HomeQuranHadithMizanVideosBooksBlogs
مصنف : ڈاکٹر وسیم مفتی

حضرت عمار بن یاسر رضی اللہ عنہ (۱)

حضرت عمار عظیم المرتبہ والدین یاسر بن عامر(بن مالک)عنسی اور سمیہ بنت خباط کے فرزند تھے۔ ابن عبدالبر نے حضرت عمار کے نسب میں ان کے دادا عامرکا ذکر نہیں کیا۔ حضرت عمار کا شجرۂ نسب یعرب بن قحطان سے جا ملتا ہے جو ایک قول کے مطابق اس دنیا میں عربی بولنے والے پہلے شخص تھے۔یعرب کی دسویں نسل میں زید بن مالک (مذحج) ہوئے جو اپنے لقب عنس سے مشہور ہیں۔ حضرت عمار بن یاسرکا قبیلۂ عنس انھی کے نام سے منسوب ہے، اسی لیے حضرت عمار عنسی اور مذحجی، دونوں نسبتوں سے جانے جاتے ہیں۔ یمن کے خراب حالات اور خشک سالی کے باعث حضرت یاسرکا ایک بھائی اپنے کئی ہم وطنوں کی طرح گھر سے بھاگ نکلا تو وہ اپنے دو دوسرے بھائیوں حارث اور مالک کو لے کر اسے ڈھونڈتے ڈھونڈتے بے سہارا لوگوں کی جاے پناہ مکہ پہنچ گئے۔بھائی نہ ملا تو حارث اور مالک تو مایوس ہو کر وطن واپس چلے گئے، لیکن حضرت یاسرکو مکہ ایسا بھایا کہ وہیں بس گئے۔ انھوں نے قبائلی رواج کے مطابق بنومخزوم کے سردار، ابوجہل کے چچا ابوحذیفہ( مہشم بن مغیرہ) کے ساتھ جینے مرنے کا حلف اٹھا لیا۔ابوحذیفہ نے حضرت یاسر کے ساتھ بہت اچھا برتاؤ کیا، پھر بنولخم سے تعلق رکھنے والی اپنی باندی سمیہ بنت خباط(یا خیاط) سے ان کی شادی کر دی۔۵۷۰ ء کو عام الفیل کہا جاتا ہے، کیونکہ اس سال ہاتھیوں کی فوج لے کر خانۂ کعبہ پر حملہ کرنے والے ابرہہ کو عبرت ناک انجام کا سامناکرنا پڑا۔اسی سن میں یا ۵۶۶ء میں حضرت یاسر کے ہاں حضرت عمارکی ولادت ہوئی، آں حضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی ولادت کا سال بھی یہی ہے، تاہم حضرت عمار آپ سے کچھ بڑے تھے۔ ابوحذیفہ کی وفات بعثت نبوی سے پہلے ہوئی، انھوں نے اپنی زندگی ہی میں حضرت یاسر اور حضرت عمارکو آزاد کر دیا تھا، تاہم حضرت یاسرکا کنبہ بنو مخزوم ہی میں رہا۔ عبداﷲ (یا عبود) اور حریث (یا حویرث) حضرت عمار کے بھائی تھے۔ ابن سعد نے سلمہ بن ازرق کو حضرت عمار کا ماں جایا قرار دیا ہے ،کئی علماے رجال نے اس کی تائید کی، لیکن ابن حجر نے سختی سے تردیدکی ہے۔ ابو الیقظان حضرت عمار کی کنیت تھی۔

