HomeQuranHadithMizanVideosBooksBlogs
مصنف : جاوید احمد غامدی

البیان: یوسف ۱۲: ۳۵- ۵۳ (۳)

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم 

(گذشتہ سے پیوستہ)  


ثُمَّ بَدَالَھُمْ مِّنْم بَعْدِ مَا رَاَوُا الْاٰیٰتِ لَیَسْجُنُنَّہٗ حَتّٰی حِیْنٍ{۳۵} وَدَخَلَ مَعَہُ السِّجْنَ فَتَیٰنِ قَالَ اَحَدُھُمَآ اِنِّیْٓ اَرٰنِیْٓ اَعْصِرُ خَمْرًا وَقَالَ الْاٰخَرُ اِنِّیْٓ اَرٰنِیْٓ اَحْمِلُ فَوْقَ رَاْسِیْ خُبْزًا تَاْکُلُ الطَّیْرُ مِنْہُ نَبِّئْنَا بِتَاْوِیْلِہٖ اِنَّا نَرٰکَ مِنَ الْمُحْسِنِیْنَ{۳۶} قَالَ لَا یَاْتِیْکُمَا طَعَامٌ تُرْزَقٰنِہٖٓ اِلَّا نَبَّاْتُکُمَا بِتَاْوِیْلِہٖ قَبْلَ اَنْ یَّاْتِیَکُمَا ذٰلِکُمَا مِمَّا عَلَّمَنِیْ رَبِّیْ اِنِّیْ تَرَکْتُ مِلَّۃَ قَوْمٍ لَّا یُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰہِ وَھُمْ بِالْاٰخِرَۃِ ھُمْ کٰفِرُوْنَ{۳۷} وَاتَّبَعْتُ مِلَّۃَ اٰبَآئِ یْٓ اِبْرٰھِیْمَ وَ اِسْحٰقَ وَیَعْقُوْبَ مَاکَانَ لَنَآ اَنْ نُّشْرِکَ بِاللّٰہِ مِنْ شَیْئٍ ذٰلِکَ مِنْ فَضْلِ اللّٰہِ عَلَیْنَا وَعَلَی النَّاسِ وَلٰکِنَّ اَکْثَرَ النَّاسِ لَا یَشْکُرُوْنَ{۳۸} یٰصَاحِبَیِ السِّجْنِ ئَ اَرْبَابٌ مُّتَفَرِّقُوْنَ خَیْرٌ اَمِ اللّٰہُ الْوَاحِدُ الْقَھَّارُ{۳۹} مَا تَعْْبُدُوْنَ مِنْ دُوْنِہٖٓ اِلّآ اَسْمَآئً سَمَّیْتُمُوْھَآ اَنْتُمْ وَاٰبَآؤُکُمْ مَّآ اَنْزَلَ اللّٰہُ بِھَا مِنْ سُلْطٰنٍ اِنِ الْحُکْمُ اِلَّا لِلّٰہِ اَمَرَ اَلَّا تَعْبُدُوْٓا اِلّآ اِیَّاہُ ذٰلِکَ الدِّیْنُ الْقَیِّمُ وَلٰکِنَّ اَکْثَرَ النَّاسِ لَا یَعْلَمُوْنَ{۴۰}
یٰصَاحِبَیِ السِّجْنِ اَمَّآ اَحَدُکُمَا فَیَسْقِیْ رَبَّہٗ خَمْرًا وَاَمَّا الْاٰخَرُ فَیُصْلَبُ فَتَاْکُلُ الطَّیْرُ مِنْ رَّاْسِہٖ قُضِیَ الْاَمْرُ الَّذِیْ فِیْہِ تَسْتَفْتِیٰنِ{۴۱}
وَقَالَ لِلَّذِیْ ظَنَّ اَنَّہٗ نَاجٍ مِّنْہُمَا اذْکُرْنِیْ عِنْدَ رَبِّکَ فَاَنْسٰہُ الشَّیْطٰنُ ذِکْرَ رَبِّہٖ فَلَبِثَ فِی السِّجْنِ بِضْعَ سِنِیْنَ{۴۲}
وَقَالَ الْمَلِکُ اِنِّیْٓ اَرٰی سَبْعَ بَقَرٰتٍ سِمَانٍ یَّاْکُلُھُنَّ سَبْعٌ عِجَافٌ وَّ سَبْعَ سُنْبُلٰتٍ خُضْرٍ وَّ اُخَرَ یٰبِسٰتٍ یٰٓاَیُّھَا الْمَلَاُ اَفْتُوْنِیْ فِیْ رُئْ یَایَ اِنْ کُنْتُمْ لِلرُّئْ یَا تَعْبُرُوْنَ{۴۳} قَالُوْٓا اَضْغَاثُ اَحْلَامٍ وَمَا نَحْنُ بِتَاْوِیْلِ الْاَحْلَامِ بِعٰلِمِیْنَ{۴۴} وَقَالَ الَّذِیْ نَجَا مِنْھُمَا وَادَّکَرَ بَعْدَ اُمَّۃٍ اَنَا اُنَبِّئُکُمْ بِتَاْوِیْلِہٖ فَاَرْسِلُوْنِ{۴۵}
یُوْسُفُ اَیُّھَا الصِّدِّیْقُ اَفْتِنَا فِیْ سَبْعِ بَقَرٰتٍ سِمَانٍ یَّاْکُلُھُنَّ سَبْعٌ عِجَافٌ وَّسَبْعِ سُنْبُلٰتٍ خُضْرٍ وَّ اُخَرَ یٰبِسٰتٍ لَّعَلِّیْٓ اَرْجِعُ اِلَی النَّاسِ لَعَلَّھُمْ یَعْلَمُوْنَ{۴۶} قَالَ تَزْرَعُوْنَ سَبْعَ سِنِیْنَ دَاَبًا فَمَا حَصَدْتُّمْ فَذَرُوْہُ فِیْ سُنْبُلِہٖٓ اِلَّا قَلِیْلًا مِّمَّا تَاْکُلُوْنَ{۴۷} ثُمَّ یَاْتِیْ مِنْم بَعْدِ ذٰلِکَ سَبْعٌ شِدَادٌ یَّاْکُلْنَ مَا قَدَّمْتُمْ لَھُنَّ اِلَّا قَلِیْلًا مِّمَّا تُحْصِنُوْنَ{۴۸} ثُمَّ یَاْتِیْ مِنْم بَعْدِ ذٰلِکَ عَامٌ فِیْہِ یُغَاثُ النَّاسُ وَ فِیْہِ یَعْصِرُوْنَ{۴۹}
