بسم اللہ الرحمن الرحیم
(گذشتہ سے پیوستہ)
وَاذْکُرْ فِی الْکِتٰبِ اِبْرٰھِےْمَ اِنَّہٗ کَانَ صِدِّےْقًا نَّبِےًّا(۴۱) اِذْ قَالَ لِاَبِےْہِ ےٰٓاَبَتِ لِمَ تَعْبُدُ مَالَا ےَسْمَعُ وَلَا ےُبْصِرُ وَلَا ےُغْنِیْ عَنْکَ شَےْءًا(۴۲) ےٰٓاَبَتِ اِنِّیْ قَدْ جَآءَ نِیْ مِنَ الْعِلْمِ مَا لَمْ ےَاْتِکَ فَاتَّبِعْنِیْٓ اَھْدِکَ صِرَاطًا سَوِےًّا(۴۳) ےٰٓاَبَتِ لَا تَعْبُدِ الشَّےْطٰنَ اِنَّ الشَّےْطٰنَ کَانَ لِلرَّحْمٰنِ عَصِےًّا(۴۴) ےٰٓاَبَتِ اِنِّیْٓ اَخَافُ اَنْ ےَّمَسَّکَ عَذَابٌ مِّنَ الرَّحْمٰنِ فَتَکُوْنَ لِلشَّےْطٰنِ وَلِےًّا(۴۵)
قَالَ اَرَاغِبٌ اَنْتَ عَنْ اٰلِھَتِیْ ےٰٓاِبْرٰھِےْمُ لَءِنْ لَّمْ تَنْتَہِ لَاَرْجُمَنَّکَ وَاھْجُرْنِیْ مَلِےًّا(۴۶)
قَالَ سَلٰمٌ عَلَےْکَ سَاَسْتَغْفِرُلَکَ رَبِّیْ اِنَّہٗ کَانَ بِیْ حَفِےًّا(۴۷) وَاَعْتَزِلُکُمْ وَمَا تَدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰہِ وَاَدْعُوْا رَبِّیْ عَسٰٓی اَلَّآ اَکُوْنَ بِدُعَآءِ رَبِّیْ شَقِےًّا(۴۸)
فَلَمَّا اعْتَزَلَھُمْ وَمَا ےَعْبُدُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰہِ وَھَبْنَا لَہٗٓ اِسْحٰقَ وَےَعْقُوْبَ وَکُلًّا جَعَلْنَا نَبِےًّا(۴۹) وَوَھَبْنَا لَھُمْ مِّنْ رَّحْمَتِنَا وَجَعَلْنَا لَہُمْ لِسَانَ صِدْقٍ عَلِےًّا(۵۰)
وَاذْکُرْ فِی الْکِتٰبِ مُوْسٰٓی اِنَّہٗ کَانَ مُخْلَصًا وَّکَانَ رَسُوْلًا نَّبِےًّا(۵۱) وَنَادَےْنٰہُ مِنْ جَانِبِ الطُّوْرِ الْاَےْمَنِ وََقَرَّبْنٰہُ نَجِےًّا(۵۲) وَوَھَبْنَا لَہٗ مِنْ رَّحْمَتِنَآ اَخَاہُ ھٰرُوْنَ نَبِےًّا(۵۳)
وَاذْکُرْ فِی الْکِتٰبِ اِسْمٰعِےْلَ اِنَّہٗ کَانَ صَادِقَ الْوَعْدِ وَکَانَ رَسُوْلًا نَّبِےًّا(۵۴) وَکَانَ ےَاْمُرُ اَھْلَہٗ بِالصَّلٰوۃِ وَالزَّکٰوۃِ وَکَانَ عِنْدَ رَبِّہٖ مَرْضِےًّا(۵۵)
وَاذْکُرْ فِی الْکِتٰبِ اِدْرِےْسَ اِنَّہٗ کَانَ صِدِّےْقًا نَّبِےًّا(۵۶) وَّرَفَعْنٰہٗ مَکَانًا عَلِےًّا(۵۷)
اُولٰٓءِکَ الَّذِےْنَ اَنْعَمَ اللّٰہُ عَلَےْھِمْ مِّنَ النَّبِےّٖنَ مِنْ ذُرِّےَّۃِ اٰدَمَ وَمِمَّنْ حَمَلْنَا مَعَ نُوْحٍ وَّمِنْ ذُرِّےَّۃِ اِبْرٰھِےْمَ وَاِسْرَآءِ ےْلَ وَمِمَّنْ ھَدَےْنَا وَاجْتَبَےْنَا اِذَا تُتْلٰی عَلَےْھِمْ اٰےٰتُ الرَّحْمٰنِ خَرُّوْا سُجَّدًا وَّ بُکِےًّا(۵۸) فَخَلَفَ مِنْ م بَعْدِھِمْ خَلْفٌ اَضَاعُوا الصَّلٰوۃَ وَاتَّبَعُوا الشَّھَوٰتِ فَسَوْفَ ےَلْقَوْنَ غَےًّا(۵۹) اِلَّا مَنْ تَابَ وَاٰمَنَ وَعَمِلَ صَالِحًا