے درجے چاہتے ہیں، بلند کر دیتے ہیں ۹۹؎ اور (حقیقت یہ ہے کہ) ایک علم والا ہر صاحب علم سے بالاتر ہے۱۰۰؎۔ ۶۹-۷۶
بھائیوں نے (یہ دیکھا تو) کہا: اگر یہ چوری کرے تو (کچھ تعجب کی بات نہیں ہے)، اِس سے پہلے اِس کا ایک بھائی بھی چوری کر چکا ہے۱۰۱؎۔ (یہ سراسر تہمت تھی)، مگر یوسف نے اِس کو اپنے دل ہی میں رکھا، اُن پر اِسے ظاہر نہیں کیا، بس اپنے جی میں اتنی بات کہہ کر رہ گیا کہ تم لوگ بڑے ہی برے ہو اور جو کچھ تم بیان کر رہے ہو، اللہ اُس کو خوب جانتا ہے۔ اُنھوں نے کہا: اے عزیز، اِس کا ایک بہت بوڑھا باپ ہے، سواِس کی جگہ آپ ہم میں سے کسی کو رکھ لیجیے، ہم دیکھ رہے ہیں کہ آپ بڑے نیک نفس انسان ہیں۔ یوسف نے کہا: خدا کی پناہ کہ جس کے پاس ہم نے اپنی چیز پائی ہے۱۰۲؎، ہم اُس کے سوا کسی اور کو پکڑیں۔اِس صورت میں تو ہم نہایت ظالم ٹھیریں گے۔ اُس کا یہ جواب سن کر جب وہ اُس سے مایوس ہو گئے تو آپس میں مشورے کی غرض سے الگ بیٹھ گئے۔ اُن کے بڑے۱۰۳؎ نے کہا:کیا تم جانتے نہیں ہو کہ تمھارے باپ نے خدا کے نام پرتم سے پکا قول و قرار لیا ہے اور اِس سے پہلے یوسف کے معاملے میں جو تقصیر تم سے ہو چکی ہے، اُسے بھی جانتے ہو؟ لہٰذا میں تو اِس سرزمین سے ٹلنے کا نہیں، جب تک میرا باپ مجھے اجازت نہ دے یا اللہ میرے لیے کوئی فیصلہ فرما دے اور وہ سب سے بہتر فیصلہ کرنے والا ہے۱۰۴؎۔تم اپنے باپ کے پاس جاؤ اور اُن سے کہو کہ ابا جان، آپ کے بیٹے نے چوری کی ہے اور ہم نے وہی بات کہی ہے جو ہمارے علم میں آئی ہے، ہم غیب کے نگہبان نہیں ہیں۔ آپ اُس بستی کے لوگوں سے پوچھ لیجیے، جہاں ہم رہے ہیں اور اُس قافلے سے پوچھ لیجیے جس کے ساتھ ہم آئے ہیں، ہم بالکل سچے ہیں۔اُن کے باپ نے (یہ داستان سنی تو) کہا: (نہیں)، بلکہ تمھارے دل نے تمھارے لیے ایک بات بنا لی ہے۱۰۵؎، اِس لیے صبر جمیل ہی بہتر ہے۔ امید ہے کہ اللہ اِن سب کو میرے پاس لے آئے گا۱۰۶؎۔ یقینا وہی علیم و حکیم ہے۔۷۷-۸۳
اُس نے (یہ کہہ کر) اُن سے منہ پھیر لیا اور کہا: ہاے یوسف۷۰۱؎، اور غم سے اُس کی آنکھیں سفید پڑ گئی تھیں ۱۰۸؎ اور وہ گھٹاجا رہا تھا۔بیٹوں نے کہا: خدا کی قسم، آپ یوسف ہی کو یاد کیے جائیں گے، یہاں تک کہ اپنے آپ کو گھلا دیں گے یا ہلاک ہو جائیں گے۔۱۰۹؎اُس نے کہا: میں اپنی پریشانی اور اپنے غم کا شکوہ اللہ ہی سے کرتا ہوں ۱۱۰؎ اور اللہ کی طرف سے وہ باتیں جانتا ہوں جو تم نہیں جانتے۔ میرے بیٹو، جاؤ یوسف اور اُس کے بھائی کی ٹوہ لگاؤ اور اللہ کی رحمت سے مایوس نہ ہو۱۱۱؎۔ اللہ کی رحمت سے تو صرف منکرین ہی مایوس ہوتے ہیں۔ ۸۴-۸۷