وَقَالَ الْمَلِکُ ائْتُوْنِیْ بِہٖ فَلَمَّا جَآئَ ہُ الرَّسُوْلُ قَالَ ارْجِعْ اِلٰی رَبِّکَ فَسْئَلْہُ مَابَالُ النِّسْوَۃِ الّٰتِیْ قَطَّعْنَ اَیْدِیَھُنَّ اِنَّ رَبِّیْ بِکَیْدِھِنَّ عَلِیْمٌ{۵۰} قَالَ مَا خَطْبُکُنَّ اِذْ رَاوَدْتُّنَّ یُوْسُفَ عَنْ نَّفْسِہٖ قُلْنَ حَاشَ لِلّٰہِ مَا عَلِمْنَا عَلَیْہِ مِنْ سُوْٓئٍ قَالَتِ امْرَاَتُ الْعَزِیْزِ الْئٰنَ حَصْحَصَ الْحَقُّ اَنَا رَاوَدْتُّہٗ عَنْ نَّفْسِہٖ وَاِنَّہٗ لَمِنَ الصّٰدِقِیْنَ{۵۱}
ذٰلِکَ لِیَعْلَمَ اَنِّیْ لَمْ اَخُنْہُ بِالْغَیْبِ وَاَنَّ اللّٰہَ لَا یَھْدِیْ کَیْدَ الْخَآئِنِیْنَ{۵۲} وَمَآ اُبَرِّئُ نَفْسِیْ اِنَّ النَّفْسَ لَاَمَّارَۃٌم بِالسُّوْٓئِ اِلَّا مَا رَحِمَ رَبِّیْ اِنَّ رَبِّیْ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ{۵۳}
پھر (اُس کی بے گناہی کی) یہ نشانیاں دیکھ لینے کے بعد بھی اُنھوں نے مصلحت یہی سمجھی کہ یوسف کو کچھ مدت کے لیے قید کر دیں۵۰؎۔ اُس کے ساتھ دو اور نوجوان بھی قید خانے میں داخل ہوئے۵۱؎۔ اُن میں سے ایک نے (ایک دن) اُس سے کہا:میں خواب میں دیکھتا ہوں کہ شراب نچوڑ رہا ہوں۵۲؎۔ دوسرے نے کہا: میں دیکھتا ہوں کہ اپنے سر پر روٹی اٹھائے ہوئے ہوں جس میں سے چڑیاں کھا رہی ہیں۔ ہمیں اِس کی تعبیر بتائیے۔ ہم دیکھتے ہیں کہ آپ اُن لوگوں میں سے ہیں جو خوبی اختیار کرتے ہیں۵۳؎۔ یوسف نے کہا: یہاں جو کھانا تمھیں ملتا ہے، وہ آئے گا نہیں کہ اُس کے آنے سے پہلے میں تمھیں اِس کی تعبیر بتا دوں گا۵۴؎۔ یہ اُس علم میں سے ہے جو میرے رب نے مجھے سکھایا ہے۵۵؎۔ میں نے اُن لوگوں کے مذہب کو چھوڑ دیا ہے جو اللہ پر ایمان نہیں رکھتے اور وہی آخرت کے منکر ہیں۵۶؎ اور اپنے بزرگوں، ابراہیم، اسحق اور یعقوب کا طریقہ اختیار کر لیا ہے۵۷؎۔ ہم کو حق نہیں کہ ہم کسی چیز کو اللہ کا شریک ٹھیرائیں۔ یہ ہم پر اور تمام انسانوں پر اللہ کا فضل ہے (کہ اُس نے یہ حقیقت اپنے پیغمبروں کے ذریعے سے واضح کر دی ہے)، لیکن اکثر لوگ شکر گزار نہیں ہوتے۔ میرے زنداں کے ساتھیو، کیا الگ الگ بہت سے خدا بہتر ہیں یا وہ ایک اللہ جو سب پر غالب ہے۔ تم اُس کے سوا چند ناموں ہی کی بندگی کر رہے ہو جو تم نے اور تمھارے باپ دادا نے رکھ لیے ہیں۔ اللہ نے اُن کی کوئی سند نہیں اتاری ہے۔ (حقیقت یہ ہے کہ) اقتدار صرف اللہ کا ہے۔ اُس نے حکم دیا ہے کہ خود اُس کے سوا کسی کی بندگی نہ کرو۔ یہی دین قیم ہے، مگر بہت سے لوگ (اِس حقیقت کو) نہیں جانتے۵۸؎۔ ۳۵-۴۰
میرے زنداں کے ساتھیو، (تمھارے خواب کی تعبیر یہ ہے کہ) تم میں سے ایک تو (اپنے منصب پر بحال ہو جائے گا اور) اپنے آقا کو شراب پلائے گا۔ رہا دوسرا تو اُسے سولی دی جائے گی، پھر پرندے اُس کا سر نوچ نوچ کر کھائیں گے۔ اُس بات کا فیصلہ ہوا جس کے بارے میں تم دونوں پوچھ رہے تھے۔۴۱
