عالم نفوس، دنیااوربرزخ ،یہ تینوں اس لحاظ سے مشترک ہیں کہ یہ ایک ہی وقت میں موجود اور مائل بہ عمل ہیں۔ یعنی ایک ہی وقت میں کوئی شخص عالم نفوس میں موجوداورزندگی مل جانے کامنتظر ہے توکوئی دنیامیں آچکا اوراس زندگی کو جی رہاہے اورکوئی وہ ہے جواِن مراحل سے گزر کر برزخ میں جابراجمان ہواہے۔لیکن دنیاے حشران تینوں سے اس لحاظ سے بالکل مختلف ہے کہ وہ آج کی نہیں،بلکہ کل کی بات ہے۔نیزیہ امتحان ہے اورنہ اس سے متعلقہ کوئی امر،بلکہ صرف اورصرف امتحان کانتیجہ سنادینے کاایک مرحلہ ہے۔عالم حشرکی یہ خصوصیات ہیں جوتقاضا کرتی ہیں کہ اس کی ابتدایوں ہوکہ سب سے پہلے یہاں برپاکیے گئے امتحانی نظام کی بساط لپیٹ دی جائے۔اس کے بعدلوگوں کو نئی زندگی دے کراکٹھاکیاجائے۔ان کی کارگزاری دیکھنے کے لیے وہاں عدالت قائم ہواورپھرنیک کاروں کوجزا اور بدکاروں کوسزاسنادی جائے۔قرآن میں ان تمام مراحل کی تفصیل بیان ہوئی ہے۔ہم ذیل میں ان کو ترتیب وار پیش کرتے ہیں:
قرآن کی روسے جینے اورمرنے اورپھربرزخ میں چلے جانے کایہ سلسلہ ہمیشہ جاری نہ رہے گا۔ ایک دن آئے گاجب موت وحیات کایہ سفراپنے اختتام کوپہنچے گا،عالم برزخ منتہی ہوجائے گا،حتیٰ کہ ساری دنیا درہم برہم اوراس کاہرنظم تلپٹ ہوکررہ جائے گا۔کائنات میں واقع ہونے والے اس عظیم حادثے کودینی اصطلاح میں قیامت سے تعبیر کیا جاتاہے ۔
قیامت کاآغازاس طرح ہوگاکہ لوگ اپنے اپنے کاموں میں مصروف ہوں گے اورخداکی طرف سے مامورایک فرشتہ اچانک صورپھونک دے گا۔صورپھونک دیاجانا،اصل میں اس بات کا اعلان ہوگاکہ اب کائنات کے نظام میں تغیر کی ابتداہوتی ہے۔ اس کی آواز کاپہلا اثریہ ہوگاکہ لوگوں پرشدیدگھبراہٹ اورہول کی کیفیت طاری ہوجائے گی۔ اس کیفیت میں لوگ اپنی عزیز ترین چیزوں سے بے پروا ہو جائیں گے، مائیں اپنی ممتا کو بھول جائیں گی، حتیٰ کہ حاملہ عورتیں اپنے حمل تک ڈال دیں گی:
وَیَوْمَ یُنْفَخُ فِی الصُّوْرِ فَفَزِعَ مَنْ فِی السَّمٰوٰتِ وَمَنْ فِی الْاَرْضِ اِلَّا مَنْ شَآءَ اللّٰہُ. (النمل ۲۷: ۸۷)
’’اور اس دن کاخیال کرو،جب صور پھونکا جائے گا اور وہ سب جوزمین اور آسمانوں میں ہیں،ہول کھا جائیں گے، سواے ان کے جنھیں اللہ چاہے گا۔‘‘
یَوْمَ تَرَوْنَھَا تَذْھَلُ کُلُّ مُرْضِعَۃٍ عَمَّآ اَرْضَعَتْ وَ تَضَعُ کُلُّ ذَاتِ حَمْلٍ حَمْلَھَا وَتَرَی النَّاسَ سُکٰرٰی وَمَا ھُم بِسُکٰرٰی، وَلٰکِنَّ عَذَابَ اللّٰہِ شَدِیْدٌ.(الحج ۲۲: ۲)