پھر جب وہ (اگلی مرتبہ) یوسف کی پیشی میں داخل ہوئے تو اُنھوں نے (گڑگڑا کر) عرض کیا: اے عزیز، ہم اور ہمارے اہل و عیال بڑی مصیبت میں مبتلا ہیں اور ہم کچھ حقیر سی پونجی لے کر حاضر ہو گئے ہیں ۱۱۲؎، سو (عنایت فرمائیے اور) ہمیں پورا غلہ دیجیے اور ہم پر خیرات بھی کیجیے، اِس لیے کہ اللہ خیرات کرنے والوں کو جزا دیتا ہے۱۱۳؎۔(یہ سن کر یوسف سے رہا نہ گیا)، اُس نے کہا: تمھیں کچھ پتا ہے کہ جب تم جہالت میں مبتلا تھے تو یوسف اور اُس کے بھائی کے ساتھ تم کیا کر گزرے؟ وہ (چونک کر) بولے: کیا سچ مچ تمھی یوسف ہو؟ اُس نے کہا: ہاں، میں یوسف ہوں اور یہ میرا بھائی ہے۔ اللہ نے ہم پر عنایت فرمائی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ جو خدا سے ڈرتے اور ثابت قدم رہتے ہیں، (اُن کا اجر اُنھیں لازماً ملتا ہے)، اِس لیے کہ اللہ اُن لوگوں کا اجر ضائع نہیں کرتا جو خوبی سے عمل کرنے والے ہیں ۱۱۴؎۔اُنھوں نے کہا: بخدا، اللہ نے تم کو ہمارے اوپر برتری عطا فرمائی ہے اور اِس میں شبہ نہیں کہ ہم ہی قصوروارتھے۔ یوسف نے کہا: اب تم پر کوئی الزام نہیں، اللہ تمھیں معاف کرے، وہ سب رحم کرنے والوں سے بڑھ کر رحم فرمانے والا ہے۔ (جاؤ)، میرا یہ کرتا لے جاؤ اور اِس کو میرے باپ کے چہرے پر ڈال دو، اُن کی بینائی لوٹ آئے گی ۱۱۵؎اور اپنے سب اہل و عیال کو لے کر میرے پاس آجاؤ۔ ۸۸-۹۳
جب یہ قافلہ (مصر سے) روانہ ہوا تو اُن کے باپ نے (کنعان میں اپنے گھر کے لوگوں سے) کہا: اگر تم یہ نہ کہو کہ بڑھاپے میں سٹھیا گیا ہوں تو میں یوسف کی خوشبو محسوس کر رہا ہوں ۱۱۶؎۔ لوگوں نے کہا:خدا کی قسم، آپ ابھی تک اپنے اُسی پرانے خبط میں مبتلا ہیں۔ پھر جب یہ ہوا کہ خوش خبری دینے والا پہنچ گیا۱۱۷؎، اُس نے کرتا یعقوب کے چہرے پر ڈال دیا تو یکایک اُس کی بینائی لوٹ آئی۔ تب اُس نے کہا: میں نے تمھیں بتایا نہ تھا کہ میں اللہ کی طرف سے وہ کچھ جانتا ہوں جو تم نہیں جانتے۔ یوسف کے بھائی بول اٹھے: ابا جان، آپ ہمارے گناہوں کی معافی کے لیے دعا کریں، واقعی ہم خطاکار تھے۔ اُس نے کہا: میں اپنے رب سے جلد۸۱۱؎ تمھارے لیے مغفرت کی دعا کروں گا، بے شک وہی بخشنے والا ہے، اُس کی شفقت ابدی ہے۔۹۴-۹۸
پھر جب یہ لوگ یوسف کے پاس پہنچے، اُس نے اپنے والدین۱۱۹؎ کو خاص اپنے پاس جگہ دی اور کہا: مصر میں، اگر اللہ چاہے تو امن چین سے رہیے۱۲۰؎۔ (اپنے گھر پہنچ کر) اُس نے اپنے والدین کو تخت پر بٹھایا۱۲۱؎ اور سب اُس کے لیے سجدے میں جھک گئے۔۱۲۲؎ یوسف نے کہا: ابا جان، یہ میرے اُس خواب کی تعبیر ہے جو میں نے پہلے دیکھا تھا۔ میرے پروردگار نے اُس کو حقیقت بنا دیا۔ اُس نے مجھ پر بڑا کرم فرمایا، جب مجھے قید خانے سے نکالا اور آپ سب لوگوں کو دیہات سے یہاں لے آیا، اِس کے باوجود کہ شیطان نے میرے اور میرے بھائیوں کے درمیان فساد ڈلوادیا تھا۔ حقیقت یہ ہے کہ میرا پروردگار جو کچھ چاہتا ہے، اُس کے لیے نہایت مخفی راہیں نکال لینے والا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ وہی علیم و حکیم ہے۔ پروردگار، تو نے مجھے اقتدار میں حصہ عطا فرمایا اور باتوں کی تعبیر کر لینے کے علم میں سے بھی سکھا دیا۔ زمین اور آسمانوں کے بنانے والے، دنیا اور آخرت میں تو ہی میرا کارساز ہے۔ مجھے اسلام پر موت دے اور اپنے نیک بندوں کے زمرے میں شامل فرما۱۲۳؎۔۹۹-۱۰۱