فَاُولٰٓءِکَ ےَدْخُلُوْنَ الْجَنَّۃَ وَلَا ےُظْلَمُوْنَ شَےْءًا(۶۰) جَنّٰتِ عَدْنِ نِ الَّتِیْ وَعَدَ الرَّحْمٰنُ عِبَادَہٗ بِالْغَےْبِ اِنَّہٗ کَانَ وَعْدُہٗ مَاْتِےًّا(۶۱) لَا ےَسْمَعُوْنَ فِےْھَا لَغْوًا اِلَّا سَلٰمًا وَلَہُمْ رِزْقُہُمْ فِےْھَا بُکْرَۃً وَّعَشِےًّا(۶۲) تِلْکَ الْجَنَّۃُ الَّتِیْ نُوْرِثُ مِنْ عِبَادِنَا مَنْ کَانَ تَقِےًّا(۶۳)
اور اِس کتاب میں ابراہیم کا ذکر کرو۔۱۵۰؎ بے شک، وہ ایک راست باز انسان۱۵۱؎ اور (اللہ کا) نبی تھا۔ یاد کرو، جب اُس نے اپنے باپ سے کہا کہ ابا جان، آپ اُن چیزوں کی پرستش کیوں کرتے ہیں جو نہ سنتی ہیں، نہ دیکھتی ہیں اور نہ آپ کے کسی کام آ سکتی ہیں؟ ابا جان، حق یہ ہے کہ میرے پاس وہ علم آیا ہے جو آپ کے پاس نہیں آیا ہے، اِس لیے آپ میری پیروی کریں، میں آپ کو سیدھی راہ دکھاؤں گا۔ ابا جان، آپ شیطان کی بندگی نہ کریں، اِس میں شبہ نہیں کہ شیطان خداے رحمن کا بڑا ہی نافرمان ہے۔ ابا جان، (اگر آپ نے میری بات نہ مانی تو) مجھے ڈر ہے کہآپ کو خداے رحمن کا کوئی عذاب آپکڑے گا اور آپ شیطان کے ساتھی بن کر رہ جائیں گے۔۱۵۲؎۴۱-۴۵
باپ نے کہا: ابراہیم، کیا تم میرے معبودوں سے برگشتہ ہو رہے ہو؟ اگر تم باز نہ آئے تو میں تمھیں ضرورسنگ سار کر دوں گا۔۱۵۳؎ اِس لیے تم (اپنی خیر چاہتے ہو تو)مجھ سے ہمیشہ کے لیے دور ہو۔۴۶
ابراہیم نے کہا:(اچھا پھر) آپ کو میرا سلام ہے۱۵۴؎۔ میں آپ کے لیے اب اپنے پروردگار سے بخشش کی دعا کروں گا۔۱۵۵؎حقیقت یہ ہے کہ وہ مجھ پر بڑا ہی مہربان ہے۔ (اگر آپ کی راے یہی ہے تو)میں آپ لوگوں کو بھی چھوڑتا ہوں اور اُن کو بھی جنھیں آپ لوگ خدا کے سوا پکارتے ہیں۔ میں تو اپنے پروردگار ہی کو پکاروں گا۔ مجھے امید ہے کہ اپنے پروردگار کو پکار کر میں محروم نہ رہوں گا۔۱۵۶؎ ۴۷-۴۸
پھر جب وہ اُن کو چھوڑ کر الگ ہو گیا اور اُن کو بھی جنھیں وہ خدا کے سوا پوجتے تھے تو ہم نے اُس کو اسحق اور یعقوب دیے اور اُن میں سے ہر ایک کو نبی بنایا ۱۵۷؎اور اُن کو اپنی رحمت سے حصہ ارزانی کیا اور اُن کو اونچے درجے کی سچی اور پایدار نام وری عطا فرمائی۔۱۵۸؎۴۹-۵۰
اور اِس کتاب میں موسیٰ کا ذکر کرو۔ بے شک،وہ ایک برگزیدہ شخص۱۵۹؎ اور رسول نبی۱۶۰؎ تھا۔ ہم نے اُس کو طور کے مقدس۱۶۱؎ کنارے سے آوازدی اور اُس کو اپنے قریب بلایا، ہم اُس سے کچھ راز کی باتیں کر رہے تھے۔ اور اپنی عنایت سے اُس کے بھائی ہارون کو ہم نے نبی بنا کر اُسے (مددگار کے طور پر) دے دیا۔۵۱-۵۳