اُن میں سے جس کے بارے میں یوسف نے خیال کیا کہ وہ رہا ہو جائے گا، اُس نے اُس سے کہا کہ اپنے آقا سے میرا ذکر کرنا۵۹؎۔ مگر شیطان نے اُس کو اپنے آقا سے یہ ذکر کرنا بھلا دیا۶۰؎۔ سو یوسف کئی سال تک (اُسی طرح) قید خانے میں پڑا رہا۔۴۲
(پھر ایک دن) بادشاہ نے (اپنے دربار کے لوگوں سے) کہا: میں خواب میں دیکھتا ہوں کہ سات موٹی گائیں ہیں جنھیں سات دبلی گائیں کھا رہی ہیں، اور سات بالیں ہری اور دوسری سات سوکھی ہیں (اور وہ بھی ہری بالیوں کو کھا رہی ہیں)۶۱؎۔دربار کے لوگو، مجھے خواب کی تعبیر بتائو، اگر تم خواب کی تعبیر دیتے ہو۶۲؎۔ لوگوں نے کہا: یہ پریشان خواب ہیں اور ہم اِس طرح کے خوابوں کی تعبیر نہیںجانتے۶۳؎۔ اُن دو قیدیوں میں سے جو چھوٹ گیا تھا اور اُسے ایک مدت کے بعد یاد پڑا۶۴؎، اُس نے کہا: میں آپ لوگوں کو اِس کی تعبیر بتائوں گا۔ سو مجھے ذرا (قید خانے میں یوسف کے پاس) بھیج دیجیے۶۵؎۔ ۴۳-۴۵
(اُس نے جا کر کہا): یوسف، اے سراپا راستی۶۶؎، ہمیں سات موٹی گایوں کے بارے میں بتائو جنھیں سات دبلی گائیں کھا رہی ہیں اور سات ہری اور دوسری سات سوکھی بالیوں کے بارے میں، اِس لیے کہ میں لوٹ کر اُن لوگوں کے پاس جائوں تاکہ (اٹکل کے تیر چلانے کے بجاے)وہ بھی جان لیں (کہ اِس خواب کی حقیقت کیا ہے)۔ یوسف نے کہا: سات برس تک تم برابر کھیتی کرو گے، لہٰذا جو فصل تم کاٹو، اُس میں سے تھوڑا سا نکال کر جو تم کھائو گے، باقی سب اُس کی بالیوں میں چھوڑ دو (تاکہ خراب نہ ہو)۔ اِس کے بعد پھر سات برس بہت سخت آئیں گے جو تھوڑی مقدار کے سوا جسے تم محفوظ کر لو گے، وہ غلہ کھا جائیں گے جو اُن برسوں کے لیے تم نے فراہم کیا ہو گا۶۷؎۔ اِس کے بعد پھر ایک سال ایسا آئے گا کہ جس میں (باران رحمت سے) لوگوں کی فریاد رسی کی جائے گی۶۸؎ اور وہ اُس میں انگور نچوڑیں گے۔۶۹؎ ۴۶-۴۹
(یہ تعبیر دربار میں سنائی گئی تو) بادشاہ نے کہا: اُسے میرے پاس لائو۔ مگر جب قاصد یوسف کے پاس (اُسے لینے کے لیے) پہنچا تو اُس نے کہا: اپنے آقا کے پاس واپس جائو اور اُس سے پوچھو کہ اُن عورتوں کا کیا معاملہ ہے جنھوں نے اپنے ہاتھ کاٹ لیے تھے۔۷۰؎ میرا پروردگار تو اُن کے فریب سے خوب واقف ہے۔ بادشاہ نے اُنھیں (بلا کر)پوچھا: تمھارا کیا ماجرا ہے، جب تم نے یوسف کو پھسلانے کی کوشش کی تھی؟۷۱؎ سب نے گواہی دی کہ حاشا للہ،ہم نے اُس میں برائی کا کوئی شائبہ تک نہیں پایا۔ عزیز کی بیوی بھی بول اٹھی: اب حق کھل چکا ہے۔ میں نے ہی اُس کو پھسلانے کی کوشش کی تھی۔ اِس میں شبہ نہیں کہ وہ بالکل سچا ہے۔ ۵۰-۵۱
(یوسف نے کہا): اِس سے میری غرض یہ تھی کہ عزیز یہ جان لے کہ میں نے درپردہ اُس کی خیانت نہیں کی تھی اور یہ کہ جو خیانت کرتے ہیں، اُن کی چال کو اللہ چلنے نہیں دیتا۷۲؎۔ میں کچھ اپنے نفس کی براء ت نہیں کر رہا ہوں، نفس تو برائی پر اکساتا ہی ہے، مگرجب میرا پروردگار رحم فرمائے۷۳؎۔ حقیقت یہ ہے کہ میرا پروردگار بڑا بخشنے والا ہے، اُس کی شفقت ابدی ہے۔ ۵۲-۵۳