۷۴؎ اِس پر تعجب نہ ہونا چاہیے۔ بادشاہ کے خواب کی نہایت دل نشیں تعبیر اور اُس کے ساتھ جس ہول ناک قحط کے ظہور کی خبر خواب میں دی گئی تھی، اُس کے مقابلے کی تدبیر، الزامات کی تحقیق کے بغیر رہائی کی پیش کش قبول کرنے سے انکار اور اِس کے نتیجے میں عزیز کی بیوی اور دوسری عورتوں کا اعتراف حق، استاذ امام کے الفاظ میں، اِن تینوں میں سے کوئی ایک بات بھی بادشاہ کو حضرت یوسف کا گرویدہ بنانے کے لیے کافی ہو سکتی تھی، لیکن جس شخص کے باب میں یہ تینوں باتیں اکٹھی بادشاہ کے علم میں آئیں، آخر وہ اُس کا نادیدہ عاشق نہ ہو جاتا تو اور کیا کرتا۔ چنانچہ اُس نے اعلان کر دیا کہ میں یوسف کو اپنا معتمد خاص بنا رہا ہوں۔

۷۵؎ یہ بادشاہ کی طرف سے نظم حکومت میں بڑے سے بڑے منصب کی پیش کش ہے جو اُس نے یوسف علیہ السلام کے ساتھ گفتگو کے نتیجے میں آپ کے علم، آپ کی لیاقت اور صلاحیت و استعداد کو دیکھ کر کی ہے، لیکن آپ اِس پیش کش کو کس صورت میں قبول فرماتے ہیں، اِسے آپ کی صواب دید پر چھوڑ دیا ہے۔

۷۶؎ یوسف علیہ السلام جس قحط کی پیشین گوئی کر چکے تھے، اِس وقت سب سے بڑی مہم اُسی میں ملک کو سنبھالنے کی تھی۔ بادشاہ کی سب سے بڑی خواہش بھی اِس صورت حال میں یہی ہو سکتی تھی۔ چنانچہ اُنھوں نے اِسی کے مطابق اپنی راے بادشاہ کے سامنے رکھ دی۔ یہ کم و بیش اُسی اختیار و اقتدار کا مطالبہ ہے جو پارلیمانی نظام حکومت میں کسی ملک کے وزیراعظم کو حاصل ہوتا ہے۔ بائیبل میں ہے:

”اور فرعون نے یوسف سے کہا: چونکہ خدا نے تجھے یہ سب کچھ سمجھا دیا ہے، اِس لیے تیری مانند دانش ور اور عقل مند کوئی نہیں۔سو تو میرے گھر کا مختار ہو گا اور میری ساری رعایا تیرے حکم پر چلے گی۔ فقط تخت کا مالک ہونے کے سبب سے میں بزرگ تر ہوں گا۔ اور فرعون نے یوسف سے کہا کہ دیکھ میں تجھے سارے ملک مصر کا حاکم بناتا ہوں۔ اور فرعون نے اپنی انگشتری اپنے ہاتھ سے نکال کر یوسف کے ہاتھ میں پہنا دی اور اُسے باریک کتان کے لباس میں آراستہ کروا کر سونے کا طوق اُس کے گلے میں پہنایا۔ اور اُس نے اُسے اپنے دوسرے رتھ میں سوار کراکر اُس کے آگے آگے یہ منادی کروا دی کہ گھٹنے ٹیکو اور اُس نے اُسے سارے ملک مصر کا حاکم بنا دیا اور فرعون نے یوسف سے کہا: میں فرعون ہوں اور تیرے حکم کے بغیر کوئی آدمی اِس سارے ملک مصر میں اپنا ہاتھ پاؤں ہلانے نہ پائے گا۔“ (پیدایش ۴۱: ۳۹-۴۴)    

یہاں یہ بات واضح رہے کہ یوسف علیہ السلام کے ہم عصر اِس بادشاہ کے لیے لفظ ’فرعون‘ کا استعمال بائیبل کے مرتبین کی غلطی ہے۔ یہ بادشاہ مصری حکمرانوں کے پندرھویں خاندان سے تھا جو تاریخ میں چرواہے بادشاہوں (Hyksos Kings)کے نام سے یاد کیے جاتے ہیں۔ یہ لوگ عربی النسل تھے اور شام و فلسطین سے مصر جا کر ۲ ہزار قبل مسیح کے لگ بھگ زمانے میں مصر کی حکومت پر قابض ہو گئے تھے۔ عرب مورخین اِنھیں عمالیق کہتے ہیں۔ دور حاضر کے محققین کی عام راے ہے کہ چرواہے بادشاہوں میں سے جس حکمران کا نام مصری تاریخ میں اپوفیس (Apophis)ملتا ہے، وہی حضرت یوسف کا ہم عصر تھا۔ فرعون مصر کی مذہبی اصطلاح تھی اور یہ لوگ مصری مذہب کو نہیں مانتے تھے۔ چنانچہ یہ نام اُن قبطی النسل بادشاہوں کے لیے استعمال ہوتا ہے جو اِن کی حکومت ختم کرکے اِن کے بعد پندرھویں صدی قبل مسیح کے اواخر میں کسی وقت برسراقتدار آئے۔

۷۷؎ یعنی جہاں چاہے، فروکش ہو، جس حصہئ ملک کا چاہے دورہ کرے، مصر اُس کا ہے، اُس میں جو نظم و نسق جس جگہ اور جس کے لیے ضروری سمجھے، اُس کا حکم جاری کردے۔ یہ اُس ہمہ گیر اقتدار و اختیار کا بیان ہے جو بادشاہ کے فرمان سے یوسف علیہ السلام کو اُس ملک میں حاصل ہو گیا۔

۷۸؎ مطلب یہ ہے کہ اُن کی خوبی عمل کا اجر اُن کو دنیا میں بھی کسی نہ کسی صورت میں لازماً دیتے ہیں۔