اور اِس کتاب میں اسمٰعیل کا ذکر کرو۔ بے شک،وہ وعدے کا سچا۱۶۲؎ اور رسول نبی تھا۔ وہ اپنے لوگوں کو نماز اور زکوٰۃ کی تلقین کرتا تھا ۱۶۳؎اور اپنے رب کے نزدیک ایک پسندیدہ انسان تھا۱۶۴؎۔ ۵۴-۵۵
اور اِس کتاب میں ادریس کا ذکر کرو۔ اِس میں شبہ نہیں کہ وہ بھی راست باز اور نبی تھا اور ہم نے (ابراہیم کی طرح) اُس کو بھی اونچے مرتبے تک پہنچایا تھا۱۶۵؎۔ ۵۶-۵۷
یہ لوگ ہیں جن پر اللہ نے پیغمبروں میں سے اپنا فضل فرمایا، آدم کی اولاد میں سے۱۶۶؎ اور اُن لوگوں کی نسل سے جنھیں ہم نے نوح کے ساتھ (کشتی پر)سوار کیا تھا، اور ابراہیم اور اسرائیل کی نسل سے اور اُن لوگوں میں سے جن کو ہم نے ہدایت بخشی اور برگزیدہ کیا تھا۔ اُن کو جب خداے رحمن کی آیتیں سنائی جاتی تھیں تو سجدے میں گر پڑتے اور روتے جاتے تھے۱۶۷؎۔پھر اُن کے بعد وہ نا خلف اُن کے جانشین ہوئے جنھوں نے نماز ضائع کر دی اور خواہشوں کے پیچھے چل پڑے۱۶۸؎۔ سو عنقریب وہ اپنی گمراہی کے انجام سے دوچار ہوں گے۔ البتہ جو توبہ کر لیں اور ایمان لائیں اور نیک عمل کریں تو یہی لوگ ہیں جو جنت میں داخل ہوں گے اور اُن کی ذرہ برابر حق تلفی نہ ہو گی۔ ہمیشہ رہنے والے باغوں میں، جن کا خداے رحمن نے اُس دنیا میں اپنے بندوں سے وعدہ کر رکھا ہے جو آنکھوں سے پوشیدہ ہے۔ اُس کا وعدہ یقینا پورا ہو کر رہے گا۔ وہ اُس میں کوئی بے ہودہ بات نہ سنیں گے، اُن کے لیے وہاں سلام ہی سلام ہو گا۔۱۶۹؎ اُن کا رزق صبح و شام اُس میں مہیا ہو گا۔۱۷۰؎ یہ وہ جنت ہے جس کا وارث ہم اپنے بندوں میں سے اُن کو بنائیں گے جو خدا سے ڈرنے والے ہوں گے۔۱۷۱؎ ۵۸-۶۳
۱۵۰؎ پیچھے نصاریٰ کو سیدنا مسیح علیہ السلام کے حوالے سے جن حقائق پر توجہ دلائی ہے، یہ اب اُنھی کو دوسرے انبیا علیہم السلام کی تعلیمات سے مؤکد کیا ہے۔ اِس میں سب سے پہلے ابراہیم علیہ السلام کا ذکر ہوا ہے، اِس لیے کہ دعوت و شہادت کے لیے ذریت ابراہیم کے انتخاب سے جس دور نبوت کی ابتدا ہوئی، اُس کے امام وہی ہیں۔
۱۵۱؎ اصل میں لفظ ’صِدِّیْق‘آیا ہے۔ سیدنا ابراہیم علیہ السلام کا یہ وصف یہاں اِس لیے نمایاں کیا ہے کہ اہل کتاب اور مشرکین، دونوں کو توجہ دلائی جائے کہ جن کو اپنا ابوالآبا کہتے ہو، وہ تمھاری طرح خدا سے بد عہدی اور بے وفائی کرنے والے نہیں تھے، بلکہ راست باز، صداقت شعار اور خدا کے کامل وفادار تھے۔ لہٰذا اُن سے نسبت اور اُن کی وراثت کے حق دار بننا چاہتے ہو تو ایک ہی راستہ ہے اور وہ یہ کہ اُن کے یہ اوصاف تم بھی اپنے اندر پیدا کرنے کی کوشش کرو۔