’’جس دن تم اُسے دیکھوگے،اس دن ہر دودھ پلانے والی اپنے دودھ پیتے بچے کوبھول جائے گی اور ہر حاملہ اپناحمل ڈال دے گی اور لوگ تمھیں مدہوش نظر آئیں گے، دراں حالیکہ وہ مدہوش نہیں ہوں گے،بلکہ اللہ کا عذاب ہی کچھ ایسا سخت ہوگا۔‘‘
صورکے پھونک دیے جانے کے بعدزمین کی حالت کیا ہو گی، اس کے باسیوں پرکیا گزرے گی،اس کی خشکی اورتری میں کیا کیا تبدیلیاں رونماہوں گی اوراس کے پہاڑاورکھائیاں کیا کچھ جھیلیں گی ؛قرآن نے ان سب کا تفصیل سے نقشہ کھینچاہے۔
بیان ہواہے کہ انسان کے پاؤں کے نیچے کی زمین میں بھونچال آجائے گا۔یہ عجیب اور بے ہنگم طریقے سے ہچکولے کھانے لگے گی۔اس کاسکون ختم اورقرار متزلزل ہوجائے گا۔اس کے اندربہت سے راز پوشیدہ ہیں،بہت سی امانتیں اورخزانے مدفون ہیں،ایساکھچاؤپیدا ہوگا کہ یہ اس طرح کے تمام بوجھ نکال باہرکرے گی۔اس کی بلندیوں کا حسن اور مناظر کی دل فریبی ختم ہوجائے گی ،حتیٰ کہ تمام نشیب وفرازاُس دن برابر ہوجائیں گے:
یٰٓاَیُّھَا النَّاسُ اتَّقُوْا رَبَّکُمْ، اِنَّ زَلْزَلَۃَ السَّاعَۃِ شَیْءٌ عَظِیْمٌ.(الحج ۲۲: ۱)
’’لوگو،اپنے پروردگار سے ڈرو۔حقیت یہ ہے کہ قیامت کازلزلہ بڑی ہول ناک چیز ہے۔‘‘
وَاِذَا الْاَرْضُ مُدَّتْ، وَاَلْقَتْ مَا فِیْھَا وَتَخَلَّتْ، وَاَذِنَتْ لِرَبِّھَا وَحُقَّتْ. (الانشقاق ۸۴: ۳۔۵)
’’اور وہ دن، جب زمین تان دی جائے گی اور جو کچھ اس کے اندر ہے، اسے باہر پھینک کر خالی ہو جائے گی اور اپنے پروردگار کے حکم کی تعمیل کرے گی، اور اسے یہی چاہیے۔ (وہ دن تمھارے پروردگار سے ملاقات کا دن ہو گا)۔‘‘
لَا تَرٰی فِیْھَا عِوَجًا وَّلاَ اَمْتًا. (طٰہٰ ۲۰: ۱۰۷)
’’تم اس میں کوئی کجی دیکھوگے اورنہ ہی کوئی بلندی۔‘‘
زمین کی مضبوطی اور اس میں گڑے ہوئے پہاڑوں کی عظمت کابھرم،اُس دن چکناچور ہو جائے گا۔ ان دونوں کو ایک ہی بارمیں اٹھاکر پاش پا ش کردیاجائے گا۔یہ فلک بوس پہاڑجوآج ثبات کے لیے ضرب المثل ہیں، اس قدر بے ثبات ہو جائیں گے کہ گردوغباراوردھنکی ہوئی اُون کے مانندہوامیں اڑتے ہوں گے:
وَحُمِلَتِ الْاَرْضُ وَالْجِبَالُ فَدُکَّتَا دَکَّۃً وَّاحِدَۃً، فَیَوْمَءِذٍ وَّقَعَتِ الْوَاقِعَۃُ. (الحاقہ ۶۹: ۱۴۔۱۵)