۷۹؎ آگے کی آیتوں سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ لوگ بھی غلہ خریدنے کی غرض سے مصر آئے تھے۔ حضرت یوسف نے جس قحط کی پیشین گوئی کی تھی، وہ شروع ہو چکا تھا اور اُس نے مصر اور اُس کے ملحقہ ممالک شام و فلسطین وغیرہ، سب کو اپنی لپیٹ میں لے لیا تھا۔ تاہم یوسف علیہ السلام کی پیش بندی اور حسن انتظام کی وجہ سے مصر نہ صرف یہ کہ اپنے جمع شدہ غلے سے اپنی ضروریات پوری کر رہا تھا، بلکہ پاس پڑوس کے ملکوں سے دوسرے ضرورت مندوں کو بھی اجازت دی گئی تھی کہ وہ اگر چاہیں تو وہاں آ کر ایک معین مقدار میں غلہ خرید سکتے ہیں۔

۸۰؎ یوسف علیہ السلام کے بھائی چونکہ بیرونی تھے، اِس لیے غلہ خریدنے کے لیے اُنھیں خاص اجازت نامہ حاصل کرنے کی ضرورت پیش آئی ہو گی۔ یہ حاضری غالباً اِسی مقصد سے ہوئی۔

۸۱؎ یہ نہ پہچاننا کچھ بعید از قیاس نہیں ہے۔ جس وقت اُنھوں نے آپ کو کنویں میں پھینکا تھا، اُس وقت آپ صرف ۱۷ سال کے تھے اور اب آپ کی عمر ۳۸ سال ہو چکی تھی۔ یہ کم و بیش ۲۰ سال کا عرصہ ہے۔ اتنی مدت آدمی کو بہت کچھ بدل دیتی ہے۔ آگے آیت ۹۰ سے اشارہ نکلتا ہے کہ آپ کی شکل و صورت میں اُنھیں اپنے بھائی کی جھلک ضرور نظر آئی، مگر جلد ہی اِس خیال کو اُنھوں نے اپنے دل سے نکال دیا، اِس لیے کہ وہ یہ گمان کسی طرح نہیں کر سکتے تھے کہ جس شخص کو اُنھوں نے اندھے کنویں میں ڈال دیا تھا، وہ آج مصر کے تخت حکومت پر متمکن ہے۔

۸۲؎ غلے کی ضابطہ بندی کی جائے تو بالعموم یہ طریقہ اختیار کیا جاتا ہے کہ ہر ضرورت مند کو اُس کے افراد خاندان کے حساب سے غلہ دیا جائے۔ اِن لوگوں نے اپنے بھائی بن یمین کے نام پر بھی غلہ حاصل کیا ہو گا۔ اِس سے حضرت یوسف کو موقع مل گیا کہ وہ اصرار کریں کہ اِس وقت تو میں نے تمھاری بات مان لی ہے کہ پیچھے تمھارا ایک بھائی اور بھی ہے، لیکن آیندہ اُس کو لے کر آنا ہو گا۔ نہیں لاؤ گے تو تمھیں جھوٹا سمجھا جائے گا، لہٰذا اِس کے بعد تم میرے قریب بھی پھٹکنے کی کوشش نہ کرنا۔

۸۳؎ یعنی اپنی طرف سے کوئی کسر اٹھا نہ رکھیں گے۔ اِس فقرے میں اُن کے دل کا چور نمایاں ہے کہ نہ لا سکے تو اِس کی وجہ صرف یہ ہو گی کہ باپ نے اجازت نہیں دی۔ اِس لیے کہ جو کچھ وہ یوسف علیہ السلام کے ساتھ کر چکے تھے، اُس کے بعد اِس کا پورا امکان تھا۔

۸۴؎ یہ اِس لیے فرمایا کہ مال کی کمی اُن کے دوبارہ آنے میں رکاوٹ نہ بن جائے۔

۸۵؎ مدعا یہ ہے کہ تمھارے بھروسے کا تجربہ تو اِس سے پہلے کر چکا ہوں، لہٰذا بھیجنا پڑا تو خدا ہی کے بھروسے پر بھیجوں گا، تمھارے بھروسے پر نہیں بھیجوں گا۔

۸۶؎ اصل الفاظ ہیں: ’وَنَمِیْرُ اَھْلَنَا‘۔اِن کا معطوف علیہ وضاحت قرینہ کی بنا پر محذوف ہے۔ ہم نے ترجمے میں اُسے کھول دیا ہے۔ 

۸۷؎ اِس سے معلوم ہوا کہ غلے کی ضابطہ بندی اِس طرح کی گئی تھی کہ اُس میں بیرونی ضرورت مند ایک اونٹ کے بوجھ کے برابر غلہ حاصل کر سکتے تھے۔

۸۸؎ اِن جملوں کی بلاغت دیکھیے، قرآن نے اُن کی بات اِس طرح نقل کی ہے کہ استاذ امام کے الفاظ میں اُن کی خوشی اُن کے فقرے فقرے سے ابلی پڑ رہی ہے۔

۸۹؎ یہ اِس لیے فرمایا کہ ایک ہی وقت میں گیارہ قبائلی جوان جب ایک جتھے کی صورت میں شہر میں داخل ہوں گے تو ہو سکتاہے کہ اُنھیں مشتبہ سمجھا جائے اور شہر کے لوگ یہ گمان کریں کہ اِس قحط کے زمانے میں یہ لوٹ مار کی غرض سے یہاں آئے ہیں۔