۱۵۲؎ یہ نبوت کے بعد حضرت ابراہیم علیہ السلام کی گفتگوؤں کا خلاصہ ہے جو اُنھوں نے اپنے باپ آذر سے کی ہیں۔ اِس میں ’یٰٓاَبَتِ‘ کی تکرار بتا رہی ہے کہ حضرت ابراہیم نے یہ گفتگو کس دل سوزی، دردمندی اور محبت کے ساتھ کی ہے۔ استاذ امام کے الفاظ میں، ایک سعادت مند بیٹے کے اندر باپ کی گمراہی سے جو تعلق خاطر اور اضطراب ہونا چاہیے، وہ اِس گفتگو کے فقرے فقرے سے نمایاں ہے۔ اپنے باپ کو اُنھوں نے اِس گفتگو میں چند حقائق کی طرف توجہ دلائی ہے۔ استاذ امام لکھتے ہیں:
”سب سے پہلے اِس حقیقت کی طرف توجہ دلائی کہ آخر اپنے ہی ہاتھوں کی گھڑی ہوئی اِن پتھر کی مورتوں کو معبود مان کر اِن کی پوجا کرنے کا کیا تک ہے؟ کسی کو معبود بنا لینا کوئی شوق اور تفریح کی چیز نہیں ہے۔ اِس کا تعلق تو انسان کی سب سے بڑی احتیاج سے ہے۔ انسان خدا کو اِس لیے مانتا ہے اور اُس کی عبادت کرتا ہے کہ وہ اُس کی دعا و فریاد کو سنتا، اُس کے دکھ درد کو دیکھتا اور اُس کی ہر مشکل میں اُس کی دست گیری کرتا ہے۔ آخر یہ آپ کے اپنے ہی ہاتھو ں کی گھڑی ہوئی مورتیں جو نہ سنتی ہیں،نہ دیکھتی ہیں، نہ آپ کے کچھ کام آسکتی ہیں، کس مرض کی دوا ہیں کہ آپ اُن کے آگے ڈنڈوت کرتے ہیں۔ یہ گویا شرک کے بدیہی باطل ہونے کی دلیل ہے کہ اُس کے باطن سے قطع نظر اُس کا ظاہر ہی شہادت دیتا ہے کہ یہ کھلی ہوئی سفاہت اور عقل و فطرت سے بالکل بے جوڑ چیز ہے۔
دوسری حقیقت یہ واضح فرمائی کہ خدا کے معاملے میں یہ طے کرنا کہ اُس کا کوئی شریک ہے یا نہیں اور ہے تو کون ہے، یہ مجرد ظن و گمان رکھنے والی چیز نہیں ہے۔ آدمی ایک خدا کو تو اِس لیے مانتا ہے کہ فطرت اور عقل، آفاق اور انفس کے اندر اُس کی شہادت موجود ہے اور ہر انسان، جس کی فطرت سلیم ہو، اُس کے ماننے پر مضطر ہے،لیکن دوسروں کو ماننے کے لیے کیا مجبوری ہے کہ خواہ مخواہ کو اُن کو بھی شریک خدا بنا کر اپنے سر پر لاد لے۔ اِس معاملے میں اعتماد کی چیز ’العلم‘،یعنی وہ علم حقیقی ہے جو خدا کی طرف سے وحی کے ذریعے سے آتا ہے۔ حضرت ابراہیم نے اپنے باپ کو دعوت دی کہ وہ ایسے اہم معاملہ میں مجرد وہم کی پیروی نہ کریں،بلکہ اُن کی پیروی کریں۔ وہ اُن کے سامنے اُس علم حقیقی کو پیش کر رہے ہیں جو خدا کی طرف سے اُن کے پاس آیا ہے۔ اِسی علم سے اُس راہ کی طرف رہنمائی ہو گی جو خدا تک پہنچانے والی سیدھی راہ ہے۔ ’سیدھی راہ‘،یعنی یہ راہ بندے کو ہر واسطے اور ہر وسیلے سے بے نیاز کر کے براہ راست خدا تک پہنچانے والی ہے۔ دوسرے لفظوں میں یوں کہیے کہ یہ راہ توحید کی راہ ہے۔
