HomeQuranHadithMizanVideosBooksBlogs
مصنف : جاوید احمد غامدی

البیان: یونس ۱۰: ۳۷- ۷۰ (۵)

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم 

(گذشتہ سے پیوستہ)  


وَمَا کَانَ ھٰذَا الْقُرْاٰنُ اَنْ یُّفْتَرٰی مِنْ دُوْنِ اللّٰہِ وَلٰکِنْ تَصْدِیْقَ الَّذِیْ بَیْنَ یَدَیْہِ وَتَفْصِیْلَ الْکِتٰبِ لَا رَیْبَ فِیْہِ مِنْ رَّبِّ الْعٰلَمِیْنَ{۳۷} اَمْ یَقُوْلُوْنَ افْتَرٰہُ قُلْ فَاْتُوْا بِسُوْرَۃٍ مِّثْلِہٖ وَادْعُوْا مَنِ اسْتَطَعْتُمْ مِّنْ دُوْنِ اللّٰہِ اِنْ کُنْتُمْ صٰدِقِیْنَ{۳۸} بَلْ کَذَّبُوْا بِمَا لَمْ یُحِیْطُوْا بِعِلْمِہٖ وَلَمَّا یَاْتِھِمْ تَاْوِیْلُہٗ کَذٰلِکَ کَذَّبَ الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِھِمْ فَانْظُرْ کَیْفَ کَانَ عَاقِبَۃُ الظّٰلِمِیْنَ{۳۹} 
وَمِنْھُمْ مَّنْ یُّؤْمِنُ بِہٖ وَمِنْھُمْ مَّنْ لَّا یُؤْمِنُ بِہٖ وَرَبُّکَ اَعْلَمُ بِالْمُفْسِدِیْنَ{۴۰} وَاِنْ کَذَّبُوْکَ فَقُلْ لِّیْ عَمَلِیْ وَلَکُمْ عَمَلُکُمْ اَنْتُمْ بَرِیْٓئُوْنَ مِمَّآ اَعْمَلُ وَاَنَا بَرِیْٓ ئٌ مِّمَّا تَعْمَلُوْنَ{۴۱} وَمِنْھُمْ مَّنْ یَّسْتَمِعُوْنَ اِلَیْکَ اَفَاَنْتَ تُسْمِعُ الصُّمَّ وَلَوْکَانُوْا لَا یَعْقِلُوْنَ{۴۲} وَمِنْھُمْ مَّنْ یَّنْظُرُ اِلَیْکَ اَفَاَنْتَ تَھْدِی الْعُمْیَ وَلَوْکَانُوْا لَا یُبْصِرُوْنَ{۴۳} اِنَّ اللّٰہَ لَایَظْلِمُ النَّاسَ شَیْئًا وَّلٰکِنَّ النَّاسَ اَنْفُسَھُمْ یَظْلِمُوْنَ{۴۴}
وَیَوْمَ یَحْشُرُھُمْ کَاَنْ لَّمْ یَلْبَثُوْٓا اِلَّا سَاعَۃً مِّنَ النَّھَارِ یَتَعَارَفُوْنَ بَیْنَھُمْ قَدْ خَسِرَ الَّذِیْنَ کَذَّبُوْا بِلِقَآئِ اللّٰہِ وَمَا کَانُوْا مُھْتَدِیْنَ{۴۵} وَاِمَّا نُرِیَنَّکَ بَعْضَ الَّذِیْ نَعِدُھُمْ اَوْ نَتَوَفَّیَنَّکَ فَاِلَیْنَا مَرْجِعُھُمْ ثُمَّ اللّٰہُ شَھِیْدٌ عَلٰی مَا یَفْعَلُوْنَ{۴۶} وَلِکُلِّ اُمَّۃٍ رَّسُوْلٌ فَاِذَا جَآئَ رَسُوْلُھُمْ قُضِیَ بَیْنَھُمْ بِالْقِسْطِ وَھُمْ لَا یُظْلَمُوْنَ{۴۷} وَیَقُوْلُوْنَ مَتٰی ھٰذَا الْوَعْدُ اِنْ کُنْتُمْ صٰدِقِیْنَ{۴۸} قُلْ لَّآ اَمْلِکُ لِنَفْسِیْ ضَرًّا وَّلَانَفْعًا اِلَّا مَا شَآئَ اللّٰہُ لِکُلِّ اُمَّۃٍ اَجَلٌ اِذَا جَآئَ اَجَلُھُمْ فَلَا یَسْتَاْخِرُوْنَ سَاعَۃً وَّلَا یَسْتَقْدِمُوْنَ{۴۹} قُلْ اَرَئَ ْیتُمْ اِنْ اَتٰکُمْ عَذَابُہٗ بَیَاتًا اَوْ نَھَارًا مَّا ذَا یَسْتَعْجِلُ مِنْہُ الْمُجْرِمُوْنَ{۵۰} اَثُمَّ اِذَا مَاوَقَعَ اٰمَنْتُمْ بِہٖ آٰ لْئٰنَ وَقَدْ کُنْتُمْ بِہٖ تَسْتَعْجِلُوْنَ{۵۱} ثُمَّ قِیْلَ لِلَّذِیْنَ ظَلَمُوْا ذُوْقُوْا عَذَابَ الْخُلْدِ ھَلْ تُجْزَوْنَ اِلَّا بِمَا کُنْتُمْْ تَکْسِبُوْنَ{۵۲}
وَیَسْتَنْــبِئُونَکَ اَحَقٌّ ھُوَ قُلْ اِیْ وَرَبِّیْٓ اِنَّہٗ لَحَقٌّ وَمَآ اَنْتُمْ بِمُعْجِزِیْنَ{۵۳} وَلَوْ اَنَّ لِکُلِّ نَفْسٍ ظَلَمَتْ مَا فِی الْاَرْضِ لَافْتَدَتْ بِہٖ وَاَسَرُّوا النَّدَامَۃَ لَمَّا رَاَوُا الْعَذَابَ وَقُضِیَ بَیْنَھُمْ بِالْقِسْطِ وَھُمْ لَا یُظْلَمُوْنَ{۵۴} اَلَآ اِنَّ لِلّٰہِ مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ اَلَآ اِنَّ وَعْدَ اللّٰہِ حَقٌّ وَّلٰکِنَّ اَکْثَرَھُمْ لَا یَعْلَمُوْنَ{۵۵}  ھُوَ یُحْیٖ وَیُمِیْتُ وَاِلَیْہِ تُرْجَعُوْنَ{۵۶}