۹۰؎ یہ تدبیر اور تقدیر کے باہمی تعلق کو واضح کر دیا ہے کہ تقدیر بہرحال اٹل ہے، کوئی تدبیر بھی اُس کو بدل نہیں سکتی۔ انسان صرف یہ کر سکتا ہے کہ حالات و مصالح کے لحاظ سے جو خیال اُس کے دل میں آئے، اُسے پورا کرلے۔ اِس سے زیادہ کوئی چیز اُس کے اختیار میں نہیں ہے۔ اپنی ہر تدبیر کے بارے میں بندۂ مومن کو یہی حقیقت پیش نظر رکھنی چاہیے۔

۹۱؎ یعنی اُس علم سے بہرہ مند تھا جو انسان کو بتاتا ہے کہ خدا کی مشیت ہر چیز پر حاوی ہے، لیکن اِس کے باوجود انسان کا فرض ہے کہ وہ ضروری تدبیر کرے، اِس لیے کہ خدا کی تقدیر بعض اوقات اُسی تدبیر سے وابستہ ہوتی ہے، لیکن اکثر لوگ نہیں جانتے۔

۹۲؎ مطلب یہ ہے کہ تمھارے آزردہ خاطر رہنے کے دن ختم ہوئے۔ خدا کی مدد شامل حال رہی تو اب راحت ہی راحت ہے، اِس لیے غم نہ کرو۔ یہ اب تمھیں کوئی نقصان نہ پہنچا سکیں گے۔

۹۳؎ یوسف علیہ السلام نے جس طرح پچھلی ملاقات کے موقع پر اپنے بھائیوں کا دیا ہوا مال اُن کے کجاووں میں رکھوا دیا تھا، اُسی طرح یہ پیالہ بھی بن یمین کو کچھ بتائے بغیر اُس کے سامان میں رکھ دیا تاکہ واپس جا کر اپنا سامان کھولے تو اُن کا یہ تحفہ پا کر خود بھی مسرور ہو اور بھائی کے اختیار و اقتدار کی یہ نشانی اپنے باپ کو بھی دکھائے۔

۹۴؎ یعنی غلام بنا کر روک لیا جائے۔

۹۵؎ یہ اُن کے علاقے کا کوئی رواج بھی ہو سکتا ہے۔ ضروری نہیں ہے کہ اِسے دین ابراہیمی کا حکم سمجھا جائے۔ ابراہیم علیہ السلام کو کسی خطہئ ارض میں کبھی سیاسی اقتدار حاصل نہیں ہوا، اِس لیے یہ ماننا قرین قیاس نہیں ہے کہ اُنھیں جو شریعت دی گئی تھی، اُس میں جرم و سزا سے متعلق بھی احکام موجود تھے۔

۹۶؎ اِس کی دلیل یہ ہے کہ بن یمین کے سامان میں ’السِّقَایَۃ‘ (پیالہ) رکھا گیا تھا جس کے لیے مونث کی ضمیر استعمال ہوئی ہے۔ اِس کے برخلاف شاہی کارندے ’صُوَاعَ الْمَلِکِ‘ (بادشاہ کا پیمانہ) تلاش کر رہے تھے۔ چنانچہ آیت میں دیکھ لیجیے، اِس کے لیے مذکر اور جو چیز برآمد کی گئی ہے، اُس کے لیے مونث کی ضمیر آئی ہے۔

۹۷؎ یوسف علیہ السلام اپنے بھائی بن یمین کو پاجانے کے بعد اب یہ خطرہ مول لینے کے لیے تیار نہیں تھے کہ اُس کو واپسی کے سفر میں بھی اُنھی ظالموں کے حوالے کر دیں جو اُس کے ساتھ کچھ بھی کر سکتے تھے۔ اِس کے لیے ضروری تھا کہ اُسے ساتھ جانے سے روکا جائے۔ اِس مرحلے میں وہ اپنے آپ کو ظاہر بھی نہیں کرنا چاہتے تھے اور ملکی قانون کی رو سے بھائی کو بغیر کسی وجہ کے روک لینا بھی ممکن نہیں تھا، اِس لیے کہ تمام اختیارات کے باوجود اُن کے شایان شان یہی تھا کہ جو قدم بھی اٹھائیں، قانون کے مطابق اٹھائیں۔ قرآن کا ارشاد ہے کہ اِس موقع پر خدا نے مدد فرمائی اور عین اُسی وقت جب وہ اپنا پیالہ بن یمین کے سامان میں رکھ چکے تھے اور اُن کے بھائی رخصت ہونے کو تھے، بادشاہ کا پیمانہ کہیں اِدھر اُدھر ہو گیا اور تلاش کے باوجود نہیں ملا۔ اِس پر دربار کے کارندوں کا شبہ اُنھی بھائیوں کی طرف گیا جو وہاں سے جانے کے لیے نکل رہے تھے اور اِس طرح وہ صورت پیدا ہو گئی جس کے نتیجے میں یوسف علیہ السلام کے بھائی بن یمین کو اُن کے پاس چھوڑ دینے کے لیے مجبور ہو گئے۔ یہ خدائی تدبیر تھی جو بالکل اُسی طرح سامنے آئی، جس طرح اِس نوعیت کے غیر معمولی اتفاقات کبھی کبھی ہمارے مشاہدے میں بھی آجاتے ہیں اور ہم اُن کی کوئی توجیہ نہیں کر پاتے۔ حضرت یوسف اور اُن کے بھائی نے اِس موقع پر اِس کے سوا کچھ نہیں کیا کہ جو کچھ ہوتا رہا، اُسے خاموشی سے دیکھتے رہے۔ اِس میں شبہ نہیں کہ بن یمین پر اِس کے نتیجے میں وقتی طور پر ایک الزام کا دھبا لگا، لیکن اُسے معلوم تھا کہ اِسے بہت جلد دھل جانا ہے۔ لہٰذا وہ بھی مطمئن رہا اور کسی اضطراب کا اظہار نہیں کیا۔