تیسری حقیقت یہ واضح فرمائی کہ شیطان کو سب سے زیادہ کد اور ضد، جیسا کہ قصہئ آدم و ابلیس سے واضح ہے، توحید کی صراط مستقیم ہی سے ہے۔ اُس نے یہ قسم کھا رکھی ہے کہ وہ ذریت آدم کواِس صراط مستقیم سے برگشتہ کرنے کے لیے اپنا پورا زور لگادے گا اور اُن کو شرک میں مبتلا کر کے چھوڑے گا۔ خداے رحمن کے ایسے کھلے ہوئے باغی کی ایسی وفادارانہ اطاعت درحقیقت اُس کی عبادت ہے اور بدقسمت ہے وہ انسان جو خدا کو چھوڑ کر شیطان کی عبادت کرے۔
چوتھی حقیقت یہ واضح فرمائی کہ اب تک تو آپ کے لیے ایک عذر تھا کہ خدا کی ہدایت آپ کو نہیں پہنچی تھی، لیکن اب جب کہ خدا کی ہدایت آپ کو پہنچ چکی ہے، آپ کے لیے کوئی عذر باقی نہیں رہا،اِس وجہ سے مجھے اندیشہ ہے کہ کہیں آپ خدا کی پکڑ میں نہ آجائیں اور شیطان کے ساتھی بن کر اُسی انجام سے نہ دوچار ہوں جو شیطان اور اُس کے اولیا کے لیے مقدر ہے۔“(تدبرقرآن۴/ ۶۵۸)
۱۵۳؎ قبائلی تمدن میں باپ کو بیٹوں پر اور آقاؤں کو اُن کے غلاموں پر اِسی طرح کے غیر محدود اختیارات حاصل تھے۔ جس طرح آقا کسی جرم کی پاداش میں اپنے غلاموں کو قتل تک کر سکتے تھے، اِسی طرح باپ بھی بیٹوں اور بیٹیوں کو جو سزا چاہیں، دے سکتے تھے۔
۱۵۴؎ ابراہیم علیہ السلام کی طرف سے ہجرت و براء ت کے اِس موقع پر، یہ نہایت شستہ اسلوب میں وداعی سلام ہے۔
۱۵۵؎ باپ کی طرف سے نہایت سنگ دلانہ رویے کے باوجود یہ وعدہ دلیل ہے کہ ابراہیم علیہ السلام کس درجہ رقیق القلب، دردمند اور محبت کرنے والے انسان تھے۔ قرآن کے دوسرے مقامات سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ یہ دعا اُس وقت تک کرتے رہے، جب تک اللہ تعالیٰ نے اُن کو اِس سے روک نہیں دیا۔
۱۵۶؎ اپنے باپ کے لیے دردمندی اور محبت کے ساتھ یہ اعلان براء ت حق و صداقت کے لیے جس حمیت کا اظہار ہے، وہ بھی نہایت غیر معمولی ہے۔ استاذ امام لکھتے ہیں:
”حضرت ابراہیم کے اِس اعلان براء ت میں جو زور، جو اعتماد علی اللہ اور خلق سے جو بے نیازی ہے، وہ لفظ لفظ سے نمایاں ہے۔ اول تو حضرت ابراہیم نے جمع کا صیغہ ’وَاَعْتَزِلُکُمْ‘ استعمال کیا ہے جس سے یہ بات نکلتی ہے کہ اُنھوں نے صرف آزر ہی سے نہیں، بلکہ اُس کے تمام حواریوں، ہم نواؤں اور خاندان سے بھی اعلان براء ت کر دیا۔ اِس کے ساتھ ’وَمَا تَدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰہِ‘ کہہ کر اُن کے تمام معبودوں کو بھی اُن کے ساتھ شامل کر دیا، گویا اُنھیں بھی لات مار دی۔ پھر بات کو صرف منفی پہلو ہی سے کہنے پر بس نہیں کیا،بلکہ اُس کو مثبت پہلو سے بھی آشکارا کر دیا۔ فرمایا کہ ’وَاَدْعُوْا رَبِّیْ‘ میں صرف اپنے رب ہی کو پکارتا ہوں اور اُس کے سوا میں کسی اور معبود سے آشنا نہیں۔ آخر میں اپنے رب پر اپنے غیرمتزلزل اعتماد کا اظہار فرمایا کہ میں اپنے رب کو پکار کے کبھی محروم نہیں رہا ہوں، امید ہے کہ اِس آزمایش میں بھی اُس کی نصرت اور رہنمائی میرے ساتھ ہوگی۔ ایک طرف تو وہ نرمی، دوسری طرف یہ سختی! درحقیقت نرمی و سختی کا یہی امتزاج اور اُن کی یہی بہم آمیزی ہے جو ایک داعی حق کو دوسروں سے ممتاز کرتی ہے۔ جب تک آدمی موم کی طرح نرم اور پتھر کی طرح سخت نہ ہو، وہ حق کی کوئی خدمت انجام نہیں دے سکتا۔“(تدبرقرآن۴/ ۶۶۰)
۱۵۷؎ اپنی قوم سے ہجرت کے بعد رسولوں کو بالعموم اٹھا لیا جاتا ہے، لیکن حضرت ابراہیم کے ساتھ یہ معاملہ نہیں ہوا۔ اللہ تعالیٰ نے فلسطین اور جزیرہ نماے عرب میں توحید کے مراکز قائم کرنے کا ایک دوسرا مشن اُن کے سپرد کیا اور اُن کی قربانیوں کے صلے میں نبوت آیندہ کے لیے اُنھی کی نسل کے ساتھ خاص کر دی۔ چنانچہ یہ پوری نسل اب قیامت تک کے لیے خدا کی وہ منتخب امت ہے جو قوموں پر اتمام حجت کے لیے برپا کی گئی ہے۔ یہ اِسی امتنان کا ذکر ہے جس کے نتیجے میں اُن کے بیٹے اسحق اور اسحق کے بیٹے یعقوب اور یعقوب کے بیٹے یوسف، سب نبی بنا دیے گئے تاکہ اِس امت کی ابتدا اُسی شان اور اہتمام کے ساتھ کی جائے جو اُس کے منصب کا تقاضا ہے۔ یہ نبوت بالکل اُسی نوعیت کی تھی، جیسے انسانیت کی ابتدا کے لیے حضرت آدم علیہ السلام کو دی گئی۔ اِس کے لیے کسی قوم کی طرف اُن کی بعثت ضروری نہیں تھی۔
اسمٰعیل علیہ السلام کا معاملہ، البتہ مختلف ہے۔ حضرت ابراہیم کے لیے ہجرت کی برکات میں سے اولین اور سب سے بڑی برکت وہی تھے۔ چنانچہ نبوت کے ساتھ وہ رسالت کے منصب پر بھی فائز کیے گئے اور اُن لوگوں کی طرف مبعوث ہوئے جو بیت اللہ کے گردونواح میں آباد تھے۔ یہی وجہ ہے کہ اُن کا ذکر یہاں نہیں کیا گیا، بلکہ آگے مستقلاً اور پورے اہتمام کے ساتھ ہوا ہے۔
۱۵۸؎ یہی نام وری ہے جس کے لیے حضرت ابراہیم نے دعا کی تھی۔ سورۂ شعرا (۲۶) کی آیت ۸۴ میں اِس کا ذکر ہوا ہے۔ استاذ امام لکھتے ہیں:
”...مطلب یہ ہے کہ اللہ نے اُن کی دعوت کو خوب فروغ دیا اور اُن کو وہ پایدار عزت و شہرت حاصل ہوئی جو دنیا میں کسی کو حاصل نہیں ہوئی۔ اُس کی پایداری کا یہ عالم ہے کہ ہزاروں برس گزر گئے، لیکن اُس پر کہنگی نہیں آئی۔ سینکڑوں، ہزاروں جلیل القدر انبیاو مصلحین اِس مبارک خانوادے سے اٹھے اور حضرت ابراہیم کے مشن کو زندہ کرتے رہے۔ آخر میں حضرت اسمٰعیل کی نسل سے اِسی ملت ابراہیم پر حضرت سرور عالم محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت ہوئی جس سے اُس عظمت و شہرت کو بقاے دوام حاصل ہو گیا۔“(تدبرقرآن۴/ ۶۶۲)