یٰٓاَیُّھَا النَّاسُ قَدْ جَآئَ تْکُمْ مَّوْعِظَۃٌ مِّنْ رَّبِّکُمْ وَشِفَآئٌ لِّمَا فِی الصُّدُوْرِ وَھُدًی وَّرَحْمَۃٌ لِّلْمُؤْمِنِیْنَ{۵۷} قُلْ بِفَضْلِ اللّٰہِ وَبِرَحْمَتِہٖ فَبِذٰلِکَ فَلْیَفْرَحُوْا ھُوَ خَیْرٌ مِّمَّا یَجْمَعُوْنَ{۵۸}
قُلْ اَرَئَ یْتُمْ مَّآ اَنْزَلَ اللّٰہُ لَکُمْ مِّنْ رِّزْقٍ فَجَعَلْتُمْ مِّنْہُ حَرَامًا وَّحَلٰلاً قُلْ آٰللّٰہُ اَذِنَ لَکُمْ اَمْ عَلَی اللّٰہِ تَفْتَرُوْنَ{۵۹} وَمَا ظَنُّ الَّذِیْنَ یَفْتَرُوْنَ عَلَی اللّٰہِ الْکَذِبَ یَوْمَ الْقِیٰمَۃِ اِنَّ اللّٰہَ لَذُوْ فَضْلٍ عَلَی النَّاسِ وَلٰکِنَّ اَکْثَرَھُمْ لَا یَشْکُرُوْنَ{۶۰}  
وَمَاتَکُوْنُ فِیْ شَاْنٍ وَّمَا تَتْلُوْا مِنْہُ مِنْ قُرْاٰنٍ وَّلَا تَعْمَلُوْنَ مِنْ عَمَلٍ اِلَّا کُنَّا عَلَیْکُمْ شُھُوْدًَا اِذْ تُفِیْضُوْنَ فِیْہِ وَمَا یَعْزُبُ عَنْ رَّبِّکَ مِنْ مِّثْقَالِ ذَرَّۃٍ فِی الْاَرْضِ وَلَا فِی السَّمَآئِ وَلَآ اَصْغَرَ مِنْ ذٰلِکَ وَلَآاَکْبَرَ اِلَّا فِیْ کِتٰبٍ مُّبِیْنٍ{۶۱} اَلَآ اِنَّ اَوْلِیَآئَ اللّٰہِ لَاخَوْفٌ عَلَیْھِمْ وَلَاھُمْ یَحْزَنُوْنَ{۶۲} الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَکَانُوْا یَتَّقُوْنَ{۶۳}  لَھُمُ الْبُشْرٰی فِی الْحَیٰوۃِ الدُّنْیَا وَفِی الْاٰخِرَۃِ لَا تَبْدِیْلَ لِکَلِمٰتِ اللّٰہِ ذٰلِکَ ھُوَ الْفَوْزُ الْعَظِیْمُ{۶۴} وَلَا یَحْزُنْکَ قَوْلُھُمْ اِنَّ الْعِزَّۃَ لِلّٰہِ جَمِیْعًا ھُوَ السَّمِیْعُ الْعَلِیْمُ{۶۵}
اَلَآ اِنَّ لِلّٰہِ مَنْ فِی السَّمٰوٰتِ وَمَنْ فِی الْاَرْضِ وَمَا یَتَّبِعُ الَّذِیْنَ یَدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰہِ شُرَکَآئَ اِنْ یَّتَّبِعُوْنَ اِلَّا الظَّنَّ وَاِنْ ھُمْ اِلَّا یَخْرُصُوْنَ{۶۶} ھُوَ الَّذِیْ جَعَلَ لَکُمُ الَّیْلَ لِتَسْکُنُوْا فِیْہِ وَالنَّھَارَ مُبْصِرًا اِنَّ فِیْ ذٰلِکَ لَاٰیٰتٍ لِّقَوْمٍ یَّسْمَعُوْنَ{۶۷} قَالُوا اتَّخَذَ اللّٰہُ وَلَدًا سُبْحٰنَہٗ ھُوَالْغَنِیُّ لَہٗ مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَمَا فِی الْاَرْضِ اِنْ عِنْدَکُمْ مِّنْ سُلْطٰنٍ بِھٰذَا اَتَقُوْلُوْنَ عَلَی اللّٰہِ مَا لَا تَعْلَمُوْنَ{۶۸} قُلْ اِنَّ الَّذِیْنَ یَفْتَرُوْنَ عَلَی اللّٰہِ الْکَذِبَ لَا یُفْلِحُوْنَ{۶۹} مَتَاعٌ فِی الدُّنْیَا ثُمَّ اِلَیْنَا مَرْجِعُھُمْ ثُمَّ نُذِیْقُھُمُ الْعَذَابَ الشَّدِیْدَ بِمَا کَانُوْا یَکْفُرُوْنَ{۷۰}
یہ قرآن وہ چیز نہیں ہے جو خدا کے بغیر تصنیف کر لیا جائے۵۸؎، بلکہ اُن پیشین گوئیوں کی تصدیق ہے جو اِس سے پہلے موجود ہیں۵۹؎ اور قانون الہٰی کی تفصیل ہے۶۰؎۔ اِس میں کوئی شک نہیں کہ یہ پروردگار عالم کی طرف سے ہے۔کیا یہ کہتے ہیں کہ پیغمبر نے اِسے گھڑ لیا ہے؟ (اِن سے) کہو، اگر تم سچے ہو تو اِس جیسی ایک سورت بنا لاؤ اور اللہ کے سوا جن کو (مدد کے لیے) بلا سکتے ہو، بلا لو۔۶۱؎ (نہیں، یہ بات نہیں ہے)، بلکہ یہ اُس چیز کو جھٹلا رہے ہیں جو اِن کے علم کی گرفت میں نہیں آئی اور جس کی حقیقت ابھی اِن پر ظاہر نہیں ہوئی۔۶۲؎ اِن سے پہلے کے لوگوں نے بھی اِسی طرح جھٹلایا تھا، پھر دیکھ لو کہ اُن ظالموں کا انجام کیا ہوا ۔ ۳۷-۳۹
