عبد مناف بن قصی رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کے چوتھے اور حضرت عبیدہ بن حارث کے تیسرے جد تھے۔ان کے چار بیٹوں میں سے ایک ہاشم آپ کے پڑدادا تھے، آپ کا خاندان انھی کے نام پربنو ہاشم کہلاتا ہے۔عبد مناف کے ایک بیٹے مطلب حضرت عبیدہ کے دادا اوران کے پوتے حارث، حضرت عبیدہ کے والد تھے۔ حضرت عبیدہ کی ولادت ۵۶۲ء میں ہوئی۔ان کی والدہ بنوثقیف سے تعلق رکھتی تھیں، سخیلہ بنت خزاعی ان کا نام تھا۔ طفیل بن حارث اور حصین بن حارث ان کے سگے بھائی تھے،دونوں ان سے بیس سے زیادہ برس چھوٹے تھے ۔ ابو حارث یا ابو معاویہ حضرت عبیدہ کی کنیت تھی۔ حضرت عبیدہ رسول پاک صلی اﷲ علیہ وسلم سے دس برس بڑے تھے،آپ کے والد کے چچا زاد ہونے کی وجہ سے وہ آپ کے چچا ہوئے۔ انھیں قریش کی شاخ بنو عبد مناف کے سردار ہونے کا شرف حاصل تھا ۔
شہر مکہ میں ایک یہودی تاجر رہتا تھا۔جس رات رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کی ولادت ہوئی ،وہ قریش کی مجلس میں گیااور پوچھا: کیا آج رات تمھارے ہاں کوئی بچہ پیدا ہوا ہے؟ کسی کو یہ خبر نہ تھی۔اس نے کہا: دھیان سے میری بات سنو،آج کی رات اس آخری امت کے نبی نے جنم لیا ہے۔اس کے کندھوں کے مابین گھوڑے کی ایال کی طرح بالوں کی جھالر ہے۔دوسری نشانی یہ ہے کہ وہ پہلے دو دن دودھ نہ پیے گا۔مجلس منتشر ہونے کے بعد لوگ گھر گئے تو معلوم ہواکہ عبداﷲ بن عبدالمطلب کے ہاں بیٹا پیدا ہوا ہے، جس کا نام محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) رکھا گیا ہے۔ حاضرین محفل یہودی سے دوبارہ ملے اور بچے کے بارے میں بتایا۔وہ خود آپ کے گھر گیا اور سیدہ آمنہ سے بچہ دکھانے کو کہا۔ مہر نبوت دیکھی تو بے ہوش ہو گیا۔افاقہ ہوا تو کہا: بخدا،نبوت بنی اسرائیل سے چھن گئی۔خوش ہو جاؤ،قریشیو، تمھیں ایسا غلبہ حاصل ہو گا جس کی خبر مشرق و مغرب میں پھیل جائے گی۔تب ہشام بن مغیرہ، ولید بن مغیرہ، مسافر بن ابو عمرو،عقبہ بن ربیعہ اور دس سالہ عبیدہ بن حارث سامعین میں شامل تھے(مستدرک حاکم، رقم ۴۱۷۷)۔ شاید یہی وجہ ہے کہ حضرت عبیدہ بن حارث کا شمار اسلام کی طرف سبقت کرنے والے ان جلیل القدر اصحا ب رسول میں ہوا جنھیں قرآن مجید نے السابقون الاولون (التوبہ ۹: ۱۰۰) کا نام دیا ہے۔ آزاد مردوں میں سب سے پہلے اسلام لانے والے حضرت ابوبکر تھے،انھی کی دعوت پر حضرت عثمان نعمت ایمان سے سرفراز ہوئے۔اگلے ہی روز وہ حضرت عثمان بن مظعون، حضرت ارقم بن ابوارقم، حضرت عبیدہ بن حارث، حضرت عبدالرحمن بن عوف، حضرت ابو سلمہ بن عبدالاسد اور حضرت ابو عبیدہ بن جراح کو بھی آپ کی خدمت میں لے گئے ۔آپ نے دین حق کی بنیادی تعلیمات سے آگاہ کیا تو ان سب نے آپ کے دست مبارک پر بیعت ایمان کر لی۔ تب تک نبی صلی اﷲ علیہ وسلم دعوت کی غرض سے دار ارقم میں منتقل نہ ہوئے تھے۔بعض روایات میں مخلصین کی اس فہرست میں حضرت عبیدہ کا نام شامل ہونے سے رہ گیا ہے۔السابقون کی گنتی میں حضرت عبیدہ کا نمبر سولہواں ہے ۔