۱۵۹؎ اصل میں لفظ ’مُخْلَصًا‘آیا ہے۔ موسیٰ علیہ السلام کے ساتھ اللہ تعالیٰ نے یہ خصوصی معاملہ کیا کہ اُن سے براہ راست کلام فرمایا۔ یہ لفظ اُن کے اِسی امتیازی وصف کو بیان کرتا ہے۔ آگے ’قَرَّبْنٰہُ نَجِیًّا‘ کے الفاظ میں اِس کی وضاحت کر دی ہے۔ انبیاعلیہم السلام میں سے اِس نوعیت کے تقرب و تکلم اور راز و نیاز کے لیے وہی منتخب کیے گئے۔ ایک مددگار نبی کا ملنا بھی اِسی نوعیت کا خصوصی امتیاز ہے جو کسی دوسرے پیغمبر کو حاصل نہیں ہوا۔ اُن پر یہ عنایت، خود اُن کی خواہش پر اِس لیے کی گئی کہ وہ فرعون جیسے جابر بادشاہ کی طرف مبعوث ہوئے تھے اور اِس کے ساتھ یہ ذمہ داری بھی اُن پر ڈالی گئی تھی کہ وہ بنی اسرائیل جیسی قوم کی اصلاح و تنظیم کا فریضہ انجام دیں جو دینی اور اخلاقی انحطاط کی آخری حد کو پہنچ چکی تھی۔
۱۶۰؎ یعنی نبوت کے ساتھ رسالت کے منصب پر بھی فائز تھے۔ اِس کے معنی یہ ہیں کہ وہ جن لوگوں کی طرف مبعوث کیے گئے، اُن کی طرف خدا کی عدالت بن کر آئے تھے کہ اُن کا فیصلہ اِسی دنیا میں کر دیں۔
۱۶۱؎ اصل میں لفظ ’الْاَیْمَن‘ آیا ہے۔ اِس کے معنی داہنے کے بھی ہیں اور مبارک و مقدس کے بھی۔ ہم نے دوسرے معنی کو ترجیح دی ہے، اِس لیے کہ سورۂ طٰہٰ(۲۰) کی آیت ۱۲ سے اِس کی تائید ہوتی ہے۔
۱۶۲؎ یہ اُس وعدے کی طرف اشارہ ہے جو اُنھوں نے اپنے باپ سے اپنے ذبح کیے جانے سے متعلق کیا تھا اور جب اُس کی تکمیل کا وقت آیا تو بغیر کسی ادنیٰ تردد کے اپنی گردن چھری کے نیچے دے دی تھی۔ استاذ امام لکھتے ہیں:
”... ’صَادِقَ الْوَعْدِ‘ بظاہر مرکب تو صرف دولفظوں سے ہے،لیکن یہ مومن و مسلم کے کردار کی ایک جامع تعبیر ہے۔ اللہ کا جو بندہ اپنے رب سے کیے ہوئے عہد میں راست باز ہے اوراُس کی خاطر اپنی گردن کٹوا سکتا ہے، اُس نے ایمان و اسلام کی معراج حاصل کر لی۔ رہے وہ لوگ جو ابراہیم و اسمٰعیل کے نام پر محض نسب فروشی اور لاف زنی کر رہے تھے، اُن کے سامنے قرآن نے یہ آئینہ رکھ دیا ہے کہ وہ اُس میں اپنی سیاہ روئی کا مشاہدہ کر لیں۔“(تدبرقرآن۴/ ۶۶۵)
۱۶۳؎ تمام شریعت کی بنیاد اِنھی دو چیزوں پر ہے۔ یہاں اِن کے ذکر کی وجہ یہ ہے کہ جن لوگوں کو یہ سرگذشتیں سنائی جا رہی ہیں، وہ اسمٰعیل علیہ السلام کی اولاد تھے،مگر نماز اور زکوٰۃ، دونوں سے بے پروا ہو چکے تھے۔
۱۶۴؎ یعنی اپنے پروردگار کے نزدیک بالکل ٹھیک ویسا ہی تھا، جیسا خدا اپنے بندوں کے لیے چاہتا ہے کہ وہ ہوں۔ کسی بندۂ مومن کے کامل العیار ہونے کا یہ آخری درجہ ہے جس کے بعد مزید کچھ کہنے کی گنجایش نہیں رہتی۔