(تم مطمئن رہو، اے پیغمبر)۔ اِن میں وہ بھی ہیں جو اِس قرآن کو مانیں گے اور وہ بھی جو نہیں مانیں گے، (اِس لیے کہ آمادئہ فساد ہیں) اور تیرا پروردگار اِن مفسدوں سے خوب واقف ہے۶۳؎۔ یہ تمھیںجھٹلاتے ہیں تو کہہ دو کہ میرے لیے میرا عمل ہے اور تمھارے لیے تمھارا عمل، تم پر میرے عمل کی کوئی ذمہ داری نہیں ہے اور مجھ پر تمھارے عمل کی کوئی ذمہ داری نہیں ہے۶۴؎۔ (تم اُن کے درپے کیوں ہوتے ہو جو اندھے اور بہرے ہو چکے ہیں)؟ اِن میں وہ بھی تو ہیں جو تمھیں کان لگا کر سنتے ہیں۔ پھر کیا بہروں کو سناؤ گے ، اگرچہ وہ کچھ نہ سمجھتے ہوں؟اور اِن میں وہ بھی تو ہیں جو پوری توجہ سے تمھیں دیکھتے ہیں۔پھر کیا اندھوں کو راہ دکھاؤ گے، اگرچہ وہ کچھ نہ دیکھتے ہوں؟ حقیقت یہ ہے کہ اللہ لوگوں پر ذرا بھی ظلم نہیں کرتا، بلکہ لوگ خود ہی اپنی جانوں پر ظلم ڈھاتے ہیں۶۵؎۔۴۰-۴۴
(اِس وقت یہ مست ہیں، لیکن) جس دن اللہ اِنھیں اکٹھا کرے گا، (اُس دن محسوس کریں گے کہ)گویا دن کی ایک گھڑی کے لیے دنیا میں تھے۔ یہ ایک دوسرے کو پہچان رہے ہوں گے، (گویا ابھی مل کر آئے ہیں)۔(اُس دن واضح ہو جائے گا کہ) سخت گھاٹے میں رہے وہ لوگ جنھوں نے اللہ کی ملاقات کو جھٹلا دیا اور راہ راست پر نہیں آئے۔ ہم جس چیز کا وعدہ اُن سے کر رہے ہیں، اُس کا کوئی حصہ ہم تمھیں دکھا دیں گے، (اے پیغمبر)یا تم کو وفات دیں گے (اور اِس کے بعد اِن سے نمٹیں گے)۔ سو ہر حال میں اِن کو ہماری ہی طرف لوٹنا ہے، پھر اللہ اُس پر گواہ ہے جو کچھ یہ کر رہے ہیں۔ (اُس کا قانون یہی ہے کہ) ہر قوم کے لیے ایک رسول ہے۔ پھر جب اُن کا رسول آجاتا ہے تو اُن کے درمیان انصاف کے ساتھ فیصلہ کر دیا جاتا ہے اور اُن پر کوئی ظلم نہیں کیا جاتا۶۶؎۔ (اِس کے جواب میں)یہ کہتے ہیں کہ تم سچے ہو تو (ہمارے لیے) یہ وعدہ کب پورا ہو گا؟ (اِن سے) کہو، (میں اِس معاملے میںکیا کہہ سکتا ہوں)، میں تو اپنی ذات کے لیے بھی کسی نفع و نقصان کا اختیار نہیں رکھتا، مگر جو اللہ چاہے۔ (اُس کے ہاں) ہر قوم کے لیے ایک وقت مقرر ہے ۔ جب اُن کا وقت آجاتا ہے تو پھر نہ ایک گھڑی پیچھے ہوتے ہیں، نہ آگے۔ (اِن سے) کہو، یہ بتاؤ کہ اگر اُس کا عذاب تم پر رات یا دن میں کسی وقت آ پڑے تو کیا چیز ہے جس کے بھروسے پر یہ مجرم جلدی مچائے ہوئے ہیں۶۷؎۔ پھر کیا جب آ پڑے گا ، اُسی وقت اُس کو مانو گے؟ اب مانے ہو، تم اِسی کے لیے جلدی مچائے ہوئے تھے۔ اُس وقت اِن ظالموں سے کہا جائے گا کہ اب ہمیشہ کے عذاب کا مزہ چکھو، یہ اُسی کا بدلہ مل رہا ہے جو کچھ تم کماتے تھے۔ ۴۵-۵۲
وہ تم سے پوچھتے ہیں:کیا یہ واقعی سچ ہے۶۸؎؟ کہہ دو، ہاں، میرے پروردگار کی قسم، یہ شدنی ہے اور تم خدا کو ہرا نہیں سکو گے۔۶۹؎ (اُس وقت)ہر شخص کے پاس جس نے ظلم کا ارتکاب کیا ہے، اگر وہ سب کچھ ہو جو زمین میں ہے تو (اپنے آپ کو بچانے کے لیے) وہ اُس کو فدیے میں دینا چاہے گا۔ (اُس وقت) یہ دل ہی دل میں پچھتائیں گے، جب عذاب کو (اپنی آنکھوں سے) دیکھ لیں گے اور اِن کے درمیان انصاف کے ساتھ فیصلہ کر دیا جائے گا اور اِن پر کوئی ظلم نہ ہو گا۔ سنو، زمین و آسمان میں جو کچھ ہے، سب اللہ کا ہے۔ سن رکھو، اللہ کا وعدہ شدنی ہے، مگر (افسوس کہ) اِن میں سے اکثر نہیں جانتے۔ (حقیقت یہ ہے کہ) وہی زندگی بخشتا ہے اور وہی موت دیتا ہے اور تم اُسی کی طرف لوٹائے جاؤ گے۔۷۰؎ ۵۳-۵۶