’’اور زمین اور پہاڑوں کو ایک ہی مرتبہ اٹھاکر پاش پاش کردیاجائے گا، تو اس دن ہوکے رہنے والی (قیامت) ہو جائے گی۔‘‘
وَیَسْءَلُوْنَکَ عَنِ الْجِبَالِ فَقُلْ یَنْسِفُھَا رَبِّیْ نَسْفًا، فَیَذَرُھَا قَاعًا صَفْصَفًا. (طٰہٰ ۲۰: ۱۰۵۔۱۰۶)
’’اور یہ لوگ تم سے پہاڑوں کے بارے میں پوچھتے ہیں،انھیں کہوکہ میرا رب ان کو گرد و غبار کی طرح اڑا دے گا اورزمین کو بالکل صفاچٹ چھوڑدے گا۔‘‘
وَتَکُوْنُ الْجِبَالُ کَالْعِھْنِ الْمَنْفُوْشِ. (القارعہ ۱۰۱: ۵)
’’اور(اس دن)پہاڑ دُھنی ہوئی روئی کی طرح ہو جائیں گے۔‘‘
قیامت کی ان گھڑیوں میں سمندر وں پرجو گزرے گی،قرآن نے اس کابھی ذکرکیا ہے۔ ساحلوں سے گلے ملنے، راز و نیاز کی باتیں کرنے اوروفاؤں کا دم بھرنے والی لہریں، جوروٹھ کر چلی بھی جائیں تو پھر لوٹ آتی ہیں،اُس دن اتنے جوش اورہیجان میں ہوں گی کہ معلوم ہوگا کہ یہ کنارے کبھی بھی ان کے دوست نہیں رہے۔یہ ان سے کیے ہوئے سارے قول وقرار بھول جائیں گی ۔ان سے عہدِ وفا نبھاناتو درکنار،یہ ان کوپاؤں تلے روند کررکھ دیں گی:
وَاِذَ الْبِحَارُ سُجِّرَتْ....(التکویر ۸۱: ۶)
’’اور جب سمندر ابل پڑیں گے...‘‘
وَاِذَ الْبِحَارُ فُجِّرَتْ.... (الانفطار ۸۲: ۳)
’’اورجب سمندر پھوٹ بہیں گے...‘‘
قیامت کی ان ہول ناکیوں کا جانوروں پربھی اثرپڑے گا۔وحشی جانوربالعموم اکٹھے نہیں ہوتے کہ ان کو اپنی ضرورت کے لیے ایک دوسرے کی گھات میں بیٹھنااوربھڑجانا ہوتا ہے۔ہونے والے واقعات کاان پراس قدر اثر ہو گا کہ وہ ایک دوسرے سے بے پروا ہوکر ایک ہی جگہ اکٹھے ہو جائیں گے:
وَ اِذَا الْوُحُوْشُ حُشِرَتْ.... (التکویر ۸۱: ۵)
’’اور جب وحشی جانور(اپنی سب دشمنی بھول کر، ایک ہی جگہ)اکٹھے ہو جائیں گے... (اس وقت ہر کوئی جان لے گا کہ وہ کیالے کر آیاہے)۔‘‘
اِدھرزمین اور اس کی مخلوقات پر یہ سب بیت رہاہوگااور اُدھرآسمان اور اس کے متعلقات بھی قیامت کی زد میں ہوں گے۔اِس نیلگوں چھت کے بارے میں ارشاد ہوا ہے کہ وہ پھٹ جانے کے بعد اس طرح نظر آئے گی ،جیسے کھال کھینچ دیں تو نیچے سے سرخ گوشت نظر آنے لگتا ہے۔انسان کی خدمت میں لگے ہوئے اجرام فلکی اوردیگر آرایشی قمقمے، اُس دن بے نور ہو جائیں گے۔ چانداورسورج، آج اپنے اپنے دائروں میں کام کرتے دکھائی دیتے ہیں،یہ اپنے مدار وں کو چھوڑیں گے اورایک دوسرے سے جاملیں گے:
فَاِذَا انْشَقَّتِ السَّمَآءُ فَکَانَتْ وَرْدَۃً کَالدِّھَانِ. (الرحمٰن ۵۵: ۳۷)
’’پھر(کیابنے گی اس وقت)جب آسمان پھٹ جائے گااوراتری ہوئی کھال کی طرح لال ہوجائے گا؟‘‘
اِذَا الشَّمْسُ کُوِّرَتْ، وَاِذَا النُّجُوْمُ انْکَدَرَتْ.... (التکویر ۸۱: ۱۔۲)
’’جب سورج کی بساط لپیٹ دی جائے گی،جب تارے ماند پڑ جائیں گے...‘‘
فَاِذَا بَرِقَ الْبَصَرُ، وَخَسَفَ الْقَمَرُ، وَجُمِعَ الشَّمْسُ وَالْقَمَرُ، یَقُوْلُ الْاِنْسَانُ یَوْمَءِذٍ اَیْنَ الْمَفَرُّ. (القیٰمہ ۷۵: ۷۔۱۰)
’’لیکن اس وقت، جب دیدے پتھرائیں گے، اور چاند گہنائے گا اور سورج اورچاند، دونوں اکٹھے کر دیے جائیں گے تو یہی انسان کہے گا:اب کہاں بھاگ کر جاؤں۔‘‘
قیامت کی اس ہلچل کے دوران میں کوئی وقت ہوگاجب تمام انسان اپنے اوسان کھو کر بے ہوش ہو جائیں گے۔ بلکہ زمین والوں کاذکر ہی کیا !آسمان کے باسی بھی اس دہشت سے اپنے ہواس کھوبیٹھیں گے۔ہوش میں وہی رہے گا جس کے بارے میں خدا چاہے گاکہ وہ ہوش میں رہے:
وَنُفِخَ فِی الصُّوْرِ فَصَعِقَ مَنْ فِی السَّمٰوٰتِ وَمَنْ فِی اْلاَرْضِ اِلاَّ مَنْ شَآءَ اللّٰہُ. (الزمر ۳۹: ۶۸)
’’اور صور پھونکاجائے گا توآسمانوں اور زمین میں جو بھی ہیں،سب بے ہوش ہر کر گرپڑیں گے،سواے ان کے جنھیں اللہ چاہے گا۔‘‘
قیامت برپاہوجانے اوراس کے نتیجے میں یہاں کاسارانظام درہم برہم ہوجانے کے بعد وہ وقت آئے گا جب ایک نئی دنیابالکل نئے اصولوں کے ساتھ پیدا کردی جائے گی۔اس کی پیدایش میں ذرہ بھربھی مشکل نہ ہوگی،بلکہ یہ سب اسی طرح ممکن ہوجائے گا،جس طرح پہلی مرتبہ ممکن ہواتھا۔اس کوبنانے کے لیے کسی کاری گرکی تلاش ہوگی نہ نیامادہ چاہیے ہوگا،وہی پروردگار عالم کہ جس نے اس دنیاکو عدم سے وجودبخشاتھا،کائنات کی وسعتوں میں بکھرے ہوئے اسی مادے سے نئی دنیاکو تخلیق کر لے گا:
کَمَا بَدَاْنَآ اَوَّلَ خَلْقٍ نُّعِیْدُہٗ، وَعْدًا عَلَیْنَا، اِنَّا کُنَّا فٰعِلِیْنَ. (الانبیآء ۲۱: ۱۰۴)
’’جس طرح ہم نے تخلیق کی ابتدا کی تھی،اُسی طرح اِس کا اعادہ کریں گے۔ یہ ایک وعدہ ہے ہمارے ذمے، اور ہم یہ کر کے رہیں گے۔‘‘
یَوْمَ تُبَدَّلُ الْاَرْضُ غَیْرَ الْاَرْضِ وَالسَّمٰوٰتُ. (ابراہیم ۱۴: ۴۸)
’’اس دن کو یاد رکھو،جب یہ زمین دوسری زمین سے بدل دی جائے گی اور آسمان بھی۔‘‘