۵۰؎ یوسف علیہ السلام چونکہ غلام تھے، اِس لیے قدیم رواج کے مطابق آپ کو جیل بھیجنے کے لیے کسی عدالتی کارروائی کی ضرورت نہیں تھی۔اُس زمانے کے آقائوں کو اپنے غلاموں پر غیر محدود اختیارات حاصل تھے۔ چنانچہ آپ کے آقا نے بھی اپنے اِسی اختیار کے تحت آپ کو اِس خیال سے جیل بھجوادیا کہ زلیخا کے دماغ سے اِن کا خبط بھی نکل جائے گا اور لوگ بھی یہی سمجھیں گے کہ جس کو سزا ملی ہے، قصور بھی اُسی کا ہو گا۔ قرآن کے الفاظ سے واضح ہے کہ دوسرے اعزہ و اقربا بھی اِس فیصلے میں شریک تھے، اِس لیے کہ اپنی ناک بچانے کے لیے وہ بھی مصلحت اِسی میں دیکھ رہے تھے۔

۵۱؎ بائیبل کی روایت ہے کہ اِن میں سے ایک بادشاہ کا ساقی اور دوسرا نان پز تھا۔ تالمود میں مزید وضاحت ہے کہ شاہ مصر نے اِن نوجوانوں کو اِس قصور پر جیل بھیجا تھا کہ ایک دعوت کے موقع پر روٹیوں میں کچھ کرکراہٹ پائی گئی تھی اور شراب کے پیالے میں ایک مکھی نکل آئی تھی۔ ہمارے ہاں کی روایتوں میں اِس کے برخلاف یہ بیان کیا گیا ہے کہ دونوں پر الزام تھا کہ اُنھوں نے بادشاہ کے کھانے میں زہر ملانے کی کوشش کی ہے۔