لوگو، تمھارے پروردگار کی طرف سے تمھارے پاس نصیحت آگئی ہے اور جو سینوں میں (دھڑکتے) ہیں۷۱؎،اُن کی شفا اور اُن کے لیے ہدایت و رحمت ۷۲؎جو ماننے والے ہوں۔(اِنھیں) بتاؤ (اے پیغمبر)، یہ اللہ کے فضل اور اُس کی رحمت سے آئی ہے۷۳؎۔ سوچاہیے کہ اِس پر وہ خوشی منائیں۔ یہ اُس سے بہتر ہے جو کچھ وہ جمع کر رہے ہیں۷۴؎۔ ۵۷-۵۸
(اِن سے) پوچھو، ذرا بتاؤ تو سہی کہ اللہ نے تمھارے لیے جو رزق اتارا تھا، پھر تم نے اُس میں سے کچھ کو حرام اور کچھ کو حلال ٹھیرا لیا۔ پوچھو، اِس کا حکم تمھیں اللہ نے دیا ہے یا تم اللہ پر جھوٹ لگا رہے ہو؟ اُن لوگوں کا کیا گمان ہے قیامت کے دن جو اللہ پر جھوٹ لگاتے ہیں۷۵؎؟(یہ اللہ کی عنایت ہے کہ اُس نے اِنھیں مہلت دے رکھی ہے، ورنہ اِس جسارت پر اِن کا قصہ ابھی پاک ہو جاتا)۔ حقیقت یہ ہے کہ اللہ لوگوں پر بڑا فضل فرمانے والا ہے، مگر اُن میں سے اکثر شکر ادا نہیں کرتے۔ ۵۹-۶۰
(تم اِن کی پروا نہ کرو اور اپنا کام کیے جاؤ، اے پیغمبر)۔ تم جس حال میں بھی ہوتے ہو اور (ہم نے جو کچھ نازل کیا ہے)، اُس میں سے قرآن کا جو حصہ بھی پڑھ کر سناتے ہو۷۶؎ اور تم لوگ جو کام بھی کرتے ہو۷۷؎، ہم تمھارے پاس موجود ہوتے ہیں، جس وقت تم اُس میں مشغول ہوتے ہو۷۸؎۔ (حقیقت یہ ہے کہ) تیرے پروردگار سے ذرّہ برابر بھی کوئی چیز چھپی ہوئی نہیں ہے، نہ زمین میں، نہ آسمان میں اور نہ ذرّے سے چھوٹی ، نہ بڑی، مگر وہ ایک واضح کتاب میں درج ہے۔ (لوگو) سنو، (خدا کا پیغمبر اور اُس کے ساتھی، سب اللہ کے دوست ہیں اور) اللہ کے دوستوں کے لیے، جو ایمان لائے اور خدا سے ڈرتے رہے، (قیامت کے دن) نہ کوئی خوف ہو گا، نہ وہ غم زدہ ہوں گے۔ اُن کے لیے دنیا کی زندگی میں بھی خوش خبری ہے۷۹؎ اور آخرت کی زندگی میں بھی۔ یہ (خدا کی بات ہے اور) خدا کی باتوں میں کوئی تبدیلی نہیں ہو سکتی۔۸۰؎یہی بڑی کامیابی ہے۔یہ جو کچھ کہہ رہے ہیں، وہ تمھیں رنجیدہ نہ کرے۸۱؎، (اے پیغمبر)۔ تمام عزت اللہ ہی کے لیے ہے، (تم اُس پر بھروسا رکھو اور اپنا کام کیے جاؤ)، وہ سب کچھ سنتا اور جانتا ہے۔۶۱-۶۵
سن رکھو کہ جو آسمانوں میں ہیں اور جو زمین میں ہیں، سب اللہ ہی کے ہیں اور جو اللہ کے سوا دوسروں کو پکارتے ہیں، وہ شریکوں کی پیروی نہیں کرتے۸۲؎۔ حقیقت یہ ہے کہ وہ محض گمان کی پیروی کرتے اور نرے اٹکل دوڑاتے ہیں۔(سنو)، وہ اللہ ہی ہے جس نے تمھارے لیے رات کو (پرسکون) بنایا تاکہ اُس میں آرام کرو اور دن کو روشن بنا دیا (تاکہ معاش کی جدوجہد کرو)۸۳؎۔اِس میں اُن لوگوں کے لیے نشانیاں ہیں جو سنتے ہیں۸۴؎۔ اِنھوں نے کہا ہے کہ خدا کی اولاد ہے۔ وہ اِس سے پاک ہے (کہ کسی کو بیٹا یا بیٹی بنائے)۔ وہ (ایسی ہر چیز سے) بے نیاز ہے۔ زمین و آسمان میں جو کچھ ہے، سب اُسی کا ہے۔ تمھارے پاس اِس کی کوئی دلیل نہیں ہے۔ کیا تم خدا پر ایسی بات لگاتے ہو جس کا تم علم نہیں رکھتے۔ کہہ دو، (اے پیغمبر) کہ جو اللہ پر جھوٹ لگاتے ہیں، وہ ہرگز فلاح نہیں پائیں گے۔اُن کے لیے یہی تھوڑا سا فائدہ ہے جو دنیا میں اُٹھائیں گے۔ پھر اُن کو ہماری طرف پلٹنا ہے۔ پھر اُن کے اِس کفر کی پاداش میں ہم اُن کو سخت عذاب کا مزہ چکھائیں گے۔ ۶۶-۷۰