حضرت عبیدہ بن حارث اپنے بھائیوں طفیل بن حارث،حصین بن حارث اوررشتے میں اپنے بھتیجے مسطح بن اثاثہ کے ساتھ مل کرمدینہ ہجرت کے لیے نکلے۔مسطح پیچھے رہ گئے، کیونکہ ان کوسانپ نے ڈس لیا تھا۔ حضرت عبیدہ اور ان کے بھائیوں نے پلٹ کر ان کو ساتھ لیا اور قبا پہنچے ۔وہاں یہ چاروں حضرت عبداﷲ بن سلمہ عجلانی کے مہمان ہوئے۔ سویبط بن سعد،طلیب بن عمیراور عتبہ بن غزوان کے آزاد کردہ خباب بھی ان کے ساتھ قیام پذیرہوئے۔
ہجرت کے بعد نبی صلی اﷲ علیہ وسلم نے اس غرض سے کہ مہاجرین مدینہ کی معاشرت میں گھل مل جائیں، انصار سے ان کی مواخات قائم فرمائی۔ مشہور روایت کے مطابق پینتالیس مہاجرین کا پینتالیس انصار سے بھائی چارہ قائم ہوا۔ شاذ روایت میں طرفین میں سے ہر ایک کا عدد پچاس بیان کیا گیا ہے۔مواخات میں شامل افراد کو ایک دوسرے کی وراثت کا حق حاصل تھا۔جنگ بدر کے بعد ’وَاُولُوا الْاَرْحَامِ بَعْضُہُمْ اَوْلٰی بِبَعْضٍ فِیْ کِتٰبِ اللّٰہِ‘، ’’اور رشتۂ رحم رکھنے والے اﷲ کے قانون میں ایک دوسرے کے زیادہ حق دار ہیں ‘‘(الانفال۸: ۷۵)کا حکم نازل ہوا تو یہ حق منسوخ ہو گیا۔ حضرت عمیر بن حمام انصاری حضرت عبیدہ بن حارث کے درمیان انصاری بھائی قرار پائے۔ ابن سعد نے حضرت بلال سے بھی ان کا مواخات کا ذکر کیا ہے ۔شاید یہ مکہ کا واقعہ ہو۔
مدینہ تشریف آوری کے بعد آں حضور صلی اﷲ علیہ وسلم نے مہاجرین میں زمین تقسیم کی تو حضرت عبیدہ اور ان کے بھائیوں—- طفیل اور حصین—- کو وہ قطعہ عطا کیا جو بقیع زبیر اور بنومازن کے علاقے کے درمیان واقع تھا۔بعد میں اسے مسجد نبوی میں شامل کر لیا گیا او ر اسی مقام پر آپ کا منبر رکھا گیا۔
سرےۂ عبیدہ بن حارث:شوال ۱ھ(ربیع الاول: ابن عبدا لبر،ان کے سوا سب نے ماہ شوال بتایا ہے)میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عبیدہ بن حارث کی قیادت میں ساٹھ (یا اسی) مہاجرین کا ایک دستہ ترتیب دیا۔ حضرت عبیدہ کو عہد اسلامی کا پہلا پرچم عنایت کر کے آپ نے بطن رابغ کی طرف جانے کا حکم دیا۔ سفید علم کو مسطح نے اٹھا رکھا تھا۔مکہ کی طرف جانے والے راستے پر واقع جحفہ سے دس میل آگے ثنےۃ المرۃکے زیریں علاقے میں احیا(احبا:بیہقی) نامی جھیل پر اس دستے کی مشرکوں کے دو سو پر مشتمل ایک بڑے جتھے سے مڈ بھیڑ ہوئی جس کی سربراہی ابو سفیان بن حرب (ابن سعد) یا عکرمہ بن ابو جہل (ابن اسحاق) یا مکرز بن حفص کے پاس تھی۔ اسلام کی آمد کے بعد یہ پہلا سریہ تھاجس میں جنگ ہوئی نہ تلوار سونتی گئی ۔محض آمنا سامنا ہوا اورسعد بن مالک (ابی وقاص)نے تاریخ اسلامی کا پہلا تیر پھینکا۔ اسی سریہ میں حضرت مقداد بن عمرو(اسود)اور حضرت عتبہ بن غزوان جوحیلہ کر کے کفار کے ساتھ آئے تھے ، اپنے مسلمان بھائیوں سے آن ملے۔
ابن اسحاق کی بیان کردہ اس تفصیل کے برعکس جسے ابن کثیر نے ترجیح دی، واقدی اور ابن سعد کا کہنا ہے کہ آں حضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے مدینہ آمد کے بعد تاریخ اسلامی کا پہلا علم سیدنا حمزہ کوعطا کیا تھا۔ ابن ہشام کہتے ہیں کہ حضرت حمزہ اور حضرت عبیدہ کے سریے ایک ساتھ روانہ کیے گئے تھے، اس لیے اس باب میں اہل تاریخ میں اختلاف رونما ہو گیا۔ ابن حجر نے دونوں روایتوں میں یوں تطبیق کی: پرچم کے لیے عربی میں دو لفظ ’رأیۃ‘ اور ’لواء‘ آتے ہیں۔ حضرت عبیدہ کے لیے ’رأیۃ‘ اور حضرت حمزہ کے لیے ’لواء‘ کا لفظ استعمال ہوا ہے۔ ممکن ہے ، دونوں کی اولیت اس خاص نام کے حوالے سے درست ہو۔
جمادی الثانی ۲ھ میں رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے قریش کی تجارتی سرگرمیوں کی خبر لینے کے لیے نومہاجرین کا ایک سریہ روانہ فرمایا۔ابن ابی حاتم کی روایت ہے کہ پہلے آپ نے حضرت ابوعبیدہ بن جراح یا حضرت عبیدہ بن حارث کا تقرر کیا تھا۔روانگی کے وقت وہ فرط جذبات سے رونے لگے تو آپ نے اس سریہ کی سربراہی حضرت عبداﷲبن جحش کو سونپ دی۔ چنانچہ یہ انھی کے نام سے موسوم ہوا۔
غزوۂ بدر (۱۷ رمضان ۲ھ ،۱۳ مارچ۶۲۴ء)کے دن، جسے اﷲ تعالیٰ نے یوم فرقان (الانفال ۸: ۴۱) قرار دیا ہے، ۳۱۳ اہل ایمان بدر کے میدان میں پہنچے۔ حضرت عبیدہ بن حارث عمرمیں ان سب سے بڑے تھے ، پھر بھی سیدالشہدا حضرت حمزہ اور حضرت علی کے ساتھ مل کر قریش سے مبارزت کی ۔جنگ شروع ہونے سے پہلے مشرک لیڈروں—- حکیم بن حزام او رعتبہ بن ربیعہ—- نے سرےۂ عبداﷲ بن جحش میں مارے جانے والے عمروبن حضرمی کی دیت لے کرمکہ واپس لوٹنے کا مشورہ دیا۔ابو جہل نے انھیں خوب طعن وتشنیع کی اور عمرو کے بھائی عامر بن حضرمی سے کہا کہ اپنے بھائی کا بین کر کے لوگوں کو جنگ پر آمادہ کرو۔عتبہ ابن حضرمی کا حلیف تھا ،اس لیے اب جنگ کرنے پر مجبور تھا۔ابن سعد کے بیان کے مطابق اسی اثنا میں عامر نے حضرت عمر کے غلام مہجع کوتیر ماراتو انھوں نے جام شہادت نوش کیا۔ ایک انصاری حضرت حارثہ بن سراقہ بھی، جو حوض کے پاس کھڑے تھے،مشرکوں کا تیرلگنے سے شہید ہوئے۔ ابن اسحاق اور ابن اثیرکی روایت مختلف ہے، وہ کہتے ہیں کہ مبارزت سے پہلے مشرکین میں سے اسودبن عبدالاسد آگے بڑھاتو سیدنا حمزہ نے اس کی ٹانگ کاٹ ڈالی۔ وہ لڑکھڑا کر پانی کے حوض میں گرا تو انھوں نے دوسرا وارکر کے انجام تک پہنچایا۔پھر عتبہ جوش میں آیا ، سر پرچادرلپیٹی اوراپنے بھائی شیبہ بن ربیعہ اوربیٹے ولید کو لے کر روبرو مقابلے (duel) کے لیے نکل آیا۔ اس کے للکارنے پر انصار کے تین نوجوان حضرت عوف، حضرت معوّذ اور حضرت عبداﷲ بن رواحہ (طبری، ابن اثیر،ابن کثیر) یا معاذ(ابن سعد)آگے آئے۔ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے پسند نہ کیا کہ قریش کا پہلا قتال انصار سے ہو، آپ نے سبقت کرنے والے انصاریوں کو صفوں میں واپس جانے کو کہا۔ادھر عتبہ نے آواز لگائی: محمد،ہماری قوم قریش میں سے، ہمارے چچیروں، عبدالمطلب کی اولاد سے برابر کے جوڑ بھیجو۔ آپ پکارے: اے بنی ہاشم،اٹھ کر مقابلہ کرو، اٹھو، اے عبیدہ بن حارث، اٹھو، اے حمزہ،اٹھیے، علی، تینوں نکل کر آئے تو اس نے ان کے نام پوچھے، کیونکہ جنگی لباس پہننے کی وجہ سے وہ پہچانے نہ جاتے تھے۔ حضرت حمزہ نے کہا: میں شیر خدا اور شیر رسول حمزہ بن عبدالمطلب ہوں۔ حضرت علی نے کہا: میں بندۂ خدا اور برادر رسول علی بن ابو طالب ہوں۔ حضرت عبیدہ نے کہا: میں حلیف رسول عبیدہ بن حارث ہوں۔ عتبہ بولا: اب برابر کے، صاحب شرف لوگوں سے جوڑ پڑا ہے۔ اولاً، اس نے اپنے بیٹے ولید کو بھیجا، حضرت علی اس کے مقابلے پرآئے ۔دونوں نے ایک دوسرے پرتلوار سے وار کیا۔ ولید کا وار خالی گیا، جبکہ حضرت علی نے ایک ہی ضرب میں اس کا کام تمام کر دیا۔پھر عتبہ خود آگے بڑھا اور حضرت حمزہ اس کا سامنا کرنے نکلے ۔ان دونوں میں بھی دو ضربوں کا تبادلہ ہوااور عتبہ جہنم رسید ہوا۔اب شیبہ کی باری تھی، حضرت عبیدہ بن حارث سے اس کا دوبدو مقابلہ ہوا، دونوں نے ایک دوسرے پر کاری ضربیں لگائیں۔ حضرت عبیدہ کی پنڈلی پر تلوار لگی اور ان کا پاؤں کٹ گیا۔جنگی روایت کے مطابق حضرت حمزہ اور حضرت علی فاتح ہونے کی وجہ سے اپنے ساتھی کی مدد کر سکتے تھے۔دونوں پلٹ کر شیبہ پر پل پڑے ،اسے جہنم رسید کیا اور زخمی حضرت عبیدہ کو اس حال میں اٹھا کر لے آئے کہ ان کی ٹانگ کی نلی سے گودا بہ رہا تھا۔انھیں رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کے پاس لے جایا گیا۔آپ نے انھیں لٹادینے کو کہا، حضرت عبیدہ نے آپ کے پاؤں پر سر رکھ کر پوچھا: یا رسول اﷲ، کیا میں نے شہادت نہیں پائی؟ فرمایا: کیوں نہیں۔ حضرت عبیدہ نے کہا: یا رسول اﷲ، مجھے اگر ابو طالب دیکھ لیتے توجان لیتے کہ میں ان کے کہے اس شعر کا صحیح مصداق ہوں:
ونسلمہ حتی نصرع حولہ
ونذہل عن ابنائنا والحلائل
(اصل میں ’لا نسلمہ‘ ہے۔چونکہ لائے نفی حذف نہیں ہوتا اس لیے ’نسلمہ‘ کا جملہ کسی سابق منفی پر عطف ہو گا اور ’لا‘ مقدر ماننے کی ضرورت نہ رہے گی۔شعر کا مفہوم ہو گا، ہم اپنے سالار کو (یہاں مراد آں حضرت صلی اﷲ علیہ وسلم ہوں گے) دشمنوں کے نرغہ میں نہیں آنے دیتے ،یہاں تک کہ اس کے گردا گرد لڑ کر جان دے دیتے ہیں اوراس جد وجہد میں اپنے بیٹوں اور بیویوں کی حفاظت سے غافل ہو جاتے ہیں۔ ’’سیرت النبی‘‘ میں شبلی نعمانی نے فعل مثبت مان کر یوں ترجمہ کیا: ہم محمدصلی اﷲ علیہ وسلم کو اس وقت دشمنوں کے حوالہ کریں گے جب ان کے گرد لڑ کر مر جائیں اور ہم اپنے بیٹوں اور بیبیوں سے بھلا نہ دیے جائیں)۔
مورخین کی اکثریت نے جن میں ابن اسحاق ،طبری ،ابن اثیر اور ابن کثیر شامل ہیں ،بیان کیا ہے کہ حضرت حمزہ کا مقابلہ (duel)شیبہ سے ہوا اور حضرت حمزہ نے شیبہ کو جہنم رسید کیا۔اس طرح عتبہ اور حضرت عبیدہ میں دوبدو جنگ ہوئی، دونوں زخمی ہوئے۔ پھر حضرت علی اور حضرت حمزہ نے مل کر عتبہ کو انجام تک پہنچایا ۔ ابن سعد کی روایت اس کے برعکس ہے،ان کا کہنا ہے کہ روبرو مقابلے کے بعد حضرت حمزہ نے عتبہ کو قتل کیا، جبکہ شیبہ نے حضرت عبیدہ کا سامنا کیا۔یہ روایت منفرد ہونے کے باوجود اس لیے لائق ترجیح ہے کہ اسی جنگ میں ابو سفیان کی بیوی ہند بنت عتبہ نے حضرت حمزہ سے اپنے باپ کے قتل کا بدلہ لینے کی قسم کھائی، کیونکہ وہ انھی کے ہاتھوں مارا گیا تھا۔ اگلے برس جنگ احد میں جب سیدنا حمزہ حبشی غلام وحشی کا نیزہ لگنے کے بعد شہادت سے سرفراز ہوئے تواسی انتقام کی آگ میں جلتے ہوئے اس نے ان کا پیٹ چاک کر کے کلیجہ نکالا اور چبا کر اگل دیا۔سنن ابوداؤد کی روایت ۲۶۶۵ میں ایک تیسری ترتیب مذکور ہوئی ہے۔ سیدنا علی خود روایت کرتے ہیں کہ ’’حمزہ عتبہ کی طرف بڑھے اورمیں(علی)نے شیبہ کا سامنا کیا۔عبیدہ اور ولید میں دوضربوں کا تبادلہ ہوا ،دونوں نے ایک دوسرے کو شدید زخمی کر کے گرا دیا ۔پھر حمزہ نے اور میں نے ولید کو قتل کیا اور عبیدہ کو اٹھا لائے۔‘‘ مسند احمد،مسند علی بن ابی طالب (رقم ۹۴۸) میں حضرت علی کے الفاظ میں جنگ بدر کی تفصیل بیان ہوئی ہے، تاہم مبارزت کے ضمن میں اختصار سے کام لیاگیا ہے۔
زخمی ہونے کے بعد حضرت عبیدہ نے خود بھی شعر کہے۔ان میں سے چند پیش خدمت ہیں:
ستبلغ عنا أہل مکۃ وقعۃ
یہب لہا من کان عن ذاک نائیا
’’جلد ہی مکہ والوں کو ہماری طرف سے ایک زبردست معرکے کی خبر ملے گی جسے سننے کے لیے واقعہ سے دور بیٹھا ہوا شخص بھی بیدار ہو جائے گا ۔‘‘