۵۲؎ اصل الفاظ ہیں: ’اِنِّیْٓ اَرٰنِیْٓ اَعْصِرُ خَمْرًا‘۔ شراب بنانے کے لیے انگور نچوڑے جاتے ہیں، لیکن قرآن نے یہاں شے کو اُس کی غایت کے لحاظ سے تعبیر کرنے کا اسلوب اختیار کیا ہے۔

۵۳؎ اِس سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ قید خانے میں یوسف علیہ السلام کس نگاہ سے دیکھے جاتے تھے۔ اِن نوجوانوں نے جس طرح اُنھیں مخاطب کیا ہے، اُس سے واضح ہے کہ جیل کے لوگ اُنھیں کوئی مجرم نہیں، بلکہ ایک نہایت نیک نفس انسان سمجھتے تھے اور اُنھیں معلوم تھا کہ اپنے اخلاق و کردار کی پاکیزگی وہ کیسی سخت آزمایشوں میں ثابت کر چکے ہیں۔ چنانچہ بائیبل کا بیان ہے کہ صرف قیدی ہی نہیں، قید خانے کے حکام اور اہل کار بھی اُن کے معتقد ہو چکے تھے۔ پیدایش میں ہے:

’’قید خانے کے داروغہ نے سب قیدیوں کو جو قید میں تھے، یوسف کے ہاتھ میں سونپا اور جو کچھ وہ کرتے ،اُسی کے حکم سے کرتے تھے۔ اور قید خانے کا داروغہ سب کاموں کی طرف سے جو اُس کے ہاتھ میں تھے، بے فکر تھا۔‘‘(۳۹: ۲۲-۲۳)   

۵۴؎ قید خانے کی زندگی میں کھانے کی تقسیم وغیرہ کے مواقع ہی شب و روز کی یکسانی میں کچھ تغیر پیدا کرتے ہوں گے۔ حضرت یوسف نے غالباً اِسی بنا پر اِس کا حوالہ دیا ہے۔ آگے کی آیتوں سے واضح ہے کہ تعبیر بتانے کے لیے یہ مہلت آپ نے صرف اِس لیے حاصل کی تھی کہ اِس سے فائدہ اٹھا کر آپ اپنی دعوت اُن کے سامنے پیش کر سکیں۔ استاذ امام لکھتے ہیں:

’’۔۔۔ اِس کا اثر تعبیر پوچھنے والوں پر تو یہ پڑا ہو گا کہ حضرت یوسف نے اُن کے خوابوں کو اہمیت دی ہے۔ وہ سرسری طور پر الٹی سیدھی کوئی بات بتا کر اُن کو ٹالنا نہیں چاہتے، بلکہ سوچ کر یا اپنے رب سے رجوع کرنے کے بعد اُن کی تعبیر بتائیں گے اور اُدھر خود حضرت یوسف نے اِس التوا سے اُس حق کی تبلیغ کے لیے ایک نہایت اچھا موقع پیدا کر لیا جو اُن کی زندگی کا سب سے زیادہ محبوب مقصد بن چکا تھا۔ اُنھوں نے جب دو دلوں کو اپنی طرف مائل دیکھا تو صرف اُن کی اندھی بہری عقیدت ہی پر قانع نہیں ہو گئے، بلکہ چاہا کہ اُن کو اللہ کی بندگی کی وہ دعوت پہنچا دیں جو اگر وہ قبول کر لیں تو اُن کی دنیا اور آخرت ،دونوں سنور جائیں۔ ‘‘(تدبرقرآن۴/ ۲۱۸)

۵۵؎ یہ نہایت عمدہ تمہید ہے جس سے یوسف علیہ السلام نے اُن نوجوانوں کی ضرورت کو اپنی ذات سے اٹھا کر نہایت خوبی کے ساتھ اپنے پروردگار سے متعلق کر دیا ہے۔ مطلب یہ ہے کہ جس چیز کے لیے میرے پاس آئے ہو، اُس کا منبع اور سرچشمہ میں نہیں ، بلکہ میرا پروردگار ہے۔ چنانچہ خواب کی تعبیر جاننا چاہتے ہو تو تھوڑی دیر کے لیے ٹھیر کر تعبیر کا علم دینے والے کی معرفت بھی حاصل کر لو۔