۵۸؎ اِس لیے کہ اِس کا مافوق انداز کلام خود بتا رہا ہے کہ کوئی انسان اِس شان کی کوئی چیز پیش نہیں کر سکتا۔

۵۹؎ اشارہ ہے آخری نبوت کے لیے تورات و انجیل کی اُن پیشین گوئیوں کی طرف جو اپنے محمل و مصداق کی منتظر تھیں۔ قرآن کے نزول سے وہ سب سچی ثابت ہوئیں اور نتیجے کے طور پر قرآن کے بارے میں بھی ثابت ہو گیا کہ وہ فی الواقع اُس خدا کا کلام ہے جس نے صدیوں پہلے سے بتا رکھا تھا کہ وہ اِس شان کی ایک کتاب نازل کرے گا۔

۶۰؎ اصل میں لفظ ’الْکِتٰب‘ آیا ہے۔ اِس کے ایک معنی قانون و شریعت کے بھی ہیں۔ ہمارے نزدیک یہاں یہ اِسی معنی میں ہے۔ مدعا یہ ہے کہ ابراہیمی دین کے جن احکام سے تم واقف ہو، یہ اُسی کی تفصیل ہے اور یہ اِس بات کا مزید ثبوت ہے کہ قرآن اُسی خدا کی طرف سے نازل کیا گیا ہے جس کی طرف سے ابراہیم و موسیٰ علیہما السلام اور دوسرے نبیوں کے صحیفے نازل کیے گئے تھے۔

۶۱؎ مطلب یہ ہے کہ تم اگر اِسے خدا کی کتا ب نہیں سمجھتے تو اپنی ہدایت، مضامین اور اپنے اسلوب بیان کے لحاظ سے جس شان کا یہ کلام ہے، اُس شان کی کوئی ایک سورہ ہی بنا کر پیش کر دو۔ تمھارے گمان کے مطابق یہ کام اگر بغیر کسی علمی اور ادبی پس منظر کے تمھاری قوم کے ایک فرد محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) کر سکتے ہیں تو تمھیں بھی اِس میں کوئی دقت نہیں ہونی چاہیے۔

۶۲؎ یعنی یہ بات نہیں ہے کہ قرآن کی صداقت کے دلائل اِن پر واضح نہیں ہو سکے۔ اصل یہ ہے کہ قرآن اپنی تکذیب کے جو نتائج بیان کر رہا ہے، وہ اِن کے علم کی گرفت میں نہیں آرہے اور اُن کی حقیقت ابھی اِن پر ظاہر نہیں ہوئی ، لہٰذا بے خوف ہیں اور بار بار مطالبہ کر تے ہیں کہ جس عذاب کی خبر دی جا رہی ہے، اُس کا کوئی نمونہ دکھا دیا جائے تو یہ مان لیں گے۔ اِن کے انکار کی وجہ اِن کی یہ بے خوفی ہے۔ اِسی نے اِنھیں غیر سنجیدہ بنا دیا ہے اور یہ اِس طرح کی باتیں بنا رہے ہیں۔ ایسا نہیں ہے کہ علم و استدلال کی بنیاد پر مطمئن ہو گئے ہیں کہ قرآن خدا کی کتاب نہیں ہے۔