لوگ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کی سیدہ خدیجہ سے شادی کے واقعات بیان کرتے تو حضرت عماربن یاسر کہتے: میں سیدہ سے آپ کی شادی کے بارے میں سب لوگوں سے زیادہ جانتا ہوں۔میں آپ کا ہم عمر،دوست اور رازدان تھا۔ ایک دفعہ آپ کے ساتھ باہر نکلا۔ حزورہ کے بازارمیں ہمارا گزر حضرت خدیجہ کی بہن پر ہواجو کھالیں بیچ رہی تھیں، انھوں نے مجھے بلایا۔ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم پیچھے رہے، جبکہ میں آگے بڑھ کر ان کی بات سننے گیا۔ انھوں نے پوچھا: تمھارا یہ ساتھی کیا خدیجہ سے بیاہ کر نا چاہے گا؟ میں نے آپ کو بتایا تو آپ نے جواب فرمایا: کیوں نہیں، میرے دین کی قسم، میں نے واپس جا کر آپ کی آمادگی کی خبر دی تو حضرت خدیجہ کی بہن نے کہا: کل صبح ہمارے گھر آ جانا۔ حضرت خدیجہ کے چچا عمرو بن اسد نے آپ سے حضرت خدیجہ کی نسبت طے کی اور انھی کی سرپرستی میں شادی سر انجام پائی ۔یہ روایت کہ حضرت خدیجہ کے والدنے نشے میں دھت ہو کر رشتہ دیا، قطعی طور پر درست نہیں۔ خویلدبن اسد تب زندہ ہی نہ تھے، وہ تواس واقعہ سے پانچ برس پہلے ہونے والی جنگ فجار(۵۸۹ ء) سے بھی قبل وفات پا چکے تھے۔

حضرت عمار بن یاسر ’السّٰبِقُوْنَ الْاَوَّلُوْنَ‘* میں شامل تھے۔ ابن اسحاق کی مرتب کردہ فہرست کے مطابق ان سے پہلے اکاون اصحاب نے اسلام قبول کیا، جبکہ ابن سعد کہتے ہیں کہ تیس سے کچھ اوپر اصحاب حضرت عمار سے پہلے مشرف بہ اسلام ہو چکے تھے۔ حضرت صہیب اور حضرت عمار بن یاسر کو ایک ہی دن ایمان کی نعمت ملی۔اس کا حال حضرت عمار نے یوں بیان کیا ہے کہ دار ارقم کے دروازے پر حضرت صہیب بن سنان سے میری ملاقات ہوئی، رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم اندر تشریف فرما تھے۔میں نے پوچھا: کیسے آئے ہو؟ یہی سوال انھوں نے مجھ سے کر دیا،میں نے بتایا: میں محمد صلی اﷲ علیہ وسلم سے مل کر ان کا کلام سننا چاہتا ہوں۔ حضرت صہیب نے کہا: میرا منشا بھی یہی ہے۔ دونوں اندر داخل ہوئے، آپ نے اسلام کی دعوت پیش کی تو ہم دونوں مسلمان ہو گئے ۔ اسلام قبول کرنے کے بعد وہ دن ہم نے وہیں گزارا اور رات کے وقت چھپتے چھپاتے واپس لوٹے۔اپنی سبقت الی الاسلام حضرت عمار نے اس طرح ذکر کی ہے: ’’میں نے رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کے ساتھ وہ زمانہ دیکھا ہے جب پانچ غلاموں،دو عورتوں اور ابوبکر کے علاوہ کوئی آپ کے ساتھ نہ تھا‘‘ (بخاری، رقم ۳۶۶۰)۔ پانچ غلام حضرت بلال، حضرت زید بن حارثہ، حضرت عامر بن فہیرہ، حضرت ابوفکیہہ اور حضرت شقران (یا یاسر یا خود عمار) تھے۔ عورتیں حضرت خدیجہ اور حضرت ام ایمن (یا سمیہ) تھیں۔ حضرت عمار نے حضرت علی کا ذکر نہ کیا، کیونکہ وہ چھوٹے تھے۔ابن حجر کہتے ہیں کہ تب کئی اہل ایمان ،ایمان کی طرف سبقت کر چکے تھے، لیکن وہ ان مذکورہ مسلمانوں کی طرح اسلام کا اظہار نہ کرتے تھے۔اسلام کے ابتدائی دور میں نبی صلی اﷲ علیہ وسلم حرم میں تشریف لاتے تو حضرت خباب بن ارت، حضرت عماربن یاسر، حضرت ابوفکیہہ یسار اورحضرت صہیب رومی فرط عقیدت سے آپ کو گھیر لیتے۔ یہ سب قریش کے غلام تھے، اسی لیے ان میں سے جو زیادہ سرکش تھے، ٹھٹھا کرتے اور کہتے: دیکھو !یہ ہیں محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) کے ساتھی، یہی ہیں وہ لوگ جنھیں اﷲ نے ہدایت و حق کے لیے ہمارے بیچ میں سے چن لیا ہے۔ اگر محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) کی دعوت میں کوئی بھلائی ہوتی تو ہمارے بجاے یہ لوگ اس کی طرف سبقت نہ کرتے۔ اسلام کے ابتدائی دور میں اصحاب رسول مکہ کی گھاٹیوں میں چھپ چھپ کر نماز پڑھتے۔ ایک بار حضرت سعد بن ابی وقاص، حضرت عمار بن یاسر، حضرت عبداﷲ بن مسعود، حضرت خباب بن ارت اور حضرت سعید بن زید مل کر نماز ادا کر رہے تھے کہ ابوسفیان، اخنس بن شریق اور دوسرے مشرکوں نے دیکھ لیا۔انھوں نے ان مسلمانوں کو گالیاں نکالیں، برا بھلا کہا اور مارنے کو دوڑے۔ حضرت سعد نے ایک مشرک (عبداﷲ بن خطل)کو اونٹ کے جبڑے کی ہڈی دے ماری تو وہ زخمی ہو گیا ۔یہ شرک و اسلام کی کشمکش میں نکلنے والا پہلا خون تھا۔