۵۶؎ یہ اِس حقیقت کا اظہار ہے کہ میں نے جو کچھ چھوڑا اور جو کچھ اختیار کیا ہے، اپنے باطن میں اچھی طرح اُس کا تجزیہ کرکے اور علم و عقل کی میزان میں اُس کو تول کر چھوڑا اور اختیار کیا ہے۔ اِس سے، اگر غور کیجیے تو اُنھوں نے یہ اشارہ بھی کر دیا ہے کہ خدا پر ایمان کے ساتھ مشرکانہ عقائد کے پیوند کی کوئی گنجایش نہیں ہے۔ اِسے اختیار کیا جائے تو اُن لوگوں کے طریقے کو لازماً چھوڑنا پڑتا ہے جو خدا کے شریک ٹھیراتے یا خدا اور آخرت پر سچا ایمان نہیں رکھتے۔

۵۷؎ یہ حوالہ جس انداز سے دیا گیا ہے، اُس سے معلوم ہوتا ہے کہ اِن بزرگوں کے نام اُن لوگوں کے لیے اجنبی نہیں تھے۔ چنانچہ یوسف علیہ السلام نے اِن کا نام لے کر ایک ہی جملے میں پوری دعوت کا تعارف بھی کرا دیا اور یہ بات بھی واضح کر دی کہ میں کوئی نئی بات لے کر نہیں آیا، بلکہ وہی پیغام تمھیں پہنچا رہا ہوں جو یہ اکابر و مشاہیر اِس سے پہلے پہنچاتے رہے ہیں۔ اُن کے مخاطبین نے اِس پر کسی تعجب کا اظہار نہیں کیا۔ اِس سے یہ بات مزید واضح ہوئی کہ اُس وقت تک جیل کے لوگ جان چکے تھے کہ وہ کس خانوادے کے چشم و چراغ ہیں۔

۵۸؎ یوسف علیہ السلام کی یہ تقریر قرآن میں توحید کی بہترین تقریروں میں سے ہے، اور ٹھیک اُس موقع پر کی گئی جب مخاطبین اِس کو سننے کے لیے پوری طرح تیار ہو چکے تھے۔اِس میں اُنھوں نے پہلے اُن کی توجہ علم و حکمت کے اصل سرچشمے کی طرف مبذول کرائی ہے۔ پھر اُس سفر کا حوالہ دیا ہے جو خود اُنھوں نے باطل کو چھوڑ کر حق تک پہنچنے کے لیے کیا ہے۔ اِس کے بعد ملت توحید کی تاریخی عظمت اور اہمیت واضح کی ہے۔ پھر بندگی کا یہ تقاضاواضح کیا ہے کہ بندہ ہو کر کسی کو خدا کا شریک ٹھیرایا جائے، اِس کا حق کسی کو بھی حاصل نہیں ہے۔ اِس کے بعد خدا کے اُس امتنان و احسان کی طرف توجہ دلائی ہے جو اُس نے پیغمبروں کی بعثت سے انسانیت پر کیا ہے۔ پھر اُن نوجوانوں کو مخاطب کیا ہے اور دیکھیے کہ کس دل نواز انداز سے مخاطب کیا ہے۔ ہمدردی اور محبت کے جذبات جو مصیبت کے اشتراک سے ایک دوسرے کے لیے پیدا ہو جاتے ہیں، یہ خطاب اُن کو بڑی بلاغت کے ساتھ ابھارتا ہے تاکہ مخاطبین اِس کو پوری توجہ کے ساتھ سنیں اور اِس کے ہر لفظ کو باہمی خیر خواہی اور اخلاص پر محمول کریں۔ اِس کے بعد اصل دعوت پیش کی گئی ہے جس کا خلاصہ یہ ہے کہ جہاں تک خدا کا تعلق ہے، وہ تو ایک بدیہی حقیقت، بلکہ ابدہ البدیہیات ہے اور اُس کے بندے مجبور ہیں کہ اُس کی آقائی کو تسلیم کریں، لیکن اُس کے ساتھ کچھ دوسروں کو بھی آقا تسلیم کر لیا جائے، یہ کہاں کی دانش مندی ہے؟ کون یہ پسند کرے گا کہ بغیر کسی ضرورت کے کسی کی غلامی کا پٹا اپنی گردن میں ڈال لے؟ پھر مزید یہ کہ ایک ایسی بات کیوں مانی جائے جس کی کوئی ادنیٰ شہادت نہ ہماری عقل میں ہے، نہ فطرت میں اور نہ انفس و آفاق میں؟ زیادہ سے زیادہ یہ کہا جا سکتاتھا کہ خدا نے بتایا ہے، لیکن ہم جانتے ہیں کہ اِس کے حق میں بھی کوئی چیز پیش نہیں کی جا سکتی۔جو کچھ مانا جا رہا ہے، وہ محض نام ہیں جو بغیر کسی دلیل کے لوگوں نے رکھ لیے ہیں۔ تمام اقتدار خدا کا ہے اورجو دین اُس نے اپنے پیغمبروں کی وساطت سے اتارا ہے، اُس میں بھی ہمیشہ یہی ہدایت کی گئی ہے کہ خدا کا کوئی شریک نہیں ہے، اِس لیے اُسی کی بندگی کرو۔ یہی سیدھا دین ہے، مگر افسوس کہ لوگوں کی اکثریت اِس سے بے خبر ہے۔