بعتبۃ إذ ولی وشیبۃ بعدہ
و ما کان فیہا بکر عتبۃ راضیا
’’عتبہ کے انجام کے بارے میں جب اس نے شکست کھائی ، اس کے بعد شیبہ کے ساتھ بھی یہی ہوااوراس معرکہ میں عتبہ کے پہلوٹھی ولید کے ساتھ وہ ہواجو وہ نہ چاہتا تھا۔‘‘
لقیناہم کالأسد نخطربالقنا
نقاتل فی الرحمٰن من کان عاصیا
’’ہم نے ان کا شیروں کی طرح سامنا کیا خداے رحمن کی راہ میں ان لوگوں سے لڑتے ہوئے جو اس کے نافرمان تھے۔‘‘
فإن تقطعوا رجلی فإنی مسلم
أرجی بہاعیشًا من اﷲ دانیا
’’اگر تم مشرکوں نے میرا پاؤں کاٹ ڈالا ہے تو کیا؟میں نے اسلام قبول کرکے اس زندگی کی ا مید میں سر تسلیم خم کر دیا ہے جو اﷲ کی طرف سے جلد ملنے والی ہے۔‘‘
مع الحور أمثال التماثیل أخلصت
مع الجنۃ العلیا لمن کان عالیا
’’مجسموں کی مانند ا ن حوروں کی معیت میں جواعلیٰ جنت میں خاص اس شخص کو ملیں گی جو مقام بلند پر فائز ہوگا ۔‘‘
حضرت علی فرماتے ہیں: ’’میں پہلا شخص ہوں گا جو روز قیامت فیصلے کے لیے روز خداے رحمن کے روبرو دوزانو ہو گا۔‘‘ حدیث کے راوی قیس بن عباد کہتے ہیں کہ قرآن مجید کی آیت ’ہٰذٰنِ خَصْمٰنِ اخْتَصَمُوْا فِیْ رَبِّہِمْ‘، ’’یہ (مومن و موحد) دو فریق ہیں جنھوں نے اپنے رب کے بارے میں اختلاف کیا۔‘‘ (الحج ۲۲: ۱۹) ان لوگوں کے بارے میں نازل ہوئی تھی جنھوں نے جنگ بدرمیں مبارزت کی، یعنی حضرت حمزہ، حضرت علی، حضرت عبیدہ بن حارث، اور شیبہ بن ربیعہ، عتبہ بن ربیعہ، ولید بن عتبہ (بخاری، رقم ۳۹۶۵۔ مسلم، رقم ۷۶۶۵)۔ ابن حجر کہتے ہیں کہ حضرت علی کے اس قول کے معنی یہ ہیں کہ وہ امت مسلمہ کے مجاہدین میں اولیت رکھتے ہیں، کیونکہ جنگ بدر کے آغاز میں ہونے والی مبارزت تاریخ اسلامی کی پہلی مبارزت تھی جس میں حضرت علی، حضرت حمزہ اور حضرت عبیدہ نے حصہ لیا اور حضرت عبیدہ مقام شہادت پر فائز ہوئے۔اس لحاظ سے حضرت علی کا قول اس آیت کے ایک خاص معنی پر مشتمل ہوا۔علی الاطلاق صحیح مفہوم وہی ہے جو اہل تفسیر نے بیا ن کیا ۔مجاہد اور عکرمہ کہتے ہیں کہ کفار و مشرکین نے مسلمانوں سے بعث بعد الموت اور جنت ودوزخ پر جھگڑا کیا۔ قتادہ کہتے ہیں کہ اہل کتاب کا اہل ایمان سے نزاع ہوا۔اہل کتاب نے کہا کہ ہمارے نبی تمھارے نبی سے پہلے آئے اور ہماری کتاب تمھاری کتاب سے پہلے نازل ہوئی، اس لیے ہم حق پر ہوئے۔اہل ایمان کا جواب تھا کہ ہماری کتاب نے تمام کتابوں کی شرعی حیثیت ختم کر دی ہے اور ہمارے نبی نے سلسلۂ نبوت کا خاتمہ کر دیا ہے۔اس طرح ہمارا حق پر ہونا ثابت ہو گیا۔
حضرت عبیدہ کے دونوں بھائی—- طفیل بن حارث اور حصین بن حارث—- بھی جنگ بدر میں شریک تھے۔