۱۶۵؎ یہ نوح علیہ السلام سے پہلے کے انبیا میں سے ہیں۔ یہاں اِن کے ذکر کی وجہ یہ ہے کہ سیدنا ابراہیم علیہ السلام پر نبوت کا جو سلسلہ ختم ہوا ہے، اُس کی ابتدا غالباً اِنھی سے ہوئی تھی۔ اِس لحاظ سے یہ اُن کے مثیل ہیں۔ چنانچہ اِن کی صفات بھی وہی بیان کی گئی ہیں جو اوپر سیدنا ابراہیم کے لیے بیان ہوئی ہیں۔ اِن کے ذکر سے قرآن نے ابراہیم علیہ السلام سے پہلے اور اُن کے بعد نبوت کے دونوں ادوار کا احاطہ کر لیا ہے۔
۱۶۶؎ یہ اشارہ اُس راے کی تائید کرتا ہے جو ہم نے اوپر حضرت ادریس کے متعلق ظاہر کی ہے۔ چنانچہ عام خیال بھی یہی ہے کہ بائیبل میں جن بزرگ کا نام حنوک بتایا گیا ہے، وہی ادریس علیہ السلام ہیں۔
۱۶۷؎ یہ اُن لوگوں پر تعریض ہے جو پیغمبروں کے نام لیوا تھے، مگر اللہ کی آیتوں کو سن کر نہایت استکبار اور رعونت کے ساتھ اُنھیں جھٹلا دیتے تھے۔
۱۶۸؎ یہ وہ اصل مدعا ہے جس کے لیے اوپر کی سرگذشتیں سنائی گئی ہیں۔ گویا مخاطبین سے کہا ہے کہ تم پر افسوس، ابراہیم اور یعقوب اور دوسرے جلیل القدر انبیا کی اولاد ہونے کا دعویٰ کرتے ہو، مگر اُن کے لائے ہوئے تمام دین کو برباد کیے بیٹھے ہو۔ اِس میں خاص طور پر نماز کو ضائع کر دینے کا ذکر کیا ہے۔ اِس کی وجہ یہ ہے کہ نماز ہی وہ چیز ہے جو صبح و شام بندے کو وہ عہد یاددلاتی ہے جو اُس نے اپنے پروردگار سے باندھ رکھا ہے۔ یہ ضائع ہو جائے تو جلد یا بدیر آدمی پر شیطان مسلط ہو جاتا ہے۔ اِس کے بعد اتباع شہوات کا ذکر ہے جس کا لازمی نتیجہ اللہ کی راہ میں انفاق سے محرومی ہے۔ چنانچہ اصل مانع کا ذکر کر دیا ہے تاکہ زکوٰۃ اور انفاق کی طرف اشارہ بھی ہو جائے اور نماز اور زکوٰۃ، دونوں کے ضائع کردینے کا سبب بھی سامنے آجائے۔
۱۶۹؎ یعنی ایک دوسرے کی طرف سے بھی اور خدا کے فرشتوں کی طرف سے بھی جو اُن کی فیروزمندی پر ہر جگہ اُن کا خیر مقدم سلام و تحیت سے کریں گے۔
۱۷۰؎ آیت میں ’رِزْق‘کا لفظ استعمال ہوا ہے۔ استاذ امام کے الفاظ میں، یہ انوار و برکات الہٰی اور نفحات روح و ریحان کو بھی شامل ہے۔ مطلب یہ ہے کہ اُن کے جسم و جان اور دل ودماغ کے لیے یہ تمام عنایات صبح و شام اُن پر وہاں ہوتی رہیں گی۔
۱۷۱؎ یہ آخر میں مخاطبین پر واضح کر دیا ہے کہ تم اپنے زعم میں جو چاہو، سمجھتے رہو، مگر خدا کا فیصلہ یہی ہے کہ اُس کی جنت پر مدعی اور بوالہوس کا حق نہیں ہے۔ یہ اُنھی کو ملے گی جو اُس سے ڈرنے والے ہیں۔
[باقی]
_______________________