۵۹؎ اوپر گزر چکا ہے کہ یہ بادشاہ کا ساقی تھا، اِس لیے آقا سے مراد شاہ مصر ہے۔ یوسف علیہ السلام نے یہ خواہش اِس توقع کی بنا پر کی کہ یہ اپنے مشاہدات، بالخصوص خواب کی تعبیر بتانے کا واقعہ بادشاہ کو بتائے گا تو ہو سکتا ہے کہ ایسی کوئی ضرورت وہاں بھی پیش آجائے اور اِس طرح اِس مظلومانہ قید سے رہائی کی صورت پیدا ہو۔

۶۰؎ اصل الفاظ ہیں: ’فَاَنْسٰہُ الشَّیْطٰنُ ذِکْرَ رَبِّہٖ‘۔ اِس میں ’ذِکْرَ رَبِّہٖ‘ کی اضافت اُسی نوعیت کی ہے جو ’مَکْرُ الَّیْلِ وَالنَّہَارِ‘ وغیرہ میں ہے۔ انسان کو نیکی کے کاموں سے شیطان ہی غافل کرتا ہے، مگر اِس کی مہلت اُسے خدا کے اذن سے ملتی ہے۔ یہاں معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی حکمت و مصلحت کا تقاضا ابھی یہی تھا کہ حضرت یوسف کچھ سال اور اِسی طرح قید خانے میں گزاریں۔ چنانچہ وہ شخص جیل سے باہر آیا تو اُسے بالکل یاد نہیں رہا کہ زنداں کے ساتھی نے اُس سے کیا بات کہی تھی۔

۶۱؎ یہ حصہ آیت میں محذوف ہے۔ آگے آیت ۴۸ میں اِس کی وضاحت ہو گئی ہے۔

۶۲؎ اِس آخری فقرے سے مترشح ہے کہ بادشاہ اگرچہ اپنے اِس خواب سے بہت زیادہ متاثر تھا، مگر یہ بھی جانتا تھا کہ اِس کی تعبیر بتانا اتنا آسان نہیں ہے۔

۶۳؎ یہ فقرہ اُنھوں نے اپنا بھرم قائم رکھنے کے لیے کہا ہے۔ مطلب یہ ہے کہ آپ کا خواب بامعنی ہوتا تو ضرور ہم اُس کی تعبیر بتاتے، لیکن یہ تو بالکل پریشان خواب ہے، اِس لیے مطمئن ہو جائیے، اِس طرح کے خوابوں کی کوئی تعبیر نہیں ہوتی۔

۶۴؎ یہ بھی خدا کے اذن سے ہوا، اِس لیے کہ اب وہ وقت آگیا تھا کہ یوسف قید سے باہر آئیں اورمصر کے سیاہ و سفیدکے مالک بن جائیں۔

۶۵؎ قرآن نے یہاں بھی اپنے اسلوب کے مطابق تفصیلات حذف کر دی ہیں۔ بائیبل اور تالمود سے معلوم ہوتا ہے کہ اُس شخص نے پہلے یوسف علیہ السلام اور جیل میں اُن سے اپنی ملاقات اور خوابوں کی تعبیر پوچھنے کا پورا قصہ بادشاہ اور اُس کے درباریوں کو تفصیل کے ساتھ سنایا، اِس کے بعد اُن سے کہا کہ مجھے جانے دیجیے، میں اِس خواب کی تعبیر بھی اُنھی سے پوچھ کر آتا ہوں۔

۶۶؎ یہ خطاب بتا رہا ہے کہ یوسف علیہ السلام کو وہ محض خوابوں کی تعبیر بتانے والا ایک شخص نہیں سمجھتا تھا، بلکہ جیل میں اپنے تجربات کی بنا پر جان چکا تھا کہ آپ فی الواقع ایک پیکر صداقت اور صدق مجسم شخصیت ہیں جو خوابوں کی تعبیر بھی بتا دیتے ہیں۔