۹۸؎ اور اپنی قدرت سے کوئی ایسی صورت پیدا کر دے کہ قانون کی خلاف ورزی بھی نہ ہو اور بن یمین کو روک بھی لیا جائے۔

۹۹؎ یوسف علیہ السلام کی طرف اشارہ ہے۔ مطلب یہ ہے کہ اُس کو ایسے مقام بلند پر پہنچا دیتے ہیں کہ کائنات کا پروردگار اُس کے لیے تدبیریں فرماتا ہے۔

۱۰۰؎ یعنی خداے لا یزال جس کا علم ہی علم حقیقی ہے۔ چنانچہ وہی جانتا ہے کہ کیا چیز پردۂ غیب سے کس وقت اور کس صورت میں نمودار ہوجائے گی اور جو کچھ بظاہر ناممکن نظر آرہا ہے، اُسے ممکن بنا دے گی۔

۱۰۱؎ یہ اُنھوں نے اپنی خفت مٹانے کے لیے کہا۔ پہلے کہہ چکے تھے کہ ہم چور نہیں ہیں۔ اب جو دیکھا کہ بھائی کی خرجی سے مال برآمد ہو گیا ہے تو فوراً ایک جھوٹی بات بنا کر اپنے آپ کو بھائی سے الگ کر لیا اور دوسرے بھائی کو بھی اُسی الزام میں لپیٹ لیا۔ اِس سے، ظاہر ہے کہ یہ تاثر دینا مقصود تھا کہ یہ ہمارا حقیقی بھائی نہیں ہے، بلکہ سوتیلا بھائی ہے اور چوری کی خصلت اپنی ماں کی طرف سے لایا ہے۔ اِس سے اندازہ ہوتا ہے کہ یوسف اور اُن کے بھائی بن یمین کے لیے اُن کے دلوں میں کس قدر بغض اور کینہ چھپا ہوا تھا۔

۱۰۲؎ یوسف علیہ السلام کی احتیاط ملحوظ رہے کہ جب اُنھیں مجبوراً بولنا پڑا تو اُنھوں نے یہ نہیں کہا کہ جس نے ہماری چیز چرائی ہے، بلکہ صرف یہ فرمایا کہ جس کے پاس ہم نے اپنی چیز پائی ہے۔ یہ اُس توریے کی نہایت عمدہ مثال ہے جس پر اخلاقی لحاظ سے کوئی اعتراض نہیں کیا جا سکتا۔

۱۰۳؎ آیت میں اِس کے لیے ’أکبرھم‘ کا نہیں، بلکہ ’کَبِیْرُھُمْ‘ کا لفظ آیا ہے۔ عربیت کی رو سے یہ علم و دانش اور عقل و راے میں بڑے کے لیے بھی آسکتا ہے۔ لہٰذا اِس سے اگر یہوذا کو مراد لیا جائے تو زیادہ اقرب ہو گا۔ بائیبل میں صراحت ہے کہ یہ مشورہ اُسی نے دیا تھا۔

۱۰۴؎ اِس سے اندازہ ہوتا ہے کہ یہ بھائی دوسروں سے مختلف تھا۔ یوسف کو قتل نہ کرنے کا مشورہ بھی غالباً اِسی نے دیا تھا۔ چنانچہ اُس کی غیرت نے گوارا نہیں کیا کہ ایک کے بعد اب وہ دوسرے بھائی کو بھی کھونے کا مجرم بن کر باپ کے سامنے حاضر ہو۔

۱۰۵؎ یعنی یہ بات کہ بن یمین نے فی الواقع چوری کی ہے، دراں حالیکہ یہ لوگ وہاں بھی کہہ سکتے تھے کہ ہم اپنے بھائی کو جانتے ہیں، وہ کبھی چوری نہیں کر سکتا۔ یہ پیالہ شاید کسی اور نے رکھ دیا ہو یا کسی غلطی سے وہ اُس کے اسباب میں بندھ گیا ہو۔ پھر باپ کے پاس آکر بھی اُنھوں نے یہ نہیں کہا کہ بن یمین پر چوری کا الزام لگا دیا گیا ہے، بلکہ پورے یقین کے ساتھ کہہ دیا کہ آپ کے بیٹے نے چوری کی ہے۔

۱۰۶؎ یوسف علیہ السلام نے جو خواب ابتدائی زمانے میں دیکھا تھا، حضرت یعقوب اُسے خدائی بشارت سمجھتے تھے، لہٰذا اُنھیں یقین تھا کہ یوسف زندہ ہے، وہ اُسے ملیں گے اور اُس کا خواب پورا ہو کر رہے گا۔ یہ اُسی یقین کا اظہار ہے۔