۶۳؎ اِس میں پیغمبر کے لیے تسلی کے ساتھ مکذبین قرآن کے لیے دھمکی بھی ہے کہ تیرا پروردگار خوب واقف ہے تو ایک دن اِن کی شرارتوں کا مزہ بھی اِنھیں چکھا دے گا۔

۶۴؎ یہ پیغمبر کے لیے اظہار براء ت کا حکم ہے جس کے بعد صرف عذاب ہی کا انتظار ہوتا ہے۔

۶۵؎ یعنی یہ جو دیکھتے ہو کہ لوگوں میں سے زیادہ ایسے اندھے بہرے ہو جاتے ہیں کہ بالآخر عذاب کے مستحق ٹھیرتے ہیں تو اِس کی وجہ یہ نہیں ہے کہ اللہ نے اِن پر کوئی ظلم کیا ہے۔ ہرگز نہیں، یہ اِن کی خواہشیں اور اِن کے تعصبات ہیں جنھوں نے اِنھیں اِس طرح اندھا بہرا کر دیا ہے کہ حق کی ہر صدا اور اُس کا ہر داعی اِن کے لیے اجنبی ہو گیا ہے۔ اِن کے اِس رویے کا نتیجہ یہی نکلتا تھا اور یہی نکلا ہے کہ اب یہ عذاب کی زد میں ہیں۔

۶۶؎ یہ اُسی قانون کا بیان ہے جس کی وضاحت ہم جگہ جگہ کر چکے ہیں کہ نبوت و رسالت کو ذریت ابراہیم کے لیے خاص کر دینے سے پہلے دنیا کی تمام قوموں پر خود اُنھی کے رسولوں کے ذریعے سے اتمام حجت کیا گیا۔ قرآن میں اِس کی تفصیلات سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ رسول اپنے مخاطبین کے لیے خدا کی عدالت بن کر آئے اور اُن کا فیصلہ کرکے دنیا سے رخصت ہوئے۔ قرآن نے بتایا ہے کہ رسولوں کی دعوت میں یہ فیصلہ انذار، انذار عام، اتمام حجت اور ہجرت و براء ت کے مراحل سے گزر کر صادر ہوتا اور اِس طرح صادر ہوتا ہے کہ آسمان کی عدالت زمین پر قائم ہوتی، خدا کی دینونت کا ظہور ہوتا اور رسول کے مخاطبین کے لیے قیامت صغریٰ برپا ہو جاتی ہے۔ اِس دعوت کی جو تاریخ قرآن میں بیان ہوئی ہے، اُس سے معلوم ہوتا ہے کہ اِس موقع پر بالعموم دو ہی صورتیں پیش آتی ہیں: ایک یہ کہ پیغمبر کے ساتھی بھی تعداد میں کم ہوتے ہیں اور اُسے کوئی دارالہجرت بھی میسر نہیں ہوتا۔دوسرے یہ کہ وہ معتد بہ تعداد میں اپنے ساتھیوں کو لے کر نکلتا ہے اور اُس کے نکلنے سے پہلے ہی اللہ تعالیٰ کسی سرزمین میں اُس کے لیے آزادی اور تمکن کے ساتھ رہنے بسنے کا سامان کر دیتے ہیں۔

پہلی صورت میں رسول کے قوم کو چھوڑ دینے کے بعد یہ فیصلہ اِس طرح صادر ہوتا ہے کہ آسمان کی فوجیں نازل ہوتیں،ساف و حاصب کا طوفان اٹھتا اور ابر و باد کے لشکر قوم پر اِس طرح حملہ آور ہوجاتے ہیں کہ رسول کے مخالفین میں سے کوئی بھی زمین پر باقی نہیں رہتا۔ قرآن سے معلوم ہوتا ہے کہ قوم نوح، قوم لوط، قوم صالح، قوم شعیب اور اِس طرح کی بعض دوسری قوموں کے ساتھ یہی معاملہ پیش آیا۔ اِس سے مستثنیٰ صرف بنی اسرائیل رہے جن کے اصلاً توحید ہی سے وابستہ ہونے کی وجہ سے سیدنا مسیح علیہ السلام کے اُن کو چھوڑنے کے بعد اُن کی ہلاکت کے بجاے ہمیشہ کے لیے مغلوبیت کا عذاب اُن پر مسلط کر دیا گیا۔

دوسری صورت میں عذاب کا یہ فیصلہ رسول اور اُس کے ساتھیوں کی تلواروں کے ذریعے سے نافذ کیا جاتا ہے۔ اِس صورت میں قوم کو کچھ مزید مہلت مل جاتی ہے۔ رسول اِس عرصے میں دارالہجرت کے مخاطبین پر اتمام حجت بھی کرتا ہے۔ اپنے اوپر ایمان لانے والوں کی تربیت اور تطہیر و تزکیہ کے بعد اُنھیں اِس معرکۂ حق و باطل کے لیے منظم بھی کرتا ہے اور دارالہجرت میں اپنا اقتدار بھی اِس قدر مستحکم کر لیتا ہے کہ اُس کی مدد سے وہ منکرین کے استیصال اور اہل حق کی سرفرازی کا یہ معرکہ سر کر سکے۔

۶۷؎ یہاں اسلوب تبدیل کرکے اُن کے لیے مجرم کا لفظ استعمال کیا ہے۔ استاذ امام لکھتے ہیں:

’’۔۔۔یہاں مجرموں کے لفظ میں ایک لطیف اشارہ اِس بات کی طرف بھی ہے کہ جو لوگ جرم سے بری ہیں، اگر وہ اِس طرح کا سوال کرتے تو اِس کے لیے تو ایک جواز ہو سکتا تھا، لیکن جو لوگ مجرم ہیں اور جن کے جرم ہی کی پاداش میں یہ برق خاطف گرنے والی ہے، اُن کی یہ ڈھٹائی اُن کی بدبختی اور شامت کے سوا اور کس چیز کی دلیل ہے!‘‘(تدبرقرآن۴/ ۶۱)   

۶۸؎ اِس سوال میں انکار و استہزا کا وہ پہلو نمایاں ہو گیا ہے جو اوپر ’مَتٰی ھٰذَا الْوَعْدُ‘کے سوال میں ذرا مخفی تھا۔

۶۹؎ یہ اُن کی رعونت پر ضرب لگائی ہے کہ اِس وقت تو مذاق اڑا رہے ہو، لیکن جب حقیقت سامنے آجائے گی تو خدا کے مقابلے میں بے بسی کے سوا تمھارے پاس کچھ بھی نہ ہو گا۔

۷۰؎ مطلب یہ کہ تمھارے ٹھیرائے ہوئے شریکوں میں سے کوئی وہاں تمھارا استقبال کرنے کے لیے نہیں ہو گا، بلکہ تنہا خدا ہو گا جس کے حضور میں پیش کر دیے جاؤ گے۔

۷۱؎ یہ اُن بیماریوں کی طرف اشارہ ہے جو دلوں کو لگ جاتی ہیں اور انسان کو تمام انسانی اوصاف سے محروم کر کے حیوانات کے درجے تک گرا دیتی ہیں۔

۷۲؎ یعنی دنیا میں ہدایت اور آخرت میں خدا کی رحمت و عنایت جو اُس کے ماننے والوں کو لازماً حاصل ہو جائے گی۔

۷۳؎ اِس جملے میں فعل محذوف ہے، یعنی ’قل بفضل اللّٰہ و برحمتہ جائ‘۔ ہم نے ترجمے میں اُسے کھول دیا ہے۔

۷۴؎ اِس سلسلہ کلام کی ابتدا آیت ۳۷ میں منکرین کے اِس خیال کی تردید سے ہوئی تھی کہ قرآن کو یہ پیغمبر خود گھڑ کر لے آئے ہیں۔ اُن سب چیزوں پر استدلال کے بعد جو اِس معاملے میں الجھن کا باعث بن رہی تھیں، یہ اب بطور التفات قرآن کی قدر و قیمت واضح کر دی ہے۔

۷۵؎ یہ افترا علی اللہ کے جرم کی انتہائی شناعت کا اظہار ہے۔ استاذ امام لکھتے ہیں:

’’۔۔۔سوال کر کے جواب دیے بغیر بات ختم کر دی ہے جو متکلم کے انتہائی غضب کی دلیل ہے۔ مطلب یہ ہے کہ کیا یہ شامت زدہ لوگ اِس جرم عظیم کو کوئی معمولی بات سمجھے بیٹھے ہیں۔ قیامت آئے گی تو اِنھیں پتا چلے گا کہ اِس جسارت کی اِن کو کیا سزا ملتی ہے۔ ‘‘(تدبرقرآن۴/ ۶۴)

۷۶؎ اصل الفاظ ہیں:’مَا تَتْلُوْا مِنْہُ مِنْ قُرْاٰنٍ‘۔ اِن میں ضمیر مجرور کا مرجع وہی کتاب ہے جس کا ذکر آیت ۵۷-۵۸ میں گزر چکا ہے اور قرآن سے مراد اُس کا کوئی جزو یا حصہ ہے۔

۷۷؎ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ یہ آپ کے جاں نثار ساتھیوں کو بھی اللہ تعالیٰ نے تسلی و بشارت کے اِس پیغام میں شامل کر لیا ہے۔

۷۸؎ پیچھے کی بات پر اِس قید سے کیا پیش نظر ہے؟ استاذ امام لکھتے ہیں:

’’۔۔۔ اِس قید سے ایک تو اُس غیرمعمولی انہماک پر بھی روشنی پڑی جو اقامت دین کی اِس جدوجہد میں صحابہ کو تھا۔ دوسرے اِس سے تسلی کے مضمون کی بلاغت بھی دوچند ہو گئی ہے، اِس لیے اِس کا مطلب یہ ہوا کہ جب تم اپنے تن، من، دھن ہر چیز سے بے پروا ہو کر خدا کے کلمہ کی سربلندی کی جدوجہد میں لگے ہوئے ہوتے ہو تو اُس وقت ہم تمھارے پیچھے تمھاری حفاظت و نگرانی میں مصروف ہوتے ہیں۔‘‘ (تدبرقرآن۴/ ۶۵)

۷۹؎ اِس لیے کہ رسولوں کے باب میں خدا کی سنت یہی ہے کہ اُنھیں اور اُن کے ساتھیوں کو دنیا میں بھی لازماً غلبہ حاصل ہوتا ہے۔

۸۰؎ باتوں سے یہاں خدا کے وعدے مراد ہیں جنھیں دوسرے مقامات میں سنن الہٰیہ سے بھی تعبیر کیا گیا ہے۔