اسلام کا سورج طلوع ہورہا تھا کہ مشرکوں نے مستضعفین پرتشدد سے اندھیرکر دیا۔ دھوپ نکل آتی اور مکہ کا صحرا خوب تپ جاتا تو بنومخزوم حضرت عمار بن یاسر اور ان کے والدین کو جلتی ہوئی ریت پر ڈال دیتے۔نبی صلی اﷲ علیہ وسلم کا گزر ہوتا تو فرماتے: صبر کا دامن پکڑے رکھو،آل یاسر! تمھارے لیے جنت کا وعدہ ہے (مستدرک حاکم، رقم ۵۶۶۶)۔ کبھی وہ ان کے سینے پر پتھر رکھ دیتے۔ حضرت عثمان بن عفان بتاتے ہیں کہ میں اور رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم مکہ کی وادی میں جا رہے تھے کہ دیکھا کہ حضرت یاسر، حضرت سمیہ اور حضرت عمار پر تشدد کیا جا رہاتھا۔ حضرت یاسر پکارے: کیا ہمیشہ ہی یہی ہوتا رہے گا؟ آپ نے جواب دیا: صبر کا دامن تھامے رکھو،اے اﷲ!آل یاسر کی مغفرت کر دے اور یقیناًتو نے ایسا کر دیا ہے (احمد، رقم ۴۳۹)۔ ایک بار مشرکوں نے حضرت عمار کے سر کو آگ لگا دی تو آپ نے دعا فرمائی: اے آگ! عمار کے لیے اسی طرح ٹھنڈی ہو کر سلامتی کا باعث بن جا، جس طرح ابراہیم علیہ السلام کے لیے بنی تھی۔ بنو مخزوم کی ایذاؤں کی تاب نہ لاتے ہوئے پہلے حضرت عمار کے والد حضرت یاسر خالق حقیقی سے جا ملے، پھر ان کی والدہ حضرت سمیہ ابوجہل مخزومی کے غیر انسانی تشدد کا شکار ہو کر شہادت سے سرفراز ہوئیں۔ حضرت عمار بن یاسر پراس قدر ظلم ڈھایا جاتا کہ وہ بھوک پیاس اور تکلیف سے بیٹھ سکتے نہ انھیں پتا چلتا کہ کیا بول رہے ہیں۔ حضرت عبداﷲ بن مسعود کہتے ہیں کہ سب سے پہلے اسلام کا علانیہ اظہار ان سات نفوس قدسیہ نے کیا: رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم، حضرت ابوبکر، حضرت عمار بن یاسر، ان کی والدہ حضرت سمیہ، حضرت صہیب رومی، حضرت بلال حبشی اور حضرت مقدادبن اسود (یا خباب)۔ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کی حفاظت اﷲ نے آپ کے چچا ابوطالب کے ذریعہ کی، حضرت ابوبکر کے دفاع کا ذریعہ ان کی قوم بنی،باقی پانچوں کمزور حیثیت رکھنے والے مسلمانوں کو جن کا مکہ میں کنبہ تھا نہ مددگار، مشرکین لوہے کی زرہیں پہنا کر دھوپ کی تپش دیتے ۔غلام ہونے کی وجہ سے کوئی ان کی طرف سے مزاحمت نہ کرتا۔ ان میں سے کوئی نہ تھا جس نے مشرکین کی بات نہ مانی، حضرت بلال ہی تھے جنھوں نے اﷲ کی راہ میں اپنی جان کی پروا نہ کی ، ان کی قوم کوبھی ان کا خیال نہ ہوا ۔ کافروں نے ان کو بچوں کے حوالے کر دیا، وہ انھیں پکڑ کر مکہ کی گھاٹیوں میں گھومتے پھرے، وہ ’’اﷲ ایک ہے‘‘ ،’’اﷲ ایک ہے ‘‘کی صدا لگاتے رہے ( احمد، رقم ۳۸۳۲۔ ابن ماجہ، رقم ۱۵۰) ۔راوی کی یہ بات درست نہیں کہ حضرت بلال کے علاوہ سزائیں جھیلنے والے ہر اولوالعزم نے مشرکوں کی مانگ پوری کی، یعنی بظاہر کفریہ کلمات کہہ کر تقیہ سے کام لیا۔ حضرت عمار بن یاسر، البتہ اس زمرہ میں ضرور شامل ہوئے۔ انھیں تپتی دھوپ میں لٹا کر، ان کے سینے پر بھاری پتھر رکھ دیا جاتا یا پانی میں ڈبکیاں دے کر ایذا دی جاتی۔ایک بار انھیں کہا گیا: محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) کو گالیاں دے دو ،لات و عزیٰ کی تعریف کردو تو ہم تجھے چھوڑ دیتے ہیں۔شدت تکلیف سے عاجز آ کر انھوں نے یہ سب کہہ دیا،پھر نبی اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم کے پاس روتے روتے اور آنکھیں ملتے ہوئے آئے۔آپ نے سوال فرمایا: تم اپنے دل کو کس کیفیت میں پاتے ہو؟ جواب دیا: میں اسے ایمان پر مطمئن پاتا ہوں۔ فرمایا: دوبارہ ایسی صورت حال پیش آئے تو پھر یہی کچھ کرنا۔ اس موقع پر یہ ارشاد ربانی نازل ہوا:

مَنْ کَفَرَ بِاللّٰہِ مِنْ م بَعْدِ اِیْمَانِہٖٓ اِلاَّ مَنْ اُکْرِہَ وَقَلْبُہٗ مُطْمَءِنٌّ م بِالْاِیْمَانِ وَلٰکِنْ مَّنْ شَرَحَ بِالْکُفْرِ صَدْرًا فَعَلَیْْہِمْ غَضَبٌ مِّنَ اللّٰہِ وَلَہُمْ عَذَابٌ عَظِیْمٌ.(النحل ۱۶: ۱۰۶)
’’جس شخص نے ایمان لانے کے بعد اﷲ کا انکار کیا، وہ نہیں جو کفر پر زبردستی مجبور کیا گیا ،اس حال میں کہ اس کا دل ایمان پر مطمئن تھا، بلکہ وہ جس نے شرح صدر کے ساتھ کفر کا ارتکاب کیا تو ایسے لوگوں پر اﷲ کا غضب ٹوٹے گا اور ان کو بڑا سخت عذاب ملے گا۔‘‘

حضرت عمار بن یاسر قمیص اتارے ہوئے تھے کہ کسی نے دیکھا کہ ان کی کمر پر ورم اور زخموں کے کئی نشانات ہیں ۔ پوچھا: یہ کیا ہے؟ تو انھوں نے بتایا: یہ ریگ زار مکہ میں قریش کی پہنچائی ہوئی ایذاؤں کے نشان ہیں۔

نبوت کے پانچویں سال جب مشرکین قریش کی ایذارسانیاں حد سے بڑھ گئیں ،آں حضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کو ملک حبشہ کی طرف ہجرت کرنے کا حکم دیا۔سیرت نگاروں کو اس امر کا یقین نہیں کہ مہاجرین حبشہ میں حضرت عمار بن یاسربھی شامل تھے۔اگر وہ حبشہ گئے تھے تو ان تینتیس اصحاب میں سے ایک تھے جو مشرکین مکہ کے ایمان لانے کی غلط اطلاع سن کر واپس لوٹ آئے تھے۔

تیرہ سال کے پر مشقت دور کے بعد بھی قریش مکہ کی بڑی تعداداسلام سے بے رغبت رہی، جبکہ یثرب کے باسی دین حق کی طرف مائل ہونے لگے۔تب اﷲ کے نبی کواس شہر کی طرف ہجرت کا اذن مل گیا۔ براء بن عازب کہتے ہیں کہ سب سے پہلے حضرت مصعب بن عمیر اور حضرت عمرو بن ام مکتوم مدینہ پہنچے۔یہ دونوں انصار کو قرآن سکھاتے تھے۔ ان کے بعد حضرت بلال (سعد) اور حضرت عمار بن یاسر نے شہر نبی کو ہجرت کی۔ پھر حضرت عمر بیس صحابہ کے جلو میں وارد ہوئے (بخاری، رقم ۳۹۲۵۔ احمد، رقم ۱۸۴۲۱)۔ ابن سعد کی روایت مختلف ہے، وہ کہتے ہیں: حضرت ابوسلمہ نے پہلے مہاجرہونے کا شرف حاصل کیا، ان کے بعد حضرت عامر بن ربیعہ، حضرت عبداﷲ بن جحش، ان کی اہلیہ اور نابینا بھائی حضرت ابو احمد عبد دار ہجرت پہنچے۔ عطاء بن ابورباح کہتے ہیں کہ حضرت عمارنے ابوسلمہ اور ام سلمہ کے ساتھ ہجرت کی، یہ دونوں بنومخزوم سے تھے اور حضرت عمار ان کے حلیف تھے (مستدرک حاکم، رقم ۵۶۵۳)۔ حضرت عمار نے مبشر بن عبدالمنذر کے ہاں قیام کیا۔ حضرت عمار ہی کو یہ شرف حاصل ہے کہ انھوں نے مضافات مدینہ میں دنیا کی پہلی مسجد،مسجد قبا کی بنیادرکھی۔ انھوں نے کہا: ہمیں لازماًرسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کے لیے ایسی جگہ بنانی چاہیے جہاں آپ دھوپ سے بچیں اور نماز ادا کر سکیں۔پھرانھوں نے پتھر اکٹھے کیے اور مسجد قبا بنا دی جو عہد اسلامی کی پہلی مسجد ہے(مستدرک حاکم، رقم ۵۶۵۵)۔

آں حضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے تشریف لانے کے بعد شہر مدینہ میں مسجد نبوی کی تعمیر ہوئی۔ آپ نے آگے بڑھ کربنا میں حصہ لیا تو ایک صحابی نے کہا:

لئن قعدنا و النبی یعمل
لذاک منا العمل المضلل
’’اگر ہم بیٹھے رہے اور نبئ اکرم کام کرتے رہے تو یہ ہماری طرف سے گمراہی کا عمل ہو گا۔‘‘

حضرت عمار بولے:

نحن المسلمون
نبتنی المساجدا
’’ہم مسلمان ہیں ، مسجدیں تعمیر کرتے ہیں۔‘‘

حضرت عمار بن یاسر اینٹیں ڈھو رہے تھے۔ایک بار ساتھیوں نے کچھ زیادہ ہی بوجھ ان پر لاد دیا تو انھوں نے شکایت کی کہ یا رسول اﷲ، انھوں نے تو مجھے مار ڈالا ہے۔مجھ پر اتنا وزن ڈال دیا ہے جو وہ خود نہیں اٹھا سکتے۔آپ کے بال گھنگرالے اور گھنے تھے،کام کرنے کی وجہ سے بکھرے ہوئے تھے۔بالوں کی لٹ ہاتھ سے ہٹاتے ہوئے فرمایا: بے چارے ابن سمیہ، یہ لوگ تجھے مارنے والے نہیں ،تجھے توایک باغی گروہ قتل کرے گا (مسلم، رقم ۲۹۱۶)۔ حضرت علی نے یہ رجز پڑھا تو حضرت عمار بھی اسے دہراتے رہے:

لایستوی من یعمر المساجدا
یدأب فیہ قائمًا و قاعدا
ومن یری عن الغبار حائدا
’’جو شخص مسجدتعمیر کرتا ہے اور اس میں قیا م و قعود کو معمول بنالیتاہے اور وہ جو گرد و غبار سے کتراتا دکھائی دیتا ہے، برابر اور ہم پلہ نہ ہوں گے۔‘‘

ایک صحابی (عثمان بن عفان یا عثمان بن مظعون)نے سمجھا کہ حضرت عمار اس پر طنز کر رہے ہیں۔ان کے ہاتھ میں لاٹھی تھی، وہ چلائے ،میں اس لاٹھی سے آپ کے ناک کو نشانہ بنا ؤں گا۔رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم پاس تھے، غصہ میں آگئے اور فرمایا: ان کا عمار سے کیا مقابلہ؟عمار انھیں جنت کی طرف بلا رہا ہے اوریہ انھیں دوزخ کی دعوت دے رہے ہیں۔ عمار میری آنکھوں اور ناک کے بیچ والی جلدہے (یعنی میرے اتنا قریب ہے جتنی یہ جلد ہے)۔کسی بھی شخص کی جلد کے اس حصے کو پکڑنے کی کوشش کی جائے گی تو کامیابی نہ ہو گی۔ لہٰذا اس سے بچ کر رہو(سیرت ابن ہشام: ۲/ ۱۰۷)۔

حضرت ام سلمہ فرماتی ہیں کہ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم اور صحابہ مسجد تعمیر کر رہے تھے، باقی اصحاب ایک ایک اینٹ اٹھا رہے تھے، حضرت عمار دو دو اینٹیں ڈھو رہے تھے، ایک اپنی طرف سے اور دوسری نبی صلی اﷲ علیہ وسلم کی جانب سے۔آپ نے حضرت عمار کے سر سے مٹی جھاڑی اور فرمایا: تم اپنے ساتھیوں کی طرح ایک ایک اینٹ کیوں نہیں اٹھاتے؟ حضرت عمار نے کہا: میں اﷲ سے اجر چاہتا ہوں۔ آپ نے ان کی کمر پر ہاتھ پھیرا اور فرمایا: ابن سمیہ، ’’لوگوں کو اکہرا ثواب اور تمھیں دگنا اجر ملے گا ۔عماران کو اﷲ کی طرف بلاتا ہے اوریہ اسے دوزخ کی دعوت دے رہے ہیں۔ عمار، تمھیں ایک باغی گروہ قتل کرے گا۔ دنیا میں تمھارا آخری کھانادودھ کا گھونٹ ہو گا‘‘ (بخاری، رقم ۴۴۷۔ احمد، رقم ۱۱۸۰۰)۔ دوسری روایت میں ہے کہ آپ نے یہ ارشاد اس وقت فرمایا، جب حضرت عمار جنگ خندق میں خندق کھود رہے تھے (مسلم، رقم ۷۴۲۶۔ احمد، رقم ۲۲۵۰۷)۔ نبی صلی اﷲ علیہ وسلم نے گھر بنانے کے لیے حضرت عمارکو قطعۂ زمین بھی عنایت کیا۔