۱۰۷؎ اِس وقت اگرچہ بن یمین کا معاملہ تھا، مگر یعقوب علیہ السلام نے یوسف ہی کو یاد کیا۔ استاذ امام امین احسن اصلاحی نے وضاحت فرمائی ہے۔ وہ لکھتے ہیں:

”یہ بات کچھ عجیب نہیں کہ اِس تازہ حادثے نے بھی حضرت یعقوب کے دل میں حضرت یوسف ہی کے غم کو ہرا کیا۔ اول تو بن یمین کے حادثے کی نوعیت وہ نہیں تھی جو حضرت یوسف کے حادثے کی تھی، ثانیاً حضرت یعقوب کو حضرت یوسف سے جو دل بستگی تھی، وہ صرف بیٹے ہونے کے سبب سے نہیں تھی، بلکہ اُس میں اصلی دخل اُن کی اُن اعلیٰ صلاحیتوں کو تھا جن کی بنا پر حضرت یعقوب اُن سے اِس درجہ محبت کرتے تھے کہ وہ اپنے تمام بھائیوں کے محسود بن گئے اور بالآخر اُسی کے نتیجے میں بھائیوں کے ہاتھوں اُنھیں نہایت زہرہ گداز آزمایشوں سے گزرنا پڑا۔“(تدبرقرآن۴/ ۲۴۸)   

۱۰۸؎ عام مشاہدہ ہے کہ غم و الم کی شدت اور بہت روتے رہنے سے پتلیوں اور پلکوں کی سیاہی متاثر ہو جاتی ہے اور آنکھوں کے سرخ ڈورے بھی آہستہ آہستہ غائب ہو جاتے ہیں، یہ اُسی حالت کا بیان ہے۔

۱۰۹؎ یہ بظاہر ہمدردی کا جملہ ہے، مگر غور کیجیے تو اِس میں بھی وہی جذبۂ حسد کارفرما ہے جو اُن کے تمام اقدامات کا باعث ہوا۔ اُن کا خیال تھا کہ یوسف کو ٹھکانے لگا کر وہ باپ کی تمام توجہ حاصل کر لیں گے، لیکن اُنھوں نے دیکھا کہ اِس کے نتیجے میں جو کچھ اُنھیں حاصل تھا، وہ بھی اُن سے چھن گیا ہے اور باپ کا اِس کے سوا کوئی کام ہی نہیں رہ گیا کہ جب تنہا ہوں، یوسف کی یادمیں نالہ و فریاد کرتے رہیں۔

۱۱۰؎ یہی ایک بندۂ مومن کے شایان شان ہے۔ وہ اپنے غم و الم کا اظہار اپنے رب ہی سے کرتا ہے، اِس لیے کہ اُس کی تمام امیدیں اُسی سے وابستہ ہوتی ہیں اور وہ جانتا ہے کہ اُس کا یہ گریہ اور یہ زاری بالآخر اُس کی رحمت کو جوش میں لے آئے گی۔

۱۱۱؎ اِس سے واضح ہے کہ یعقوب علیہ السلام کو جس طرح حضرت یوسف کے معاملے میں اُن کے بیان کا یقین نہیں ہوا تھا، اُسی طرح بن یمین کے معاملے میں بھی نہیں ہوا۔

۱۱۲؎ اصل الفاظ ہیں: ’بِضَاعَۃٍ مُّزْجٰۃٍ‘۔ یعنی ایسی حقیر پونجی جس کو کوئی قبول نہ کرے۔ اِس سے خیال ہوتا ہے کہ نقد کے بجاے وہ کوئی ایسی جنس لے کر گئے تھے جس کی وہاں کوئی خاص مانگ نہیں تھی۔

۱۱۳؎ اِس سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ ضرورت کس شان اور طنطنے کے لوگوں کو کہاں سے کہاں پہنچا دیتی ہے۔

۱۱۴؎ یہی وہ حقیقت ہے جس کی وضاحت کے لیے یہ تمام سرگذشت قریش مکہ کو سنائی گئی ہے۔

۱۱۵؎ یہ بڑی حیرت انگیز بات ہے جس کو سمجھنا آسان نہیں ہے۔ استاذ امام لکھتے ہیں:

”حضرت یوسف نے اپنے جسم سے لمس کیا ہوا کرتا ہی اپنی نشانی کے طور پر کیوں بھیجا؟ اور کرتے میں یہ اثر کہاں سے آیا کہ اِس سے بصارت عود کر آئے؟ یہ سوالات نہ ہر شخص کے حل کرنے کے ہیں اور نہ اِس کا حل ہر شخص کی سمجھ میں آسکتا ہے۔ اِن چیزوں کا تعلق جذبات سے ہے اور جذبات بھی ایسے عالی مقام لوگوں کے کہ ایک طرف حضرت یعقوب ہیں، دوسری طرف حضرت یوسف۔ ہم عامی اِس طرح کے معاملات میں اِس سے زیادہ کچھ نہیں کہہ سکتے کہ سچے جذبات کی تاثیر و تاثر کے کرشمے ایسی حیرت انگیز صورتوں میں ظاہر ہوتے ہیں کہ عقل اُن کی توجیہ سے بالکل قاصر رہ جاتی ہے۔“(تدبرقرآن۴/ ۲۵۱)