جب نئے زمین اورآسمان تیار ہو جائیں گے توآدم سے لے کر قیامت تک پیدا ہونے والے ہر انسان کو زندہ کر دیا جائے گا۔اس کے لیے ایک مرتبہ پھرسے صورپھونکاجائے گاجس کی آواز سے سب مردے جی اٹھیں گے۔وہ ایک دوسرے کوحیرانی سے تاکتے ہوں گے جس طرح کسی کو گہری نیندسے جگادیاجائے تووہ ہڑبڑاکراٹھے اور اِدھر اُدھر دیکھنے لگے۔ یہ لوگ بہت بڑی تعداد میں اوراس قدرمنتشر اورپراگندہ ہوں گے، جیسے آسمان سے بارش ہواوراچانک بہت سے پتنگے کہیں سے نکل آئیں:
ثُمَّ نُفِخَ فِیْہِ اُخْرٰی فَاِذَا ھُمْ قِیَامٌ یَّنْظُرُوْنَ. (الزمر ۳۹: ۶۸)
’’پھر اس صورمیں دوبارہ سے پھونکا جائے گا اوروہ یکایک اٹھ کر دیکھنے لگیں گے۔‘‘
یَوْمَ یَکُوْنُ النَّاسُ کَالْفَرَاشِ الْمَبْثُوْثِ. (القارعہ ۱۰۱: ۴)
’’اس دن لوگ بکھرے ہوئے پتنگوں کی طرح ہوں گے۔‘‘
عالم حشرمیں دی جانے والی یہ زندگی پہلے ادوارمیں دی جانے والی زندگی سے قدرے مختلف ہوگی۔عالم نفوس اوربرزخ کی زندگی سے اس طرح کہ اس میں روح مجردنہیں،بلکہ ایک جسم کے ساتھ ہوگی۔ دنیوی حیات سے اس طرح کہ اس میں دیاجانے والا جسم اپنی خصوصیات میں بہت کچھ مختلف ہوگا۔مثال کے طور پر:
۱۔ آج انسانی جسم کوجلایاجائے تووہ اپنی اصل ساخت ہمیشہ کے لیے کھوبیٹھتا ہے، لیکن وہاں جب بھی اس کوجلایاجائے گایہ اپنی اصل ساخت پرپھرسے لوٹ آئے گا،جیساکہ بیان ہواہے:
کُلَّمَا نَضِجَتْ جُلُوْدُھُمْ بَدَّلْنٰھُمْ جُلُوْدًا غَیْرَھَا. (النساء ۴: ۵۶)
’’اُن کی کھالیں جب پک جائیں گی، ہم ان کی جگہ دوسری کھال پیداکردیں گے۔‘‘
۲۔ان اجسام کی صلاحیتیں اورقوتیں بہت بڑھی ہوئی ہوں گی۔ قوت باصرہ بہت دور تک دیکھ لینے میں آج کے اجسام کی طرح سائنسی آلات کی محتاج نہ ہوگی۔ان کی آوازیں اور سماعتیں بھی ہماری آوازوں اورسماعتوں کی طرح اتنی زیادہ محدودنہ ہوں گی۔لوگ درمیان میں بڑی دوریاں حائل ہونے کے باوجود جب چاہیں گے ایک دوسرے سے گفتگوکرلیاکریں گے۔ جنتی آپس میں بات چیت کررہے ہوں گے کہ ان میں سے ایک شخص اپنے ساتھیوں سے کہے گاکہ ذرا جھانک کردیکھومیرے اس ساتھی کاکیاحال ہواجوقیامت کے برپاہونے کے بارے میں بہت متعجب ہوا کرتاتھا:
فَاطَّلَعَ فَرَاٰہُ فِیْ سَوَآءِ الْجَحِیْمِ، قَالَ تَاللّٰہِ اِنْ کِدْتَّ لَتُرْدِیْنِ، وَلَوْ لَا نِعْمَۃُ رَبِّیْ لَکُنْتُ مِنَ الْمُحْضَرِیْنَ. (الآّٰفّٰت ۳۷: ۵۵۔۵۷)