۶۷؎ یوسف علیہ السلام نے صرف تعبیر نہیں بتائی، اُس کے ساتھ اُس تدبیر کی طرف بھی رہنمائی فرما دی ہے جو قحط کے اِن سات برسوں کی مصیبت کا مقابلہ کرنے کے لیے اختیار کرنی چاہیے۔ اِس سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ مستقبل کی منصوبہ بندی کے بارے میں قرآن کا نقطۂ نظر صوفیانہ مذاہب سے کس قدر مختلف ہے۔

۶۸؎ اصل میں لفظ ’یُغَاثُ‘ آیا ہے۔ یہ ’غوث‘ سے ہے۔تاہم اِس کے لازم کی حیثیت سے اِس کا ترجمہ بارش بھی کیا جا سکتا ہے، لیکن ہم نے اِسے لغوی مفہوم میں لیا ہے تاکہ قحط سے جو ہمہ گیر اثرات لوگوں پر ہوں گے، اُن کی پوری تصویر سامنے آجائے۔ مطلب یہ ہے کہ وہ ایسا غیر معمولی ہو گا کہ لوگ چیخ اُٹھیں گے اور اپنے پروردگار کے آگے رونے اور گڑگڑانے پر مجبور ہو جائیں گے، یہاں تک کہ بالآخر اُن کی فریاد سن لی جائے گی۔

۶۹؎ اصل میں لفظ ’یَعْصِرُوْنَ‘ آیا ہے۔ اِس کی جگہ کوئی دوسری تعبیر بھی اختیار کی جا سکتی تھی، لیکن پوچھنے والا چونکہ بادشاہ کا ساقی تھا، اِس لیے اِس لفظ کا انتخاب کیا گیا جس سے ایک خاص لطف کلام میں پیدا ہو گیا ہے۔

۷۰؎ یوسف علیہ السلام کی جگہ کوئی اور ہوتا تو رہائی کا مژدہ پا کر فوراً ساتھ ہو لیتا، مگر اُنھوں نے اصرار کیا کہ پہلے اُس معاملے کی تحقیق کی جائے جس کو بہانہ بنا کر مجھے جیل بھیجا گیا تھا۔ استاذ امام لکھتے ہیں:

’’۔۔۔ حضرت یوسف کے اِس ارشاد کی تہ میں اتر کر غور کیجیے تو یہ حقیقت واضح ہو گی کہ اُنھوں نے مجرد بادشاہ کے وقتی حسن ظن سے فائدہ اٹھا کر اپنی رہائی اور بادشاہ کے تقرب کو پسند نہیں فرمایا، بلکہ سب سے زیادہ اہمیت الزام سے براء ت کو دی اور اپنی سچائی اور اپنے رب پر اُنھیں اِس درجہ اعتماد تھا کہ اِس بات کی ذرا پروا نہ ہوئی کہ فریق ثانی اُنھیں ملزم بنانے کے لیے کیا دروغ بافیاں کر سکتا ہے۔‘‘(تدبرقرآن۴/ ۲۲۴)

۷۱؎ یہ جملہ بتا رہا ہے کہ اُس وقت تک یہ حقیقت بادشاہ پر بھی بڑی حد تک واضح ہو چکی تھی کہ سارا چھل فریب عورتوں ہی کا تھا۔ استاذ امام لکھتے ہیں:

’’۔۔۔اصل یہ ہے کہ سچائی اپنے ظہور کے لیے صبر کا مطالبہ کرتی ہے۔ اگر کوئی اللہ کا بندہ اُس کو اختیار کر لے اور جو صبر اُس کے لیے مطلوب ہے، اُس کا حق ادا کر دے تو وہ وقت لازماً آتا ہے، جب اُس کی صداقت کی صداے بازگشت در و دیوار سے سنائی دیتی ہے۔ یہاں تک کہ دشمن بھی۔۔۔اُس کی گواہی دیتے ہیں۔‘‘(تدبرقرآن۴/ ۲۲۴)

۷۲؎ یہ حضرت یوسف نے معاملے کی تحقیق پر اپنے اصرار کی وجہ بتائی ہے۔ اِس کا موقع غالباً اُس وقت آیا ہو گا، جب قید خانے میں اُنھیں تحقیقات کے نتائج بتائے گئے ہوں گے۔

۷۳؎ اصل الفاظ ہیں: ’اِلَّا مَا رَحِمَ رَبِّیْ‘۔ اِن میں ’مَا‘ ہمارے نزدیک زمان کے معنی میں ہے۔ ترجمے میں اُسی کی رعایت ملحوظ ہے۔

[باقی]

ـــــــــــــــــــــــــ

B