۸۱؎ اشارہ ہے منکرین کی اُن باتوں کی طرف جو وہ طنز و استہزا کے طور پر کہتے تھے کہ یہ اگر خدا کے پیغمبر ہیں تو اِن پر کوئی خزانہ کیوں نہیں اتارا جاتا یا اِن کے منصب کی منادی کے لیے اِن کے ساتھ کوئی فرشتہ کیوں نہیں آیا۔ استاذ امام لکھتے ہیں:

’’۔۔۔ اِن آیات کے نزول کے دور میں مسلمانوں کا جو حال تھا، اُس کے لحاظ سے تمکن اور غلبہ کی وہ بشارت جو اوپر والی آیت میں مذکور ہوئی کفار کے لیے طنز و استہزا کا موضوع بن سکتی تھی۔ وہ کہہ سکتے تھے اور اُنھوں نے کہا بھی ہو گا کہ ذرا اِس نئے دین کے سرپھروں کا حوصلہ دیکھو کہ کسی کو دو وقت کی قرینے کی روٹی اور تن ڈھانکنے کو سلیقے کا لباس نصیب نہیں، لیکن حکومت و سلطنت کے خواب دیکھ رہے ہیں۔ اِسی کو پیش نظر رکھ کر فرمایا کہ تمھیں مخالفین کی اِس طرح کی باتیں غم میں نہ ڈالیں۔ تمھارے لیے جو بشارت ہے، وہ حتمی اور قطعی ہے۔ عزت کا مالک اللہ ہے۔ یہ چیز جس کو بھی ملتی ہے، اللہ ہی کے دیے ملتی ہے۔ اب اللہ نے اگر یہ عزت تمھیں اور تمھارے ساتھیوں کو دینے کا فیصلہ فرما لیا ہے تو اُس کا ہاتھ کون پکڑ سکتا ہے؟‘‘(تدبر قرآن۴/ ۶۶)

۸۲؎ اِس لیے کہ خدا کا تو کوئی شریک ہے ہی نہیں کہ اُس کی پیروی کی جائے۔

۸۳؎ اِس جملے میں عربیت کے اسلوب پر مقابل کے الفاظ حذف کر دیے گئے ہیں۔ اِنھیں کھول دیجیے تو پوری بات اِس طرح ہے: ’جعل لکم اللیل (مظلمًا) لتسکنوا فیہ والنھار مبصرًا (لتعملوا فیہ)‘۔

۸۴؎ یہ کیا نشانیاں ہیں؟ استاذ امام امین احسن اصلاحی نے وضاحت فرمائی ہے۔ وہ لکھتے ہیں:

’’سب سے پہلے تو اُس توافق پر نگاہ کیجیے جو رات اور دن کے اندر باوجودیکہ وہ دونوں ضدین کی نسبت رکھتے ہیں،پایا جاتا ہے کہ دونوں مل کر انسان کی خدمت کر رہے ہیں۔ رات اُس کے لیے راحت کا بستر بچھاتی ہے اور دن اُس کے لیے سرگرمیوں کا میدان کھولتا ہے۔ یہی حال اِس کائنات کے تمام اضداد کا ہے کہ وہ پوری وفاداری اور سازگاری کے ساتھ اپنے سے بالاتر مقصد کی خدمت میں سرگرم ہیں اور اُس سے ذرا انحراف اختیار نہیں کرتے۔ ظاہر ہے کہ یہ اِس کے بغیر ممکن نہیں ہے کہ ایک بالاتر اور حکیم ارادہ اِس کائنات کے پورے نظام پر حاوی اور قاہر ہو اور وہ اِس کے اجزاے مختلفہ میں ربط و تعلق پیدا کر کے اِس کو اپنی حکمت کے تحت چلا رہا ہو ـــــ یہ اُس توحید کی دلیل ہوئی جن کا ذکر اوپر والی آیت میں ہے۔
دوسری چیز جو ظاہر ہو رہی ہے، وہ یہ ہے کہ یہ کارخانۂ کائنات نہ کوئی اتفاقی حادثے کے طور پر ظہور میں آجانے والی شے ہے اور نہ یہ کسی کھلنڈرے کا کھیل تماشا ہے، بلکہ اِس کے ہر گوشے میں عظیم قدرت، حیرت انگیز حکمت اور نہایت گہری غایت و مصلحت پائی جاتی ہے۔ یہ چیز مقتضی ہے کہ یہ دنیا نہ یوں ہی چلتی رہے، نہ یوں ہی تمام ہو جائے، بلکہ ضروری ہے کہ یہ کسی عظیم غایت پر منتہی ہو اور یہ غایت بغیر اِس کے پوری نہیں ہو سکتی کہ اِس کے بعد آخرت کو تسلیم کیا جائے۔
تیسری چیز وہ ربوبیت کا نظام ہے جو اِس کے ہر گوشے میں جلوہ گر ہے۔ ربوبیت مسئولیت کو مقتضی ہے۔ جس نے ہمارے لیے زندگی اور پرورش کا یہ سارا نظام قائم کیا ہے، اُس کا ہم پر فطری طور پر حق قائم ہوتا ہے اور لازم ہے کہ ایک دن اُس حق کی بابت ہم سے پرسش ہو۔ جنھوں نے اِس حق کو پہچانا ہو، وہ اُس کا انعام پائیں اور جنھوں نے اِس کی ناقدری کی ہو، وہ اُس کی سزا بھگتیں۔ اِس اعتبار سے یہ جزا و سزا کی دلیل ہوئی۔‘‘(تدبرقرآن۴/ ۶۸)

[باقی]

ـــــــــــــــــــــــــ

B