’’سو وہ جھانکے گا اور اس (شخص)کو جہنم کے بالکل بیچ میں دیکھے گا۔وہ کہے گا:خدا کی قسم!تم نے تومجھے تباہ ہی کردیاتھا۔اگر میرے رب کا فضل نہ ہوتا تو میں بھی یہاں پکڑلیاگیا ہوتا۔‘‘
۳۔ آج صرف زبان ہے جو صلاحیتِ نطق رکھتی ہے،مگر ہمیں دیے جانے والے نئے جسموں کی یہ خصوصیت ہوگی کہ زبان کے ساتھ ساتھ ان کے ہاتھ ،پاؤں،کان اورآنکھیں،بلکہ رواں رواں بول سکتا ہوگا:
اَلْیَوْمَ نَخْتِمُ عَلٰٓی اَفْوَاھِھِمْ وَتُکَلِّمُنَآ اَیْدِیْھِمْ وَتَشْھَدُ اَرْجُلُھُمْ بِمَاکَانُوْا یَکْسِبُوْنَ. (یٰسٓ ۳۶: ۶۵)
’’آج ہم ان کے مونہوں پر مہر کردیں گے اور ان کے ہاتھ ہمیں بتائیں گے اور ان کے پاؤں شہادت دیں گے جو کچھ وہ کرتے رہے ہیں ۔‘‘
حَتّٰی اِذَا مَا جَآءُ وْھَا شَھِدَ عَلَیْھِمْ سَمْعُھُمْ وَاَبْصَارُھُمْ وَجُلُوْدُھُمْ بِمَا کَانُوْا یَعْمَلُوْنَ. (حٰمٓ السجدہ ۴۱: ۲۰)
’’یہاں تک کہ جب وہ اس(جہنم) کے پاس حاضر ہو جائیں گے تو ان کے کان،اور ان کی آنکھیں،اور ان کے جسم کے رونگٹے ان پران باتوں کی گواہی دیں گے جووہ کرتے رہے۔‘‘
ضروری نہیں ہے کہ یہ اعضااشارے اورکنایے کے ساتھ اپنے مدعاسمجھائیں۔وہ ایک نیا جہان ہوگاجس کے قوانین بالکل نئے اورجس کے اصول یہاں کے اصولوں سے یک سر مختلف ہوں گے۔اس لیے ہوسکتاہے کہ یہ سب اسی طرح بات کریں،جس طرح آج یہ زبان بات کیا کرتی ہے۔صرف اس خداکی قدرت سامنے رہنی چاہیے جس نے زبان کے لوتھڑے کو قوت گویائی دی ہے کہ وہی دوسرے اعضاکوبھی ناطق بنادے گا۔بلکہ وہ عالم ہی نرالا ہو گا! انسان اور اس کے اعضا کابولناتوایک طرف رہا،وہاں توہر چیز بول سکنے پر قادر ہوگی۔جن جمادات کو ہم کسی درجے میں بھی ذی روح نہیں مانتے ،وہ بھی خداکے حکم پربولیں گے،حتیٰ کہ وہاں زمین کابولنا بھی قرآن نے ذکر کیاہے:
وَقَالُوْا لِجُلُوْدِھِمْ لِمَ شَھِدْتُّمْ عَلَیْنَا، قَالُوْٓا اَنْطَقَنَا اللّٰہُ الَّذِیْٓ اَنْطَقَ کُلَّ شَیْءٍ. (حٰمٓ السجدہ ۴۱: ۲۱)
’’اور وہ اپنے جسموں سے کہیں گے : تم نے ہمارے خلاف گواہی کیوں دی؟ وہ جواب دیں گے: ہمیں اسی اللہ نے گویا کردیاجس نے ہرچیز کو گویاکیا۔‘‘
یَوْمَءِذٍ تُحَدِّثُ اَخْبَارَھَا، بِاَنَّ رَبَّکَ اَوْحٰی لَھَا. (الزلزال ۹۹: ۴۔۵)
’’اس دن تیرے پروردگار کے ایما سے وہ اپنی سب کہانی کہہ سنائے گی۔‘‘
[باقی]
__________