۱۱۶؎ یعقوب علیہ السلام خدا کے پیغمبر تھے۔ اللہ تعالیٰ جن ہستیوں کو نبوت و رسالت کے لیے منتخب کرتا ہے، اُن کے قویٰ اور حواس کو اپنے قویٰ اور حواس پر قیاس نہ کرنا چاہیے۔ اُنھیں اللہ تعالیٰ جب چاہتے ہیں اور جس طریقے سے چاہتے ہیں، کسی معاملے سے آگاہ کر دیتے ہیں۔ چنانچہ یہاں بھی دیکھ لیجیے، یوسف علیہ السلام ۲۰ سال سے زیادہ مدت تک مصر میں رہے اور حضرت یعقوب کو کبھی اُن کی خوشبو نہ آئی، مگر اِس وقت اُن کی قوت ادراک یکایک ایسی تیز ہو گئی کہ یوسف کا پیرہن مصر سے چلا اور وہ اُس کی خوشبو محسوس کرنے لگے۔

۱۱۷؎ اصل الفاظ ہیں: ’فَلَمَّآ اَنْ جَآءَ الْبَشِیْرُ‘۔ اِن میں ’اَنْ‘سے پہلے ایک فعل محذوف ہے۔ ہم نے ترجمے میں اُسے کھول دیا ہے۔

۱۱۸؎ اصل میں لفظ ’سَوْفَ‘آیا ہے۔ یہ اِس بات کی طرف اشارہ کر رہا ہے کہ حضرت یعقوب نے اُن سے خاص اہتمام کے ساتھ اور خاص وقت میں دعا کا وعدہ فرمایا، یہ کہہ کر ٹال نہیں دیا کہ جاؤ، اللہ تمھیں معاف فرمائے۔

۱۱۹؎ یعنی اپنے والد اور اپنی سوتیلی والدہ کو جو اُن کی حقیقی خالہ بھی تھیں۔ بائیبل میں صراحت ہے کہ اُن کی والدہ وفات پا چکی تھیں۔

۱۲۰؎ یہ خیر مقدم کا جملہ ہے۔ بائیبل کا بیان ہے کہ یہ لوگ پہنچے تو حضرت یوسف نے شہر سے باہر نکل کر اِن کا خیرمقدم کیا اور اِنھیں اِس شان سے شہر میں لائے کہ ایک جشن کی صورت پیدا ہو گئی۔

۱۲۱؎ اِس سے مراد یہاں تخت شاہی نہیں، بلکہ وہ تخت ہے جس پر حضرت یوسف اپنے منصب کی ذمہ داریوں کو ادا کرنے کے لیے بیٹھتے تھے۔

۱۲۲؎ سجدے سے مراد یہاں وہ سجدہ نہیں ہے جو ہم خدا کے آگے کرتے ہیں، بلکہ رکوع کے طریقے پر جھکنا ہے۔ بڑوں کی تعظیم کے لیے اِس انداز میں جھکنا قدیم زمانے کا معروف طریقہ تھا۔ عربی زبان میں لفظ ’سجد‘اِس معنی کے لیے بھی عام استعمال کیا جاتا ہے۔ بائیبل اور تالمود، دونوں میں تصریح ہے کہ جس چیز کو اصطلاحی سجدہ کہا جاتا ہے، وہ بنی اسرائیل کی شریعت میں بھی غیر اللہ کے لیے اُسی طرح ممنوع تھا، جس طرح ہماری شریعت میں ممنوع ہے۔ یہاں جس واقعے کا ذکر ہے، وہ کس طرح پیش آیا؟ استاذ امام لکھتے ہیں:

”حضرت یوسف نے اپنے والدین کو تعظیماً تخت پر جگہ دی۔ بقیہ لوگ حسب دستور عام لوگوں کے بیٹھنے کی جگہ پر بیٹھے ہوں گے۔ اِس کے بعد معلوم ہوتا ہے کہ حضرت یوسف نمودار ہوئے اور قاعدے کے مطابق اُن کے خدم و حشم اُن کی تعظیم کے لیے جھکے تو ماحول سے متاثر ہو کر یہ لوگ بھی بے اختیارانہ اُن کی تعظیم کے لیے جھک پڑے۔“(تدبرقرآن۴/ ۲۵۴)   

۱۲۳؎ سبحان اللہ، کیا حسن سیرت ہے! نہ گلہ نہ شکوہ، نہ طعن و تشنیع اور ملامت، نہ فخر جتانے اور بڑائی ظاہر کرنے کی کوشش، بلکہ اپنے پروردگار کی شکر گزاری اور اُس کے احسانات کا اعتراف اور بھائیوں کی تسلی کے لیے اپنی طرف سے یہ صفائی کہ درحقیقت یہ شیطان تھا جس نے میرے اور اُن کے درمیان برائی ڈال دی تھی۔ پھر خدا سے اُس کی بندگی پر استقامت اور صالحین کے زمرے میں شامل کیے جانے کی دعا جس پر بات ختم ہوئی ہے۔ قرآن اپنے ماننے والوں میں جو سیرت و کردار پیدا کرنا چاہتا ہے، یوسف علیہ السلام کی یہ گفتگو اُس کا بہترین نمونہ ہے۔

[باقی]

________________________

B