حضرت عبیدہ بن حارث رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کے ساتھ بدر سے لوٹ آئے، لیکن مدینہ نہ پہنچ پائے۔جنگ بدر کے دو دن بعدزخموں کی تاب نہ لاکرمدینہ کے قریب وادی صفراء میں شہادت پائی اوراسی وادی میں ذات اجذال کے مقام پر سپردخاک ہوئے ۔ان کی بھتیجی ہند بنت اثاثہ کے مرثیہ کے الفاظ میں، شرف و سرداری اور عقل و دانش کو صفرا ء میں دفن کر دیا گیا۔ حضرت عبیدہ کی عمر ۶۳ سال ہوئی۔عبیدہ میانہ قد، گندم گوں اور خوب رو تھے۔
آں حضور صلی اﷲعلیہ وسلم حضرت عبیدہ بن حارث کا بہت احترام کرتے تھے۔آپ کے ہاں انھیں ایک مرتبہ حاصل تھا۔ایک مرتبہ آپ اپنے صحابۂ کرام کے ساتھ تاربین کے مقام پر رکے تو صحابۂ کرام نے کہا کہ ہمیں مشک کی خو شبو آ رہی ہے۔ آپ نے فرمایا: ایسا ہو سکتا ہے، کیونکہ یہاں ابومعاویہ (عبیدہ بن حارث) کی قبر ہے۔ابن عبدالبر نے ’’الاستیعاب‘‘ میں تاربین ہی لکھا ہے ،شاید اس سے تربان مراد ہے جو مدینہ سے ایک دن کی مسافت پر واقع ملل کے مقام پر ایک قصبہ ہے جہاں جنگ بدر کے بعد نبی صلی اﷲ علیہ وسلم نے قیام کیا تھا۔
ام المومنین زینب بنت خزیمہ جو اپنی غربا پروری کی وجہ سے ام المساکین کہلاتی ہیں،پہلے اپنے چچا زادجہم بن عمرو کے نکاح میں تھیں، پھر حضرت عبیدہ بن حارث کے بھائی طفیل بن حارث سے ان کی شادی ہوئی۔ طفیل نے طلاق دے دی تو حضرت عبیدہ سے ان کا عقد ہوا۔ حضرت عبیدہ کی شہادت کے بعدرمضان ۳ ھ میں انھیں نبی صلی اﷲ علیہ وسلم کی زوجیت میں آنے کا شرف حاصل ہوا۔آپ کے پاس آٹھ ماہ کا مختصر عرصہ گزارنے کے بعد حضرت زینب نے وفات پائی، جبکہ ان کی عمرتیس برس تھی۔ ابن اثیر کا بیان ہے کہ حضرت زینب بنت خزیمہ حضرت عبیدہ بن حارث کے بجاے حضرت عبداﷲ بن جحش کے عقد میں تھیں۔
معاویہ،عون، منقذ،حارث،محمد اور ابراہیم عبیدہ کے بیٹے تھے، جبکہ ریطہ،خدیجہ،سخیلہ اور صفیہ ان کی بیٹیاں تھیں۔ ابن سعد کے مطابق ان دس بچوں کی ولادت مختلف باندیوں (امہات اولاد) کے بطن سے ہوئی۔ان کی اہلیہ حضرت زینب بنت خزیمہ کے ہاں کوئی اولاد نہ ہوئی۔
مطالعۂ مزید: السیرۃ النبویۃ(ابن ہشام)، الطبقات الکبریٰ (ابن سعد)،الجامع المسند الصحیح(بخاری)، تاریخ الامم والملوک (طبری)، دلائل النبوۃ (بیہقی)،الاستیعاب فی معرفۃ الاصحاب (ابن عبدالبر)،المنتظم فی تواریخ الملوک و الامم(ابن جوزی)، اسد الغابۃ فی معرفۃ الصحابۃ (ابن اثیر)،الکامل فی التاریخ(ابن اثیر)، البداےۃ و النہاےۃ (ابن کثیر)، تفسیرالقرآن العظیم(ابن کثیر)،تاریخ الاسلام (ذہبی)، الاصابۃ فی تمییز الصحابۃ (ابن حجر) ،فتح الباری (ابن حجر)، الامین صلی اﷲ علیہ وسلم(رفیق ڈوگر)،Wikipedia۔
____________