مسجد نبوی کی تعمیر کے بعدنبی صلی اﷲ علیہ وسلم نے مہاجرین و انصار کے درمیان مواخات قائم فرمائی۔ حضرت انس بن مالک کے گھر میں پینتالیس مہاجرین جمع ہوئے۔آپ ایک مہاجر اور ایک انصاری کو بلاتے اور فرماتے: تم دونوں آپس میں بھائی بھائی ہو۔اس موقع پر آپ نے حضرت عماربن یاسر کو حضرت حذیفہ بن یمان(یا ثابت بن قیس خزرجی) کا مہاجر بھائی قرار دیا۔دوسری روایت کے مطابق حضرت عمارکی مواخات حضرت ثابت بن قیس سے قرار پائی۔

حضرت عمار بن یاسرنے تمام غزوات میں رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کے شانہ بشانہ شرکت کی۔

جمادی الاولیٰ ۲ھ میں آں حضرت صلی اﷲ علیہ وسلم قریش کے شام کی طرف جانے والے قافلے کا پیچھا کرتے ہوئے مدینہ سے نکلے۔آپ بنومدلج کی سرزمین میں وادئ ینبع کے مقام عشیرہ تک گئے۔ ایک ماہ تک وہاں قیام کیا، بنومدلج اور بنوضمرہ سے صلح نامہ کیا اور کوئی جنگ کیے بغیر مدینہ لوٹ آئے۔ حضرت عمار بن یاسر غزوۂ عشیرہ میں آپ کے ساتھ شریک تھے۔خود اس کے حالات بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ حضرت علی میرے ساتھ تھے،ہم نے بنومدلج کے کچھ لوگوں کو دیکھا کہ وہ اپنے چشمہ اور نخلستان میں مصروف عمل ہیں ۔ حضرت علی نے کہا: ابو الیقظان، دیکھیں کہ یہ لوگ کیا کر رہے ہیں؟ ہم دونوں ان کے پاس پہنچے،کچھ دیر ان کے کام کو (دل چسپی سے) دیکھا تھا کہ ہم پر نیند غالب آنے لگی۔چنانچہ ہم آگے گئے اور چھوٹی کھجوروں کے درمیان نرم زمین پر پڑ گئے۔ہم سوئے پڑے تھے کہ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے اپنے پاؤں کی حرکت سے جگایا۔زمین پر سوئے رہنے کی وجہ سے ہم غبار آلود ہو چکے تھے۔ اس دن آپ نے حضرت علی سے فرمایا: او ابو تراب (غبار آلودہ)، تجھے کیا ہوا ہے؟ (احمد، رقم ۱۸۲۳۷)۔ کچھ اہل علم اس لقب کی وجۂ تسمیہ یہ بتاتے ہیں کہ حضرت علی اور سیدہ فاطمہ کے مابین کوئی غلط فہمی ہوئی تو حضرت علی مسجد میں جا کر سو گئے اور چادر ہٹ جانے کی وجہ سے مٹی سے لتھڑگئے تب آپ نے یہ لقب عطا کیا۔

[باقی]

_____

* التوبہ۹: ۱۰۰۔

__________

B